Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دنوں کی بات ہے- 6

دادی اماں کی وفات کے بعد میں نے  گورنمنٹ مڈل سکول پونہ سے چھٹی جماعت کا سرٹیفکیٹ لیا  اور  واپس پلاہل خورد جا کر داخلہ لے لیا۔ جن دنوں میں نے  سکول جانا شروع کیا تھا تب پلاہل کلاں میں ایک ہی پرائمری سکول تھا جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ پلاہل کلاں میں لڑکیوں اور لڑکوں کا سکول میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ  ولائیت خان نے ڈوگرہ دورمیں منظور کروایا مگر عمارت نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں کا سکول اور یونانی ڈسپنسری چوہدری نور محمد صاحب کے ایک گھر میں قائم ہوئی۔ ایو ب خان کے دورمیں بی ڈی سسٹم رائج ہوا تو ذیلدار صاحب نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے اپنی جگہ چوہدری نور محمد کو نامزد کیا تو علاقہ بھر کے لوگوں نے ذیلدار صاحب کی رائے  کو اہمیت دیتے ہوئے چوہدری نور محمد صاحب کو پہلے بی ڈی ممبر اور پھر چیئرمین یونین کونسل راجدھانی منتخب کیا۔ چوہدری صاحب میرے نانا کی شفقت کو ہمیشہ یادکرتے اور ہمارے خاندان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ  ہفتے میں ایک بار حضرت مائی نوشہ ؒ کے پاس حاضری دینے آتے تو  سب سے پہلے کچھ دیر میری والدہ محترمہ کے پاس بیٹھ کر ذیلدار صاحب کا ذکر کرتے۔ وہ اکثر میری والدہ کا شکریہ ادا کرتے اور کہتے کہ آپ میری بہن ہی نہیں بلکہ میرے استاد اور قائد کی بیٹی ہو.   میری سیاست اور عزت ذیلدار صاحب کی وجہ سے ہی ہے۔

ابھی ہم لوگ پلاہل کلاں کے پرائمری سکول میں ہی تھے کہ پلاہل راجگان کے راجہ ر عائت خان صاحب نے سیکرٹری تعلیم راجہ ولائیت خان آف جبوٹ کی وساطت سے پلاہل راجگان میں بھی ایک پرائمری سکول منظور کرو الیا۔ راجہ ر عائت خان رائل کور آف سگنل میں بھرتی ہوئے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ریٹائر ہوگئے ۔ راجہ صاحب سخت طبیعت کے آدمی تھے۔ وہ جتنے سخی اور غر یب پرور تھے اتنے ہی جذباتی اور خشک طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے زندگی میں کبھی انہیں مسکراتے نہیں دیکھا۔ فوج سے آنے کے بعد انہوں نے دکانداری شروع کی .بعد میں اُن کا    بڑا  بیٹا ساٹھ کی دہائی میں انگلینڈ چلا گیا جس کی وجہ سے وہ پہلے سے زیادہ مالدا ہوگئے۔ پلاہل راجگان کے سبھی مرد برٹش انڈین آرمی یا پھر برٹش کمرشل نیوی  میں ملازمت کرتے تھے۔ 1947کے بعد ان میں سے بیشتر برطانیہ کی مختلف بندرگاہوں پر اتر گئے اور پھر  جب  تک انہیں وہاں کی شہریت نہ ملی وہ وہی مقیم رہے .ان لوگوں کو انگریز ی زبان   اور برطانوی تہذیب  سے پہلے ہی واقفیت تھی جو ان کی سہولت اور محنت مزدوری کا باعث بنی۔ میرے پاس ایسے بہت سے لوگوں کے خطوط موجود ہیں جو انہوں نے میرے ناناسفید پوش ذیلدار راجہ ولائیت خان کے نام لکھے۔ ان خطوط میں لکھا کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو برٹش پولیس کو غیر قانونی تارکین وطن کی اطلاع  دیکر  پانچ پونڈ   کماتے ہیں. فی الحال ہمارے علاقے کا کوئی آدمی پکڑا نہیں گیا مگر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ پھر انگلینڈ جانے کا دوسرا دور شروع ہوا اورٹریول ایجنٹوں نے دھڑا دھڑ لوگوں کو یورپ کے مختلف ممالک میں بھجوانا شروع کر دیا ۔ ہمارے علاقہ کے بیشتر  لوگوں  کو راجہ عارف خان مرحوم اور  گاؤں  جبوٹ کے راجہ سنگر خان مرحوم جو میری والدہ کے ماموں زاد تھے انگلینڈ بھجوایا۔ ہمارے گاؤں کے حوالدار عبدالعزیز مرحوم  اپنی روئیداد سنایا کرتے تھے کہ وہ کن پریشانیوں سے گزر کر انگلینڈ پہنچے۔ سب سے بڑی پریشانی پندرہ سے اٹھارہ سو روپے کا حصول تھا۔ اُس وقت ہوائی جہاز صرف کراچی سے جاتا تھا۔ پاسپورٹ کا حصول بھی مشکل کام تھا. تب آزادکشمیر میں کوئی پاسپورٹ آفس نہ تھا۔ لوگ پاسپورٹ بنوانے راولپنڈی جایا کرتے تھے۔ بینک اور ڈاکخانے  بھی کم ہی تھے جبکہ ٹیلی فون کا دیہاتیوں نے صرف نام  ہی سن رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے  قریبی  گاؤں کالڑ کاکس شخص کا بیٹا بن کر انگلینڈ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ پہلے پہل لوگ بحری جہازوں سے اتر کر انگلینڈ کے شہروں اور دیہاتوں میں جا چھپے تاکہ اُن کے خاندان آسودہ حال ہو سکیں۔ تارکین وطن کی اس کھیپ سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی کچھ لوگ انگلینڈ، جرمنی، فرانس بلکہ امریکہ کی مختلف بندر گاہوں پراُترے۔ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جن میں میرپور آزادکشمیر کے علاوہ سرینگر، جموں اور تبت کے سرحدی علاقوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کی الگ الگ کہانیاں ہیں .کچھ لوگ مغربی ممالک سے کشمیر اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں اپنی حکومتوں کی طرف سے خفیہ مشن لیکر آئے اور وہ مقامی لوگ جواُن کے مد د گار بنے انہیں بھی ساتھ لے گئے۔

