گھنٹی کی آواز پر باہر گیا تو ایک دو یا تین نہیں بلکہ آٹھ لڑکیوں پر مشتمل ایک دستہ صف آرا دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ ذھن میں دس جنگجو خواتین پر لکھی کہانیاں یاد آ گئیں ۔ دس کے اِس ٹولے میں سب سے زیادہ خونخوار قزوین کی ملکہ لکھی گئی ہے جس نے ایران کے شہنشاہ بخت نصر کو قتل کیا اور اُس کا سر کاٹ کر لے گئی۔ لکھا گیا کہ وہ جب تک زندہ رہی بخت نصر کے سر کی کھوپڑی میں شراب پیتی رہی۔ ملکہ کا خاوند کسی معرکے میں ایرانیوں کے ہاتھوں مارا گیا جس کا بدلہ ملکہ نے لیا اور ایران کے سب سے بہادر اور عظیم شہنشاہ کا سر اڑا کر لے گئی۔ ذاتی طور پر مجھے یہ کہانیاں فرضی اور افسانوی سی لگتی ہیں ۔ اِن خواتین میں زیادہ تعداد چینی خواتین کی ہے جنکا چین کی تاریخ میں کوئی واضع ذکر نہیں ۔ سن توژو نے آرٹ آف وار میں جنگجو خواتین کا ذکر تو کیا ہے مگر خواتین کی کوئی الگ فوج نہیں لکھی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں نے ہر دورمیں مردوں کے شانہ بشانہ جنگی معرکوں میں حصہ لیا اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ تاریخ میں ابو سفیان کی بیوی ھندہ واحد جنگجو خاتون ہے جس نے میدانِ جنگ میں نہ صرف خواتین کے دستے کی قیادت کی بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ لڑتی ہوئی شہادت کے مرتبے پر فائیز ہوئی۔
جنرل‘‘ اے۔ آئی ۔ اکرم ’’ کی تصنیف ‘‘اللہ کی تلوار’’ قاری کو میدان کار زار میں لا کھڑا کرتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے قاری خالد بن ولیدؓ کے لشکر کا سپاہی بن جاتا ہے اور خالد ؓ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
عمر بن العاصؓ کی کیولری رجمنٹ پلٹ کر رومیوں پر جوابی حملہ کرتی ہے تو رومی ثابت قدمی دکھلاتے ہوئے عمر بن العاص ؓ کے حملہ کو پسپا کر دیتے ہیں ۔ یہ یرموک کا میدان ہے جہاں سارے یورپ اور ایشیا و افریقہ سے آئے ہوئے رومی اور اُن کے حامی عرب قبائل جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے چالیس ہزار مسلمانوں پر حملہ آور ہیں ۔
عمر بن العاص ؓ کا لشکر واپس پلٹتا ہے تو ھندہ کی قیادت میں مسلمان خواتین پتھروں اور خیموں کی چویوں سے اُن پر حملہ آور ہو کر ایک بار پھر اُنھیں میدانِ جنگ میں دھکیل کر خود بھی جنگ میں شامل ہو جاتی ہیں ۔ ھندہ اور دیگر خواتین نے مسلم کیولری کے پلٹنے سے پہلے ہی رومیوں پر حملہ کردیا اور کئی شہسواروں کو گھوڑوں سے کھینچ کر زمیں بوس کیا۔ جو رومی ، روسی یا شامی زمین پر گرتا شمشیر زن مسلم خواتین اُسکا سر تن سے جُدا کر دیتیں ۔ ایک موقع پر ابو سفیان ؓ کا لشکر بھی میدان سے پسپا ہُوا تو ھندہ نے اُسپر بھی لاٹھی چارج کر دیا۔ اُس نے ابوسفیان سے مخاطب ہو کر کہا :
