Tarjuman-e-Mashriq

دیر سکاوٹ جہادِ کشمیر میں-7

2010میں میرے بیٹے عمار ایوب راجہ (ایڈووکیٹ) نے بحریہ ٹاوٗن شفٹ ہونے کا مشورہ دیا۔ میرا گھر کراچی میں تھا مگر رہائش حیات آباد پشاور میں تھی۔ عمار نے پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا اور میر پور شفٹ ہو گیا۔ کراچی شفٹ ہونے کا سوچ ہی رہا تھا کہ وہاں حالات یکدم بگڑگئے۔ عمار اور چودھری محمود جو پچھلے سولہ سال سے میرے ساتھ تھا ، نے راولپنڈی منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ میرے دوست حاجی ریحان کا کہنا تھا کہ پشاور اچھی جگہ ہے اور تم عرصہ سے یہاں رہ رہے ہو، اس لیے بہتر ہے کہ یہاں ہی رُک جاوٗ۔ میں اور حاجی ریحان کوئی اچھا مکان دیکھنے اور خریدنے کی کوشش میں ہی تھے کہ پشاور دھشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ تحصیل باڑہ اور جمرود میں لشکر اسلام اور لشکر انصار میں خونریز جنگ شروع ہو گئی۔ پشاور، خاصکر حیات آباد سے لوگ اغواٗ ہونے لگے اور بہت سے مقامی کاروباری لوگ لاہور، اسلام آباد اور ملتان منتقل ہوگئے ، میں عرصہ سے حیات آباد کے فیز ون سے ایک اور سات کے بعد فیز چھ کا طویل چکر لگاتا اور سات کلو میٹر کی واک کے بعد زرغونی مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد گھر لوٹتا۔ راستے میں میرا ایک پرانا جاننے والا ڈاکٹر جمیل، مرحوم جنرل فضل غفور ، سابق سیکرٹری محمود صاحب ، کرنل مختار، بیرسٹر باچا خان اور بہت سے جان پہچان والے لوگ ملتے۔ محمود صاحب میرے ساتھ مسجد میں نماز مغرب ادا کرتے ۔ مرحوم جنرل فضل غفور سے تب سے جان پہچان تھی جب وہ استور میں بریگیڈ کمانڈ ر تھے ۔ 1986میں ، میں ایک ٹریکنگ ایکسپیڈیشن لیکر گلگت گیا جسکی ٹریننگ پسو اور شمشال کے علاقہ میں طے پائی۔ ٹریننگ کے بعد اِس مہم جو گروپ نے نگر سے ہسپرلا  جس کی بلندی 22ہزار فٹ ہے اور گولڈن پیک کے درمیان سے گزرسنولیک کراس کرتے ہوئے سکردو پہنچنا تھا۔


پسُو میں ٹریننگ کے دوران گلگت سے میجر ادریس خٹک اور کیپٹن سعید بنگش بھی کچھ عرصہ کیلئے آئے۔ کیپٹن سعید جنرل فضل غفور کے برادر نسبتی تھے۔ گلگت کے سکولوں میں چھٹیاں تھیں اسلیے سعید بنگش کے ساتھ اُن کے چار بھانجے جن میں تین جنرل صاحب کے بیٹے تھے، ٹریننگ کیمپ میں ہمارے مہمان رہے۔ گلگت واپسی پر جنرل صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ جب بھی ملتے شفقت فرماتے اور واک نہ چھوڑنے کی نصیحت کرتے۔ بد قسمتی سے اُن کا بڑا بیٹا جو فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھا دھشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس واقع کے بعد جنرل صاحب گوشہ نشین ہو گئے۔ میں فاتحہ خوانی کیلئے اُن کے گھر گیا مگر وہ کسی کو پہچانتے نہ تھے ۔
