Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دِنوں کی بات ہے- 21

پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ جناب مولوی عبداللہ صاحب ؒ اور جناب لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہیدستارہ جراٗت (دوبار) کے ذکر کے بغیر ہری پور سے نکلنا مشکل ہے۔ میرا مقصد تحریر مصنف یا تاریخ دان بننا نہیں بلکہ نئی خوابیدہ اور برادری ازم کے دلدل میں دھنسی نسل کو اُن کی تاریخ و ثقافت سے روشناس کروانا ہے۔
مولوی عبدالرحمٰن صاحب مرحوم پسر مولوی محمد عبداللہ صاحب ؒ کا ذکر کر چُکا ہوں ۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب میرے اُستاد محترم ہونے کے علاوہ میرے نانا جناب سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت خان اور اُن کے دو بھائیوں فاریسٹ آفیسر مولوی راجہ محمد اشرف اور راجہ عبداللہ خان کے قریبی دوست تھے ۔ پنجن پہاڑ جہاں ایک سوکھی چیڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر حضرت میاں محمد صاحبؒ عارف کھڑی نے اپنی مشہور عالم تصنیف ‘‘سیف الملوک’’ لکھی سے جنوب اور جنوب مغرب کا علاقہ میرے نانا کی ذیلداری میں آتا تھا ۔ اُن کے بھائی فاریسٹ آفیسر مولوی راجہ محمد اشرف صاحب طویل عرصہ تک اِس علاقہ میں تعینات رہے ۔ آپ عالم دین ، مقرر ، مبلغ اور معلم بھی تھے۔ 1947ء کی جنگ آزادی میں تینوں بھائیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جسکا اعتراف فوجی افسروں ، دیری مجاہدین اور سول انتظامیہ نے تعریفی اسناد ، خطوط اور اِن کی طرف سے بھجوائی گئی کمک کی وصولی کی رسیدوں کی صورت میں کیا۔
مولوی محمد عبداللہ صاحبؒ ، صاحب کرامات ولی اور بہت بڑے عالم دین تھے۔ اِن کے علاوہ کالا ڈب کے میاں جیون صاحب ؒ ، دبلیاہ راجگان موہڑہ قاضیاں کے قاضی ملوؒ ، نرماہ کی ڈھوک کھڈال کے میاں امام دینؒ، گاوٗں پلاہل راجگان کے جناب میاں دولت صاحب مشہور علمی ہستیاں تھیں ۔ میاں امام دین ؒ اور میاں جیون بلند پائیہ شاعر اور مصنف بھی تھے مگر بد قسمتی سے اُن کی کُتب شائع نہ ہو سکیں ۔ ان ہی احباب کے ہم عصر میرے پڑدادا جناب راجہ تانو خان ذیلدار علاقہ ناڑ، دلیا جٹاں ، راجدھانی، نرماہ اور پنجن پلاہل بھی تھے جنہوں  نے شجرہ راجگان جموں کے علاوہ دعائے سریانی کا پہاڑی زبان میں ترجمہ کیا ۔