اے حرب کے بیٹے قیامت کے دِن رسولؐ خدا کو کیا منہ دکھلاوٗ گے۔ پلٹ کر میدانِ میں جاوٗ اور شہادت قبول کر لو۔ ھندہ کے علاوہ خولہ اور دیگر خواتین نے بھی بہادری کے جوہر دکھلائے اور مردوں کے شانہ بشانہ رومیوں کا مقابلہ کیا۔
ملکہ ہند رضیہ سلطانہ کی جراٗت و بہادری تاریخ کا حصہ ہے۔ برصغیر کی قبائلی تاریخ جنگجو خواتین کے معرکوں سے مزین ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ بابر نے یکے بعد دیگرے سوات ، باجوڑاور پشاور پر حملے شروع کیے تو اُسے سرحدی علاقوں میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قبائیلی علاقہ جات میں شاہ بوری نامی نوجوان اور خوبصورت لڑکی نے مغلوں کیخلاف ایک لشکر تیار کیا اور جگہ جگہ بابر کے فوجی کیمپوں پر چھاپہ مار کاروائیاں شروع کر دیں ۔
بابر‘‘ تزکِ بابری ’’میں لکھتا ہے کہ سوات پر حملہ اس لیے ملتوی کر دیا چونکہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی لوگ فصل کاٹ کر غلہ گھروں میں لے جا چکے تھے۔ بابر نے مگر یہ نہیں لکھا کہ حملے میں تاخیر کی کیا وجہ تھی۔ بابر کی سپاہ جونہی باجوڑ کے علاقہ میں داخل ہوئی شاہ بوری کے مسلح دستوں نے اُن پر شب خون مارنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ شاہ بوری کی جنگی حکمت عملی مغلوں کیلئے پریشانی کا باعث بن گئی۔
جب تک شاہ بوری زندہ رہی بابر جیسا آزمودہ کار جنگی جرنیل جو بچپن سے ہی جنگیں لڑتا آیا تھا بے بس رہا۔ شاہ بوری کسی معرکے میں ماری گئی تو مغلوں کا سوات میں داخلہ آسان ہوگیا۔ بابر لکھتا ہے کہ پشاور کے گرد و نواح میں چاول کی فصل پک چُکی تھی اسلیے خیبر کے راستے پشاور پر حملے کا منصوبہ تیار کیا۔ آگے لکھتا ہے کہ علی مسجد کے مقام پر خیمہ زن ہُوا اور پھر بوجہ واپس کابل چلا گیا۔بابر نے اِس پسقدمی کی وجہ بھی بیان نہیں کی کہ پکی ہوئی فصل نہ لوٹنے کی کیا وجہ تھی۔
اٹھارویں صدی میں ایک انتہائی خوبصورت اور بہادر قبائیلی خاتون بی بی آلائی نے اپنے خاوند اَحد خان کے خون کا بدلہ لینے کی غرض سے پانچ ہزار قبائیلیوں پر مشتمل ایک لشکر خیبر کے پہاڑی علاقہ میں تیار کیا۔ بی بی آلائی کے خاوند اَحد خان کو پشاور کے مغل گورنر مظفر خان نے ایک سازش کے تحت قتل کروا یا اور اُس کے قبیلے کے کچھ افراد کو قید کر لیا۔
مظفر خان کو بی بی آلائی نے پیغام بھیجا کہ وہ اَحد خان کے قتل کا بدلہ لینے آ رہی ہے ۔ اگر جراٗت ہے تو میدان میں آکر مقابلہ کرو۔ مظفر خان مغل لشکر لیکر پشاور سے نکلا ہی تھا کہ بی بی آلائی کے قبائیلی لشکر نے مغلوں پر حملہ کر دیا ۔ مغل لشکر کو تباہ کرنے کے بعد بی بی آلائی پشاور پر حملہ ٓآور ہوئی اور سورج غروب ہُونے سے پہلے ہی پشاور پر قابض ہو گئی۔ بی بی آلائی کے اس حملے میں چالیس ہزار مغل لشکری اور اُن کے حامی قبائل مارے گئے جو مغلیہ جنگوں میں مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ بی بی آلائی نے پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور محاصرہ اُٹھا کر واپس خیبر چلی گئی۔
