میرے نزدیک سفر ناموں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم تاریخی ، تحقیقی اور تخلیقی سفر ناموں کی ہے۔ سفر نامہ نگار تاریخی واقعات پر تحقیق میں جہاں کمی محسوس کرتا ہے وہاں تخیل کی کڑیاں جوڑ لیتا ہے مگر اُسے حتمی اور حقیقی نہیں بلکہ تخیلاتی ہی بیان کرتا ہے۔سفر ناموں کی دوسری قسم مہم جوئی پر مبنی ہے ۔ مہم جو حکومتی سرپرستی میں کٹھن اور دشوار گزار علاقوں اور خِطوں کا سفر کرتے ہیں وہ صحیح اور درست معلومات کے حصول کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں تاکہ حاصل شدہ معلومات میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یہ لوگ جن خطوں سے گزرتے ہیں وہاں کے مذہبی عقائد ، رسم و رواج اور ثقافت کے متعلق بھرپور معلومات ذھن نشین کر لیتے ہیں ۔ اپنے مشن کو خفیہ رکھنے کیلئے قصہ گوئی کے فن میں مہارت کے علاوہ درویشی اور دینی لبادہ بھی اوڑھ لیتے ہیں۔ ہمفرے اور کرنل لارنس (لارنس آف عریبیہ) کی مہمات تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔
موجودہ دور میں سٹیلائیٹ اور جدید مواصلاتی نظام کے باوجود انسانی آنکھ ہی سب سے معتبر اور درست خبر کا ذریعہ ہے۔ مہم جوئی کا پیشہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا فرد اور معاشرہ۔ انسان ہی نہیں بلکہ ساری مخلوق ارضی کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ زندگی کو برقرار رکھنے اور اُس کی حفاظت کیلئے مہم جوئی ہر زندہ چیز پر لازم ہے۔ انسانوں کے سوا دیگر مخلوق اپنی شعوری قوتوں کو بروئے کار لاتی ہے جبکہ انسان عقل و شعور کے ساتھ علم و عصبیت کی قوت بھی رکھتا ہے جو صرف قدرت کاملہ نے انسان کیلئے ہی مختص کر رکھی ہے۔ ہم جدوجہد کے فلسفے اور مہم جوئی کی اقسام پر بحث کیے بغیر مہم جوئی کی فطری ضرورت اور انسان کے توسیع پسندانہ عزائم پر نظر رکھیں تو اس کی ان گنت ضرورتیں ہیں۔ کسی بھی معاشرے اور ریاست کی پہلی ضرورت حفاظت ہے جسے جدید دور میں نیشنل سیکیورٹی کہا جاتا ہے۔ حفاظت کیلئے ضروری ہے کہ قبیلہ یا قوم اپنی کمزوریوں اور مخالف قوتوں یا دشمنوں کی قوت پر نظر رکھے۔ حکمران طبقے کا اولین کام اپنی کمزوریوں کو دور کرنا اور قوت میں اضافے کیساتھ دشمن کی کمزوریوں کا تعین کرنا اور اُس کی قوت کے مقابلے میں بہتر قوت کے حصول پر ظاہری اور خفیہ طریقوں پر مسلسل عمل پیرا رہنا ہے۔ ریاست کا نظام چلانے والے اداروں کے بہت سے کام خفیہ اور کچھ انتہائی خفیہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جنھیں قومی راز کہا جاتا ہے۔ ان رازوں میں صرف فوجی یا عسکری اہمیت کے راز ہی نہیں ہوتے۔ کسی بھی ملک کی جغرافیائی اہمیت، خوراک کا حصول، صنعتی ترقی معیشت کی بہتری سے ہی ممکن ہے ۔ عام آدمی خوشحالی کی صورت میں ہی وفا دار شہری ہوتا ہے ۔ غربت ، بھوک و افلاس، عدم تحفظ ، بد اعتدالی اور بے انصافی کی وباٗ قومیت اور وطنیت کا جذبہ نہ صرف ختم کر دیتی ہے بلکہ عام آدمی اغیار کی غلامی قبول کرنے اور آزادی و عزت کا سودا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
بیان کردہ منفی رجحانات و احساسات پر نظر رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ وہ عوامل جن کی وجہ سے قوموں میں اجتماعی عصبیت، وطنیت اور غیرت و حمیت خطرے میں پڑسکتی ہے اُن کا خاتمہ اور مثبت سوچ و فکر کی فضاٗ قائم کرنے کیلئے ظاہری و خفیہ اقدام کی اہمیت کا احساس نہ ہونا ایک قومی جرم ہے۔
