یاد رہے کہ ابتداٗ میں سردار ابراہیم خان ہی آزاد کشمیر مسلم کانفرنس اور آزاد کشمیر کے پہلے عبوری صدر تھے جن کی تعیناتی وزیر اعظم پاکستان نے محکمہ خارجہ وداخلہ کی منظوری سے کی تھی۔ اُس دور میں سر ظفر اللہ خان پاکستان کے وزیر ِ خارجہ اور نواب مشتاق احمد گورمانی وزیر داخلہ تھے۔ سر ظفر اللہ کے عقیدے کے مطابق کشمیر پر عیسائیوں اور قادیانیوں کا مذہبی اور روحانی حق تھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصنیف تاریخ ‘‘اعظمی’’ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اللہ نے جس جنت کا آخرت میں مومنین سے وعدہ کیا ہے وہ اصل میں جنت ارضی کشمیر ہی ہے ۔ قرآن کریم کی سورۃ مومنون کی آیت پچاس میں فرمانِ ربی ہے کہ ‘‘اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اُس کی ماں کو ایک نشانی اور اُن کو ٹھہرایا ایک ٹیلے پر جہاں ٹھہرنے کا موقع تھا اور پانی ستھرا’’ ٹیلے یعنی اونچی جگہ کیلئے عربی کا لفظ ‘‘ربوہ’’ لکھا ہے جس کے معنی و مطالب کو اُلٹ پھیر کر مرزا غلام احمد نے ایک اونچا مقام لیا ہے جو کشمیر ہے جہاں صاف پانی کے چشمے، باغات اور قدرت کے دلفریب اور حسین نظارے ہیں ۔ اِسی لفظ ربوہ یا ربواۃ جیسا کہ قرآن میں بیان ہُوا کی غلط اور من گھڑت تشریح نے کئی مسائل پیدا کیے جنکا ذکر تفسیر کے مطابق منشی حبیب اللہ امرتسری نے اپنے تحقیقی رسالے میں کیا ہے۔
سعودی حکومت نے اردو ترجمے اور تفسیر سے مزین جو قرآنی نسخہ شائع کیا ہے اُسکا ترجمہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن اور تفسیر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کی تحقیق پر مبنی ہے۔ ربوہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے محدثین اور مفسرین نے لکھا ہے کہ سرینگر کے محلہ خانیار میں ایک قدیم قبر ہے جسے یوز آصف کا مزار کہا جاتا ہے ۔ یہ مزار کس کا ہے اور یوز آصف کون تھے کسی کو پتہ نہیں ۔ پہلی اقساط میں عرض کر چُکا ہوں کہ کشمیر کے پہاڑوں ، وادیوں اور جنگلوں میں ایسے ہزاروں مزار ، مقابر اور چھوٹے بڑے قبرستان ہیں جن کی کوئی تاریخ نہیں ۔ بعض مقامات پر کھنڈرات بھی ہیں مگر ماضی کے ان مکینوں کی کوئی قبر یا مُردوں کی رسومات ادا کرنے یعنی جلانے یا دفنانے کے آثار بھی نہیں ۔ یہ لوگ کون تھے کہاں سے آئے اور اپنی آباد زندگیوں کے آثار چھوڑ کر کہاں چلے گے کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ اِن لوگوں کے متعلق جو قصے ، کہانیاں اور مقامی روایات چلی آرہی ہیں اسکی تفصیل بھی گزشتہ اقساط میں درج کی جا چُکی ہیں ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یوز آصف کوئی ولّی اللہ، مبلغ یا مجاہد تھے جنھیں بعد از شہادت یہاں دفن کیاگیا۔ بعض کے نزدیک وہ کوئی صحابیؓ یا پھر ایرانی شہزادے تھے جو بوجہ اپنے ملک سے ہجرت کرکے کشمیر آئے اور پھر یہاں کے ہی ہو رہے۔
قادیانیوں نے ایک سازش کے تحت یوز آصف کو شیعہ مسلک کا کوئے ولی ٹھہرا دیا جسپر سرینگر کے اہل تشیع مسلک کے افراد نے دربار کے صدیوں سے چلے آئے سنی عقیدے کے مجاوروں کو ہٹا کر خود قبضہ کر لیا ۔ اِس سے پہلے کے سرینگر اور سارے کشمیر میں شیعہ سنی فسادات پھُوٹ پڑتے ہر دو جانب کے علماٗ نے اس مسلئے کو حل کر دیا اور دربار دوبارہ سنی عقیدے کے مجاوروں کے حوالے کر دیا گیا۔
