1996کی بات ہے کہ مجھے کسی کام کے سلسلہ میں کراچی جانا پڑا۔ شام کی فلائیٹ سے اسلام آباد آ رہا تھا ۔ مجھے جو سیٹ ملی اُس کے ساتھ کھڑکی والی سیٹ پر پہلے سے ایک صحت مند خاتون بیٹھی تھی۔ مملکت خُداداد میں خاتون چاہے جینز اور سلیولیس شرٹ میں ملبوس ہو اُسکا اسلام بہر حال جھاگ اُٹھتا ہے اور فوراً اعتراض کرتی ہے کہ آپ سٹیورڈ سے کہہ کر سیٹ بدل لیں اُسے کہیں یہاں کوئی عورت بٹھا دے ۔ اعتراض و احتجاج سے پرہیز کرتے ہُوئے میں نے خاتون سے پوچھا تو اُس نے مسکراتے ہُوئے کہا بیٹھیں اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ ابھی میں سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ درمیان والی سیٹ پر سیاہ عبائیوں میں ملبوس دو سرخ و سفید لڑکیاں آئیں اور سیٹ پر بیٹھتے ہی چترالی زبان میں بات کرنے لگیں ۔ چترال کی زبان کھوار کہلاتی ہے جو وہاں کی مقامی زبان ہے۔ اِس کے علاوہ چترالی شینا اور پشتو بھی بولتے ہیں ۔ واخان سے ملحقہ علاقوں میں قدیم فارسی، چینی اور آریاوٗں کی قدیم ترین زبان کے علاوہ واخی زبان بھی بولی جاتی ہے ۔ نوکری کے ابتدائی دِنوں میں میری تعیناتی لنڈی کوتل میں ہُوئی۔ دو تین دن لنڈی کوتل رہنے کے بعد مجھے پاک افغان بارڈر پر بھجوا دیا گیا جہاں میرا قیام ڈیورنڈ لائن پر بنے ایک بنکر میں تھا۔ فوجی زبان میں اسے رہائشی بنکر کہا جاتا ہے جو یقیناً کسی گورے سارجنٹ یا پھر جونیر افسر کی رہائش گاہ رہاہو گا۔
یہاں تعیناتی کے دوران میں ایک دِن لنڈی کوتل بازار گیا اور سرخ چمڑے کے کور (Cover) والے دو ریڈیو خریدے ۔ یہ ریڈیو نیشنل کمپنی کے اور میڈ اِن جاپان تھے ۔ میرے ساتھ میرا اردلی سید محمد بھی تھا۔ کہنے لگا سر ایک لالٹین بھی لے لیں ۔ سرکاری لالٹین دھواں بہت دیتی ہے ۔ آپ دیر تک پڑھتے ہیں دھوئیں سے آپ کی آنکھیں خراب ہو جائیں گی ۔ سید حسین کے کہنے پر میں نے دو لالٹین بھی خریدیں تو سید حسین نے پوچھا سر دو ریڈیو اور دو لالٹین کیا کریں گے؟ میں نے کہا کہ ایک ریڈیو بڑے بھائی صاحب کے لیے لیا ہے اُنھیں خبریں سننے کا بڑا شوق ہے۔ اُن کے پاس پائی کمپنی کا ریڈیو ہے جس میں رات کے وقت شور ہوتا ہے۔ میرے گاوٗں میں بجلی بھی نہیں ہے وہاں بھی ایسی ہی لالٹینیں ہیں جو دھواں دیتی ہیں۔ میرے بھائی صاحب دو سال پہلے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ۔ سرخ چمڑے والا ریڈیو آج بھی اُن کے کمرے کی الماری میں رکھا ہے ۔ سید محمد کا تعلق چترال سے تھا ۔ ریڈیو پر دیگر پروگراموں کی طرح شام کو فوجی بھائیوں کے پروگرام کے بعد پشاور سے ایک پروگرام کھوار مجلس بھی نشر ہوتا تھا ۔ کھوار مجلس میں بات چیت کے دوران اردو کے گانے بھی نشر ہوتے تھے ۔ میں نے سید حسین کی وساطت سے کھوار زبان کے بہت سے الفاظ سیکھ لیے۔
