Tarjuman-e-Mashriq

قوموں کی بربادی اور قیاد ت کی نا اہلی

ابن خدون نے لکھا کہ عصبیت میں قدرتی کشش ہے جو محبت، الفت اور غیر ت کی بنیادوں پر گھرانوں، قبیلوں اور ریاستی باشندوں کو باہم  اتفاق و اتحاد سے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ بچوں میں عصبیت والدین سے منتقل ہوتی ہے جو آگے چل کر  ملک اور معاشرے کے لیے رول ماڈل یا قابل رشک اور قابل  تقلید بن جاتے ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانہ حیات میں ایک عرب شاعرہ کا بڑا چرچا تھا . اس  کے اشعار سنکر پتھر دل بھی موم ہو جاتے اور بڑے بڑے جابر جنگجو ؤں کے آنسو نکل آتے۔ کسی نے حضور ﷺ سے شکایت کی کہ شاعرہ اپنے بھائیوں کی بہادری کے نوحے لکھتی ہے  جو بحالت کفر  مختلف جنگوں میں مارے گئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ خدا اور اُس کے رسول ﷺ کی توہین نہیں کرتی تو اسے مت روکو۔ حضرت حمزہ ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت امام حسین ؓ اور شہدائے کربلا اور دیگر معرکوں میں بہادر ی کے جوہردکھانے والے  ہیر و آج بھی ساری اُمت مسلمہ کے لیے رول ماڈل  ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ عصبیت میں قوت پیدا کرانیوالے عناصر اخلاقیات، آداب اور جنگ اور مدافعت کی دائمی حاجت ہے۔ اگر فرد، معاشرے اور ریاست میں یہ تینوں مفقود  ہوں تو معاشرہ مردے کا پنجر بن کر بکھر جاتا ہے۔ قومی قبائلی اور خاندانی غیر ت اور روایات  ختم ہو جائیں تو انسانوں اور حیوانوں میں فرق مٹ جاتا ہے۔ کالکار نچن قانون  گو شیر شاہ سوری کی سوانح حیات میں ہندوستانی قبائل کی عادات، خصلیات، فرسودہ روایات اور توہمات کے بیان میں لکھتا ہے کہ یہاں کچھ ایسے قبیلے بھی آباد تھے جو بے دین اور ہر لحاظ سے بد اطور تھے یہ لوگ عورتیں اغوا کر تے  یا پھر اپنے ہی قبیلے کی عورت خرید کر کسی رسم و رواج کے بغیر اپنی زوجیت میں رکھتے۔ بیٹیاں جوان ہو جاتیں  تو انہیں گھر کی دہلیز پر برائے فروخت بیٹھا دیتے اور بیٹوں کو چوری، ڈاکے اور دیگر برائیوں کی  تربیت دیتے۔ تاریخ  پر نظر دہرائی جائے تو زمانہ قبل از اسلام میں عربوں اور کلاسیکل دور میں یونانیوں اور  پھر رومیوں کی حالت اس سے بھی بد تر تھی۔