ایک دِن مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھا تھا کہ ڈینز پلازہ پشاور کا مالک جہانزیب شنواری میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا سر آپ یہاں کیسے؟ میں نے خیریت پوچھی تو کہنے لگا مجھے پچیس کروڑ بھتہ ادا کرنے کی وارننگ ملی تو میں فوراًً لاہور شفٹ ہو گیا ہوں ۔ دبئی اور پشاور میں سارا کاروبار ملازموں کے حوالے کر دیا ہے ۔
میں وہاں ایک دس مرلہ کے گھر میں رہتا ہوں ۔ کسی مجبوری کے تحت آج پشاور آیا ہوں رات کو واپس چلا جاونگا۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ بھی یہاں سے چلے جائیں ۔ جامع فاروقیہ شاہ کس کے مہتمم اعلیٰ حضرت حافظ فضل مالک صاحب ؒ سے میرا خاص تعلق تھا۔ جب بھی کوئی مصیبت آئی حافظ صاحب ؒ نے رہنمائی فرمائی۔ حافظ صاحبؒ انسان دوست اور روحانی معالج ہیں ۔ اُنھیں دِنوں آزاد کشمیر کا ایک وزیرِ اعظم حافظ صاحب سے ملنے گیا مگر جامع فاروقیہ کے قریب ہی ایک مالدار تاجر اور مرسڈیز کاروں اور بڑی گاڑیوں کے ڈیلر کا مہمان ٹھہرا۔ دورے کا انتظام سابق صوبہ سرحد کے سیکرٹری اطلاعات نے وزیر اعظم کے سیکرٹری کی وساطت سے کیا۔ وزیر اعظم صاحب کا تعلق بھی ایک روحانی گھرانے سے بیان کیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی سوانح حیات ـــ‘‘چاہ یوسف سے صدا’’ میں اپنی بہن کا ایک خط نقل کیا ہے ۔ اُن کی بہن لکھتی ہیں :
‘‘میرا پیارا بھائی ولیوں کا ولی ’’ میری عادت ہے کہ میں ہر کتاب خرید کر پڑھتا ہوں اور ہر صفحے پر اپنے تاثرات اور دیگر کتابوں کے حوالہ جات بھی لکھ دیتا ہوں ۔ کتاب کے آخری صفحات پر صاحب کتاب کے متعلق اپنی رائے بھی لکھتا ہوں اور کتاب میں بیان ہوئے واقعات کی فہرست بھی لکھ دیتا ہوں ۔
ریحاب خان اور فرحانہ نے ولیوں کے ولی پر میرا تبصرہ پڑھ کر اپنا تجزیہ بھی لکھ دیا۔ فرحانہ نے لکھا کہ ایسے ولیوں کی ولائت کا نام انگلستان ہے جہاں اِن کی دولت محفوظ اور ولائت کی سند جاری کی جاتی ہے۔ ریحاب خان نے لکھا اسلامی جمہوریہ پاکستان ان کی ولائت ہے۔ ایسے ولیوں کا اصل مرشد جنرل نکلسن تھا جس نے 1857ء میں ان کی گدیاں مضبوط اور جاگیریں محفوظ کیں ۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی ولائت 1947ء میں قائم ہوئی اور پھر دو نسلوں تک بلا مقابلہ چلتی رہی۔ 1971ء کی جنگ کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اسلامی سوشلزم کے شیخ المشائخ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے کے تحت آزاد کشمیر میں بھی اپنی سوشلسٹ ولائت قائم کرلی۔ پھر مرشد اعلیٰ جناب جنرل ضیا الحق نے اپنی ولائت قائم کی تو پچھلے امام کے سارے مقلدین رفو چکر ہوگئے ۔ بینظیر کا دور آیا تو آزاد کشمیر میں برادری ازم جمہوریت اور ٹُن سیاسی کلچر متعارف ہُوا۔ مودی کی ہندتوا کی طرز پر ایک کرپٹ جمہوری نظام متعارف ہُوا جسکا خاتمہ کسی حادثے کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی غلامی میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ وہاں ہندووٗں کی اجارہ داری مسلمانوں کی معاونت سے ہے۔ جموں اور پونچھ کے مسلمان ہندتوا کے حامی ہیں جبکہ وادی کے مسلمانوں کی حالت آزاد کشمیر جیسی ہے۔ جو برادریاں پونچھ اور جموں میں مودی کی حمائت کرتی ہیں وہ ہی آزاد کشمیر میں حکمران ہیں۔ ڈوگرہ دور میں ہندووٗں ، سکھوں ، بدھ مت کے پیروکاروں اور ڈوگروں کے علاوہ عیسائیوں اور مرزائیوں کو مسلمانوں پر برتری حاصل تھی۔ مسلمانوں کے علاوہ باقی مذاھب کے ماننے والوں کو تمام شہری اور انسانی حقوق حاصل تھے۔ ڈوگروں کی حیثیت حکمرانہ تھی اور اُنھیں خصوصی مراعات و سہولیات حاصل تھیں جنکا ذکر متعدد کتابوں اور مراسلات میں آیا ہے۔
آزاد کشمیر میں بھی حکمران برادریوں کو ڈوگروں جیسی مراعات حاصل ہیں ۔ اُن پر ریاستی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو ، ریاست مجرموں کو سہولیات فراہم کرتی ہے ۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ جبر کا نظام کتنا ہی طویل اور خوفناک کیوں نہ ہو اُس کا خاتمہ اُس سے بڑھ کر دردناک ہوتا ہے۔
بنو اُمیہ کے طویل ظالمانہ دور کے بعد بنو عباس آئے تو اُنھہوں نے بنو اُمیہ کے حکمرانوں ، سرداروں اور جاگیر داروں کی قبریں کھود کر اُن کی ہڈیاں جلا ڈالیں ۔ ماوٗں کے پیٹ چاک کیے اور بچے نکال کر کتوں کے آگے پھینک دیے۔ یزید ، مروان ، مالک اور سلمان جیسے فاتحین کے آثار مٹا دیے۔ پھر ایسا ہی بلکہ اس سے بھی دردناک انجام سلطنت عباسیہ کا ہوا۔ تاتاری بھوکے بھیڑیوں کی طرح آئے اور کھوپڑیوں کے مینار بناتے چلے گئے ۔
کہانی طویل ہے مگر مجھے صرف جناب یعقوب نظامی اور اُن کے وطن پونچھ کی بات کرنی ہے ۔ ڈوگرہ دور میں پونچھ جاگیر تھی جسکاراجہ ڈوگرہ خاندان سے ہی تھا۔ پونچھ بڑی ریاست نما جاگیر تو تھی مگر عملاًً ضلع لاہور کی تحصیل تھی ۔ سردار محمد ابراہیم خان (مرحوم) نے بھی اپنی تصنیف ‘‘ دِی کشمیر ساگا’’ میں اسکا ذکر کیا مگر یہ نہ لکھا کہ پونچھ کے راجہ نے ہی آٹھویں کے بعد اُن کے تعلیمی اخراجات اُٹھائے تھے ، اسی طرح میر پور گکھڑوں کی جاگیر تھی جو سلطان زین اُلعابدین بڈھ شاہ کے دور میں عطا کی گئی مگر ضلع گجرات کی تحصیل بھی تھی ۔ یہ ساری انتظامی تقسیم سکھوں ، انگریزوں اور ڈوگرہ ادوار میں ہوئی۔
پونچھ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ۔ یہاں کے قبائل کا رویہ ، جغرافیائی حدود اربع اور زمینی خدوخال قابلِ بیان ہیں ۔ جناب یعقوب نظامی نے اپنی سار ی کتب میں پونچھ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھا جسپر مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔
محمد دین فوق کی‘‘ تاریخ اقوام پونچھ ’’ کو حالیہ دِنوں میں متضاد بنا دیا گیا ہے جس کی بڑی وجہ برادری ازم کی لعنت ہے۔ حالانکہ یہ تحریر جناب محمد دین فوق کی نہیں بلکہ قبائل کے سرداروں اور اھلِ علم نے تحقیق کے بعد اپنی قبائیلی اور گوتی تاریخ لکھی جسے محمد دین فوق نے تحقیق کے بعد شائع کیا۔
محمد دین فوق کو جھوٹا ثابت کرنیوالوں کے پاس بھی کوئی ایسا مواد نہیں جو مبنی بر حقیقت ہو۔ فوق نے گکھڑوں ، سدھنوں ، ملدیالوں اور نارموں سمیت بہت سی اقوام کے شجروں اور گوتی تاریخوں سے اختلاف کیا ہے۔ چونکہ پونچھ کے لوگ ہی آزاد کشمیر پر حکمران رہے ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ آزاد کشمیر کا سارا علاقہ سدھنوں نے بزور شمشیر آزادکروایا ہے۔ حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ سب بے حقیقت ، من گھڑت پراپیگنڈہ اور حکومت پاکستان کی وزارتِ اطلاعات کا جھوٹا بیانیہ ہے۔
نظامی صاحب نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں اِس پراپیگنڈے کی نفی کی ہے مگر جناب رضا علی عابدی ، ایم اے حق مرزا، جنرل اکبر، میجر راجہ میر افضل خان اور دیگر نے کھل کر اس جھوٹے اور من گھڑت قِصے پر کاری ضربیں لگائیں ہیں ۔ میرے پڑھنے والوں کی کوئی فہرست تو نہیں مگر جو لوگ میری تحریریں پڑھتے ہیں اُنکا خیال ہے کہ میں اکثر ڈی ٹریک ہو جاتا ہوں ۔ مجھے اِن ناقدین سے مکمل اتفاق ہے ۔ میں اکثر نہیں بلکہ ہمیشہ ہی ڈی ٹریک ہوتا ہوں۔ میرے نزدیک لکھنا طویل سفر کرنے کے مترادف ہے ۔ سفر قلم کا ہو یا جسم کا ، راستے میں کئی منازل آتی ہیں جنکا بیان ضروری ہے ۔ قلم کے سفر میں آپ اکیلے نہیں ہوتے۔ آپ کو پڑھنے والے بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ میرے آج کے سفر کی کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔ میں وزیراعظم آزاد کشمیر اور حافظ عبدالمالک صاحبؒ آف شاہ کس کی ملاقات کی بات کر رہا تھا۔ وزیراعظم صاحب مہمان تو حافظ صاحب کے تھے مگر ڈیرہ مسجد سے مُتصل ایک ارب پتی سیٹھ کے گھر ڈال لیا۔ حافظ صاحب نماز جمعہ کے بعد حاجی آفریدی کے گھر تشریف لائے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور فرش پر بیٹھ گئے دونوں کے درمیان عربی زبان میں گفتگو ہوئی تو سیکرٹری صاحب نے ایک ڈبہ حافظ صاحب ؒ کے سامنے رکھ دیا ۔ حافظ صاحبؒ نے ڈبہ وزیر اعظم کی طرف سرکاتے ہوئے بڑی معصومیت سے کہا ‘‘یہ آپ کے لیے لائے ہیں ’’ ڈبے میں بریٹا پسٹل تھا جس کی تب دو لاکھ قیمت تھی ۔ حافظ صاحب ؒ نے دُعا کی اور اُٹھ کر مسجد میں چلے آئے۔ وزیر اعظم کا قافلہ ابھی چلا ہی تھا کہ حاجی منگل باغ آفریدی سپاہ خیل نے حاجی آفریدی پر حملہ کر دیا اور اُنھیں اُٹھا کر لے گئے ۔ قبائیل نے جرگہ طلب کیا اور حاجی صاحب پچیس کروڑ تاوان دے کر دو ماہ بعد واپس آئے۔