مغربی ممالک میں جانیوالوں کی تیسری کھیپ اُن ریٹائرڈ فوجیوں کی تھی جنہوں نے برٹش انڈین آرمی میں نوکری کی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ میں مزدوروں کی انتہائی قلت تھی۔ شفیلڈ، برمنگھم، مانچسٹر اور  دیگر شہروں میں کوئلے کی کانوں، سٹیل    فیکٹریوں، کپڑے کی ملوں کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے قلی، مزدور اور ریلوے میں صفائی   اور ایسے ہی دیگر کاموں کے لیے عملہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان، بھارت، موجودہ بنگلہ دیش  اور دولت مشترکہ کے لوگوں کو انگلینڈ آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ لوگ جب وہاں کے شہری بن گئے توا نھیں اپنے بیوی بچے منگوانے کی اجازت بھی مل گئی۔

یہ اجازت نامہ خوشحالی کا دعوت نامہ ثابت ہوا جس سے صرف مسلمانوں نے ہی فائدہ اٹھایا۔ نکاح  نامے  کا رواج تب  کم تھا اگر تھا بھی تو صرف  مولوی صاحبان  کے رجسٹر یا چوکیدار کے پاس ہی ہو تا تھا جس کا اندراج نمبردار کی موجودگی میں ہوتا .پاسپورٹ کا حصول بھٹو دور میں تب آسان ہوا جب مشرق وسطیٰ میں پیٹرو ڈالر کا سیلاب آیا اور مزدوری کی مانگ  اچانک بڑھ گئی۔ اس دور میں شناختی کارڈ بھی متعارف ہوا تو ملک میں  جعلی شناختی کارڈوں، پاسپورٹوں، ڈرائیونگ لائسنسوں  اور مختلف پیشوں کے ڈپلومے، اور سرٹیفکیٹ بنانے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا۔ اسی دور میں انسانی سمگلنگ  کا کاروبار بھی شرو ع ہوا جس میں جہلم، گجرات، راولپنڈی  اور کراچی کے سمگلروں نے عالمی سطح پر نام کمایا۔

