Tarjuman-e-Mashriq

ایک عالمی جاسوس کی کہانی

ڈاکٹر شاہد مسعود نے میجر عامر کا طویل انٹرویو دو قسطوں میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جو میجر عامر کے گزشتہ بیانات کی کہیں تصیح تھی اور کہیں تنسیخ تھی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ اُن کی یاداشتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور نئی دریافتوں کے خزانے قلب و شعور پر اُمڈر ہے ہیں۔ بہتر ہوتا اگریہ علمی،عقلی اور معلوماتی اقوال جرگہ  اور سلیم صافی کی وساطت سے قوم بلکہ اقوام عالم کے سامنے پیش کیے جاتے۔ چونکہ میجر عامر علم جاسوسی کے دریا اور محترم سلیم صافی خفیہ معلومات اور علوم کے سمندر ہیں۔ دریا سمندر میں اتر جائے تو دریا نہیں رہتا بلکہ سمندر ہو جاتا ہے۔

سمندر، سمندروں سے جڑے ہوتے ہیں جن کی آفادیت عالمگیر ہوتی ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود جسمانی بیماریوں کے ڈاکٹر ہیں اور اب آؤٹ آف پریکٹس ہیں۔وہ کل وقتی صحافی ہیں اور معلومات کمپیوٹر سے حاصل کرتے ہیں۔ ایک دانشور صحافی جنہیں اُن جیسے ہی دوسرے دانشور نے دور حاضر کا ابن بطوطہ قرار دیا ہے  کے  ایک کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے لکھا تھا کہ یہ چوہدری صاحب کا پہلا کالم ہے جو انہوں نے خود لکھا ہے۔ پھر لکھا  کہ شاہد اُن کا کمپیوٹر خراب تھا یا کوئی دوسری ٹیکنیکل وجہ تھی۔

سلیم صافی اور میجر عامر میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں عظیم ہستیاں، ہم رنگ، ہم زبان اور ہم خیال ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ میاں نواز شریف کے دورا قتدار میں ٹی ٹی پی سے ہونے والے ناکام مذکرات میں سلیم صافی شامل نہ ہو سکے اور میجر عامر کو ترجیح دی گئی۔ شاید میجر عامر کی کتاب جو کسی بک سٹال پر موجود نہیں تب شائع ہو چکی تھی اور سلیم صافی کی تزک شریفیہ تب تک زیر طبع تھی۔ حکمران خاندانوں کے قصے ، کہانیاں،  قصیدے  اور کار نامے لکھنا قدیم ادبی اصناف میں شامل ہے۔ تاریخ میں ایسے شاعروں اور ادیبوں کا ذکر ہے جو شرفأاور حکمرانوں کے صدقے و خیرات پر نہ صرف پلتے تھے بلکہ وزیر ومشیر بھی ہوتے تھے اور آج بھی ہیں۔

میجر عامر کی کہانی سے یوں لگتا ہے کہ بیس کروڑ انسانوں کی بستی میں کوئی عقل مند نہ تھا۔ بستی کے ارد گرد ایک جنگل تھا اور وحشی درندے بستی کے لوگوں پر حملہ آور تھے۔ ایک جنرل حمید گل تھے جن کے زیر کمان میجر عامر، کرنل قادر اور میجر عامر کے ہی ایک رشتہ دار بریگیڈئیر صاحب تھے جو اس بستی کے محافظ تھے۔ میجر عامر جنرل حمید گل کے منہ بولے بیٹے، صلاح کار، خبررساں، مدد گار، ہم راز، ہم خیال اور مثل ایاز  محمود غزنوی کے دانشور مشیر اور ہمہ وقت تیار شمشیرزن، تیر  انداز شہبازوشہسوارتھے۔جب یہ چاروں اپنے عہدوں پر نہ رہے تو قوم بدحال، بیکار اور بیما ر ہوگئی۔ سوائے میاں نواز شریف کے کسی حکمران، آرمی چیف اور خفیہ ادارے کے سربراہ نے اس قیمتی اثاثے کی قدر نہ جانی۔ اُن سے بہتر کوئی نیشنل سیکورٹی ایڈوائیزر، مشیر اور کسی اہم ملک میں سفیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اُن کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی گئی ورنہ آج یہ ملک اس حال میں نہ ہوتا۔

سی آئی اے، کے جی بی، مساد، خاد،ایم ائی 6، را اورساوک جیسے مستند ادارے اُن کی خاک پاکو بھی نہیں پہنچتے تھے۔ شکر ہے کہ انہوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ عام انسانوں کے دماغ میں سولہ کیمیکل ہوتے ہیں جبکہ اُن کے دماغ میں بتیس ہیں۔ حمیرا احمد نے شاید یہ انٹرویو نہیں دیکھا ورنہ پاکستانی  جیمز بانڈکااسکرپٹ با آسانی سے میسر آ جاتا ۔   

