یعقوب نظامی پر لکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ آٹھ دس سال پہلے ملے لوگوں سے رابطہ بحال ہو گیا اور دوسرا فائدہ یہ کہ یہ سب لوگ نہ صرف کتب بینی کا شوق رکھنے والے ہیں بلکہ صاحبان کتب کی علمی قابلیت، خاندانی عصبیت اور نفسیات کی جانچ کرنے والے بھی ہیں ۔ ہر علم کی ان گنت شاخیں ہیں اور ہر شاخ کا الگ علم ہے۔ معلمین نفسیات کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ روح کے مطالعہ کا نام نفسیات ہے۔ چونکہ روح کو جسم پر برتری حاصل ہے اس لیے انسان کا ہر عمل روح کا عکاس ہے۔ فرحانہ فیضی ماہر نفسیات ، عالمہ اور معلمہ بھی ہے ۔ علم نفسیات پر اُسکا مقالہ ہر لحاظ سے منفرد اور قابلِ تقلید ہے مگر علمی و ادبی مافیا نے اُس کی پذیرائی نہیں ہونے دی۔ اُسکے مقالے کی بنیاد قرآنِ حکیم ہے۔ اُس نے لکھا کہ مغربی محققین نے روحانیت پر توجہ دیے بغیر جنسیاتی نفسیات پر زیادہ توجہ دی تو ناول نگاروں ، افسانہ نگاروں ، شاعروں اور سفر نامہ نگاروں نے تاریخ پر توجہ چھوڑ کر کلبوں ، پبوں اور جسم فروشی کے اڈوں کا رُخ کر لیا۔
اس بات میں شک نہیں کہ نفسیات اور عمرانیات کا دوسرے علوم سے موازنہ کیا جائے تو علم نفسیات انسان کے باطنی اور روحانی معاملات اور علم معاشرت و تمدن انسانی خارجی رویوں کے مطالعہ کا نام ہے۔ اگر مغربی محققین اور اُن کے علم سے فیض یاب ہونے والے دیگر خطوں کے علمائے نفسیات کے خیالات کا مطالعہ کیا جائے تو واضع ہوتا ہے کہ عمرانیات کی ساری عمارت نفسیات پر اور نفسیات کی ساری عمارت جنسیات پر استوار ہے۔
حضرت آدم ؑ، حضرتِ حواؓاور حضرت عیسیٰ ؑ کے سوا ساری مخلوق انسانی کی پیدائش نطفے سے ہوئی۔ ہم دیگر مخلوق ارضی کا یہاں ذکر نہیں کرتے چونکہ ہمارا موضوع انسانی نفسیات اور اُس کی جزیات ہیں ۔ نطفے کی پیدائش ، اخراج ، پرورش ، ارتقاٗ اور انسانی پیدائش کے مراحل نفسیاتی اور جنسیاتی ہیں ۔ اس عمل میں جو مختلف مراحل پیش آتے ہیں اُسکا تعلق ماں اور باپ کے کردار، صحت ، نفسیات اور اخلاقیات سے ہے۔ اِن مراحل کو سمجھنے کیلئے قرآن پاک کی سورۃ فاطر کا ہی مطالعہ کر لیا جائے تو ہر طبقہ فکر کی بنیادی نفسیات ، کردار اور عمل اور رد عمل کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ یونانی ، ہندی اور ھلنی علماٗ نے جو کچھ لکھا وہ نہ تو مکمل ہے اور نہ ہی قابلِ تقلید ہے۔ اِس کی بڑی وجہ عورتوں کو انسانیت کے درجے میں شامل نہ کرنا اوراُن پر علم حاصل کرنے کی پابندی عائد کرنا ہے۔ مغربی محققین نے اپنے علم کی بنیاد مسلم علمائے نفسیات و عمرانیات الکندی اور الجائیز کی تعلیمات پر استوار کی اور پھر اپنی اہمیت اور فضیلت اجاگر کرنے کی جستجو میں اپنے فرسودہ خیالات کے علاوہ یونانی ، ہندی اور ھلنی ادوار کے علماٗ و حکماٗ کے ادھورے اور فرسودہ خیالات کی کھچڑی بنا کر ایک نئے علم کی بنیاد رکھی جسکا تعلق محض جنسیات سے ہے۔
علمی نفسیات کو گہرائی میں جانچنے کیلئے ضروری ہے ایک عالم، محقق ، دانشور ، منصف اور سفر نامہ نگار کو شعور ، تحت الشعور اور لا شعوری کا بنیادی علم ہو چونکہ شعور اور تحت الشعور روزمرہ کی بنیادی معلومات ، ادب اور نفسیات کا باہمی رابطہ برقرار رکھنے میں معاونت کرتے ہیں۔