وہ لکھتا ہے کہ مسلسل غلامی، جاہلیت، آداب، واخلاق کی کمی، غربت و افلاس اور  اچھی  روایات کے فقدان کی وجہ سے انسانوں  میں غیرت و حمیت  کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مذہب ملک  اور معاشرے کو  سنورنے  اور نکھرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ یونانیوں میں حکما تو موجو د تھے مگر بے دین   معاشرہ مکمل حیوانی اور اخلاقیات سے کوسوں دور تھا۔ مرزا حیدر دوغلات نے تاریخ رشیدی میں لکھا کہ جب تک  غیر ت تیموری (تیمورتغلق ) زندہ رہے گی کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ علامہ اقبال ؒ نے غیر ت مسلم کی بات کی ہے۔ اتاترک نے اپنی قوم میں ترک نیشلزم کا جذبہ بیدار کیا۔ قائداعظم ؒ نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا۔ اہل پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ فضل الرحمن، زرداری اور شریف خاندان ملکر اس ملک اور قوم کو جس دلدل میں دھکیل رہے ہیں اُس  سے  واپسی کا کوئی راستہ بھی ہے یا نہیں۔ خاندانی جمہوریت نے صرف چند ماہ میں ملک نہ صرف دیوالیہ کر دیا ہے بلکہ قومی غیرت و حمیت کا بھی سودا کر دیا ہے۔ قومی معیشت، عزت ووقار کو دلہن بنا کر بکنے کے لیے چوراہے پر بٹھا دیا ہے کہ جس کی مرضی ہے چند ٹکوں میں خرید  لے. اگر کسی میں غیر ت ہے تو پانچ ہزار گنا ہ زیادہ دیکر کر  واپس خرید لے مگر واپسی مالک کی مرضی سے مشروط ہوگی۔ عدلیہ سمیت کوئی ادارہ اس سودے پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا  ۔ ملکی  اثاثے فروخت کرنے کی پالیسی در اصل اسحاق ڈار کی گروی پالیسی کا  ہی  حصہ ہے۔ قومی اثاثے گروی رکھ کر جو پیسہ حاصل کیا گیا تھا اُس کا کوئی حساب و  کتا ب نہیں اور اب   جو سو ارب کا ایک اثاثہ پچیس ارب میں فروخت ہو گا در اصل یہ اسی یا نوے ارب میں جائیگا۔ دس یا بیس ارب خریدار کو دیے جائینگے اور باقی کمیشن کی صورت میں اتحادیوں میں تقسیم ہوگا۔ بڑا حصہ زرداری، شریف خاند ان او رکچھ حصہ فضل الرحمن کو ملے گا۔

دیکھنا یہ ہے کہ قوم کا ضمیر بیدا ہوتا ہے یا پھر وہ حسب سابق شریفوں اور زرداریوں کے عشق میں مبتلا ہو کر ذلت ورسوائی کی زندگی جینے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کے آدھے لوگ تو پہلے ہی راجہ ریاض کی قیادت میں اتحاد کی مدد کر رہے ہیں اور باقی بھی قابل اعتماد نہیں۔ حکومت گنوا کر عمران خان کو شاہد یہ خیال آیا ہو کہ محض عصبیت کی بنیاد پر حکومت نہیں کی سکتی۔ اس کے ساتھ فضلیت، سیاست، عقلیت اور مذہب کا عنصر شامل ہو تو   عصبیت قوت بن جاتی ہے۔ عمران خان نے جن افراد و حکام کا چناؤ کیا تھا وہ ریاست کا نظام چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اور بعض مفاد پرست اور دھوکہ باز تھے جو آج نام نہاد اپوزیشن بن کر  حکمران ٹولے کے سہولت کار ہیں۔

صلاح الدین ایوبی ؒ کا قول ہے کہ جب مزدور کی مزدوری سے روٹی مہنگی ہو جائے تو اس کی عورت کی عزت نیلا م ہو جاتی ہے۔ کسی شاعر نے سچ کہا تھا کہ بھوکی مالن کے پھو ل تو نہ   بکے مگر خشک روٹی کے ٹکڑے کے عوض مالن بک گئی۔ زرداری، نواز شریف، شہباز شریف اور فضل رحمان کی طرف سے عوا م جائیں بھاڑ میں. وہ  اپنے بیٹے اور بیٹیاں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے دیکھ کر مرنا چاہتے ہیں۔ صد حیف ہمارے اُن کالم  نگاروں ، صحافیوں، دانشوروں اور اہل علم پر جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے چند ٹکوں کے عوض ان خاندانوں کی قصیدہ گوئی کو جزو ایمان بنائے بیٹھے ہیں۔

