Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دِنوں کی بات ہے-28

راجوری حال پونچھ جیسا ہی تھا ۔ آزاد فورس کے نام سے کھڑی کی گئی دس سے زیادہ بٹالین اپنے اپنے کمانڈروں کے ماتحت مختلف مقامات پر بکھری ہوئی تھیں ۔ جو بغیر کسی لڑائی کے ان علاقوں میں مقامی لوگوں کی مہمانداری سے لطف اندوز ہو رہی تھیں ۔ اِس فورس کو بدھل کے نمبردار حاجی اسرائیل خان اور اُن کے بھائی حاجی محمدعلی خان چھ ماہ تک راشن مہیا کرتے رہے مگر ان کی کارکردگی بھی صفر رہی ۔ دیر سکاوٹ کا ایک دستہ جو تین سو مجاہدین پر مشتمل تھا راجوری سیکٹر پہنچا تو مقامی کمانڈروں نے اُن کی تجاویز مسترد کر دیں ۔ دیر سکاوٹ کے کمانڈر تحصیلدار حاجی اخوانزادہ نے اُنھیں باور کروایا کی آپ یہاں بیٹھ کر دشمن کا انتظار نہ کریں بلکہ سب سے پہلے پونچھ کے محصورین کو ختم کرکے گلے میں پھنسی ھڈی کو نکالیں ۔ پونچھ کے بعد نصف فورس نوشہرہ اور نصف پیر پنجال کے راستے سرینگر روانہ کریں ورنہ شکست آپ کا مقدر ہوگی۔
راجوری کے کمانڈروں نے دیر سکاوٹ سے اتفاق نہ کیاتو وہ بغیر کسی ایکشن کے واپس چلے گئے۔
سوا ئے نوشہرہ ، پونچھ گیریژن اور وادیِ کشمیر کے سارا علاقہ خالی تھا۔ مقامی ہندو آبادی مار دی گئی تھی یا پھر نقل مکانی کر کے نوشہرہ اور سرینگر منتقل ہو گئی تھی۔ ڈوگرہ فوج بھی یہ علاقہ خالی کر چُکی تھی اور ابھی تک بھارتی فوج نوشہرہ اور سرینگر پر توجہ مرکوز کیئے ہوئے تھی۔
راجوری سیکٹر والوں کے ساتھ بھی ویسے ہی ہوا جیسے دیری کمانڈروں کا اندازہ تھا۔ بھارتی بریگیڈ کے آتے ہی راجوری والے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے اور پھر موسم کھلنے کے بعد بھارتی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے۔
کھوئیرٹہ اور کوٹلی پر قبضہ کرنے والا بھارتی بریگیڈ اور پلندری میں تعینات ڈوگرہ فوج کی کامیابی میرپور اور براستہ چڑہوئی گلپور روڈ پر قبضے سے منسلک تھی ۔ کوٹلی پر حملہ کامیاب رہا مگر گلپور اور میر پور پر دو بریگیڈوں کے لگاتار دو حملے بری طرح ناکام ہوئے ۔ بھارتی ہائی کمان نے کوٹلی بریگیڈ اور پلندری فورس کے کٹ جانے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے کوٹلی بریگیڈ معہ کوٹلی کی ہندو آبادی کے نوشہرہ بلا لیا۔ میرپور اور چڑہوئی پر تین لگاتار حملوں کی ناکامی کے بعد کوٹلی میں ٹھہرنا تجویزاتی لحاظ سے بھی درست نہ تھا۔ جناب سردار ابراہیم خان کی حیرانگی کی یہی وجہ تھی جو اُن کی وار کونسل کے جرنیل بتانے سے قاصر تھے۔ بھارتی بریگیڈ کی پسقدمی کے دوران سہنسہ سے تعلق رکھنے والے راجہ سخی دلیر خان نے لوکل مجاہدین کی مدد سے لچھمن پتن جسے اب آزاد پتن کہا جاتا ہے پر چھاپہ مار کاروائی کی اور ڈوگرہ پولیس کی چوکی پر قبضہ کر لیا۔ سچی بات تو یہی ہے کہ پلندری ، سہنسہ اور کوٹلی دشمن نے خود خالی کردیے مگر راجوری کی طرح کوٹلی کے بھی درجنوں فاتحین سامنے آگئے۔ ان فاتحین میں راجہ سخی دلیر بھی شامل ہیں جنکا دعویٰ کسی حد تک درست ہے چونکہ وہ کوٹلی کے آخری کونے پر واقع لچھمن پتن پر قائم ڈوگرہ پولیس کی چوکی کے فاتح ہیں ۔