انگلینڈ میں مقیم تارکین وطن نے دو دو  چار چار بیویاں رجسٹر کروائیں اور د س سے پندرہ تک بچوں کے نام بھی  درج کروا دیے۔   اُس دور میں صرف   بیٹے منگوانے کا رحجان بڑھا تو تارکین وطن جنہیں پاکستان  اور آزادکشمیر میں ولائیتیاں کہا جاتا تھا نے اپنے بیٹوں کے علاوہ بھا نجے ، بھیتجے، دور کے رشتہ دار اور پھر پڑوسیوں کے علاوہ دوسری برادریوں کے بچے بھی ولائت منگوانا شروع کر دیے۔ پلاہل کلاں، خور د اور راجگان کی ہی مثال سامنے رکھیں تو کسی جٹ یا راجپوت کے گھر نوکر نہیں ہوتا تھا۔ فوج کی تنخواہ ، پنشن، حیدر آباد میں ملوں کی مزدوری اور بحری جہازوں میں فائیر مین یا قلی کی تنخواہ سے روٹی اور کپڑا توآسان ہو گیا مگر سوائے چند ایک کے کسی کا پختہ مکان بھی نہ تھا۔

پہلی کھیپ انگلینڈ سے واپس آئی تو دیہاتی کلچر میں تبدیلی آگئی۔ لوگوں نے اپنی زمینوں کی وٹ بندی شروع کی اور ایک دوسرے کے آڑ ے بنے بھی کھود ڈالے .وہ لوگ جو انگلینڈ نہیں گئے تھے وہ ان کے گھروں میں تھوڑی بہت مزدوری،کھانے اور کپڑے کے علاوہ اس لالچ پر کام کرنے لگے کہ کوئی سخی سلطان اُن کا بیٹا اپنا بیٹا بنا کر انگلینڈ لے جائے اور  پھر ایسا ہی ہوا۔ ہر وہ شخص جو ولائت پلٹ  راجے کے گھر کام کرتا تھا اسکا بیٹا بھی انگلینڈ پہنچ گیا۔ پلاہل خورد  اور   راجگان کے راجہ راسب خان ، راجہ یوسف خان ، راجہ بنارس  خان اور  حوالدار  راجہ اللہ دتہ خان کے علاوہ ٹریول ایجنٹ راجہ عارف اور جبوٹ کے راجہ سنگر خان جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے علاقے کی خوشحالی کا باعث بن گئے. اُن دنوں پلاہل کلاں اور جاٹ برادری کی ملحقہ بستیوں میں صر ف ایک ہی چوہدری تھا جنکا نام چوہدری نور محمد تھا۔ بیان کردہ راجگان نے جاٹ برداری میں اپنے چند دوستوں کے علاوہ گھروں اور کھیتوں کی دیکھ بھال کرنیوالوں کے بچوں کو بغیر کسی معاوضے کے نہ صرف انگلینڈ منگوایا بلکہ انہیں مزدوری  ملنے تک اپنے بچوں کی طرح گھروں میں رکھا۔ آج ہمارے علاقے میں ہر شخص چوہدری ہے جبکہ راجگان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے  بچو.جاٹ برادری معاشی لحاظ سے تو مضبوط ہوگئی مگران میں کوئی چوہدری نور محمد نہ بن سکا۔ ان لوگوں نے ایک ایسے شخص کو لیڈر تسلیم کر لیا جس کے ساتھ  نہ تو کسی کی رشتہ داری ہے اور نہ ہی اُس کی گوت یا قبیلہ ان سے ملتا ہے۔ سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے جاٹ اور راجپوت دو نوں قبیلے راندہ درگاہ ہوچکے ہیں۔ اُن کی عزت اور جان و مال سیاسی مافیا کے قبضے میں ہے . آج تینوں بستیوں کے لوگ   خوف  کی زندگی جی رہے ہیں چونکہ ریاستی مشینری مافیا کے ایندھن پرچلتی ہے۔ عالیشان محل نما مکان،دو دو کروڑ کی نئے ماڈل کی گاڑیاں، اسلحہ کی نمائش، پٹواریوں، تھانیداروں کے علاوہ مافیا ممبران کی دعوتیں مگر عزت نفس اور اظہار رائے پر مافیا کا قفل۔ دونوں قبیلوں کے درمیان مافیا کی خوشنود ی کی خاطر عداوتیں، سوشل  بائیکاٹ حتیٰ کہ مساجد ومدارس میں داخلہ ممنوع۔ تعلیمی اداروں میں راجپوتوں کے بچوں کا استحصال اورا نہیں کم نمبر دینا او رفیل کرنا کار ثواب، زمینوں پر انتظامیہ کی مدد سے قبضے، جھوٹے مقدمے اور نفرت و حقارت کی آبیاری برادری اور لیڈر کی خدمت۔ ہر دو برادریوں میں علم کی بھی کمی نہیں مگر شعوری قوتیں بوجہ زائل ہو کر مادیت کے پنجرے میں مقید ہوگئی ہیں۔ آج جہاں بھی عقل وشعور کی کمی اور دولت کی فراوانی ہے وہاں انسان خدائی کے دعویدار بناوٹ اور بداخلاقی کا شکار ہیں۔ برادری ازم کا ناسور جب عدلیہ اور انتظامیہ کی رگوں تک سرعت کر جائے، قانون دان قانون شکن ہو جائیں تو  ریاست کا ڈھانچہ بکھر جاتا ہے۔ جاہل اور اجڈ نودولیتے سیاستدان اور اُن کی بین پر ناچنے والے نہیں سمجھتے کہ اللہ کو اپنی زمین پر انسانوں کا اترانا پسند نہیں۔ ان کے بظاہر پڑھے لکھے اور دانشمندی کا دعویٰ کرنے والے بھی اس وباء سے مبرا نہیں بلکہ وہ ان کی محفل میں بیٹھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک  حلقے ، علاقے یا گاؤں کا نہیں بلکہ ساری ریاست کا المیہ ہے جس کی جڑ یں پاکستانی سیاست سے جڑی ہوئی ہیں۔ سطحی سوچ ہوس و حر ص کی بیماری سے شاید ہی  کوئی پاکستانی محفوظ ہو۔ اعلیٰ و ادنیٰ، خاص و عام، حکمران و عوام ہر انسان کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے  کو یا پھر ملک کو لوٹ کر آسودگی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جب  جسم     بیمار   ہو تو شہ رگ کیسے محفوظ رہ    سکتی ہے ۔