ابن خلدون لکھتے ہیں کہ قبائل اُسی وقت تک قوی رہتے ہیں جب تک وہ اپنی قوت اور عصبیت کی حفاظت کرتے ہیں۔ قوت اور عصبیت کی حفاظت خون کی صفائی اور جنس کی پاکیزگی کے بغیر ممکن نہیں۔ مبصرین نے لکھا ہے کہ جب امر ا و  حکما ، فقہی و علما مال و زر  کی فراوانی کی وجہ سے عیاش ہو جائیں یا پھر ناچنے گانے والیوں کے قدموں کے اسیر ہو کر ان سے اولادیں پیدا کرنے میں کوئی قباعت محسوس نہ کریں تو معاشرہ بھگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اصول، ضابطے اور قوانین کتابوں کے صفحات تک محدود ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملکی وسائل سکڑ کر عیاش اور بے رحم حکمرانوں کی ضروریات تک محدود ہو جاتے ہیں اور  عام لوگ جرائم میں مبتلا ہو کر عصبیت کا اثر زائل کردیتے ہیں۔

غربت وافلاس انسان کو قانون شکنی پر مجبور کر دیتی ہے چاہیے وہ کتنا بھی پڑھا  لکھا، دیندار اور پرہیز گار ہی کیوں نہ ہو ۔ فضل الرحمن، زرداری اور شریف خاندان کے لیے عوامی  مسائل، قومی غیرت و عصبیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قومی خزا نہ جسے وہ خود لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں کو دوبارہ بھرنے کے لیے ملت فروشی  کا دھندہ تاریخ کا سب سے بڑا گھناؤنا فعل ہو گا ۔ قوم کو یادد  لانا ہوگا کہ یہ و ہی فضل الرحمن ہے جس کے والد نے تخلیق پاکستان کو گناہ قرار دیا تھا۔ زرداری اور شریف خاندان کی نہ تو  کوئی تاریخ ہے اور نہ  ہی عصبیت ہے۔ تاجرانہ ذہنیت کے دونوں گھرانوں کا اولین مقصد دولت کا حصول ہے  جس کے لیے وہ قائداعظم کے پاکستان کو  بیچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

1962کی جنگ میں بھارت نے چین کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی تو ملک دیوالیہ ہونے  کے قریب ہو گیا۔ نہرو نے ہندوستانی نوابین، امرا و ر راؤسا  سے  چند ے کی اپیل کی تو نواب آف حیدر آباد نے نہرو سے پوچھا کہ جنگ پر کتنا خرچ ہوا اور موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کتنی رقم درکار ہے۔ نہرو ایک وفد لیکر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو وزیر  خزانہ  نے نواب صاحب کو تفصیل بتائی۔ نواب آف حیدر آباد نے نہرو کو معاشی بحران سے نکلنے کے علاوہ فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے پانچ فیصد زیادہ رقم دی۔ نواب آف حیدر آباد نے نہ ملک لوٹا تھا اور نہ ہی وہ نودولیتہ سیٹھ اور گدی نشین تھا۔ اُس کے خاندان نے صدیوں سے اپنی عصبیت اور اخلاقی قوت کی حفاظت کی تھی۔ اگر زرداری، فضل الرحمن اور شریف خاندان میں عصبیت کا ایک ذرہ بھی ہوتا تو آج اپنے لوٹے ہوئے خزانوں سے ملک اور قوم کی عزت بچا سکتے تھے۔ اگر یہ تینوں خاندان اپنی دولت کا چو تھا حصہ بھی قومی خزانے میں ڈال دیں تو ملک خوشحال ہوسکتا ہے۔

ہمارے ہاں کچھ غیرت مند اور  غریب  پرو ر ڈاکو بھی ہوئے ہیں جن میں ملک محمد خان آف ڈھرنال، چراغ بالی، جگا گجر، پھل ماچھی اور سجاول قابل ذکر ہیں۔

خون کی  حفاظت اور جنس کی پاکیزگی پر مفسرین نے طویل بحث کی ہے۔ دین اسلام میں چار شادیوں کی اجازت کے علاوہ تزکیہ نفس اور مجاہدہ قلبی کی بنیادی اہمیت ہے۔ نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ عقائد کی پختگی اور ایمان کی تازگی کے بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر کوئی شخص صراط مستقیم  پر گامزن  نہیں  ہوسکتا اور نہ ہی اللہ اسے کسی علم و مرتبے کی بنیاد پر ہدایت یافتگان کی صف میں شامل کرتا ہے۔