سردار ابراہیم خان صاحب کی منصوبہ بندی کا یہ حال تھا کہ سوائے پونچھ محاذ کے کسی بھی جگہ مجاہدین کیلئے راشن سپلائی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید لکھتے ہیں کہ علاقہ کی خواتین قابلِ تعریف ہیں جو راتوں کو چکیاں پیس کر چار من آٹا ہر روز محاذِ جنگ پر بھجواتی ہیں ۔ انوار ایوب راجہ نے اپنی تحریر ‘‘سفید پوش’’ میں اِن خواتین اور آٹا پیس کر محاذ پر بھجوانے کے طریقہ کار کا مفصل احوال لکھا ہے۔ راقم کے پاس مجاہدین کے درجنوں خطوط اور راشن وصولی کی رسیدیں موجود ہیں جو مجاہدین کمانڈر سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت خان کو لکھتے اور پھر راشن وصول کرنے کے بعد رسید بھجواتے تھے۔ ایک خط میں دیر سکاوٗٹس کے سپہ سالار اعلیٰ ذیلدار صاحب کو لکھتے ہیں کہ ہم مجبوری کی وجہ سے آپ کو تنگ کرتے ہیں ۔ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ہماری مدد کرنے کے لائق ہی نہیں ۔ راجہ مظفر خان شہید لکھتے ہیں کہ مجاہدین اکثر بھوکے رہتے ہیں یا پھر میسر آ جائے تو مکئی کی خشک روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ سردی اور بارش کی وجہ سے اِن کے جسم ٹھٹھراتے ہیں۔ راتوں کو لکڑی جلا کر گزارہ کرتے ہیں تا کہ دفاع وطن میں کوئی غفلت نہ ہو۔
کرنل ایم اے حق مرزا نے لکھا کہ پونچھ محاذ پر آکر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ سردار عبدالقیوم خان کی کمانڈ پوسٹ میں دنیا کی ہر سہولت میسر تھی۔ ایک ہم تھے کہ چھ ماہ تک پیر پنجال کی چوٹیوں پر ہلہ گھاس اُبال کر کھاتے اور دشمن سے لڑتے رہے مگر کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے۔ اس دوران ہمیں نہ صابن اور نہ ہی پانی میسر ہوتا کے ہم نہاتے۔ کپڑوں اور سروں میں دُمدار جوئیں پڑی تھی جو ہمارے خون پر پل رہی تھیں دوسری طرف پونچھ محاذ پر پکنک منانے والوں کو شاہانہ سہولیات میسر تھیں جو دشمن پر گولی نہ چلانے اور اُسے آرام سے پونچھ میں سردیاں گزارنے کا صلہ تھا۔
بھارتی جرنیل کی درخواست پر بریگیڈئیر اعظم خان نے ائیر لفٹ کی اجازت دی تو بھارتی فوج نے اسلحہ و ایمونیشن کے علاوہ تازہ کمک پونچھ میں اُتار دی۔ بجائے کہ مجاہدین کے پانچ بریگیڈ محصور ڈوگرہ کمپنیوں کیخلاف ایکشن کرتے اُلٹا محصورین نے دائیرہ وسیع کرنا شروع کردیا۔ سردیوں میں ہی بھارتی فوج نے پونچھ راجوری روڈ کلیر ٗ کرلیا اور پھر موسم کھلتے ہی لنک اپ مکمل ہو گیا ، پونچھ سے قبائلی رخصت ہو گئے اور آزاد فورسز نے بڑی مشکل سے موجودہ لائین آف کنٹرول کا دفاع کیا۔ پونچھ کے بریگیڈ کمانڈروں نے چھ ماہ تک پروپیگنڈہ وار لڑی اور پھر فائیر بندی کے بعد اِس شہرت کے بل بوتے پر سیاسی محاز پر فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آزاد کشمیر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