ریشم سازی کی صنعت کا آغاز چین سے ہوا ۔ چین دُنیا بھر میں ریشم کی تجارت کے بدلے میں دیگر دُنیا کی پیداوار کا بیشتر حصہ سستے داموں اپنے ملک میں لے جاتا۔ وہ اشیاٗ جو چین میں کم یا سرے سے پیدا نہیں ہوتی تھیں وہ بھی چین میں سستے داموں میسر تھیں۔ چین نے ریشم سازی کا ہنر خفیہ رکھا اور کسی دوسرے ملک کو اس کی خبر نہ ہونے دی۔ چین میں ریشم سازی کی صنعت پر نقب لگانے اور اس صنعتی راز کو افشاں کرنیوالوں کیلئے موت کی سزا مقرر تھی۔
مسلم دور میں یہ پابندی ختم ہو گئی ۔ چینی مسلمانوں نے عربوں سے ملکر ثمر قند میں ریشم کے کارخانے قائم کیئے اور ریشم کا کپڑا بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے علاوہ عام لوگ بھی پہننے لگے۔ مہم جوئی کا میدان بڑا وسیع ہے۔ وہ اقوام جو مہم جوئی پر تن آسانی کو ترجیح دیتی ہیں وہ دولت کے ڈھیروں پر بیٹھ کر بھی بے وقعت اور خوف کے ماحول میں رہتی ہیں ۔ آج دُنیا بھر کے اسلامی ممالک اِس مرض میں مبتلا ہیں اور بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔
خالق کائینات خود انسان کو مہم جوئی کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کریم میں متعدد بار‘‘ سیروفی الارض ــ’’ کا حکم ہوا ہے کہ زمین کی وسعتوں میں اُترو اور جو کچھ تم سے پہلی امتوں کیساتھ ہوا اُس کا مطالعہ کرو اور عبرت حاصل کرو۔ وہ لوگ تم سے زیادہ طاقتور، ترقی یافتہ اور علم رکھنے والے تھے مگر اللہ کے احکامات سے روگردانی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ مسلمان مہم جووٗں نے اللہ کے اِس حکم کی پیروی میں یورپ سے مشرق بعید اور چین سے افریقہ تک اپنی عسکری ، علمی و فکری ، صنعتی، تجارتی، سائنسی اور سیاسی قوت کا لوہا منوایا ۔
مسلمانوں نے دولت کے خمار میں عیش و عشرت ، شہوت و تکبر کو مہم جوئی پر ترجیح دی تو عزت و تکریم کے معیار سے گرتے گئے۔ عصبیت ، علمیت، عقلیت، سیاست، فضیلت اور عقیدت قصہ ماضی بن گئی۔ عظیم اسلامی سلطنتیں باہمی نفاق و انتشار اور جنگ و جدل کے نتیجے میں بِکھرتی گئیں اور پھر اغیار کی مرضی سے نئی حکومتیں تو قائم ہوگئیں مگر سیاست، عقیدت اور حمیت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اگر کسی خطے میں آزادی کا کوئی چراغ روشن ہوا تو اپنوں نے اغیار سے ملکر اُسے بجھا دیااور پھر خود بھی ذلت و رسوائی کی زندگی جینے پر مجبور ہُوئے۔
اس امر کی بد ترین مثال نواب آف دکن کا انگریزوں سے ملکر ریاست میسور پر حملہ اور شیر میسور سلطان حیدر علی ٹیپو کی شہادت ہے۔ اسی طرح جنرل نکلسن کا صوبہ پختونخواہ اور پنجاب کے جاگیر داروں ، گدی نشین پیروں اور نوابوں سے اتحاد تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے اِن اتحادیوں کی مدد سے جنگ آزادی کے مجاہدین کو شکست دی۔ حیرت کی بات ہے کہ دو صدیاں گزرنے کے باوجود اِس خِطہ کے عوام نے جنرل نکلسن کے اتحادیوں کی غلامی قبول کر رکھی ہے اورپستی کی زندگی جینے پر فخر کرتے ہیں ۔ ملک میں آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت اصل حکمران نکلسن کی روحانی و معنوی اولاد ہی ہے۔