عمران سیریز کے بعد عامر سریز کا منظر عام پرآنا ضروری ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں میں جاسوسی علوم کا اجراء کریں اورجناب میجر عامر کی زندگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ملک میں جاسوسی نظام کا جال بچھا دیں۔ اس علم کی برکات سے ہمیں آئندہ دو سالوں میں ایک کروڑ علوم جاسوسیہ کے اُستاد میسر آجا ئینگے اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی پورا ہو جائیگا۔

ارتھ شاستر کا مصنف کو تیلیہ چانکیہ لکھتا ہے کہ ریاست کا ہر فرد کسی نہ کسی صورت میں بادشاہ کا مخبر ہونا چاہیے کہ دشمن کے لیے ریاست کے اندر کوئی خبر رساں باقی نہ رہے۔ لکھتا ہے کہ خبر رسانی کے لیے عورتیں قابل اعتماد نہیں ہوتیں۔ وہ محبت اور نفرت میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں اور اُن کے پیٹ ہلکے ہوتے ہیں۔عورتوں کو خبر گیری اور خبر رسانی کیلئے اسطرح استعمال کیا جائے کہ وہ یہ احساس نہ کریں پائیں کہ وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہیں۔ اُمید ہے کہ جناب میجر عامر نے بریگیڈئیر ترمذی کی تصنیف ”حساس ادارے“، سی آئی اے پر لکھی جانیوالی کتاب ”ان دیکھی حکومت“، ”ایس کے دلت“کی ”کشمیر باجپائی کے دور حکومت میں“اور دیگر خفیہ اداروں پر لکھی جانے والی کتابیں ضرور  پڑھی ہونگی۔ پیٹر ھوپ کرک اور کرنل میکلین کو نہیں پڑھا تو انہیں بھی پڑھ لیں۔

میجر عامر کے فرمودات جناب طارق اسمعیل ساگر کی کہانیوں جیسا میعار بھی نہیں رکھتے، طارق اسمعیل ساگر کی کہانیاں حقیقت کے قریب تر تھیں اور قاری پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ مستنصر حسین تارڑ کی قلعہ جنگی اور میجر عامر کی خفیہ داستانیں کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔

میجر عامر کی حکمرانی فیض آباد سے گولڑ ہ موڑ تک تھی اور وہ اس مختصر ریاست کے واحد حکمران بھی نہیں تھے۔ اُن کے اوپر کرنل اور بریگیڈئیر رینک  کے افسر بھی تھے جن کے سٹاف میں درجنوں کیپٹن اور میجر بھی ہونگے۔ اُن کا یہ دعویٰ کہ وہ صرف جنرل حمید گل  کے سامنے جوابدہ تھے، خود جنرل حمید گل جیسے زیرک جرنیل کی پیشہ وارانہ قابلیت اور دانائی کی توہین ہے۔ہر خبر پر نظر تو ہوتی ہے اور پھر کئی بار اُس کی تصدیق بھی کروائی جاتی ہے۔ البتہ بیٹل فیلڈ ( میدان جنگ)  سے آنیوالی خبریں فوری ایکشن کا تقاضہ کرتی ہیں۔ میجر عامر ایک مخصوص جگہ پر کام کرتے تھے اور ایسے درجنوں افسرملک کے دیگر شہروں اور دنیا کے کئی ممالک میں اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے۔یہ لوگ ہمیشہ سے ہی یہ کام کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اسلام آباد کی طرح دنیا میں ہر جگہ دارالخلافہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے جہاں ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے پروفیشنل کارندوں کے علاوہ مقامی ایجنٹوں سے بھی کام لیتی ہیں جو عموماً ڈبل ایجنٹ ہوتے ہیں۔ مقامی ایجنٹوں کو حسین چہروں اور ڈالروں کی چمک دکھلائی جاتی ہے مگر وہ زیادہ کار آمد ثابت نہیں ہوتے۔ ایسے ایجنٹوں میں عام لوگوں سے لیکر اعلیٰ ترین عہدیدار، صحافی، بڑے کاروباری لوگ، صنعت کار، سفارتکار، طالب علم، کلرک، چپراسی، خاکروب، سیاستدان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک لوگ ہوتے ہیں۔ جنرل عبدالمجید ملک (مرحوم)اور جنرل شائد عزیز نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ امریکہ میں دوران تربیت اُنہیں سی آئی اے کے لیے کام کرنے کی پیشکش ہوئی تھی۔ ہمارے فوجی افسر، سفارتکار اورسول سروسز کے عہدیدار امریکی یونیورسٹیوں اور تربیتی اداروں سے ٹھپہ شدہ نہ ہوں تو وہ اعلیٰ ترین سطح پر نہیں پہنچ سکتے۔ جنرل مرزااسلم بیگ لکھتے ہیں کہ میں واحد فوجی جرنیل ہوں جس نے کوئی کورس بیرون ملک نہیں کیا۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نے جناب میجر عامر سے یہ سوال تو کیا ہی نہیں کہ آپ فوج سے فارغ ہونے کے بعدپاسپورٹ سیل کے انچارج اور پھر ایف آئی اے کے ڈائریکٹرجنرل کس کوالیفکیشن کی بناء پر بنائے  گئے۔ آپ نے آٹے کی ملیں، گیس اسٹیشن اورپیٹرول پمپ کیسے خریدلیے۔اگر وہ یہ بھی پوچھ لیتے کہ وہ کون تھا جو استاد برہان الدین ربانی کے پاس کابل جا کر رویا کہ مجھے مجاہدین کی مدد کے جرم میں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ کون تھا جو یونیورسٹی ٹاؤن پشاور میں جناب ربانی سے دس دس مرلے کے دو جڑواں مکان لکھوالایا جن کی قیمت کڑوروں میں ہے۔

اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کو خفیہ اداروں کی ورکنگ کا پتہ ہوتا تو وہ میجر عامر سے ضرور پوچھتے کہ آپکا افغان جہاد سے تو کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ البتہ جب بڑے جہادی اور سیاسی لیڈر اسلام آباد آتے تو اُن کی سیکیورٹی آپ کے فرائض میں شامل تھی نہ کہ آپ انہیں مشورے دینے کے مجاز تھے۔ یہ پشتو زبان کا کرشمہ ہے کہ آپ اُن سے تڑاماشہ بھی لیتے ہونگے اور وہ ہر کسی سے خلوص سے ملتے تھے۔ میجر عامر کے فرمودات اور جناب جنرل جاوید اشرف قاضی کے ارشادات سے لیکر بیرسٹر اعتزا ز احسن کے بیانات ایک ہی کہانی کے تین کردار ہیں اور اس کہانی کا ولن جنرل حمید گل ہے۔ ایک جنرل حمید گل کو غلط منصوبہ ساز کہتا ہے اور دوسرا اُن سے خائف رہتاتھا۔جبکہ تیسرا یہ ثابت کر نے کی کوشش کر رہا ہے کہ جنرل حمید گل اُس کے مشوروں کا محتاج تھا۔ جس قوم میں ایسے کرداروں کی بھر مار ہو اسے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔ میجر عامر کے اقوال زریں پر ابن انشاء کی غز ل کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

                                                           ہم بھی وہی موجودتھے ہم سے بھی سب پوچھا کیئے

                                                          ہم ہنس دیے  ہم چپ رہے  منظو ر تھا  پردہ تیرا

جناب میجر عامر کی داستان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ فوج میں رہتے ہوئے ہر افسر اور سپاہی کو ایک کام دیا جاتا ہے اور اُس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے سرانجام دے نہ کہ اُس کا ڈھنڈوراپیٹ کر مفادات حاصل کر ے۔

میجر عامر نے آئی ایس آئی کا قلعہ ہمالیہ پر تعمیر نہیں کیا۔ ان سے بہتر ہزاروں افسر اور جوان اس ادارے کے خاموش کارکن رہے اور آئندہ بھی رہینگے۔ میجر عامر نے آپریشن مڈنائیٹ جیکال سے شہرت پائی اور اپنے باس بریگیڈئیر امتیاز کو ہتھکڑیاں لگوائیں۔ جنرل مراز اسلم بیگ نے اپنی سوانح حیات میں اُس کیس کا ذکر کیا ہے۔آخر کیا وجہ تھی کہ جناب بریگیڈئیر امتیاز ہی پیپلز پارٹی کے عتاب کا نشانہ بنے اور جناب میجر عامر پر ہاتھ نرم رکھا گیا۔ میجر عامر اور احمد شاہ مسعود کا یارانہ بھی افسانہ ہے۔ احمد شاہ مسعود فرانس سے بھجوایا گیا تھااور حال ہی میں جناب گلبدین حکمت یار نے سارے افسانے کی قلعی کھول دی ہے۔ میجر عامر اور ڈاکٹر شاہد مسعود کی کہانیاں فلموں اور ڈراموں کے لیے تو مفید ہیں مگرملک اور قوم کے لیے نہیں۔قوم کے اصل ہیرو قبروں میں مقیم ہیں یا پھر اپنے گھروں میں خاموش بیٹھے ہیں۔وہ قومی مفادات کے لیے کام کرتے رہے اور کسی صلے کے طلب گار نہ ہوئے۔ میجر عامر کو چاہیے کہ وہ اب اس کہانی کو مزید طوالت نہ دیں ورنہ لوگ   ان کا تمسخر   اڑائیں گے اور  ایک  کامیاب مشن  ان کی   مبالغہ آرائی  کی نذر ہو جائے گا ، خاموش مجاہد  آج بھی بیدار ہیں  اور   ناطقؔ لکھنوی کے یہ الفاظ سیاہ چن سے سندھ اور خطے   کے   تمام ملکوں میں ان کے ظرف کی تائید میں گونج رہے ہیں

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

Exit mobile version