دیکھا گیا کہ شاہ میری خاندان کے دو سو سالہ دور حکومت میں کوئی ایسا شخص ایران سے کشمیر نہ آیا جسکا مسلک شیعہ تھا یا وہ کوئی ولی یا شہزادہ تھا۔ اس کے علاوہ میر سید علی ہمدانی اور اُن کیساتھ آئے ہنر مندوں ، علماٗ اور مبلغین کے ساتھ بھی کوئی ایسا شخص کشمیر نہ آیا جبکہ یوز آصف کی قبر مسلم دور سے پہلے کی ہے۔
1554سے 1586تک کشمیر پر چک خاندان کی حکومت رہی ہے جو مسلک کے لحاظ سے شیعہ تھے چک حکمرانوں نے کشمیر پر جبراً شیعہ مسلک نافذ کرنے کی کوشش کی تو ساری ریاست میں شیعہ سنی فسادات نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ اِن ہی فسادات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر فتح کر لیا جس کے بعد کشمیریوں کو کبھی آزادی کا سانس لینا نصیب نہ ہُوا۔
سوال یہ کیا گیا کہ اگر یوز آصف کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا تو چک حکمران اسپر کیوں خاموش رہے۔ تاریخ کے تناظر میں ٖفیصلہ ہُوا اور کشمیری قادیانی سازش کے نتیجے میں قتل و غارت گری سے بچ گئے۔
شیعہ سنی فسادات کشمیری علماٗ اور تاریخ دانوں کی بصیرت کے سبب ٹل گئے تو قادیانیوں نے ‘‘ربوہ’’ کو کشمیر سے منسلک کر دیا تا کہ برطانوی حکومت کو کشمیر میں مداخلت کی دعوت دی جائے۔ قادیانیوں کا دعویٰ ہے کہ قلعہ ہری پربت میں موجود دو قبروں میں ایک حضرت عیسی ؑ اور دوسری امام مہدی ؓ کی ہے اور آنے والا دور مسیحی معود یعنی قادیانیت کا ہے۔ اسی دوران برطانوی حکومت نے کشمیر میں مبلغین کی ایک جماعت بھجوائی مگر زیادہ کامیابی نہ ہوئی جبکہ قادیانیوں نے اپنے پاوٗں کشمیر میں جما لیے۔ کشمیر کے بہت سے سادات گھرانوں کے علاوہ وادی کرناہ کے راجگان نے قادیانی مذھب قبول کر لیاجسکا اثرہزارہ (مانسہرہ)، مظفر آباد ، کوٹلی اور میر پور تک ہُوا۔
قادیانیوں نے تحریک آزادی کشمیر کو بھی نقصان پہنچایا اور پہاڑی ریاست مظفر آباد جو چارسو سال سے قائم تھی کا مکمل خاتمہ کر دیا ۔ وادی کرناہ کا آخری بمبہ حکمران راجہ شیر خان اور اُسکا خاندان قادیانی مذھب اختیار کرنے کے بعد نیشنل کانفرنس میں شامل ہُوا اور تحریکِ آزادی کشمیر میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے دیگر جاگیر داروں کی طرح راجہ شیر خان آف کرناہ نے بھی نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کی حمائت کرتے ہُوئے اپنی جاگیر کا بھارت سے الحاق کیا۔ البتہ مینڈھر کے جاگیر دار فتح محمد کریلوی جنکا تعلق تھکیال خاندان سے تھا نے مجاہدین کا ساتھ دیا اور اپنی حیثیت کے مطابق اٹھارہ مجاہدین کا ایک دستہ قائم کیا جسے حیدری بٹالین کا نام دیا گیا۔ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ھلالِ کشمیر) نشانِ حیدر کا تعلق بھی اسی حیدری بٹالین سے تھا ۔ قادیانیوں کی کشمیر میں دلچسپی کے متعدد واقعات تاریخ میں درج ہیں جس سے ثابت ہے کہ قادیانی کشمیر کو ایک قادیانی ریاست دیکھنے کے نہ صرف خواہاں ہیں بلکہ یہ اُن کے عقیدے میں شامل ہے۔ قادیان گورداسپورمیں واقع ہے جبکہ جموں کے بیشتر علاقوں میں جو گورداسپور سے منسلک ہیں میں قادیانی اکثریت آباد ہے ۔