کل تیرہ جولائی کا دن تھا۔ تیرہ جولائی کے  سانحے  کے بعد قائداعظم ؒ نے دورہ سرینگر کے دوران تین اہم اعلان کیے  ۔ مسلم کانفرنس کو مسلم  لیگ کا متبادل قرار دیا۔ چوہدری غلام عباس کو کشمیر میں اپنا جانشین مقرر کیا  اورکشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ جس طرح پاکستانی اشرافیہ، سیاسی مافیا، صحافیوں، دانشوروں اور نوکر شاہی نے ملکر قائداعظم ؒ  کے پاکستان کو لوٹا اور عام آدمی  کو بد حال کیا اسی طرح انہوں نے آزاد کشمیر  میں اپنی اپنی دکانیں کھول کر اور  معاشرے سے کچرا چن کر اپنے جانشینوں کی صورت میں بٹھا دیا۔ کل ہی کے دن نئی ٹییلسکوپ کے ذریعے کہکشاؤں کے مناظر سوائے پاکستان کے ساری دنیاکے بچوں کو دکھلائے گئے یہ ایک عظیم اور عالمگیر مشاہدہ توتھا مگر پاکستان میں عدلیہ کے ایک فیصلے کو ایک طرف عظیم کامیابی اور دوسری جانب  سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جب عدالتی فیصلے  مشکوک ہو جائیں تو اُن کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے مگر یہاں کسی کو اسکا احساس نہیں ہوتا۔ کل ہی ایک  امریکی سینیٹر نے فرمایا کہ ہم دنیا میں بہت  سی حکومتیں بدل چکے ہیں مگر کبھی کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی اور انوکھی بات بھی نہیں. ہمارے ہاں بھی  تو طاقتور لوگ اپنی پسند کے پٹواری، تھانیدار، تحصیلدار اور ڈپٹی کمشنر حتیٰ کہ آئی جی، چیف سیکرٹری اور جج بھی تعینات کرواتے ہیں۔ جب قومی  لیڈر اور عوامی نمائندے  اپنے  مفادات کے تحفظ کے پیش نظر قومی مفادات کا سود ا کرنے کوتیار ہوں اور قوم بے حس اور غرض مند ہو تو سیاسی اور سفارتی اخلاقیات بے معنی ہوجاتی ہیں۔

