Tarjuman-e-Mashriq

شیخ ابو الحسن شاذلی اور خاتون اول – قسط 1

مصنف منازل فقر حضرت قبیلہ مولوی محمد امین صاحب ؒ در مدح غوث اعظم شیخ محی الدین عبدلقادر جیلانی ؒ کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں ۔

                                                                                          شاہ جیلان پیر ما شیخ عظیم

                                                                                          کاشف اسرار حق بحرِ عظیم

جیلان کے شہنشاہ ہمارے پیر اولیائے کاملین میں شیخ اعظم ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ اسرار کو انسان پر ظاہر کر دیا۔ آپ ؒ  علم و معرفت کے سمندر ہیں جن سے طالب حقیقت اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ حضرت شیخ اعظم ؒ  فرماتے ہیںکہ تم سب کے مقام ذاتی طور پر اونچے ہیں لیکن میرا مقام تم سے عالی و ارفعٰ ہے جہاں تم نہیں پہنچ سکتے ۔

                                                                        یعنی غوث الغوث قطب الاقطاب حق

                                                                           ہر ولی  از  ہمت  اُو  بردہ  سبق

یعنی وہ غوث الاغیاث ہیں۔ جنہوں نے ایک نازک زمانے میں دین اسلام کی روشنی کو عالم پر طاری کر دیا اورانہیں محی الدین کا خطاب ملا۔ حضرت غوث الاعظم اسلام کی وہ ہستی ہیں جنہوں نے ظاہری و باطنی علوم کو انتہا تک پہنچایا اور وہ مقام حاصل کیا جہاں بقابا اللہ میں آپ کو دائمی زندگی حاصل ہوئی۔ آپ ؒ کے علم و فیض کو کبھی موت نہ ہوگی بلکہ ہر ولّی زمانہ میں جبکہ اُس کا جسم نہ پایا جائیگا فیض روحانی آپؒ سے ہی حاصل کریگا۔ تمام ولیوں کے علم کا سورج اُن کی موت کے بعد غروب ہو جائیگا مگر وہ غوث اعظمؒ کے فیض سے ہی روشنی حاصل کر سکیں گئے۔ ہر ولّی کے بعد اُ س کا قائم مقام یا خلیفہ اُس کے مقام پر بیٹھے گا اور اُس کے فیض کا سرچشمہ غوث اعظم ؒ ہی ہونگے۔ حضرت غوث الاعظم ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے فیض کا چشمہ جو ہماری زندگی میں جاری ہوا وہ بعد از موت بھی جاری رہیگا۔ یہ کیفیت غوث الاغیاث کی ہے کہ وہ قطب الارشاد ہوتا ہے۔

آپ ؒ  کامرتبہ و مقام قطب الاقطاب کا ہے۔ قطب الاقطاب تمام ولیوں کا سردار ہوتا ہے ۔ اکثر اولیا ء نے اپنے ارشادات میں سات قطب لکھے ہیں جبکہ حضرت معین الدین ابن عربی ؒنے بارہ قطب بیان کیئے ہیں ۔ ان کے درجات و مراتب قطب الابدال ، قطب الاوتاد ، قطب سلاطین ، قطب المدار ، قطب الارشا، قطب عالم اور قطب الااقطاب ہیں۔ حضرت ابن عربی ؒ نے قطب القلندر اور چار قطب الاوتا د کا اضافہ کیا ہے جن کے شمار سے بارہ قطب بنتے ہیں۔ روحانیت کے مدارج و مقامات سے نہ تو ہر شخص کو دلچسپی ہے اور نہ ہی ہر شخص اپنے ظاہری فکر و فلسفہ سے ان مقامات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس بیان کو تعارف تک ہی محدود رکھا جائے۔