وزیر اعظم صاحب وہاں سے بچ کر تو آگئے مگر وزارتِ ا عظمیٰ نہ بچا سکے ۔ تھوڑے دِنوں بعد عدم اعتماد کا شکار ہو کر وزارتِ اعظمیٰ کی کرسی کھو بیٹھے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ آپ درویش کے پاس سوالی بن کر جائیں ورنہ خالی ہاتھ لوٹیں گے ۔ سیاسی ولیوں کے ولی اور روحانی دنیا کے ولی میں فرق ہے ۔ جناب نظامی صاحب نے ‘‘کھڑی کے دو سلطان’’ لکھا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ نیام میں ایک تلوار اور ملک کا ایک ہی سلطان ہوتا ہے ورنہ نظام برباد ہو جاتا ہے۔
روسی مفکر ، شاعر اور دانشور رسول حمزہ توف کا یہ قول اکثر دھراتا ہوں۔ ‘‘میرا داغستان ’’ میں لکھتے ہیں کہ بستی میں ایک عقلمند اور ایک ہی بُدھو کافی ہوتا ہے ۔ تعداد بڑھ جائے تو بستی کا نظام تباہ ہو جاتا ہے ۔ پاکستان خاص کر آزاد کشمیر میں یہ فرق کرنا نا ممکن ہے کہ عوام بدھو ہیں یا حکمران۔
ایک طرف پشاور دھشت گردی کی لپیٹ میں تھا اور دوسری طرح سوات آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر در بدر پھر رہے تھے۔ کیمپوں کا منظر درد ناک تھا۔ پشاور کے علاوہ سرحد کے دیگر شہروں میں افغانیوں کی بھر مار تھی جنھیں حکومت اور بیرونی دنیا کی طرف سے بہت سی سہولیات حاصل تھیں ۔ اِن افغانوں کی بڑی تعداد صوفی محمد کے لشکر میں شامل ہو کر پاکستانیوں کے قتل عام میں بھی ملوث تھی مگر پہچان ناممکن تھی۔ آسودہ حال لوگوں نے پشاور کا رُخ کیا اور حیات آباد میں مکان خریدنے اور بھاری رقمیں دیکر کرایہ پر حاصل کرنا شروع کردیں تو پراپرٹی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ میرے پڑوس میں ایک ریٹائیرڈ جج صاحب آباد ہوئے ۔ لوگ اُنھیں اخوانزادہ صاحب کہتے تھے ۔ وہ مسجد میں زیادہ وقت گزارتے تھے ۔ میں بھی اُن کے ساتھ بیٹھنے لگا تو اُنہوں نے بتایا کہ جوانی میں اُنہوں نے جہادِ کشمیر میں حصہ لیاتھا۔ کہنے لگے 1947ء میں میری عمر سترہ سال تھی ۔ جہادِ کشمیر کا سن کر بادشاہ صاحب (والئی دیر) نے اپنی ریاست میں اعلان کیا کہ ڈوگرہ شاہی اور ہندووٗں کیخلاف جہادِ میں شمولیت اختیار کی جائے ۔ بادشاہ کی فوج (دیر سکاوٗٹ) کے ہمراہ سینکڑوں لوگ کشمیر روانہ ہوئے جن کی سربراہی فوج کا کوئی افسر یا تحصیلدار کرتا تھا ۔ جہاد میں شمولیت کی کچھ شرائط تھیں ۔ پہلی شرط ذاتی ہتھیار اور زادِ راہ کا ہونا اور دوسری مقامی لوگوں سے ادب و احترام سے پیش آنا اور اُن کے مشروں (بڑوں ) سے تعاون کرنا ، مقامی لوگوں کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا اور نہ ہی آبادیوں میں ڈیرہ ڈالنا ، کمانڈر کا حکم ماننا اور شہادت کی صورت میں وہی دفن ہونا تھا۔