یوم شہداکشمیر ہو یا یوم شہدا جموں، ان کی اہمیت محض علامتی ہے جبکہ  موجودہ  کشمیری قیادت کو ان شہیدوں اور اُن کے کارناموں سے کوئی غرض نہیں۔ عام لوگ ڈوگروں کے مظالم کو بھول کر آزادی کے نعرے لگانے والے ڈوگروں، سکھوں، افغانوں اور مغلوں کے مشترکہ جانشینوں کے جبر کا شکار اپنی عزت نفس بچانے کی فکر میں ہیں۔

ہماری اعلی عدلیہ نے رجیم چینج کا جس طرح فیصلہ سنایا ہے یہ بھی ہماری عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہے۔یقینا اس فیصلے کے بعد عدلیہ کا گراف اوپر نہیں گیا ہوگا . اس سے پہلے حمز ہ شہباز کو و زارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رکھنے کے فیصلے کو نوائے وقت کے متعدد کالم نگاروں نے پنچائیتی فیصلہ قرار دیا ہے۔ عدالتوں کے فیصلے جس تواتر سے آرہے  ہیں  لگتا ہے کہ  جلد یا کچھ دیر بعد لوگ پنچایئتوں پر ہی گزارہ کرینگے۔ خاندانی سیاست جس طرح مضبوط سے مضبوط تر ہو تی جارہی ہے  اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ الیکشنوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔ الیکٹ  ایبل  اورحکمران خاندان ملکر ایک ایسا  نظام  وضح کرینگے اورخاندانی جمہوری نظام متعارف کروانے میں کامیابی حاصل کرلینگے۔  دیکھا  جائے تو موجودہ دور خاندانی جمہوری نظام کا ہی دور  ہے جسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا  جا سکتا   اگرچیلنج ہو بھی جائے توآئین میں اس نظام کے تحفظ کی  گنجائش موجود ہے . کچھ روز پہلے ایک ڈنر پارٹی میں ہم  پیشہ لوگوں سے ملاقات ہوئی.  جو نوکری میں تھے وہ خاموش تھے اور ریٹائرڈ حضرا ت کھل کر باتیں کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ تین ماہ سے صحیح طرح سو نہیں پائے. وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ملکی حالات جس طرف جا رہے ہیں ان کی وجہ سے کچھ خوف سا طاری ہے۔ میں نے مشرقی پاکستان کا المیہ دیکھا ہے۔ میری پیدائش ڈھاکہ کی ہے اور  1971 میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ڈھاکہ  فال ہونے سے کچھ ہی روز پہلے ہم کسی طرح براستہ سری لنکا کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اب بھی حالات ویسے ہی ہیں اور  ہر کوئی اقتدار کی جنگ لڑ رہا ہے۔ قیادت اور عدل کا فقدان عوام شعوری قوتوں سے عاری اور  سیاسی شعبدہ باز مفاد پرست سیاستدانوں  کی بین پر ناچ رہے ہیں جس کا نتیجہ 71سے بھی   زیادہ ہولناک ہو سکتا ہے۔

وہ صاحب بات کر رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے دوسرے شخص نے کہا یار  سوچا مت نہ کرو، یہ سب چلتا رہتا ہے۔ گالف کھیلا کرو تمہارے بیٹے ملک سے باہر ہیں  اور بڑے کاروباری ہیں۔ ان کے پاس جاؤ، دنیا دیکھو  اور خوش رہو۔پہلے صاحب خاموش رہے ،میں نے کہا اس کے بیٹے باہر ہیں اور خود بھی مالدار ہے۔ مجھے بھی  یہی بیماری لاحق ہے  بتاؤ میں کہاں جاؤں ؟میرے بچے نہ کاروباری ہیں اور نہ ہی مجھے گالف کا شوق ہے۔ ہو بھی تو اتنا  پیسہ  نہیں کہ گالف کی ممبر شپ حاصل کر سکوں۔ اللہ کی زمین پر میرا کوئی ذاتی گھر نہیں اور نوکری کے دوران قرعہ اندازی میں کبھی میرا پلاٹ نہیں نکلا۔ مشورہ دینے والے اٹھ کر اپنی پلیٹ دوبارہ بھر نے چلے گئے تو اورنگزیب نے کہا سر آپ اب  بھی بہتر ہیں۔ اکیس کروڑ اسی لاکھ پاکستانیوں کا کیا ہو گا۔ احسان صاحب جو سوچتے ہیں وہ بھی  درست ہے ، ہر پاکستانی دن میں ایک بار ایسا ہی سوچتا ہے مگر اظہار نہیں کر سکتا۔ دولت مند کو مزید دولت درکار ہے۔ سفید پوش اور غریب کو روٹی کی فکر ہے، جبکہ اشرافیہ اور سیاسی مافیا کو صرف اقتدار سے غرض ہے۔