‘‘ٹریول اِن ٹو بُخارا’’ الیگزینڈر برن کا سفر نامہ سندھ پنجاب، افغانستان، بخارا اور ایران ہے۔ لیفٹینٹ الیگزینڈر برن نے 26سال کی عمر میں اپنی ذھانت ، قابلیت اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے طویل، خطرناک اور دشوار سفر کیے اور برطانوی خفیہ ایجنسی کو ایسی معلومات فراہم کیں جو موجودہ دور میں ماڈرن ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ممکن نہیں ۔ حکومت برطانیہ نے برن کو خفیہ ادارے کا دل و دماغ قرار دیا ۔ 1835میں برن کی مہم سفر نامے کی شکل میں منظر پر آئی تو لندن میں اسے اپنی مہم اور پیش آنے والے مصائب پر لیکچر کیلئے دعوت دی گئی. برطانیہ کے بادشاہ کے علاوہ ہزاروں لوگ اسے دیکھنے اور سننے آئے۔ برن کے تجربات کو خفیہ اداروں کے تربیتی سلیبس میں شامل کیا گیا جہاں کرنل ٹی ای لارنس جیسے جاسوس کی تربیت ہوئی۔
لیفٹینٹ کرنل فریزیر کا سفر نامہ ‘‘ایسٹرن اپروچر’’ بھی قابل تعریف ہے کہ ایک اکیلے شخص نے ماسکو سے مزار شریف، کابل اور جلال آباد جیسے خطر ناک اور انگریز دُشمن اقوام اور قبائل کے درمیان رہ کر نہ صرف معلومات اکھٹی کیں اور نقشے بنائے بلکہ مقامی لوگوں سے دوستیاں بھی قائم کرلیں ۔
برٹش سیکرٹ سروس کے ایجنٹ کیپٹن وکٹر جیکو ماونٹ کے سفر نامے پر مبنی تحریر ‘‘لیٹرز فرام انڈیا’’ بھی ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ وکٹر دوران سفر پیش آنیوالے واقعات و حادثات کی مکمل تفصیل اپنے باپ کو لکھتا رہا۔ اِن خطوط میں لوگوں کے عقائد ، رسم و رواج ،مقامی حکمرانوں سے نفرت، غربت اور پسماندگی کے علاوہ قبائل کا رویہ اور رسومات تک شامل ہیں ۔ شاید یہ خطوط نظامی صاحب اور آزاد کشمیر کے اہل علم و قلم کیلئے بھی دلچسپی کا باعث ہوں۔ وکٹر لکھتا ہے کہ شملہ اور ملحقہ خطوں کے سفر کے بعد پنجاب آیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مہمان ٹھہرا۔ مہاراجہ کا ایک جرنیل اور بعد میں کشمیر کا حکمران جنرل گلاب سنگھ میرا دوست بن گیا اور جہلم تک میرے ساتھ آیا۔ گلاب سنگھ (جسے وہ گلابا بھی لکھتا ہے )نے مجھے ایک خط، حفاظتی دستہ اور گائیڈ دیکر کشتی پر سوار کیا ۔ میں گوبند پور (افضل پور) کے مقام سے کشمیر میں داخل ہُوا تو گوبند پور کے ڈوگرہ تھانیدار نے مجھے محافظوں سمیت حراست میں لے لیا ۔ میں نے گلاب سنگھ کا خط پیش کیا تو تھانیدار نے گلابے اور رنجیتے (مہاراجہ رنجیت سنگھ) کو موٹی موٹی گالیاں دیں اور خط پھینک کر کہنے لگا ‘‘یہاں کا مہاراجہ میں ہوں’’ ۔ تم بِلا اجازت کشمیر میں داخل ہوئے ہو اسلیے تمہیں جرمانے کے علاوہ سفر نامہ حاصل کرنے کی فیس ادا کرنی ہوگی۔ پنجاب سے لائے ہوئے محافظ اور قلی بھی واپس کرنے ہونگے ۔
محنت مزدوری مقامی لوگوں کا حق ہے پنجابیوں کا نہیں ۔ وکٹر لکھتا ہے کہ گوبند پور سے لیکر کوٹلی تک جگہ جگہ راجپوت نمبرداروں کا رویہ ڈوگرے تھانیدار سے بھی بد تر رہا۔ وکٹر چونکہ جاسوسی کی غرض سے سفر کر رہا تھا اسلیے اُسے جگہ جگہ رُکنا پڑا۔ وکٹر نے میرپور، ناڑ، کھوئیرٹہ، راجدھانی اور کوٹلی کا سفر کیا اور پھر پونچھ میں داخل ہو گیا۔ کوٹلی کے بعد اُسکا سفر آسان تھا چونکہ عام لوگ سکھوں سے خوفزدہ اور سہمے ہوئے تھے۔
