Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دِنوں کی بات ہے-24

جہادِ کشمیرمیں جوش و ولولہ تو تھا مگر سول آبادی بے یقینی اور تذبذب کا شکار تھی ۔ مراعات یافتہ مسلمان دو کشتیوں کے سوار تھے۔ وہ بظاہر مجاہدین کے حامی تھے مگر ڈوگرہ حکومت کے بھی وفادارتھے۔ بل جاگیر کے موضع ڈبریاں جونا کے معرکے کے دوران زخمی ہونے والے ہندو جمعدار (نائب صوبیدار) دلبیر سنگھ کو مقامی ذیلدار نے اپنے گھر چھپائے رکھا اور مرہم پٹی کے بعد سفید لباس پہنا کر بحفاظت جھنگڑ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچا یا۔ لوگوں کی اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا کہ محض پرانی دُشمنیوں اور لگت بازیوں کا بدلہ چکانے کی خاطر ڈوگروں کے مخبر بن گئے ۔ ڈرائیور ولی محمد اور اُس کے چند ساتھیوں کے خلاف مخبری کی گئی کہ یہ لوگ پاکستان کے حامی اور مجاہدین کے لیے راشن اکٹھا کرتے ہیں ۔ ڈوگرہ پولیس ان لوگوں کو اُٹھا کر لے گئی اور جسمانی تشدد کے بعد نو نو سو روپے کی ضمانت پر چھوڑا گیا۔
جمعداردلبیر سنگھ جھنگڑ پہنچا تو مشرقی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔ نہتے مسلمانوں کے اِس قتل عام کے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں جو ڈوگروں کے حامی تھے ۔ بظاہر مسلمان کہلوانے والے جب کفار کے حامی ہوں تو پھر اغیار سے کیا شکوہ۔ ابتدائی معرکے جو ہم نے بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ کی طرف سے غیبی مدد سے لڑے اور کامیاب رہے۔ اِن معرکوں کے بعد ہمارے اور دُشمن کے درمیان ایک سرحد بن گئی ۔ ایک طرف بھارتی فوج پوری تیاری کے ساتھ جارحیت پر تلی ہوئی تھی اور دوسری جانب ہم بے سروسامانی کی حالت میں اللہ کے آسرے پر کھلے میدان میں بیٹھے تھے ۔ نہ راشن، نہ ایمونیشن ، نہ اسلحہ اور نہ ہی مستقل لڑنے والی افرادی قوت ۔
جہادِ کشمیر کی سب سے بڑی کمزوری رابطے کا فقدان اور قیادت کا بحران تھا۔ سن رہے ہیں کہ میرپور اور پونچھ میں شدید لڑائی ہے مگر نوعیت کی کچھ خبر نہیں ۔ یہ بھی سنا ہے کہ بارل کے علاقہ میں صوبیدار شیر محمد صاحب کامیابی سے لڑرہے ہیں مگر حکومتِ پاکستان کی عدم دلچسپی کے باعث اصل حالات پوشیدہ ہیں ۔ ایک جگہ انتہائی افسوس اور دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سُنا ہے کہ 14اگست کے دِن ایک اسلامی مملکت پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آ چکی ہے مگر ہمارا پُرسانِ حال کوئی نہیں ۔
بعض جگہوں پر پاکستان فوج کے کچھ دستے موجود تو ہیں مگر اُنھیں جہاد میں شمولیت کی اجازت نہیں ۔ دیر سکاوٹ کے متعلق لکھتے ہیں کہ دور دراز ملکوں سے اللہ کے یہ نیک بندے محض رضائے الہی کی خاطر جنگلوں ، پہاڑوں اور شدید دشوار راستوں سے سفر کرتے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری مدد کیلئے آئے ہیں ۔ اللہ نواب صاحب حاکم دیر کا اقتدار قائم رکھے اور اِس نیکی کا بدلہ دے (آمین )