جہاز کی روانگی میں ابھی کچھ وقت تھا اور چترالی لڑکیاں جو جڑواں بہنیں لگتی تھیں کچھ پریشان لگ رہی تھیں ۔ ان میں سے ایک اُٹھی اور مجھے اپنے ٹکٹ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ اس پر چترال لکھا ہوا ہے یا گلگت ۔ میں نے ٹکٹ دیکھے تو ایک کا نام یاسمین اور دوسری کا یمین لکھا تھا ۔ میں نے کہا دونوں ٹکٹ کراچی سے اسلام آباد کے ہیں ۔ کل آپ کی فلائیٹ گلگت کی ہے ۔ واپسی پر آپ کی فلائیٹ چترال سے پشاور اور پھر پشاور سے کراچی کی ہوگی۔ واپسی کے ٹکٹ اوپن ہیں اُن پر تاریخ نہیں لکھی آپ ایک ماہ کے دوران کبھی بھی واپس کراچی آسکتی ہیں ۔
اسی دوران ایئر ہوسٹس آئی اور پشتو میں بات کرنے کے بعد اُنھیں جہاز کے پچھلے حصے میں لے گئی۔ بہر حال مجھے یاسمین اور یمین یاد رہیں۔
تھوڑی دیر بعد ائیر ہوسٹس قریب سے گزری تو میں نے پوچھا آپ اِن لڑکیوں کو جانتی ہیں ۔ کہنے لگی میرا تعلق بھی چترال سے ہی ہے۔ دونوں کسی رشتہ دار کی شادی پر بالائی چترال جا رہی ہیں ۔ اِن کا علاقہ گلگت سے قریب ہے ۔ کل گلگت کی فلائیٹ نہ بھی ہوئی تو یہ بذریعہ بس دیامر اور پھر وہاں سے جیپ پر شام تک اپنے گاوٗں پہنچ جائینگی ۔ بارات چترال آئے گی اور یہ دونوں چترال سے پشاور بذریعہ جہاز یا روڈ آکر واپس آئینگی۔ میں نے پوچھا دونوں بہنیں ہیں ؟ بولی نہیں ماں بیٹی ہیں۔ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی خاتون ہنس پڑی۔ کہنے لگی ایسی پریاں پہلی بار دیکھی ہیں جو ماں بیٹی بھی ہیں ۔ میں نے کہا یہ درد قبیلے سے ہونگی ۔ دردستان یا یاغستان جسے اب کوہستان کہا جاتا ہے کی عورتیں حسن کی دیویاں ہیں ۔ کسی دور میں یہ علاقہ سات قلعوں پر مشتمل تھا اور ہر قلعہ ایک ریاست کہلواتا تھا۔ آریاوٗں سے پہلے روسی ترکستان اور ایران سے درد قبائل ہند میں وارد ہُوئے جن کی آمد کا ذکر ملاں محمود نے اپنی قلمی تاریخ وقائع کشمیر میں کیا ہے۔ قدیم بلتستان کا نام بلورستان اور گلگت کا دردستان تھا مگر ہمارے تاریخ دانوں اور اہل قلم نے کبھی اسطرف دھیان ہی نہیں دیا ۔ کشمیر میں بھی درد شاہی کا ایک دور گزرا ہے۔ آزاد کشمیر کی وادی نیلم بھی درد شاہی کا حصہ رہی ہے۔ ذوالقدر خان تاتاری کے بعد اچل منگل نے چترال، سوات اور ملحقہ علاقوں میں قتل عام شروع کیا تو پہلے کشمیری بادشاہ صدر الدین رنچن شاہ کی بیوہ کوٹا رانی جو مسلمان تو نہ ہوئی تھی مگر اُس نے کمال جراٗت و بہادری سے اچل منگل کا مقابلہ کیا اور تاتاری شکست کھا کر گلگت و بلتستان کی وادیوں میں جا چھپے ۔ تاتاری مقامی آبادی کیساتھ دوستانہ ماحول میں رہے اور پٹولہ شاہی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ کوٹہ رانی جسقدر خوبصورت ، ذھین اور دلیر حکمران تھی اتنی ہی خطر ناک ، خونخوار اور دیدہ رانی کی طرح مکار بھی تھی۔ تاتاریوں کو شکست دینے کے بعد اُس نے اپنے ایرانی نژاد سپہ سالار شاہ میر کو قتل کروانے کی سازش کی۔مگر شاہ میر نے اسے قید کر لیا ۔ دین اسلام قبول کرنے اور شادی کی دعوت دی مگر وہ نہ مانی۔ وہ شاہ میر کی قید سے فرار ہو کر تبت کے راستے پر تھی کہ قتل کر دی گئی۔