بد قسمتی سے اِ ن علماٗ کی اولادوں نے ان کا علمی خزانہ ضائع کردیا۔ مولوی عبداللہ صاحبؒ کی کچھ کتابیں جناب مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے چند سال پہلے شائع کروائیں اور مختلف لائیبریریوں میں بطور سند رکھوا دیں ۔ عبداللہ صاحب ؒ کی ساری کتب فارسی اور عربی زبان میں تحریر ہوئیں ۔ مولوی صاحب کا ارادہ تھا کہ وہ اِس علمی خزانے کا اردو ترجمہ شائع کروائینگے تاکہ عام لوگ بھی اس سے فیض حاصل کر سکیں۔ مولوی صاحب اپنا علاقہ ہری پور چھوڑ کر عرصہ سے میر پور میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہائش پزیر تھے ۔ کبھی کبھی وہ میرے بھتیجے راجہ وقار احمد انسپکٹر انکم ٹیکس کے دفتر آتے تو اُن سے طویل گفتگو ہوتی۔ وہ قوت سماعت سے محروم ہو چکے تھے۔ وہ اپنی بات کرتے اور پھر معذرت کرتے ہوئے دُعاوں کیساتھ رُخصت ہو جاتے۔
مولوی عبدالرحمٰن صاحب سے تعلق کا یہ فائدہ ہوا کہ راقم کو بھی مولوی عبداللہ صاحب ؒ کی کتب کی اشاعت میں معمولی حصہ ڈالنے کا موقع ملا۔ (االلہ قبول فرمائے) مولوی صاحب کی عمر ایک سو سال سے زیادہ تھی ۔ کچھ لوگ ایک سو دس یا بیس بتلاتے ہیں ۔ مولوی صاحب طویل العمری کے علاوہ اپنے قبیلے اور بڑے بیٹے کی بے رُخی کی وجہ سے مایوس تھے۔ میرے ساتھ طویل گفتگو کی وجہ بھی یہی تھی چونکہ اُنھیں سننے والا کوئی نہ تھا۔
ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ مولوی عبداللہ صاحب ؒ کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ رحلت سے پہلے اُنہوں نے علاقہ کی اہم شخصیات کی دعوت کی اور فرمایا کہ اب میرا وقت رخصت قریب ہے ۔ میری بیوی حاملہ ہے مگر بچے کی پیدائش بہت سالوں بعد ہوگی ۔ اُسکا نام عبدالرحمٰن ہو گا ۔ آپ سے درخواست ہے کہ کوئی میری بیوی کے کردار پر شک نہ کرے۔ میری نانی اور دادی محترمہ کے علاوہ علاقہ کی بزرگ ہستیوں نے بھی اِس بات کی تصدیق کی کہ جناب عبدالرحمٰن صاحب کی پیدائش مولوی عبداللہ صاحب ؒ کی پیشن گوئی کے عین مطابق ہوئی۔
میرے بڑے بھائی راجہ ذوالقرنین خان مرحوم اکثر مولوی عبداللہ کی قبر مبارک پر تیننی کے پہاڑ پر جایا کرتے تھے ۔ سبز کوٹ سے تندڑ جانے والی سڑک سے ہٹ کر اور مشکل چڑھائی کے بعد یہ مقام آتا ہے۔ بھائی جان مرحوم و مغفور کی بزرگان دین سے عقیدت کے علاوہ والد محترم مولوی محمد عزیز صاحبؒ کے پیر و مرشد جناب پیر مہر علی شاہ ؒ آف گولڑہ شریف کے اُستادوں میں جناب مولوی عبداللہ صاحبؒ بھی شامل تھے ۔ پیر صاحب نے ریل کے سفر کے دوران اپنے مریدوں کو بتایا کہ میں نے معقول و منقول کا علم کسی مستند اُستاد سے حاصل نہیں کیا۔ ساتھ بیٹھے کسی مسافر نے بتایا کہ میرپور کے سامنے ایک بلند مقام پنجن کہلاتا ہے۔ وہاں ایک عالم دین اور درویش کا مسکن ہے اور نام مولوی محمد عبداللہ ؒ ہے ۔ آپ کراماتی فقیر ہیں ۔ ایدھر توجہ کی تو اُدھر علم منتقل ہو گیا ۔ طالب کیلئے ضروری ہے کہ وہ متقی اور پرہیز گار ہو ۔ اُس کی روح میں اتنی قوت ہو کہ وہ ولی کامل کی توجہ اور علم کا نور برداشت کر سکے۔
پیر صاحب نے دریافت کیا کہ اُن تک پہنچنے  کا کوئی طریقہ ہے؟