لکھتے ہیں کہ 25نومبر 12محرم الحرام کی صبح میں اپنی گشتی ٹییم کے ہمراہ تالاب بدھا ڈک پر پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا کالم مغربی آبادیوں یعنی پنجن، ہری پور ، تندڑ اور وادی چڑہوئی کو تباہ کرنے آ رہا ہے ۔ اُسوقت ہم صرف سات (7) آدمی تھے ۔ ہم نے مختلف جگہوں پر پوزیشن لیکر دُشمن پر فائیر کھول دیا جو دشمن کی توقعات کے برعکس تھا ۔ فائیر کی وجہ سے دشمن کی ترتیب بدل گئی اور اسے رک کر صورتِ حال کا جائیزہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہماری اطلاع پر دوسرے مجاہدین بھی موقع پر پہنچ گئے تو ہماری تعداد میں کچھ اضافہ ہو گیا ۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ آج اللہ اپنے حبیب ؐ کے ان بے بس اُمتیوں پر خاص مہربان ہے۔ ہم سات نہیں بکلہ سات سو ہیں ۔
ہماری ہر گولی کارگر اور صحیح نشانے پر بیٹھ رہی تھی ۔ دُشمن نے جلدی میں مارٹر پوزیشن لگایا اور لگاتار فائیر شروع کردیا۔ سید اکبر شاہ، سید فرزند علی شاہ، سید حسین شاہ ، غازی سید اللہ خان میرا خدمت گار فرزند جو اپنا گھر بار چھوڑ کر شوقِ شہادت لیکر میری خدمت میں حاضر ہوا تھا ، انتہائی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
سید اکبر شاہ مارٹر کی آواز سن کر درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور پھر برین گن لیکر کھلے میدان میں کھڑے ہو کر دُشمن پر فائیر کرتے۔ چار گھنٹے کی شدید لڑائی کے بعد دشمن کی بٹالین پسپا ہو کر واپس جھنگڑ چلی گئی۔ دشمن کی تعداد اور بھاری ہتھیاروں کے مقابلے میں ہماری کل نفری تیس کے برابر تھی۔ سوائے برین گن کے ہمارے پاس کوئی بڑا ہتھیار نہ تھا مگر اللہ کی خاص مہربانی اور رسولِ پاک ؐ کی شفقت ہماری فتح کا موجب بن گئی۔
اُس روز ڈوگرہ اور بھارتی فوج کا حملہ نہ روکا جاتا تو حالات یکسر بدل جاتے۔ ابتدائی حملے میں ڈوگروں نے گاوٗں پہڑا گجراں کی ایک ضعیف عورت حسن بی بی اور اُس کے دو سالہ پوتے کو برین گن کے فائیر سے شہید کر دیااور بارہ سالہ پوتی کو اُٹھا کر لے گئے ۔ یکم دسمبر 1947ء (8محرم الحرام) کے بعد دشمن نے اپنے منصوبے میں تبدیلی کرتے ہوئے سریا ہ کی پہاڑیوں کا جنوبی سیکٹر چھوڑ کر شمالی سیکٹر کھول دیا۔ دشمن ہر حال میں چڑہوئی ویلی سے گزر کر گلپور ، ناڑ روڈ تک پہنچنا چاہتا تھا۔ کیری پر قبضے کے بعد وہ براستہ خانکہ کو ٹہڑا اور براستہ ناڑا کوٹ ، چڑہوئی سے ہوتا راجدھانی کی طرف نکلنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ دشمن کا منصوبہ تھا کہ وہ اِن علاقوں سے جو انفینٹری کے علاوہ انجینئرنگ کور کی معمولی کوششوں سے بکتر کیلئے بھی موزوں بنائے جا سکتے تھے سے یلغار کرتا ہوا کوٹلی میرپور روڈ پر قابض ہو جائے۔