گورداسپور کو بھارتی پنجاب میں شامل کروانے میں قادیانیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور باونڈری کمیشن کو درخواست دی کہ چونکہ ان کا فرقہ مسلمانوں سے الگ ہے لہذا ان کے اکثریتی علاقوں کو بھارتی پنجاب کا حصہ بنایا جائے۔ چونکہ پاکستان کی طرف سے اسپر کوئی اعتراض نہ ہُوا تو یوں بھارت کو ایک سازش کے ذریعے کشمیر میں داخلے کا راستہ میسر آ گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے باونڈری کمیشن کے ممبر کرنل محمد ایوب خان (فیلڈ مارشل) تھے جو کبھی باونڈری کی طرف گئے ہی نہیں ۔ وہ لاہور جمخانہ کلب میں حسیناوٗں کی زلفوں سے کھیلنے ، تیراکی کرنے اور جام لٹانے میں مصروف رہتے۔ انکا جونئیر سٹاف دن بھر کی کاروائی انہیں پیش کرتا تو وہ اُسپر دستخط کر دیتے۔
جنرل مجید ملک (مرحوم) نے اپنی سوانح حیات ‘‘ہم بھی وہاں موجود تھے’’ میں ایوب خان کی اِس کاروائی کی تفصیل بیان کی ہے ۔ لکھتے ہیں کہ ایوب خان کا یہ گناہ غداری کے مترادف تھا جس پر اُن کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا مگر دوستوں یاروں نے اسپر آنکھیں بند رکھیں جسکی بڑی وجہ سیکرٹری دفاع لیفٹینٹ کرنل اسکندر مرزا اور ایوب خان کا یارانہ تھا۔ ایوب خان جلد ہی بریگیڈئر بن گئے اور پھر اسکندر مرزا کی مہربانیوں سے عہدے کی آخری منزل تک جا پہنچے۔ جنرل مجید ملک لکھتے ہیں کہ ایوب خان جب سی این سی کے عہدے پر تعینات ہو رہے تھے تواسکندر مرزا نے اُن کی وہ رپورٹیں ضائع کردیں جن پر لکھا تھا کہ یہ شخص کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کیلئے موزوں نہیں۔
پاکستان بننے کے بعد میرٹ کے کھلے عام قتل کی یہ پہلی بڑی واردات تھی جسکی تقلید میں آج تک قتل عام ہو رہے ہیں اور پاکستان کی عوام اِس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے ٹن سیاستدان اور حکمران ہر سال یوم شہدائے جموں تو مناتے ہیں مگر وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کی سازشوں کا ذکر نہیں کرتے۔ کیپٹن ایم اے حق مرزا، بریگیڈئر راجہ حبیب الرحمٰن اور جنرل ایم زیڈ کیانی نے چناب کو ریڈور کی بات کی تو سر ظفر اللہ نے قادیانی نوجوانوں پر مشتمل الفرقان بریگیڈ ترتیب دے دیا جو چند میل کے فاصلے پر کھڑا ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کا نظارہ کرتا رہا۔ ایک طرف پونچھ کے باہر پکنک منانے والے پانچ بریگیڈ مجاہدین کی بے بسی اور بے سروسامانی پر بے حسی کا مظاہرہ کر رہے تھے تو دوسری طرف الفرقان بریگیڈ سانحہ جموں سے لطف اندوز ہو رہا تھا جبکہ تیسری جانب جناب لیاقت علی خان نے پندرہ ہزار قبائیلیوں کو مظفر آباد سے اوڑی تک قتل و غارت گری کرنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ مرحوم سردار ابراہیم خان سے جب بھی کسی نے قبائلیوں کو کشمیر میں داخلے ، الفرقان بریگیڈ اور پونچھ بریگیڈوں کے متعلق پوچھا تو جواب ملا کہ ہماری کون سنتا تھا۔ کشمیر وار کونسل محض دکھلاوا اور آزاد فورسز ہیڈ کوارٹر پاکستانی اور کشمیری عوام کیلئے بہلاوا تھا۔ جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے گورنر جنرل قائداعظم ؒ کو ہی کشمیر کے مسئلے پر اندھیرے میں رکھا ہُوا تھا تو ہماری کیا حیثیت تھی۔
قراۃ العین حیدر اپنی تصنیف ‘‘کارِجہاں دراز ہے’’ میں لکھتی ہیں کہ میرے خاندان کے علامہ اقبال ؒ اور سر چودھری ظفر اللہ خان کے خاندان سے قریبی دوستانہ تعلقات تھے۔ ظفراللہ خاندان قادیانی مذھب کا پیروکار تھا جبکہ علامہ اقبال ؒ کے خاندان کے بہت سے لوگ بھی قادیانی تھے۔