اس ضمن میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی "کشف المحجوب” اور حضر ت پیر مہر علی شاہؒ کی سوانح حیات ’’مہر منیر ‘‘ اور حضرت صوفی محمد نورالدین اویسی ؒ کی تصانیف "نورالعرفان” اور” حقیقت تصوف” سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ عرب و عجم میں کوئی صوفی شاعر اور ولّی ایسا نہیں گزرا جس نے آپؒ کے مرتبہ کو خراج تحسین پیش نہ کیا ہو۔ اس تعارف کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی چونکہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ حضرت مجد د الف ثانی سرہندیؒ نے شیخ ابوالحسن شازلی ؒکو حضرت غوث الاعظم ؒ پر ترجیح دی ہے بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت شیخ محی الدین غوث الاعظم ؒ حضرت مجد د الف ثاثی ؒکے دور میں ہوتے تو وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کا احترام کرتے۔ اوّل کوئی ولّی ایسا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔دوئم مقام ولائیت میں سب ولیّوں کا مقام و منزل ایک ہی ہے اور سب کے سب اجلاس باطنی میں ہمہ وقت  درجہ بدرجہ موجود رہتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ حضرت مجد الف ثانی  ؒ سے منسوب یہ قول کتنا درست ہے مگر اس قول میں جیسا کہ بیان ہوا ہے تفریق کا عنصر موجود ہے ۔اس موقع پر حضرت مولانا الیاس سیالکوٹی ؒکا واقع ذہن میں آتا ہے مگر بیان کرنے کاموقع نہیں ۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک ولّی نہیں ہوسکتا جب تک اُسے حضورﷺ  کے اجلاس باطنی تک رسائی حاصل نہ ہو او ر اُسے حضور ﷺ ولائیت کا پروانہ جاری نہ کریں۔ اسی طرح جب تک ایک ولّی جنت کے سات درجوں کی سیر نہ کرلے وہ ولّی کامل ہو ہی نہیں ہوسکتا ۔ مولانا روم ؒ  حضرت فرید الدین عطار ؒ  مصنف ’’منطق الطیر ‘‘ اور ’’ قصص الاولیّأ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت عطار ؒ عشق کے سات شہروں کی سیر کر چکے تھے جب میں عشق کی پہلی گلی کے موڑ پر تھا۔

حضرت قبیلہ محمد امین صاحب کاشمیریؒ لکھتے ہیں کہ :۔

                                                                                          منزل  پنجم  بداں تو  بایقین

                                                                                          ہفت جنت ظاہر آینداَے امین

تویقین کر لے کہ جنت سات ہیں اور اس کا مشاہدہ و مرتبہ بھی انسان اپنی زندگی میں کر سکتا ہے۔ تجھے ساتوں جنت کی سیر نصیب ہو سکتی ہے اور اللہ جو چاہے دکھا سکتا ہے۔

 آگے فرماتے ہیں کہ  

                                                                                          بایقین داں  ہفت جنت پیش تُو

                                                                                          ظاہر آئیند از عنایت ذاتِ اُو

یہ حقیقت ہے کہ سات جنتوں کا مشاہدہ حاصل ہو گا مگر عنایت الہٰی شرط ہے۔ ان مقامات تک رسائی اللہ کی عطا کردہ توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موت کے بعد ہی جنت کی سیر حاصل ہوسکتی ہے۔ موت اور حشر کا مقام مقرر ہے اور جنت کا ملنا بھی حشر کے بعد ہی ممکن ہے۔ مگر سالک یہ مقام اپنی زندگی میں ہی حاصل کرلیتا ہے۔ اسکے لئے تو اپنی زندگی میں ہی وہ مقام پالے اورتزکیہ نفس سے تیری روح رحمانی اسقد ر قوی ہو جائے کہ اُسے تیرے جسم اور روح حیوانی پر غلبہ حاصل ہو ۔ تیرے دل کی آنکھ روشن ہو جائے اور تو نور الہٰی میں جذب ہو کر ان مقامات کا مشاہدہ کرے جہاں ظاہری آنکھ تو کیا انسانی خیالات و تصورات کابھی گزر نہ ہو۔

تیرا جسم زندہ رہے اور تو روح رحمانی کی قوت کی کیفیت طاری کرنے کا ہنر سیکھ لے اور اُس مقام تک پرواز کر جہاں انسان حقیقی موت کے بعد ہی جا سکے گا۔ اس مقام تک رسائی آسان نہیں کہ انسان ولی اکمل کی رہنمائی اور اجلاس باطنی محمد ی ﷺ کے بغیر محض چلہ کشی اور فاقہ سے کچھ حاصل کر سکے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اولیائے اللہ فرمان الہٰی کے مطابق اللہ کے دوست ہیں جن میں کوئی تفریق نہیں ہوسکتی ۔ وہ ایک دوسرے کو جانتے اور پہنچانتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے مقام و مرتبہ کا راز سینے میں پہناں رکھتے ہیں ۔ قرآن کریم میں فرمان ربیّ ہے کہ نبیوں اور رسولوں میں کوئی تفریق نہیں مگر بعضوں کو بعضوں پر فضلیت دی گئی ہے ۔ حضرت جبرائیل امین سردار ملائیکہ ہیں اور حضور ﷺ سرور کونین سردار الانبیا ء اور رحمت الاالعالمین ہیں ۔آپ ﷺ نے معراج کی شب سات جنتوں کی سیر کی اور اسرار الہٰی کا مشاہدہ کیا۔ آپ ﷺ کے غلام ، اصحاب رسول ﷺ اور اولیائے کاملین آپ ﷺ کے باطنی امور سے فیض یاب ہو کر اپنی روح کی قوت سے اسرار الہٰی و مقامات عالیہ کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ جن کا مشاہدہ آپ ﷺ نے اپنی ظاہری زندگی میں کیا۔