صبح جب میں بدھا ڈک تالاب اپنی آبزرویشن پوسٹ پر پہنچا تو دُشمن نے خانکہ کوٹہڑا اور پنجن کے شمال میں واقع آبادیوں پر مشین گن اور مارٹر کا فائیر شروع کر دیا ۔ دشمن اپنے حفاظتی فائیر کی آڑ میں آگے بڑھ رہا تھا ۔ دشمن کا کیری پر شدید دباوٗ تھا ۔ شاید دشمن کیری کو مستقر بنا کر وادی چڑہوئی سے بڑی یلغار کا ارادہ رکھتا تھا۔ کیری کے علاقہ میں آزاد آرمی کی ایک پلاٹون زیر کمان لیفٹیننٹ افراسیاب خان تعینات تھی جو دشمن کو دیکھتے ہی بجائے لڑنے کے پیچھے بھاگنا شروع ہو گئی۔ گزشتہ شب والیٗ دیر کی جانب سے تین سو مجاہدین کا ایک لشکر زیر کمان تحصیلدار حضرت علی میری امداد کو پہنچا تھا۔ یہ لوگ تھکے ماندے اور علاقہ سے بے خبر تھے۔ میں نے اُنھیں علاقہ اور دُشمن کی تعداد اور ممکنہ کاروائیوں سے واقفیت دلائی ۔ آج ارادہ تھا کہ اُنھیں زمینی خدوخال اور دشمن کے ٹھکانے دکھاونگا مگر صبح سویرے دشمن کی یلغار نے اسکا موقع نہ دیا۔
میں نے اپنا گائیڈ بھجوا کر تحصیلدار صاحب کو فوراً آگے آنے کا کہا تو وہ ہوا میں اُڑتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور اپنی ساری نفری کو بھی آگے آنے کا حکم دے آئے۔ میں نے جلدی میں مجاہدین کو مختلف چوٹیوں پر بھجوایا تاکہ قریب ہو کر دشمن پر کارگر فائیر کیا جائے۔
دشمن اپنے فائیری غلاف میں بے فکر ی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ گزشتہ روز والے پیڑاں گجراں والے واقعہ سے اسے پتہ چل گیا تھا کہ ہم کمزور اور بے سروسامان ہیں ۔ اُسے پتہ نہیں تھا کہ گزشتہ شب ہی ہمیں خدائی امداد دیر سکاوٹ کی صورت میں مل چکی ہے ۔ مجاہدین نے جلدی میں پوزیشنیں سنبھالیں اور اللہ اکبر کا پُر شگاف نعرہ لگاتے ہوئے دشمن کو اپنی زد میں لے لیا ۔ چند منٹ تک دونوں جانب سے فائیر ہوا مگر مجاہدین نے بھارتیوں اور ڈوگروں کو بے بس کردیا ۔ دشمن نے اپنا بھاری سامان پھینک دیا اور واپس جھنگڑ چلا گیا۔ ایک ہی ہفتے میں دشمن کے تین بڑے حملے اللہ کی خاص عنائت سے پسپا تو ہو گئے مگر یہ خبر نہ ہوئی کہ دوسرے محازوں پر اِ س کے کیا اثرات ہیں۔ یہ صورتِ حال مشترکہ کمان اور قیادت کے فقدان کی وجہ سے تھی جسکا خاطر خواہ فائدہ دشمن اٹھا رہا تھا۔
14نومبر 1947 ستائیس محرم الحرام کی صبح میں دشمن کے جھنگڑ ہیڈ کوارٹر کا جائیزہ لینے نکلا تو اطلاع آئی کہ آزاد فورس کے میجر محمد افضل خان کھوئیرٹہ سے آئے ہیں اور تالاب بدھا ڈک پر ملاقات کے خواہاں ہیں۔ میں تحصیلدار حضرت علی اور دیری کمانڈروں کے ہمراہ تالاب پر پہنچا اور میجر صاحب کو صورتِ حال سے واقفیت دلائی۔ محاذ پر مکمل خاموشی سے میجر صاحب نے اندازہ لگایا کہ دشمن گزشتہ کاروائی کے بعد علاقہ خالی کر گیا ہے۔ میں نے بتایا کہ دشمن خاموشی سے مورچہ بندی کر رہا ہے تا کہ مزید کمک منگوا کر بڑا حملہ کیا جا سکے۔
دشمن کی موجودگی کا تعین کرنے کیلئے ہم پچیس دیری مجاہدین کے ہمراہ سڑک کی دوسری جانب جلے ہوئے مکانوں کے قریب پہنچے تو دشمن نے چاروں طرف سے فائیر شروع کر دیا ۔ میں نے صوبیدار مرزا خان کو کہا کی اپنے جوانوں کو پیچھے لے آوٗ مگر دیری مجاہدین نے دشمن پر حملہ کر دیا۔ تحصیلدار حضرت علی نے مجھے کہا کہ آپ ہیڈ کوارٹر میں اطلاع کردیں اور باقی نفری کو بھی آگے لے آئیں۔ یہ کہہ کر وہ بھی مورچے میں چلے گئے ۔