بی بی آلائی جب تک زندہ رہی خیبر کے علاقہ سے مغلوں کو گزرنے کی جراٗت نہ ہوئی۔ بعد کے دور میں مغلوں نے معافی نامہ لکھ کر دیا اور بھاری جرمانہ ادا کرنے کے بعد خیبر کے راستے کی راہداری حاصل کی۔ افغانستان کے پہلے بادشاہ میر واعظ کی ماں نازو توخی اور دوسری برٹش افغان جنگ کی ہیروئین ملالہ اناّ کی جراٗت و بہادری افغانوں کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔
جسطرح بابر نے شاہ بوری اور مغلیہ تاریخ دانوں نے بی بی آلائی کے ہاتھوں حزیمت کا ذکر نہیں کیا اسی طرح ایرانیوں نے نازو توخی اور انگریزوں نے 27جولائی 1880ء کے دِن جنگ ماوند میں ملالہ انا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور پھر شکست خوردہ ہو کر واپس قندہار چلے جانے کے واقعہ پر کبھی کچھ نہیں لکھا۔ عرصہ بعد جرمن اخبار نے اِس جنگ کا احوال اور ملالہ کی شاعری پر کئی مفصل تحریریں شائع کیں تو دُنیا ملالہ انا یعنی افغانوں کی دادی سے واقف ہوئی۔
یاد رہے کہ افغانستان کے جنگجو لیڈر ملاں عمر اور نازو توخی کا ایک ہی قبیلے ہوتک سے تعلق تھا جسکا ذکرسٹیو کول نے اپنی کتاب ‘‘ڈائیریکٹوریٹ ایس ’’ میں کیا ہے۔ پختون معاشرے میں خواتین پر جسقدر پابندیاں ہیں اسی قدر عورتیں بہادر، دلیر اور جنگجو ہیں ۔ اگرچہ حکمرانوں اور تاریخ دانوں نے کبھی اُن کے کارناموں اور قربانیوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا مگر معاشرے میں اُنکا مقام ہمیشہ بُلند رہا ہے۔
دھشت گردی کیخلاف جنگ میں پختون عورتوں کی قربانیوں کا کبھی ذکر ہی نہیں ہُوا۔ ملالہ یوسفزئی کا شمار جنگجو خواتین میں نہیں ہوتا مگر جنرل کیانی ، حامد میر اور حکومتِ برطانیہ نے اُسے دُنیا میں منفرد مقام دِلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان کی ناہید، شمائلہ، زینت اور شاہ زانہ کے ناموں سے کوئی واقف ہی نہیں جنھیں روسی گن شپ ھیلی کاپٹر سے نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ اِن نوجوان لڑکیوں نے کابل میں روسی قبضے اور ‘‘خاد ’’ کیخلاف بھرپور تحریک چلائی اور خلقیوں اور پرچمیوں کے چہرے بے نقاب کیئے۔
سوات میں دہشت گردی کے خلاف خواتین نے بھرپور مزاحمت کی جسے پاکستان کے صحافتی حلقوں نے کبھی قابلِ غور ہی نہیں سمجھا ‘‘خوائیندہ تومونو’’ بہنوں کی مجلس یا تنظیم اور ‘‘تاکار قابلائی خوائیندہ’’ بہادر قبائیلی بہنوں کی مجلس نے طالبان کے خلاف مسلح مہم چلائی اور اپنے گھروں کی حفاظت کا بیڑا اُٹھایا۔