شیخ ابوالحسن شازلی ؒ کے بیان سے پہلے ضروری سمجھا کہ چند بنیادی نکات پر اپنی محدود عقل علم سے جو کچھ سمجھا بیان کیا جائے تاکہ روحانیت سے دلچسپی رکھنے والے اشخاص کے لیے ایک راہ کا تعین ہو سکے۔

حضرت شیخ ابوالحسن شازلی ؒ کا سلسلہ نسب امام حسن ؓ بن علی ؓ سے ملتا ہے۔ آپ ؒ کے آبا و اجداد کا تعلق مراکش سے تھا ۔آپ ؒ کی پیدائش 551ھ میں ہوئی۔ آپ ؒ نے شیخ عبدالالسلام مشیشن ؒ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور راہ سلوک کے مسافر ہوئے ۔آپ ؒ نے سلسلہ شازلیہ کی بنیاد رکھی جو اس سے پہلے حضرت جابر جفی ؒکے ذریعے حضرت حسن ؓ بن علی ؓ سے ملتاہے۔

مراکش کے بعدآپؒ تیونس اور پھر مصرچلے گئے جہاں اُن کے فیض سے افریقہ اور عرب کے ہزاروں لوگ مستفید ہو ئے ۔ طویل عمر تک آپ ؒ نے ظاہری و باطنی علوم کی روشنی سے لاکھوں دلوں کو روشن رکھا۔ آپؒ کا طریقہ تعلیم تقویٰ ، پرہیزگاری ، مجاہدہ قلبی اور تزکیہ نفس کے اصولوں پر استوار تھا۔ 656ھ میں ایک سو پانچ سال کی عمر میں رحلت فرمائی اور مصر میں ہی تدفین ہوئی۔

آپ ؒ ظاہری بیعت کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے مریدوں کو ہدایت دیتے تھے کہ جہاں بھی میٹھے پانی کا چشمہ ہو اُس سے سیرابی حاصل کر لو۔ روحانیت کے سب سلسلے ایک ہی سمندر سے نکلتے ہیں اور پھر اُس میں جذب ہو جاتے ۔ قرآن و سنت ہی ہر علم کی بنیاد ہے اور اتباع رسول ﷺ کے بغیر کوئی دل روشن نہیں ہوسکتا آپ ؒ فرماتے ہیں کہ مشرق و مغرب میں ہمارا طریقہ سب سے الگ ہے جہاں کسی سند کی ضرورت نہیں ۔دیکھا جائے تو سلسلہ شاذلیہ بڑی حدتک سلسلہ عالیہ اویسّہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ ہندوستان میں حضرت شیخ مجد الف ثانی سرہندیؒ اور حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا تعلق اسی سلسلہ سے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم دونوں کی ظاہری بیعت سلسلہ نقشبندیہ سے بھی بیان ہوئی ہے۔

امام شازلی ؒ نے صرف حضرت عبدالسلام بن مشیشنؒ سے ہی ظاہری اور باطنی علوم کا فیض پایا، علاوہ اس کے آپ ؒ کے اساتذہ کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی مریدین و مشائخ میں سے کوئی ایسا نام مشائح عظام کی فہرست میں شامل ہے۔ ہندوستان میں جو دو نام رسالہ حزب البحر میں درج ہیں اُن کے متعلق بھی کوئی تفصیل اور واضح دلیل سامنے نہیں آئی کہ کن کمالات و اوصاف کی بنیاد پر حضرت مجدد الف ثانی  ؒ نے نہ صرف امام شازلیؒ کو بلکہ خود اپنی ذات کو بھی حضرت غوث الاعظم ؒ سے درجے اور مرتبے میں بلند اورقابل تعظیم قرار دیا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض مریدین جن کا مشاہدہ قلبی صاف نہیں ہوتا اور علم ادھورا رہ جاتا ہے وہ ایسے دعوے تو کرتے ہیں مگر اُن کے مشاہدے کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔بعض لوگ ایسے بھی ہیںجو ناسوتی علم کو حقیقت جان کر ایسے بیانات سے مخلوق کو راہ حقیقت سے بہکانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔

 دعائے حزب البحر کے تعارف میں درج ہے کہ ایک صبح امام شازلی ؒ نے مریدین کو حکم دیا کہ حج کی تیاری کی جائے چونکہ مجھے فریضہ حج ادا کرنے کا حکم ہوا ہے۔ مریدین نے کہا کہ حضور حج کے ایام قریب ہیں اور سفر طویل ہے ۔بندرگاہ پر کوئی جہاز موجود نہیں۔ ایک جہاز جو یہودی کی ملکیت ہے مگر جہازپرانہ اور طویل سفر کے قابل نہیں اس لیے اس پر سفر محفوظ نہ ہوگا۔

شیخ نے حکم دیا کہ جہاز کے مالک کو معاوضہ ادا کیا جائے اور سفر کی تیاری کی جائے ۔ جہاز کے ملاح یہودی کے دو بیٹے تھے جنہوں نے جہاز سفر کے لیے تیار کیا اور امام شازلی ؒ اور اُن کے مریدوں کو لیکر روانہ ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مخالف سمت سے ہو اچلنے لگی توجہاز کا رح پھر مصر کی طرف ہو گیا ۔ طوفان نے زور کیا تو یہودی کے لڑکوں نے بادبان گرا دیے اور لنگر ڈال کر جہاز روک لیا۔

کئی روز تک طوفان چلتا رہا اور جہاز سمندر کے بیچ ہچکولے کھا تا رہا ۔ ایک دن امام شازلی ؒ نیند سے بیدار ہوئے تو دعائے حز ب البحر پڑھ رہے تھے۔ آپؒ نے ملاحوں کو بلایا اور لنگر اُٹھانے کا حکم دیا۔ آپ ؒ کا ملاحوں کو حکم دینا ہی تھا کہ ہوا کا رخ بدل گیا۔ لنگڑ اُٹھانے سے پہلے جہاز کا رسہ ٹوٹ گیا اور جہاز تیزی سے حجاز مقدس کی طرف روانہ ہو گیا۔ حج کی ادائیگی میں دو دن باقی تھے کہ آپکا قافلہ حرم پاک کی حدود میں داخل ہو گیا۔ سفر حج سے واپسی پر یہودی کے دونوں بیٹے مسلمان ہو گئے ۔ یہودی کو اس بات کا دکھ ہوا اور اکثر بے چین رہنے لگا ۔ایک دن خواب میں دیکھتا ہے کہ حضرت امام شازلیؒ اپنے مریدوں کے ہمراہ جنت کے باغ میں داخل ہو رہے ہیں اور اُس کے دونوں بیٹے بھی ہمراہ ہیں۔ باغ بہشت کا نظارا دیکھ کر یہودی بھی بیٹوں کے پیچھے دوڑا مگر دربان نے روک دیا کہ تم حلقہ اسلا م میں داخل نہیں ہوئے ہو۔

صبح سویرے یہودی بھی امام صاحب ؒکی خدمت میں پیش ہوا اور مریدین میں شامل ہوگیا ۔ آپؒ سے منسوب دعائے حز ب البحر ایک مخصوص و منفرد دعا ہے جس کو پڑھنے کا طریقہ دیگر دعائوں سے بھی الگ ہے۔ یہ دعا کسی ولی اکمل کی اجازت کے بغیر نہیں پڑھی جاسکتی چونکہ اس دعا میں حرف مقطعات کثرت سے استعمال ہوئے ہیںجن کی ادائیگی پر کچھ خاص اشارے مقر رہیں ۔چونکہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور اکثر خیالات بھٹک جاتے ہیں اور یکسوئی قائم نہیں رہتی ۔ انسان جب بھی اللہ سے رجوع کرتا ہے تو شیطان پوری قوت سے حملہ آور ہو کر اسے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس حالت میں ولی کامل کی رہنمائی از حد ضروری ہے تاکہ غلطی کی صورت میں ولی اپنے مرید کی حفاظت کرے اور اُس کا رخ واپس اُسی سمت کر دے جس کا طریقہ ولی نے اپنی ذمہ داری یعنی اجازت کی صورت میں دے رکھا ہے۔

محض شوق یا کسی خاص دنیاوی مقصد یا مشکل کے حل کے لیے از خود چند روز و ظیفہ بھی منع ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ کہف میں بیان ہے کہ اللہ جس کو ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے توتم اُس کے لیے کوئی دوست یا راہ بتلانے والا نہیں پائو گے ۔ ولی یا مرشد کی راہنمائی اللہ کی طرف سے ہی ہے اوراولیائے کرام اللہ کے دوست اور اللہ کے بندوں میں مخصوص اور منتخب ہستیاں ہیں جو شریعت و طریقت کے اصولوں پر گامزن ہر لمحے خوف خدا میں مبتلا عبادت  و ریاضیت میں مشغول رہتے ہیں۔

جاری ہے – اگلی قسط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں 

https://bit.ly/3D4ARfi

Exit mobile version