جسٹس جاوید اقبال (مرحوم ) نے بھی اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ اُن کے خاندان کے لوگ قادیانی مذھب کے پیروکار تھے اور کچھ نجومی بھی تھے جو رمل سے فال نکالتے تھے ۔ قادیانیوں نے سب سے پہلے کشمیر کمیٹی قائم کی اور علامہ اقبال ؒ کو اس کمیٹی کا صدر نامزد کیا ۔ اقبال ؒ نے جب اس کمیٹی کے اغراض و مقاصد کا جائیزہ لیا تو فوراً علیحدگی اختیار کر لی۔ قادیانیوں نے انگریزوں کے علاوہ بہائی مذھب کے لوگوں کو بھی اپنے مشن میں شامل کرنے کی کوشش کی مگر بظاہر کوئی کامیابی یا بہائیوں کی طرف سے کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بہائی مذھب کے لوگ پُرامن ، تعلیم یافتہ اور زیادہ تر قالین فروشی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
ایرانی بادشاہ محمد علی قاچار (1820) کے دور حکومت میں ایران میں بہائیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو اھل مغرب نے بہائیوں کی حمایت شروع کر دی ۔ بہائی مذھب کے بانی بہا اللہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ایرانی حکومت نے بہت سے بہائیوں کو سزائے موت سنا دی جن میں مشہور ایرانی شاعرہ زرتاج جسے قراۃ العین طاہرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے بھی شامل تھی ۔ زرتاج کی شاعری اور نسوانی حسن بے مثال تھا ۔ ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ طاہرہ اللہ کے راستے ہٹی اور بہااللہ کے نام کا کلمہ پڑھ کر دیوار مرگ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ بادشاہ نے طاہرہ کا حسن دیکھا تو ششدر رہ گیا ۔ کہا۔۔‘‘بہ گزارید کے رخ زیبا دارد ’’ جانے دو ، معاف کر دو ، دیکھو کتنی حسین ہے ۔ مگر عدالت نہ مانی ۔
اس کی مشہور نظم :
درد دل طاہرہ گشت و ندید جز تورا
صفحہ بہ صفحہ ، لابہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو
کا تقریباً ہر زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے ۔ بہا اللہ اُسکا روشن چہرہ ہے ۔ وہ نبی ہے اور شریعت منسوخ ہو چُکی ہے ۔ اب نماز فرض نہیں رہی صرف نماز جنازہ ہی جائز ہے ۔
باوجود اِس کے علامہ اقبال ؒ لکھتے ہیں:
پیش خود دیدم سہ روح پاکباز
آتش اندر سینہ شان گیتی گداز
غالب و حلاج و خاتون عجم
شورہا افگندہ درجان حرم
بہائی فرقے کے دانشوروں نے اقبالؒ پر بھی بہت کچھ لکھا جن میں مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے مشہور محقق جناب صابر آفاقی بھی شامل ہیں ۔ احمدیوں نے بہائی مذھب کو اپنے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش شاید اس لیے کی ہو چونکہ ایران میں لگی پابندیوں کے بعد بہائیوں کا مذہبی مرکز اسرائیل کے شہر حیفہ منتقل ہو چُکا ہے ۔ بہائیوں سے کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے اسرائیل کو کشمیر میں داخلے کا پرمٹ مل چکا ہے جس سے بھارت کو تحریکِ آزادی کچلنے کی سہولت اور جدید ٹیکنالوجی میسر ہے۔
مرزا غلام احمد نے‘‘ ربوہ ’’پر جو بھی لکھا اُس کی بنیاد اِس بات پر رکھی کہ قرآن کریم میں ربوہ اُس بُلند مقام کو کہا گیا ہے جہاں حضرت عیسی ؑ کی پیدائش ہوئی اور پھر اعلانِ نبوت کے بعد یہودی بادشاہ نے جناب عیسٰی ؑ کے قتل کا ارادہ کیا تو حضرت مریم جنھیں قرآن پاک میں عابدہ کے نام سے پکارا گیا ہے بچے کو لیکر مصر چلی گئیں ۔ مصر میں بھی آپ کا قیام بلند ٹیلے پر تھا جہاں کھجوریں اور صاف پانی کا چشمہ تھا ۔