میجر افضل نے شمال کی طرف سے برین گن کا غلافی فائیر شروع کر وایا تا کہ مجاہدین واپس آ سکیں مگر مجاہدین نے پوزیشنیں سنبھال کر دشمن سے مقابلہ شروع کر دیا۔ میں صبح سویرے باقی فورس لیکر محاذ پر پہنچا تو مجاہدین نے تب تک دشمن کے زیر استعمال ایک گاوٗں جسے مضبوط مقام بنایا گیا تھا پر قبضہ کر لیا تھا۔ میجر افضل صاحب نے بائیں جانب پوزیشن اختیار کی اور دشمن کے میکانائیزڈدستوں جو آرمڈ کاروں اور ہلکے ٹینکوں پر مشتمل تھے کا حملہ ناکام بنا دیا ۔
اسی دوران میجر افضل صاحب شدید زخمی ہوئے جنھیں محاذ سے ہٹا کر پیچھے بھجوا دیا گیا۔ میں نے دیری جوانوں سے دو مشین گنوں کا غلافی فائیر کروایا اور دو کمپنیوں پر مشتمل نفری لیکر جھنگڑ کے جنوب سے کھتیالہ براہنماں سے گزر کر متلاسی والی پہاڑی پر واقع پرانی سکول کی عمارت کے قریب ہو گیا۔ سکول کے قریب پہنچتے ہی دشمن نے شدید فائیرنگ شروع کی مگر ہم نے دشمن کو جواب دیتے ہوئے پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔
پہاڑی پر قبضہ ہوتے ہی دشمن نے کھلی جگہوں سے پسپائی اختیار کی اور پہلے سے تیار شدہ بنکروں میں چلا گیا۔ دشمن کے شدید فائیر کی وجہ سے ہماری پیشقدمی بھی رُک گئی ۔ سپاہی لال بیگ گلگتی نے برین گن کا خوب استعمال کیا جس کی وجہ سے دشمن کو سر اُٹھانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ مکڑی کی جانب سے دشمن کے لائیٹ مشین گن کے فائیر سے ہمارے چند جوان زخمی اور دس جوان شہید ہو گئے ۔ زخمیوں میں سپہ سالار صاحب بھی شامل تھے ۔ صوبیدار گل محمد خان نے جراٗت و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکڑی والے مورچے پر موثر فائر کیا تو ہم زخمیوں اور شہیدوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے ۔ شہیدوں میں میرا گائیڈ غازی سید اللہ بھی شامل تھا۔
سکولوں والی پہاڑی پر صوبیدار گل محمد دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ میں نے اُن کی مورچہ بندی میں کچھ تبدیلی کی اورہیڈ کوارٹر میں اطلاع بھجوائی کہ ایمونیشن کے ساتھ کھانے کیلئے بھی کچھ بھیجوایا جائے۔ آج دیری مجاہدین بغیر کچھ کھائے پیٗے دو دِن سے لڑ رہے تھے۔ اِن میں زخمی بھی شامل تھے جو جان کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ آج دشمن اپنا سارا زور لگا رہا تھا کہ وہ ہمیں کسی طرح پیچھے دھکیل سکے ۔
بھارتی ہوائی جہاز قدم قدم پر بمباری کر رہے تھے تا کہ ہم مزید کمک سے محروم رہیں ۔
سکول والی ٹیکری پر دیری جوان ڈھائی سو گز کے فاصلے پر دشمن کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اُن کے پاس دو مشین گنیں تھیں ۔ میں نے مشین گن کمانڈر حاجی شیراز خان ، صوبیدار امداد خان اور صاحبزادہ صاحب کو مشورہ دیا وہ کھلے میدان سے ہٹ کر آڑ لیکر فائیر کریں ۔ اُنہوں نے میرا مشورہ مان لیا اور پوزیشن تبدیل کرکے بہتر جگہ پر آگئے۔
(جاری ہے)

Exit mobile version