ٖفرحانہ فیضی نے یعقوب نظامی پر لکھامضمون پڑھ کر عرصہ بعد رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ یعقوب نظامی کے نام سے واقف ہے۔ اسکی وجہ بھی یاسمین اور یمین ہی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ کراچی کے کسی کونے میں چھوٹا سا چترال آباد ہے جہاں خوبصورت اور ذھین عورتوں کا کلب ہے جو گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر تخلیقی اور تحقیقی کام کرتی ہیں ۔ فیضی سے پوچھا تو کہنے لگی ایسا نہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی کلب ، تھنک ٹینک یا فورم ہے۔ ہماری اکثر ملاقاتیں زبان کی بنیاد پر یا پھر دوران سفر ہو جاتی ہیں ۔ میں ایک سیمینار کے سلسلے میں پشاور گئی تو میری ملاقات یمین سے ہوئی۔ جس این جی او نے اِس سیمینار کا اہتمام کیا تھا یمین اُسی میں کام کرتی تھی۔ اِس سیمینار کا موضوع ‘‘فوق الانایا انانیت’’ جسے انگریزی میں سُپر ایگو کہتے ہیں تھا ۔ یہ ایک دلچسپ موضوع تھا کہ سپر ایگو یا انانیت کے نفسیات کی دیگر اقسام مثلاً عمومی ، معاشرتی ، مجرمانہ ، طبی ، تعلیمی ، عضویاتی اور صنعتی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اجتماعی شعور ، انسانی جبلت ، جذبات و احساسات کو تعلیمی نصاب کا حصہ کیسے بنایا جائے اور فلموں ، ڈراموں ، کہانیوں ، ناولوں اور دیگر ادبی اصناف کے معاشرے اور فرد پر منفی اثرات کی روک کیسے کی جائے۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ افلاطون ، ارسطو ، شنکر اچاریہ اور دیگر ہندی دانشوروں سے لیکر سگمنڈ، فرائیڈ ڈینیل گلیمر، لنڈا لنیٹائیر اور ڈاکٹر رچرڈ جے جل کے حوالہ جات تو دیے گئے مگر کسی نے سپین کی اموی شہزادیوں عائشہ، صفیہ اور اُن کی کنیز مزنہ کا ذکر تک نہ کیا۔ الکندی ، الجائیز، اور ابن بطیار کے ناموں سے ہمارے اہل فکر و دانش مدتوں سے ہی اجنبی ہیں ۔ سیمینار کا بنیادی موضوع ‘‘خودی’’ تھا مگر علامہ اقبال کا کسی نے نام تک نہ لیا۔
حال ہی میں ایک پوسٹ دیکھنے کو ملی جس میں ڈاکٹر مبارک علی صاحب فرما رہے تھے کہ اقبال تو سرے سے فلاسفر ہی نہیں ۔ اقبال شناسوں کی جگہ اب اقبال دشمنوں کی بھی ایک کھیپ تیارکی جا رہی ہے ۔ خطبات اقبال ؒ کو غلط ثابت کرنے والوں نے حضرتِ مولانا روم ؒ اور حضرت محی الدین ابنِ عربیؒ کو بھی شامل تفتیش کرلیا ہے۔
فلسفہ وحدت الوجود اور وحدت الشعود کو سمجھنا تو اتنا مشکل نہیں اگر روح رحمانی اور روح حیوانی کو قرآنی آیات کی روشنی میں دیکھ لیا جائے مگر المیہ یہ ہے کہ پھر جھگڑے کیلئے کوئی نیا فتنہ ُاٹھانا ہو گا ۔
دو قومی نظریے پر امن کی آشا والے گروپ نے بھرپور حملہ کیا۔ مگر کام نہ بنا تو بنگلہ دیش جا کر نہ صرف تمغہ ذلت وصول کیا بلکہ وہاں ایک اور قتل عام کی بنیاد رکھ آئے۔ اس پر بھی صبر نہ آیا تو پھر ڈاکٹر پرویز ھودبھائی اور اردشیر کاوٗس جی کو اپنے ٹیلیویژن پروگراموں میں مدعو کرنے اور قائداعظم ؒ کی ذات پر تنقید کا مشن شروع کردیا۔