دیکھا جائے تو پونچھ محاذ کے کمانڈروں کی سب سے بڑی کامیابی آزاد کشمیر کی فتح ہے جو عسکری نہیں بلکہ سیاسی پراپگنڈے کا صلہ ہے۔
حق مرزا لکھتے ہیں کہ اگر فائیر بندی ہی قبول کرنا تھی تو اُسکا بہترین وقت تب تھا جب ہم راجوری، پیر پنجال ، شوپیاں اور سونا مرگ پر بیٹھے تھے۔ اِس صورتحال میں بانہال سے تبت تک کا علاقہ آزاد کشمیر ہوتا اور صرف جموں بھارت کو ملتا۔ انگریزوں کا چناب فارمولہ بھی یہی تھا جسے آج تک متضاد بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ حق مرزا لکھتے ہیں کہ فائیر بندی سے پہلے پاکستانی توپخانے نے جس انداز سے بیری پتن پر گولہ باری کی اگر ابتداٗ میں اس کا ایک فیصد بھی پونچھ پر استعمال ہوتا تو کشمیر کی تقدیر بدل جاتی۔ اندرونی سازشیں کیا تھیں اور کون بھارت کو کشمیر کا تحفہ دے رہا تھا اِسکا احوال سردار شوکت حیات ، میجر میر افضل خان اور ایم اے حق مرزا نے لکھا ہے جسپر کبھی کسی کی نظر ہی نہیں پڑی۔
لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہٗ جراٗت (دوبار) کی سولہ صفحات پر مشتمل جنگی ڈائیری جہادِ آزادی کشمیر کی مکمل اور سچی داستان ہے۔ آپ نے لکھا کہ مسئلہ کشمیر نہ سیاسی ہے اور نہ ہی عسکری ۔ یہ ایک روحانی مسئلہ ہے جو روحانیت کی قوت سے ہی حل ہوگا ۔ ہم نے دیکھا کہ 1947ء سے تاحال مسئلہ کشمیر بتدریج سرد خانے میں ڈالنے اور اِس سے جان چھڑانے کے کئی حیلے اور حربے استعمال ہو چکے ہیں جو سب بھارت کے مفاد میں گئے۔ 1947ء میں جو کچھ ہوا اُسکا مختصر احوال ہمارے سامنے ہے۔ 1947ء میں بھارت نے اپنی ساری عسکری قوت کشمیر پر صرف کر دی مگر مٹھی بھر بے سروسامان مجاہدین کے سامنے بے بس رہا۔
پونچھ کے محاذ والوں نے بھارت کو جو رعائتیں دیں اُسکا بھی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا جبکہ قبائلی کشمیر میں داخل کرنے کا مقصد ہی کشمیر بھارت کے حوالے کرنا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ملک کا وزیرِاعظم اور کابینہ گورنر جنرل کو اندھیرے میں رکھ کر فیصلے کرتے پھریں اور اپنی شہ رَگ بھارت کے حوالے کر دیں ۔
نیلم سے تعلق رکھنے والی ایک روحانی شخصیت حضرت مولانا برکت اللہ جھاگویؒ کا فرمان ہے کہ میں نے روحانی میدان میں بہت زور لگایا اور اپنی جان بھی داوٗ پر لگا دی مگر کیا کروں ‘‘والئی کشمیر نہیں مانتے’’ حکومت آزاد کشمیر کے سابق سیکرٹری جناب ظفر ملک کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ کے سوال پر جناب برکت اللہ صاحب ؒ نے جواب دیا کہ کشمیر کا آزاد ہونا لکھا جا چکا ہے مگر یہ کسی جنگ کا نتیجہ نہ ہو گا ۔ بھارت خود بخود کشمیر سے نکل جائے گا اور اگر جنگ ناگزیر ہوئی تو سرخ ٹوپیوں والا لشکر میدان میں آئے گا ۔ دیگر روحانی شخصیات اور اہلِ نظر و فکر کا بھی یہی بیان ہے۔