ہمارا لشکر تین سو افراد پر مشتمل تھا۔ ہم آزاد کشمیر کے علاقہ تتہ پانی سے مینڈھرکے علاقہ میں داخل ہوئے تو ہمیں کسی بھی جگہ ڈوگروں یا بھارتی فوجیوں سے واسطہ نہ پڑا ۔ ہندو سول آبادی پہلے ہی نکل کر جموں چلی گئی یا پھر مقامی لوگوں کے ہاتھوں ماری جا چُکی تھی ۔ سُنا کہ پونچھ شہر جو ایک چھوٹا سا قصبہ ہے میں کچھ ڈوگرہ سپاہ محصور ہے اور چند دِن میں مقامی مجاہدین ، افغان اور قبائلی لشکر اُن کا خاتمہ کر دینگے ۔ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ہم سے پہلے ہی راجوری، مینڈھر ، ریاسی اورملحقہ علاقوں میں کشمیری مجاہدین کی بڑی تعداد موجود ہے جنھوں نے کوئی جنگ کیے بغیر ہی یہ علاقے فتح کر لیے ہیں چونکہ مختصر ڈوگرہ فوج پہلے ہی بجانب جموں نکل چُکی تھی ۔
مقامی آبادی کا رویہ غیر مخلصانہ تھا اور قبیلے ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے ۔ ہمارے کمانڈروں نے اُنھیں مشورہ دیا کہ یہاں ڈیرے ڈالنے کے بجائے آپ جموں ، نوشہرہ یا پھر سری نگر کی طرف یلغار کریں ۔ آپ لوگ یہاں بیٹھ کر کس کا انتظار کر رہے ہیں ۔
ہم نے بتایا کہ ہم نہ تو افغان ہیں اور نہ ہی قبائلی ہیں۔ لوٹ مار جسے قبائل غنیمت کہتے تھے کا ہمیں کوئی لالچ نہیں ۔ ہم نواب آف دیر (بادشاہ) کے حکم پر آئے ہیں ۔ آپ ہمارا ساتھ دیں وقت ضائع نہ کریں ۔ اخوانزادہ صاحب نے بتایا کہ اِس بات پرخود ساختہ کشمیری فوجی افسروں اور راجوری کے مقامی سرداروں سے جھڑپیں شروع ہو گئیں ۔ ہم اُنھیں جہاد کا کہتے تو وہ غصہ ہو کر کہتے تمہیں کس نے یہاں آنے کی دعوت دی ہے ۔ بہتر ہے کہ واپس چلے جاوٗ۔ ہمارے ایک عالم دین نے کہا کہ ہم تو چلے جائینگے مگر بہت جلد تم بھی ہمارے پاوٗں کے نشانات ڈھونڈتے آوٗ گے۔
بہت سے غریب لوگوں نے بتایا کہ ڈوگروں کے ظلم کے ہتھیار یہی لوگ تھے۔ مسلمان نمبر دار، ذیلدار اور سردار ہمیں اپنی رعایا سمجھتے تھے ۔ ہم سے بیگار لی جاتی تھی اور تشدد کیا جاتا تھا ۔ انھیں اپنے کیے ہوئے ظلم کا بدلہ ضرور ملے گا ۔ اگر چھ ماہ تک پاکستان آرمی نے کنٹرول نہ سنبھالا تو بھارتی آ کر ان جعلی مجاہدوں اور سرداروں کو بھی نکال باہر کرینگے ۔ وہ لوگ پوچھتے تھے کہ کیا قائد اعظم ؒ زندہ بھی ہیں یا نہیں ؟ اُنھہوں نے تو کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اب شہ رگ ڈوگروں کے بعد مقامی کمانڈروں اور سرداروں کی گرفت میں ہے ۔ جگہ جگہ سدھنوتی بٹالین اور بریگیڈ کیمپ لگائے بیٹھے ہیں ۔ اِن لوگوں نے کوئی گولی نہیں چلائی ۔ اِن کی آمد سے پہلے ہی ڈوگرے چلے گئے تھے۔
اخوانزادہ صاحب نے بتایا کہ اسی اثناٗ میں خبر ملی کہ افغانوں نے باجوڑ پر حملہ کر دیا ہے ۔ ہمارے کمانڈروں نے فیصلہ کیا کہ برف باری سے پہلے ہی پونچھ سے نکل جانا ضروری ہے ۔ ہم مقامی غریب لوگوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے۔…. جاری ہے …..

Exit mobile version