مارگریٹ اینڈ رولف شٹلر کی تصنیف ‘‘کشمیر ، لداخ اور زنسکار’’ بلتستان سے تبت اور پھر وادی کشمیر تک کے علاقوں کا مکمل سروے ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اِس سروے ٹیم کیساتھ پورٹر سکردو سے گئے ۔ اشاعت پذیر ہونے سے پہلے انڈین خفیہ ایجنسی کو اِس کی اہمیت کا پتہ چلا تو اُنہوں نے سارا مواد بھاری داموں خرید لیا ۔ بظاہر یہ ایک سفر نامہ ہی تھا چونکہ سروے ٹیم نے سیاحتی مہم جوئی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ کرنل ایلن بیٹس کی مشہور تصنیف ‘‘دِی کشمیر گزیٹیر’’ بھی ایک سفری دستاویز اور ہر لحاظ سے مکمل سروے اور تاریخ ہے۔ پاکستان قائم ہوئے پچھتر سال ہو گزرے مگر اب تک ہماری حکومتوں کو ملک کی صحیح آبادی، قبائل کی نفسیات ، کاروبار، عوام کی مشکلات ، صحت و تعلیم کی سہولیات کا پتہ ہی نہیں ۔ کاش کوئی ایلن بیٹس پاکستان سے بھی گزرتا۔ مارگریٹ کوٹر موریسن کی تصنیف ‘‘لونلی سمراِن کشمیر’’ اور یعقوب نظامی کی ‘‘دیکھ میرا کشمیر’’ میں بڑی حد تک مماثلت ہے ۔ دیکھ میرا کشمیر میں کرنل ایلن بیٹس کی بھی ایک جھلک دِکھائی دیتی ہے ۔ یعقوب نظامی مہم جو تو نہیں مگر مہم جوئی کا میلان رکھتے ہیں ۔ کرنل ینگ ہاسبینڈ اور کرنل ڈیورنڈ کی سفری رپورٹیں بھی سفر نامے ہی ہیں ۔ پندرویں ، سولہویں ، سترویں اور اٹھارویں صدی میں کشمیر اور شمالی علاقہ جات مہم جوئی کا مرکز رہے اور اَب تک بھی اِن کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ چینی اور یونانی سیاحوں نے اِن علاقوں کی سیر کی اور مفصل سفر نامے تحریر کیے۔
سفر ناموں کی تیسری قسم تخلیاتی، رومانوی، افسانوی ، روحانی ، ادبی و ثقافتی ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی ‘‘کشف المحجوب’’ حضرت فرید الدین ؒ عطار کی ‘‘مجلس الطیر’’ حضرت میاں محمد بخشؒ کا ‘‘قصہ سیف الملوک’’ تخلیقی، رومانوی، افسانوی، روحانی، ادبی و ثقافتی سفر ناموں کی عمدہ مثال ہیں ۔ حضرت مولانا روم ؒ کی مثنوی بھی ایک تمثیلی ، روحانی اور ادبی سفر نامہ ہے۔ صوفیاٗ نے طویل اور مشکل سفر کیے اور ‘‘سیروفی الارض’’ کے حکم کی تعمیل میں روحانی کمالات اور تاریخی واقعات کو تمثیلی شکل میں بیان کیا۔
یعقوب نظامی کے سفر ناموں میں روحانی، ادبی و ثقافتی اور تہذیبی و تاریخی جھلک واضع ہے۔ وہ مساجد و مقابر کا ذکر کرتے ہوئے شان اسلام کو گہرائی سے بیان کرتے ہیں تمسخر نہیں اُڑاتے۔ تارڑ صاحب اور دیگر سفر نامہ نگار طنز و تمسخر کو ادب کا ہی حصہ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ مسلکیت کا شکار رہتے ہیں ۔ یعقوب نظامی کی تحریروں میں عصبیت اور وطنیت کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ آپ نے بتایا کہ نظامی صاحب کا خاندان عسکری پیشے سے منسلک تھا۔ اُن کے خاندان کے بیشتر افراد نے ریاستی فوج میں خدمات سر انجام دیں اور بعد میں تحریک آزادی کشمیر میں بھی حصہ لیا ۔ نظامی صاحب کی وطن سے محبت ہر جگہ نمایاں ہے۔ مراکش میں اُنہیں نوری چھمب، حضرت مائی طوطیؒ کا مزار اور کشمیر کی آبشاریں نہ بھولیں ۔
مصر کے اہراموں کو دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ قبضہ مافیاٗ نے قاہرہ جیسے قدیم شہر کو بھی نہ بخشا۔ اہراموں کو دیکھ کر اُنہیں وطن عزیز پر قابض سیاسی مافیاٗ اور اُن کی سرپرستی میں کام کرنے والے لینڈ مافیاٗ کی کارستانیاں یاد آگئیں ۔
بکر والوں کے ذکر پر فرحانہ کو کچھ یاد آگیا۔کہنے لگی آج شام مجھے واپس کراچی جانا ہے ۔ کہیں میری گاڑی بھی بکر والوں کے ریوڑ میں نہ پھنس جائے ۔ نظامی صاحب کیلئے نیک خواہشات ۔ ہاں عقابی سلاجیت تو چترال میں ہی ملتی ہے۔ کالاش کی حسیناوٗں کا بھی جواب نہیں ۔ نظامی صاحب شمال کا رُخ کریں تو چترال کو بھی اعزاز بخشیں۔
(جاری ہے)