در اصل میری سوچوں کا طلاطلم مجھے  کہیں سے  کہیں  بہا لیجاتا ہے۔ میں اپنے علاقے کی خوشحالی کی بات کر رہا تھا  جو اخلاق، آداب اور معاشرتی میل جول اور اچھی روایات کی تباہی کا باعث بنی۔ میں ضمیر حسین اور راجہ ر عائت خان کی بات کر رہا تھا جو سخت طبیعت رکھنے والے انسان تھے۔ قریبی گاؤں کا لڑکا ضمیر حسین کسی کا بیٹا بن کر انگلینڈ گیا تو اسے جلد ہی کوئی ملازمت مل گئی . ان دنوں انگلینڈ میں مزدور طبقہ رہائش کی کمی کا شکار تھا۔ ایک ایک کمرے میں دس دس لوگ رہتے تھے۔ بنک بیڈ پر اوپر نیچے تین لوگ سوتے تھے۔ ایک وقت میں کبھی سارے لوگ کمرے میں بھی نہ ہوتے تھے  چونکہ ہر ایک کی نوکری کا وقت الگ تھا ۔ جو رات کو کمرے میں ہوتے و صبح سویرے کام پر چلے جاتے۔ ایٹچ باتھ روم کا بھی کوئی رواج نہ تھا۔ کمیونل  غسل خانوں میں  لائن لگانی پڑتی تھی  مگر ضمیر حسین خوش قسمت نکلا  اور اسے رہائش کے لیے الگ کمرہ مل گیا جہاں اُس نے سائیڈ ٹیبل پر ایک ٹیلی فون لگوا لیا۔ ایک دن میں کالاڈب گاؤں میں چوہدری شاہ محمد صاحب کی دکان پر سودا لینے گیا تو وہاں چوہدری صاحب کی برادری کے پندرہ بیس لوگ جمع تھے اور ضمیر حسین آف ٹھیرہ کے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ یہ  ویساہی ٹیلی فون ہو گا   جیسا پیر گلی ایم پی چیک پر رکھا ہوا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ فوجی ٹیلی فون الگ ہوتے ہیں۔ ایک صاحب حید رآباد میں کسی سیٹھ کے گھر ملازم رہ چکے تھے  انہوں نے بتایا کہ ٹیلی فون کالے رنگ کا ہوتا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد اُس گاؤں کے حنیف نے بھی الگ کمرہ لیا اور ٹیلی ویژن لگوا لیا۔ چوہدری صاحب کی دکان پر پھر بحث  ہوئی مگر ٹیلی ویژن کا   مسلہ  حل نہ  ہو سکا ۔

اُن  دونوں  ریڈیو کا رو اج تھامگر سارے علاقے میں صرف دو ریڈیو تھے۔ہمارے محلے کے راجہ مہربان صاحب کے پاس  پائی کمپنی کا ریڈیو تھاجو میرے سسر راجہ  بشیر احمد انگلینڈ سے لائے تھے۔ دوسرا ریڈیو پلاہل راجگان والے راجہ بشیر صاحب اپنے  والد  راجہ ر عائیت خان کے لیے لائے تھے جسے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کونسی کمپنی کا ہے اور کیسا ہے۔