بتایا گیا کہ وہ اکثر میر پور میں مقیم ایک درویش اور صوفی شاعر پیر نیک عالم شاہ صاحبؒ کے پاس تشریف لاتے ہیں ۔ میرپور اور ملحقہ جہلم کے لوگ اُنھیں پہاڑ والے مولوی صاحب کہہ کر پُکارتے ہیں ۔ پیر صاحب گولڑہ شریف نے فرمایا کہ نیک عالم شاہ صاحبؒ کو میں جانتا ہوں۔ اُن کی صوفیانہ شاعری سارے پنجاب میں پڑھی جاتی ہے ۔
بھائی صاحب مرحوم و مغفور فرماتے تھے کہ پیر صاحب ؒ مریدوں کی ایک جماعت لیکر نیک عالم صاحبؒ کے گھر تشریف لائے اور اپنا مدعا بیان کیا ۔ تجسس کا یہ عالم تھا کہ نیک عالم شاہ صاحبؒ کے گھر مختصر قیام کیا اور پھر رہبر لیکر اُسی دِن ہری پور کے مشکل پہاڑ پر عبداللہ صاحب ؒ کے ہاں پہنچ گئے ۔ عبداللہ صاحب ؒ نے کھانے کا انتظام کیا اور مشورہ دیا کہ آپ کی پیری مریدی کا سلسلہ ہے۔ علاوہ اس کے آپ کی زمینداری بھی ہے اسلیے گزارش ہے کہ آپ واپس گولڑہ شریف تشریف لے جائیں ۔ نماز عصر اور مغرب کے درمیان آپ تخیلے میں بیٹھ جائیں اور اپنی پگڑی خوب بگھو کر سر پر باندھ لیں ۔ میں یہاں بیٹھ کر پڑھونگا تو علم آپ کے قلب پر منتقل ہو جائے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے دو خادم ساتھ رکھیں ۔ پہاڑ کے نیچے ایک وسیع غار ہے جو صاف ستھری اور ہر لحاظ سے محفوظ ہے ۔ آپ کا قیام اس غار میں ہو گا اور آپ کے لیے کھانا میرے گھر سے جائے گا ۔ میں گجر برادری سے تعلق رکھتا ہوں ۔ مال مویشی اور غلے کی کوئی کمی نہیں ۔ اللہ نے مجھے ہر لحاظ سے آسودہ کر رکھا ہے ۔
دونوں صورتوں میں چلہ ایک ہفتے کا ہوگا ۔ دِن کو میں آپ کے ساتھ رہونگا اور رات آپ کی عبادات کیلئے ہے۔ پیر صاحب ؒ نے غار میں رہنا پسند فرمایا اور ایک ہی ہفتے میں علم کی دولت سمیٹ کر واپس چلے گئے ۔
اگرچہ میں اپنے بھائی صاحب سے نہ پوچھ سکا مگر یہ بات یقیناًوالد محترم نے ہی بتائی ہوگی ۔ تقسیمِ ہند سے پہلے والد صاحب عرصہ تک گولڑہ ریلوے اسٹیشن پر تعینات رہے ۔ وہ ریلوے پولیس کے ملازم تھے اور چھٹی کا وقت اپنے مرشد کی رفاقت میں گزارتے تھے۔بھائی جان مرحوم نے گولڑہ شریف کے موجودہ صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا تو فرمانے لگے مجھے اسکا علم نہیں ۔
مولوی عبداللہ صاحبؒ بھمبھر کے جاگیر دار اور سابق صدر آزاد کشمیر راجہ ذوالقرنین خان کے والد گورنر جموں راجہ افضل خان اور دادا جنرل راجہ فرمان علی صاحب کے بھی مرشد تھے۔ راجہ ذوالقرنین خان جن دِنوں مسلم کانفرنس میں تھے اور سردار عبدالقیوم خان کی حکومت میں وزیر تھے تو انہوں نے ہری پور جسکا نام ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے نام پر رکھا گیا تھا کو بدل کر عبداللہ پور رکھنے کی تجویز پیش کی ۔