فرحانہ فیضی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ سب مجرمانہ تعلیمی نفسیات کے اثرات ہیں جو نسل در نسل چلتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی سلامتی اور قومی یکجہتی کیلئے ضروری ہے کہ ایسے افراد کا مثبت اور تعمیری سوچ کے ہتھیار سے مقابلہ کیا جائے اور عوام الناس کو اِن کے بد ارادوں اور شیطانی چالوں سے آگاہ کیا جائے۔ یہ کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نہیں۔ قانونی گرفت کی صورت میں غیر ملکی ایجنٹ انھیں اپنا لیتے ہیں اور انھیں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
تحریر و تقریر کی آزادی کی آڑ میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو ایسے مواقع کی تلاش رہتی ہے تاکہ ناپسندیدہ ملکوں اور اقوام کو پابندیوں کی زنجیر پہنا کر اُنھیں عالمی سطح پر رسوا کیا جائے۔
کسی بھی ملک کے ادیب، شاعر، افسانہ نگار ، دانشور اور سفر نامہ نگار ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی کیلئے اتنے ہی اہم اور مددگار ہوتے ہیں جتنے ملکی سلامتی کے دیگر ادارے ۔
فرحانہ نے افغان شاعرہ، دانشور ، معلمہ اور جنگجو خاتون اور افغانستان کے پہلے بادشاہ ميرويس خان هوتک کی ماں نازو توخی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اُس نے اپنی علمی، عقلی اور جنگجو حانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور افغانوں کی عصبیت اور ملی اتحاد کی قوت سے ایرانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ پانینی ، اگاتھاشیدس، ھیروڈوٹس، مارکو پولو ، ہیون سانگ ، فائین اور ابنِ بطوطہ بھی تو سیاح اور سفر نامہ نگار تھے مگر کسی ایک نے بھی ساری توجہ جنسیت پر مرکوز نہ رکھی بلکہ زندگی کے ہر پہلو پر تحقیق کی اور پھر اسے ضبط تحریر کیا۔
سفر نامہ نگار در حقیقت تاریخ دان ہوتا ہے۔ اُسکا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ساکن زندگی پر اکتفا کرتا ہے ۔ سفر نامہ نگار اپنے ملک، قوم اور خود اپنی ذات کا سفیر اور ترجمان ہوتا ہے۔ وہ ملک کے اندر ہویا باہر عام لوگ اُس کی ذات اور کردار کے حوالے سے اُس کے الفاظ کی پرکھ کرتے ہیں اور بیرونی دُنیا اس کے عکس میں اُس کے ملک و ملت کا اخلاقی ، تمدنی، ثقافتی اور علمی معیار دیکھتی ہے۔ البیرونی نے کتاب اُلہند میں لکھا کہ ہند کے لوگوں کا معیار زندگی پست ہے اور وہ اپنی تاریخ سے ہی واقف نہیں ۔ ہند کی تاریخ مسلمان مرتب کر رہے ہیں اور اُنھیں روز مرہ زندگی کے اسلوب سکھلا رہے ہیں ۔
البیرونی نے کشمیریوں کی تعریف کی اور اُنھیں زندگی کے ہر پہلو میں بلند درجات پر فائیز لکھا۔ وہ لکھتا ہے کہ کشمیری قوم للتا دتیہ اور اونتی ورمن جیسے بادشاہوں کی جراٗت و بہادری پر فخر کرتی ہے ۔ اُن کے شاعر، ادیب اور اہلِ ہنر و فن بے مثال اور بلند خیالات کے حامل ہیں۔
فرحانہ فیضی نے کہا کہ جدید دور میں میڈیا کا کردار اہم ہے مگر پاکستانی میڈیا کی مثال بندر کے ہاتھ میں اُسترے جیسی ہے ۔