مرزا غلام احمد نے انگریز حکومت کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور اپنے مقصد میں حکومت وقت کی مدد لینے کا وسیلہ تلاش کیا۔ اگر اِس دور میں حضرت ادریس ؑ کی اُمت حکمران ہوتی تو وہ مقام کو مکان میں بدل دیتے۔ قرآن کریم میں سورۃ مریم کی آیات 56اور 57میں بیان ہُوا کہ ادریس ؑ میرا نبی تھا جسے میں نے بلند مکان پر اٹھا لیا یا منتقل کر دیا۔ تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرتِ ادریس ؑ کو بھی مثل عیسی ؑ کے ایک بلند مکان یا مقام پر اُٹھا لیا گیا۔ اُنھیں کس حالت اور کن وجوہات کی بنا پر اُٹھایا گیا اس پر زیادہ بحث نہیں ہوئی ۔
اسرائیل کی کشمیر میں دلچسپی کا واقع بیان کرتے ہُوئے حامد میر نے ایک بیان میں کہا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کے ہمراہ ترکی کے دورے پر تھے کہ ہوٹل کی لابی میں اچانک اُن کا اور اسرائیل کے وزیر خارجہ کا آمنا سامنا ہو گیا۔ وزیر خارجہ نے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا اور کہا ‘‘ اوہ ۔۔حامد میر ۔۔ جرنلسٹ ۔ کشمیری’’ حامد میر کا کہنا ہے کہ یہ اچانک ملاقات تھی مگر حیرانگی اس بات کی ہوئی کہ اسرائیل کا وزیر خارجہ میرا نام ، پیشہ اور قومیت تک جانتا تھا۔
حامد میر کی حیرانگی سے ہمیں کوئی حیرانگی نہیں ہوئی ۔ جب آپ کا بیانیہ کابل، دلی ، لندن اور واشنگٹن میں مہنگے داموں بکتا ہو۔ آپ امن کی آشا کے پرچارک ہوں، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور اردشیر کاوٗس جی کو لگاتار اپنے پروگراموں میں دعوت دیکر قائداعظم کی توہین کریں ، دو قومی نظریے پر سوالیہ نشان لگائیں ، ماما قدیر کو اسلام آباد لا کر دھرنے کا انتظام کریں ، خواجہ آصف سے ملکر ملک کی محافظ فوج کو پنجابی فوج اور بلوچوں کی قاتل جیسے الزامات لگائیں ، بنگلہ دیش جا کر پاکستان کے حامی بنگالیوں کو سولی پر لٹکا نے کا مشورہ دیں اور حسینہ واجد سے تمغہ وصول کریں تو اسرائیل کا وزیر خارجہ تو کیا، امریکہ کا صدر بھی آپ کے گلے میں موتیوں کا ہار ڈالنے سے انکار نہیں کریگا۔
ایک وقت میں حامد میر نے بھی روزنامہ اوصاف میں ‘‘کشمیر کا قادیانی پلان’’ کے عنوان سے دو مضامین لکھے مگر بات ادھوری چھوڑ دی۔ آج ساری دُنیا کی نظریں کشمیر پر ہیں چونکہ دورِ قدیم سے یہ خطہ ارضی ‘‘گریٹ گیم ’’ کا میدان چلا آ رہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے بلیک لیبل فیم حکمرانوں کی نظریں برادری ازم ، عیش و عشرت ، بغض اور مافیائی چالوں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں ۔ موجودہ وزیر اعظم کی شخصیت اِس سلسلے کی اہم کڑی ہے ۔ پتہ نہیں موجودہ صدر کی طرح اُنہوں نے یہ دعویٰ کیوں نہیں کیا کہ میرے دور میں ہی کشمیر آزاد ہو گا۔ البتہ یوم تاسیس پر اُنہوں نے اُمید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ملکر جشنِ آزادی منائیں گے ۔ اس سلسلے میں اُن کی منصوبہ بندی کیا ہے فی الحال اسے خفیہ رکھا گیا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ وہ حامد میر کے ذریعے اِس راز کو بھی افشاں کر دیں ۔ یا پھر حالیہ ملاقات کے دوران اُنھہوں نے روسی سفیر سے کوئی مشورہ کیا ہو۔ ہمارا مشورہ ہے کہ اگلی بار روسی سفیر سے ملیں تو پیٹر ھوپ کرک کی کتاب ‘‘دی گریٹ گیم ’’ اور مہاراجہ رنبیر سنگھ کا احوال پڑھ لیں ۔ رنبیر سنگھ نے بھی اپنا ایلچی موتی لعل ماسکو بھیجا تھا۔ واپسی پر موتی لعل گلگت جیل میں اور مہاراجہ گدی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
(جاری ہے)