حکومتی قرارداد کے مطابق ہری پور کا نام عبداللہ پور تو رکھ دیا گیا مگر مقامی گجر قبیلے کے باسٹھ افراد جن میں مولوی عبدالرحمٰن صاحب کا برادرِ نسبتی اور اُن کے بڑے صاحبزادے مولوی واحد چشتی کے سسر نے بھی عبداللہ پور کی مخالفت کی۔ مولوی واحد چشتی ہمارے ہم جماعت بھی تھے اور میٹرک کے امتحان کے بعد اپنے ماموں سسر کے ساتھ ہالینڈ منتقل ہو گئے ۔ اُن کے سسر جنکا نام غالباً حاجی عبدالرحمٰن تھا ایک مالدار اور ہالینڈ میں بڑے کاروباری شخص تھے۔
مولوی عبدالرحمٰن صاحب طویل العمری ، بیماری اور مالی کمزوری کے باوجود  پر عزم رہے۔ راقم کیساتھ اُن کی طویل گفتگو کا محور یہی مقدمہ تھا۔ میں نے اپنے بیٹے عمار ایوب راجہ (ایڈووکیٹ) سپریم کورٹ کو ہدایت کی کہ مولوی صاحب سے رابطہ رکھے ۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ عمار اور وقار نے میرے کاغذات دیکھے ہیں اور دیگر وکلاٗ سے بھی مشورہ کیا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ آپ کا کیس مضبوط ہے ۔ انشااللہ فیصلہ آپ کے حق میں ہو گا۔
ایک دِن عمار نے مولوی صاحب کے حق میں ہونے والے فیصلے کی نقل بھجوائی۔ وقار نے بتایا کہ حکومتی گزٹ نوٹیفکیشن سپریم کورٹ نے بحال کر دیا ہے اور فوری عمل درآمد کا حکم بھی جاری کیا ہے ۔ میرا خیال تھا کہ میں میرپور جاکر مولوی صاحب کو مبارک باد پیش کرونگا۔ پچھلے سال عید پر گاوٗں گیا تو اکالگڑھ کراس اور پیر گلی کے مقام پر دو بڑے بورڈ دیکھے۔ عبداللہ پور کے نیچے جموں روڈلکھا تھا جو اِس مغلیہ شاہراہ نمبر 3کا قدیم نام تھا۔ پیر گلی کے مقام پر میں نے ملٹری پولیس والوں سے پوچھا تو کہنے  لگے کے یہ بورڈ چھ ماہ پہلے ہی نصب ہوا ہے ۔ اس بورڈ کے قریب پنجن کے ایک وکیل نے اپنے پرائیویٹ سکول کا بڑا بورڈ نصب کیا جسے لوگوں نے اکھاڑ پھینک دیا۔ بورڈ نصب کرتے ہوئے وکیل نے پولیس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اِس بورڈ کو چھیڑا گیا تو سمجھو تم سب کی نوکری ختم ۔ بورڈ اکھڑنے کے بعد اُس نے پولیس والوں سے پوچھا کہ میرے سکول کا بورڈ کہاں گیا ۔ پولیس کے سپاہی نے کہا کہ ہم تمہارے بورڈ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ۔ البتہ عبداللہ پور کا بورڈ ضلعی انتظامیہ نے نصب کیا ہے اور ہماری ذمہ داری میں ہے۔
مولوی صاحب مرحوم کی برادری سے تعلق رکھنے والے قاری عبداللہ پلاہلوی سے پوچھا کہ مولوی صاحب آجکل کہاں ہیں ۔ اُنہیں مبارک دینے کا ارادہ ہے ۔ قاری صاحب نے بتایا کہ مولوی صاحب اب اِس دُنیا میں نہیں رہے (إنا لله وإنا إليه راجعون)۔ مقدمہ کے فیصلے کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ اِس دُنیا فانی سے رُخصت ہو گئے۔

——(جاری ہے) —–

Exit mobile version