کالم نگاروں ، صحافیوں اور دانشوروں کا معیار پست اور مسخرے پن سے بھرپور ہے۔ یہ لوگ کرپٹ حکمرانوں کے قصیدہ نویس اور ذاتی ملازموں سے بھی بد تر غلامانہ طرزِ عمل کے مرتکب ہیں ۔انھیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی عالمی حالات اور تیزی سے رونما ہونے والے واقعات پر نظر رکھنے کی قابلیت ہے۔ ڈراموں اور فلموں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ ڈراموں میں تکبر، شہرت، شہوت اور جرائم کی آبیاری کی جا رہی ہے ۔
فرحانہ نے کہا کہ موجودہ دور میں اردو سفر ناموں کی روایت ختم ہو رہی ہے اور جو چند لکھنے والے ہیں اُن کا معیار بھی سطحی ہے ۔ میں نے مستنصر حسین تارڑ ، شفیق الرحمٰن ، قراۃ العین حیدر ، عصمت چغتائی، خشونت سنگھ ، علی عباس جلالپوری ، سعادت حسن منٹو ، خدیجہ مستور ، ابنِ انشاٗ، عبداللہ حسین ، واجدہ تبسم ، ڈاکٹر مبارک علی اور عطا الحق قاسمی کی تحریریں پڑھی ہیں مگر جو اسلوب حمیرہ احمد اور میراں سیٹھی کا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ادبی، اصلاحی اور فکری نہیں۔ یعقوب نظامی کے سفر ناموں میں جنسیت کی طرف اشارہ تو ہے مگر بیان کی جگہ تاریخ و ثقافت ، ادب و معاشرت ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی طرح وہ جہاں بھی گئے کوئی داستان چھوڑکر نہ آئے ۔
یورپ کی سیاحت تو کی مگر نہ تو خیمہ نصب کیا اور نہ ہی کوئی الڑھ مٹیار دن دیہاڑے اُن کے خیمے میں خلوت نشین ہوئی۔ وہ پیرس اور سپین بھی گئے مگر نہ تو پیار کا پہلا شہر بسایا اور نہ ہی ہسپانیہ آکر چوری کا تربوز کھانے والی حسینہ کی زلفوں کے اسیر ہوئے۔
اگر تارڑ صاحب کے شمالی سفر ناموں سے متاثر ہو کر لڑکیاں اکیلے ہی بلتستان جا سکتی ہیں تو پھر کٹاس راج کے بلند مقام پر رکھے شولنگ اور پورن مل کے کنویں پر حسیناوٗں کے غول منڈلا رہے ہونگے۔
اس میں شک نہیں کہ جنسیت انسانی زندگی کا اہم پہلو تو ہے مگر کاروباری ، علمی اور ادبی ضرورت نہیں ۔ یعقوب نظامی کا سفر نامہ ‘‘مصر کا بازار’’ دیکھتے ہی مصر کے کسی بازارِ حسن کی طرف خیال جاتا ہے ۔ جیسے آغا شورش کاشمیری کی ‘‘اُس بازار میں ’’ یا پھر قدرت اللہ شہاب کی ‘‘یا خُدا’’ جیسا کوئی منظر بیان ہو مگر نظامی صاحب نے کسی انسانی المیے اور معاشرتی ناسور پر توجہ دینے سے بہتر سمجھا کہ وہ مصر کی پہلی جھلک کا آغاز روٹی کباب سے کریں اور امام شافعی ؒ کے مزار پر حاضری دیکر تاریخ کے اوراق الٹتے جائیں ۔ آخر میں وہ سانڈے کا تیل اور سلاجیت خریدنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے براستہ میلان بریڈ فورڈ لوٹ آئے۔
آخر میں:
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کیا۔ لکھتے ہیں کہ مصر میں بہت کچھ دیکھا مگر لکھ نہیں سکتا۔ نظامی صاحب معاشرتی، ادبی اور اخلاقی پابندیوں کے اسیر ہیں جبکہ تارڑ صاحب آزاد اور خود مختار ہیں۔ نظامی صاحب کے آخری الفاظ پڑھ کر عزیز علی شیخ کا سفر نامہ ‘‘چناب سے نیل تک’’ یاد آگیا۔ شیخ صاحب نے مصر کی قدیم و جدید تاریخ و تمدن کے خوبصورت بیان کے بعد اوپیرا ہاوٗس جاکر موسیقی سے لطف اُٹھایا اور پھر رخت سفر باندھ کر چناب نگری لوٹ آئے ۔
(جاری ہے)