اس سے پہلے میرے نانا کے گھر ایک بڑ ے سائزکا گراموفون ہوتا تھا جسے چابی والا باجا کہتے تھے .ذیلدار صاحب جب  اپنے کچھ خاص دوستوں جن میں سید زمان شاہ، راجہ لال خان پٹواری، فاریسٹ آفیسر چوہان صاحب ، میجر راجہ عباس ، کرنل راجہ عدالت خان ،  میجر رشید  اور تھانیدار راجہ عدالت صاحب کی محفل میں بیٹھتے  تو اُن کا کوئی ملازم چابی والا باجا ٹیبل پر رکھ دیتا۔ زمان شاہ صاحب پہلے ریکارڈ فلالین کے کپڑے سے صاف کرتے، سوئی بدلتے اور ریکارڈ پر سوئی والا  ہیڈ رکھ  دیتے.  شرکا محفل حقے کے کش لگاتے، چائے  سے لطف اندوز ہوتے اور کتے کی تصویر والے ریکارڈ  سنتے .سارے ریکارڈ ملکہ پکھراج  اور روشن  آرا بیگم کی غزالوں، ٹھمریوں اور سہگل اور دوسرے پرانے غزل گو  گلو کاروں کی آواز  میں ہونے کی وجہ سے ہمیں سمجھ نہ  آتے  اور نہ ہی بچے اس محفل میں شریک ہوتے . بعد میں میرے ماموں بیٹر ی سیلوں والا  گراموفون  لائے  جس پر لتا، رفع، شمشاد بیگم اور بعد میں نور  جہاں، عالم لوہار، مہدی حسن، رو نا لیلیٰ،  عنایت   بھٹی، شوکت علی اور منیر حسین کے گیت سننے کو ملے ۔ اُن دنوں بیٹری سیل میرپور سے ہی ملتے تھے۔ سیل ختم ہو جاتے توہمیں طویل انتظار کرناپڑتا ۔ میری ممانی ساس عیدو شب  برآت یا کسی شادی کے موقع پر اپنے میکے میرپور  جاتیں  تو واپسی پر سیل بھی لے آتیں ۔  وہ ایسے مواقوں  پر اپنے بچوں کے ساتھ  جاتیں تھیں  تو ہم اپنی بیگم جو تب بیگم نہ تھیں بلکہ ذیلدار وں کی بیٹی تھی  سے پوچھتے  کہ کیا تم لوگ واپسی پر بیٹری سیل لاؤ گے .وہ کہتیں  ہاں میں  آنے سے پہلے امی کو یاد کروا دونگی۔ ہفتہ دس دن بعد یہ قافلہ واپس آتا تو اکثر بیٹری سیل لانا بھول جاتا جو ہماری مایوسی کا باعث ہوتا۔ ہم بیگم سے پوچھے تو  کہتیں  میں امی کو یاد کرانا بھول گئی تھی،ا گلی بار  یاد رکھونگی۔ البتہ  سائیں  ڈھیرو صاحب یہ کمی پوری کر دیتے۔ وہ ہر جمعرات کے دن گھوڑی پر بیٹھ کر آتے اور اک  تارہ بجا کہ اپنی خوبصورت آواز میں اساتذہ کی غزلیں، گیت اور نغمے سناتے.   لوگ  انہیں آٹا اور دانے دیتے  اور وہ سلام کر کے چلے جاتے۔ اُنکی بیگم چناں  بی بی اور بہن فتح بیگم ملکہ  پکھراج ، روشن آراء بیگم ، شمشاد بیگم ، اور دیگر سے کم نہ تھیں۔ وہ کبھی کبھی آکر ذیلدار صاحب کے گھر محفل لگاتیں  تو سارے محلے کے لوگ جمع ہو جاتے .سائیں ڈھیرو ہار مونیم بھی بجاتے  تھے اور اُن کا داما د شہنائی اور طبلے  کا استاد تھا۔ وہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ملازم تھا اور  طبلہ  نواز تھا۔

ہمارے راجہ صحبت خان کی آواز میں  اب بھی وہی اثر ہے جوان کی جوانی میں تھا۔ اب وہ اسی  سال کے جوان ہیں اور پہاڑی طرز میں سیف الملوک، قصہ یوسف زلیخا، سوہنی مہینوال اور میاں زمان کے اشعار اسی انداز اور آوز میں  پڑھتے  ہیں جیسے جوانی میں پڑھتے تھے۔ بابو اصغر علی کی بانسری پر تو پرندے بھی جھوم اُٹھتے تھے مگر اب  نہ  جنگل رہے نہ  پرندے رہے اور نہ  ہی بانسری رہی ، بابو صاحب زیادہ وقت مسجد میں رہتے ہیں اور  اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

سن و نجلی دیاں لمباں کوکاں کر دی بین وچاری

پچھلی  منزل یاد کریندی تیشہ  ستھرا آری

(عنایت بی بی )

—جاری ہے —

Exit mobile version