رزق حلال کمانا اور کھانا  افضل ترین عبادات میں شامل  ہے۔ دین کے مطابق جو لوگ نفس امارہ کے غلام ہیں اور ہر شیطانی عمل کو جائز سمجھ  کر اسے منشور میں شامل کرلیتے ہیں. وہ اللہ کے احکامات کے باغی اور مخلوق کی بدحالی کا باعث ہیں۔ ہماری اشرافیہ میں  شاہد  ہی   کوئی ایسا ہو جس کی عصبیت کا معیار خون کی صفائی اور جنس کی پاکیزگی پر ہو۔ جو لوگ نسلاً   درست نہیں  وہ مال حرام کی وجہ سے دونوں خوبیوں سے محروم ہیں۔ امراء  و حکما  اور فقہا و علما میں بھی ایسے لوگو ں کی بہتات ہے جس کا واضح ثبوت معاشرے کی بے راہ روی، غربت، افلاس اور جرائم کی آبیاری ہے۔ حکمران طبقہ کرپٹ اور عیاش ہے، قانون کے محافظ  قانون شکن اور عام آدمی  پر تشدد کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

خون کی حفاظت اور   جنس  کی پاکیزگی کے احوال پر ہمارے مصنفین نے بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر اشرافیہ میں سے شاید کسی نے پڑھا نہیں ہو گا مستنصر حسین تارڑ کی تحریر” خش و خاشاک زمانے” ،  فوزیہ سعید کی” کلنک” ، آغاز شورش کاشمیری کی "اس  بازار میں”، امجد شاہ کی "اس بازار سے پارلیمنٹ تک "،قدرت اللہ شہاب کی "یا خدا "اور بازار حسن سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اقبال کا ٹیلیویژن پر نشر ہونے والا طویل انٹرویو اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان سب برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے؟ اس کا جواب سادہ اور انتہائی آسان ہے اور وہ ہے عدل جس کا حکم اللہ نے  اپنی کتا ب حکمت میں بار بار دیا ہے۔ ہماری عدالتیں اگر کبھی عدل کر بھی دیں تو مافیا عدلیہ پر یلغار کر دیتا ہے۔  ہماری مجلس شوریٰ کے اہم رکن کرپشن کو جائز اور قانون شکنی کو جمہوریت کی خوبصورتی قرار دے چکے ہیں۔ 26جولائی 2022کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے  بعد تجویز پیش کی گئی ہے کہ کیوں نہ آئین کے آرٹیکل 195کو آئین کی کتاب سے خارج کر کے عدلیہ کا بھی وہی حال کیا جائے جو احتساب بیورو کا ہوچکا ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے صحافیوں، دانشوروں، علما، فقہا، امرا ء و حکما کی بھی یہی رائے ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے حکمران خاندانوں کو قوانین کے بوجھ سے آزاد کر دیا جائے۔ کشمیر کی تاریخ میں مہرگل ہن ایک خوفناک کردار  ہوا ہے۔ مہر گل 426ء میں کشمیر پر قابض ہو ا جس کی حکمرانی تبت سے بد خشاں اورملتا ن تک تھی۔مہر  گل انتہائی سفاک، چالاک عیارو مکار حکمرا ن تھا، پنڈت کلہن  نے اس کے جبر و ظلم کی داستانیں رقم کیں۔ محمد بن فوق اور دوسرے تاریخ دانوں نے متعدد بار اُس کا یہ قول دہرایا  کہ ”حکم، عدالت، قانون اور رحم بادشاہ کی مرضی سے منسوب ہوتا ہے۔ حکمران کی تلوار، ارادہ، خواہش اور راحت ہی رعایا کے حقوق، عزت اور زندگی کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو عوام باغی اور علمائے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔” تاریخ کے مطابق مہر گل ہن کا تعلق سکالا ( سیالکوٹ ) سے تھا اور پیشے کے لحاظ سے وہ آہن گر (لوہار) تھا۔ فرحت  الله بابر اور بلاول کی تجاویز مہر  گل کے اقوال  کی بڑی حدتک ترجمانی  کرتے  ہیں۔

Exit mobile version