صدرالدین رنچن شاہ کے بعد مختصر عرصہ کیلئے کوٹا رانی نے حکومت کی جسے انتظامی لحاظ سے اچھے حکمرانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ کوٹارانی نے اپنی ذھانت اور حکمرانہ قابلیت سے ساری ریاست کشمیر کے راجگان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تاتاریوں کا خاتمہ کر دیا۔ وہ اونتی ورمن ، للا دتیہ اور اسلامی دور کے عظیم بادشاہ سلطان شہاب الدین کے مقابلے کی حکمران تھی۔ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں جن خواتین نے اس خطہ بینظیر و بیمثال پر حکمرانی کی وہ بھی بے مثل و بے مثال تھیں۔
تقریباً چوبیس سو سال قبل مسیح میں گوند اوّل کے بیٹے دامودر نے مگدھ کا محاصرہ کیا اور مارا گیا تو اُس کی بیوہ یشومتی حاملہ تھی۔ یشومتی نے مگدھ کے بادشاہ سے صلح کرلی ۔ پریم ناتھ بزاز کے مطابق وہ 18سال تک کشمیر کی حکمران رہی۔ تعمیر و ترقی ، اتحاد و اتفاق جسے آجکل سیاسی و انتظامی استحکام کہا جاتا ہے کہ علاوہ ملک میں معاشی استحکام بھی رہا۔ اُس دور میں کسی بیرونی حملہ آور نے کشمیر پر مہم جوئی نہ کی۔ تبت اور چین کے علاوہ جنوبی ریاستوں جن میں گندھارا، آندرا، چولہ ، مگدھ اور گدروشیا شامل تھیں کے ساتھ اچھے دوستانہ اور تجارتی تعلقات بحال رکھے۔ اپنے بیٹے گوند دوئم کے جوان ہوتے ہی وہ امور سلطنت سے الگ ہوگئی اور بیٹے کو تخت نشین کر دیا۔
باتوں باتوں میں ہم ہنزہ سے سوختر آباد ، چٹی بوئی گلیشر سے ہوتے واخان سے گزرتے، پیر غنڈی بابا کی زیارت کرتے سری کول پہنچے ہی تھے کہ خاتون نے کہا میرا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔
میرا گھر تو سیالکوٹ میں ہے مگر اسلام آباد میں بھی رہتی ہوں ۔ میں ایک این۔جی۔او میں کام کرتی ہوں ۔ ہم آزاد کشمیر میں صحت اور تعلیم کے معاملات دیکھتے ہیں۔ خاتون نے بتایا کہ سردار عتیق الرحمٰن کی بیٹی اور بیگم بھی این۔جی۔او ز چلاتی ہیں۔ میں نے کہا این۔جی۔اوز میں تو بہت مال ہے۔ کہنے لگی کہ یہ سب مال ہی کا کمال ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کنگال اور عام آدمی بدحال ہے۔
خاتون پڑھی لکھی اور تجربہ کار تھی ۔ بتانے لگی کہ اُن کی نند آزاد کشمیر اسمبلی کی ممبر اور وزیر ہیں۔ میں نے شاہین کوثر ڈار، ناہید خان اور بیگم زمرد شریف کا نام لیا تو کہنے لگیں اُن کا نام شہزادی کوثر گیلانی ہے۔
اُن دِنوں شہزادی صاحبہ کا ایک نو دولتیے وزیر کے ساتھ جھگڑا چل رہا تھا جس کی خبر اخبار میں چھپی تھی۔ کہنے لگی آئیڈیل نظام تو پاکستان کا بھی نہیں مگر آزاد کشمیر نو دولتیے ، کرپٹ اور جرائم پیشہ لوگوں کی جنت ہے ۔ کراچی سے اسلام آباد کا یہ سفر اچھا گزرا مگر ہم نے ایک دوسرے کا نہ تو پتہ پوچھا اور نہ ہی نام بتایا۔ اچھی باتوں اور یادوں کے ساتھ ہم جہاز سے اُترے اور اپنے اپنے زمینی سفر پر چل دیے۔
————–جاری ہے ———–