جنگ آزادی کشمیر میں بھی عورتیں مردوں سے کبھی پیچھے نہ رہیں مگر جہاد آزادی کا پراپیگنڈہ کرنیوالوں کو اپنے قبیلے کی حد سے باہر کبھی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ حسین بی بی شہید (ستارہٗ جراٗت) کے علاوہ درجنوں خواتین نے قربانیاں دیں اور مرتبہ شہادت پر فائیز ہوئیں مگر برادی ازم کے پجاریوں اور درباریوں میں اخلاقی جراٗت کہاں کہ وہ اِن گمنام شہیدوں کا ذکر کریں۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ گھر کے باہر کھڑے پختون دستے کی لیڈر نے کہا ‘‘ہمیں پہچانیں ’’ منفی میں جواب دیا تو کہنے لگی کہ نظامی صاحب اور چترالی حسینہ چلی گئی ہے یا ابھی ادھر ہی ہے ۔ کون سی چترالی حسینہ؟ میرے سوال پر کہنے لگی وہی جو سامنے والے بینچ پر بیٹھتی تھی اور آپ کے گھر سے کتابیں لا کر پڑھتی تھی۔ میں فرحانہ فیضی کی بات کر رہی ہوں ۔ آپ نے لکھا کہ وہ کراچی چلی گئی ہے اور نظامی صاحب بھی پیغمبروں کی سرزمین سے ہوتے واپس انگلینڈ پہنچ چکے ہیں تو سوچا باقی باتیں ہم کر لیں ۔ میں نے کہا تم نے چہرہ ڈھانپ رکھا ہے تو مجھے کیا پتہ تم کون ہو۔ کہنے لگی میرا نام ریحاب خان ہے سامنے والے گھر میں رہتی تھی ۔ یہ میری کزن ہے اور باقی چھ چھوٹی بہنیں ہیں۔ ویسے تو ہم گیارہ بہنیں ہیں مگر آپ نے صرف اِن چھ اور مجھے دیکھا ہُوا ہے۔ جب ہم یہاں تھے تو دونوں بڑی بہنیں گھر سے باہر نہیں آتی تھیں ۔
اب اُن کی شادی ہو گئی ہے اور وہ امریکہ چلی گئی ہیں ۔ فرحانہ سے صرف تعارف تھا۔ وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی خشک مزاج اور خاموش رہنے والی تھی۔ وہ ہم سے بڑی بھی تھی اسلیے دوستی نہ ہو سکی ۔ وہ چترال کی ہے اور ہم دیر کے ہیں ۔ ہمارا تعلق عمرا خان کے قبیلے سے ہے جس کے نام سے مہتر چترال، انگریز ، مردان کے ہوتی اور پشاور کے دُرانی خوف کھاتے تھے۔ عمرا خان نے انگریزوں اور اُن کے حامی پختونوں کو کئی بار شکست دِی مگر اپنے سگے بھائی کی بے وفائی اور افغان سرداروں کی سرد مہری اس کی ناکامی کی وجہ بنی ۔ ایک موقع پر اُس نے چرچل کو بھی گھیر لیا تھا مگر وہ زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنوں کی بے وفائی کے باوجود عمرا خان میدان میں ڈٹا رہا اور شہید ہو گیا۔
فرحانہ واقعی ذھین اور حسین دانشور ہے۔ آپ کو یاد ہے کہ میرے ساتھ ایک تحصیلدار صاحب بیٹھے ہوتے تھے ۔ وہ بھی بڑے عالم فاضل اور عامل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ عمل کے ذریعے وہ جادو کے اثرات اور جِن بھوت نکال دیتے ہیں اور روحانی معالج بھی ہیں ۔
ایک دِن فرحانہ ہمارے سامنے سے گزری تو تحصیلدار صاحب نے اسے دیکھتے ہی ماشا ء اللہ کہا۔ میں ہنس پڑی تو کہنے لگے یہ بھی عاملہ ہے مگر کئی حصوں میں بٹی ہوئی اور بکھری ہوئی ہے ۔ حسن اور علم تو ہے مگر عشق کی خوشبو نہیں۔ برتن تو حسین و نایاب ہے مگرپیار کے آبِ حیات سے خالی ہے۔ معشوقی کے آداب نہیں جانتی اور پکار پر بے رُخی اختیار کر لیتی ہے ۔
میں آپ کے گھر سے یعقوب نظامی اور دیگر مصنفین کی جتنی کتابیں لاتی میرے علاوہ میری دوست نفیسہ، انیسہ اور تحصیلدار صاحب بھی پڑھتے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یعقوب نظامی کے ذھن و قلب اور قلم میں ہم آہنگی ہے۔ مزاح ہے تمسخر نہیں ۔ انکساری ہے تکبر نہیں ۔ وہ قیام میں ہوں یا حرکت میں ۔ جہاں بھی ہوں اُن کے دوست عام لوگ ہیں ۔ وہ بڑے بڑے عہدوں ، مرتبوں اور نامور لوگوں سے قربت کا کبھی ذکر نہیں کرتے۔ شاید وہ بھی جانتے ہیں کہ بڑے عہدوں پر ہمیشہ چھوٹے لوگ اور چھوٹے عہدوں پر بڑے لوگ فائیز ہوتے ہیں۔ اُنھیں زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ چھوٹے لوگوں کی صحبت اختیار کریں ۔ آپ کی کتابوں پر لکھے تبصرے اور کومنٹس میں نے اپنی ڈائری پر لکھ رکھے ہیں ۔
‘‘پاکستان سے انگلستان تک’’ کے ایک صفحہ پر لکھا تھا کہ نظامی صاحب سچ کے ترجمان ہیں ۔ آپ نے آزاد کشمیر کے سابق وزیر چودھری یوسف کے سفر نامے اور جدوجہد کی بھی تعریف کی اور دونوں سفرناموں میں کافی حد تک مماثلت کا ذکر کیا۔
چودھری یوسف صاحب کا سفر نامہ تو نہیں پڑھا مگر نظامی صاحب کی دو تحریروں ‘‘مقدس سرزمین’’ اور ‘‘پیغمبروں کی سر زمین’’ میں سید سلمان ندوی کی ‘‘ ارض القرآن’’ اور کیرن آرم سٹرانگ کی ‘‘دِی فیلڈز آف بلَڈ’’ کی جھلک نظر آتی ہے ۔ مماثلت ہو یا جھلک دونوں کا اندازہ تب ہی ہو سکتا ہے جب قاری کا مطالعہ وسیع اور سوچ مثبت ہو۔ ورنہ تقابلی جائزے اور تماثیل کا تعین نہیں ہو سکتا۔ علامہ صاحب اور کیرن آرم سٹرانگ نظامی صاحب سے اور شاید نظامی صاحب بھی اِن کی تحریروں سے واقف نہ ہوں مگر علم و سوچ اور مشاہدے میں ہم آہنگی مماثلت کی وجہ بن جاتی ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کی ‘‘دیس ہوئے پردیس’’ اور نظامی صاحب کی ‘‘پاکستان سے انگلستان تک’’ عام لوگوں کی کہانیاں ہیں جو رزق کی تلاش میں نکلے اور نئی دُنیا میں جا بسے۔ تارڑ صاحب اور دیگر سفر نامہ نگاروں نے دوسروں کی کہانیاں لکھی ہیں جبکہ نظامی صاحب اپنی، اپنے معاشرے اور ماحول کی بات کرتے ہیں۔ نظامی صاحب کے شوقِ مطالعہ و مشاہدہ میں علمیت کے علاوہ اُن کی شخصیت کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ کسی بھی تحریر کا حُسن تبھی برقرار رہتا ہے جب مصنف کی موجودگی کا احساس ہو۔ وہ قاری کو اپنا ہمسفر بنانے کا فن جانتا ہو اور اُس کے لکھے ہوئے الفاظ قاری کے کانوں میں آواز بن کر گونجیں ۔ نظامی صاحب اِس فن سے خوب آشنا ہیں اور قارئین کی جماعت اپنے کاروان میں شامل رکھتے ہیں۔ اُن کے قافلے میں عام لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا حوصلہ بلند اور عزم جوان رہتا ہے۔ کبھی کبھی وہ فرید الدین عطار کی طرح قافلے والوں کو روشنیوں اور اندھیروں کے سو پردوں کے پیچھے کوہ قاف کی دوسری جانب اُن کی منزل کا یقین دلاتے پھر سے رَخت سفر باندھ لیتے ہیں ۔
نظامی صاحب کا قافلہ کنفیوشس کے کارواں کی طرح کسی کارواں سرائے میں نہیں ٹھہرتا۔ وہ راہ چلتے رکتا ہے اور نئے مسافروں کو لیکر منزل کی طرف چل دیتا ہے۔
(جاری ہے)