جناب راجہ مظفر خان شہید علاقہ پنجن پلاہل کے لوگوں کی اخلاقی حالت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان میں اکثر دو کشتیوں کے سوار ہیں یعنی منافقت کے مرتکب ہیں ۔ وہ بظاہر مجاہدین کے ہمدرد ہیں مگر اصل میں ڈوگروں کے وفا دار ہیں ۔ آج پچھتر سال بعد بھی اِس علاقہ کے لوگوں کی سیاسی اور اخلاقی حالت پہلے سے ہزار گنا بد تر ہے۔ اتحاد و اتفاق اِن کی سرشت میں ہی نہیں اور اغیار سے معاملات طے کرنے کے ہزاروں ماہرین اِن کی گود میں پلتے ہیں۔
ڈوگرہ دور میں ذیلدار کے چناوٗ کا مرحلہ آیا تو بائیں نمبردار جو ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے کسی ایک امیدوار پر متفق نہ ہو سکے۔ آخر کار ڈوگرہ حکومت کی سرزنش پر دوسرے قبیلے کے نمبردار کو ووٹ دے کر ذیلدار منتخب کر لیا ۔ 1947ء کی جنگ میں گیارہ بھارتی افسروں اور جوانوں کو مجاہدین کے خلاف بہادری سے لڑنے اور میدانِ جنگ میں کام آنے کے صلے میں بھارت کا سب سے بڑاجنگی اعزازمہاویر چکر دیا گیا۔ گیارہ کی اِس فہرست میں لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید کا مدِ مقابل بریگیڈئیر محمد عثمان خان بھی شامل ہے جس کے سر پر مجاہدین کی مارٹر کا گولہ گرا۔ بریگیڈئیر عثمان بھارتی فوج کا ھیرو ہے جس کے کارناموں پر درجنوں کتابیں لکھی گئ ہیں ۔
بھارتی خود اس بات کے معترف ہیں کہ نوشہرہ ہاتھ سے نکلنے کا مطلب کشمیر ہاتھ نکلنے کے مترادف تھا۔ نوشہرہ آپریشن بھارت کے عسکری تعلیمی اور تربیتی اداروں کے نصاب کا حصہ ہے ۔ نوشہر آپریشن پر کئی عسکری ماہرین نے تحقیقی کام کیا اور اِس کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ نوشہرہ آپریشن بھارت کی عسکری ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس سے اِس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ بھارتی ماہرین نے اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک انفینٹری بریگیڈ توپخانے ، بکتر اور ہوئی قوت کے بھرپور استعمال کے باوجود کوٹ (سبز کوٹ) پر قبضہ نہ کرسکے۔ بھارت نے نوشہرہ کو درہ دانیال قرار دے رکھا تھا چونکہ نوشہرہ کشمیر کے قلعے کا دروازہ تھا۔ اگر بند ہو جاتا تو کشمیر بھارتیوں کے ناپاک قدموں سے پاک رہتا ۔ مگر ان ناپاک قدموں کی خاک پا بہت سے ناپاک پاک دھرتی پر موجود تھے جو بھارت کو مجاہدین کی کمزوریوں سے باخبر رکھتے تھے۔
نوشہر کے محاذ پر بھارت نے دو ڈویژن فوج تعینات کر رکھی تھی جسکا ذکر صرف راجہ مظفر خان کی ڈائیری میں موجود ہے۔ ابتداٗ میں ایک بریگیڈ نے بریگیڈ ئیر چتر سنگھ کی کمان میں حملہ کیا جو ہری پور کے مقام پر راجہ مظفر خان نے سید برادران کے تیس جوانوں کی مدد سے پسپا کیا۔ دوسرا بریگیڈ کوٹلی اور تیسرا پونچھ کی طرف اور چوتھے بریگیڈ نے دوبار چڑہوئی کی طرف یلغار کی مگر محض تین سو دیری سکاوٗٹس کی مدد سے راجہ مظفر خان ، سپہ سالارِ اعلیٰ حضرت علی اور بعد میں میجر تیمور نے ناکام بنا دی۔ بریگیڈئیر عثمان کے خلاف مجاہدین نے کامیاب حملے کیئے اور متلاسی اور جھنگڑ پر قبضہ کر لیا۔ اِن حملوں میں بھارت کا ایک ہوائی جہاز مار گرایا گیا اور
اُس کی دو بٹالین کا مکمل صفایا ہوگیا۔ بھارتی جنگی قیدی کے مطابق اُس کی تیسری بٹالین بھی ناکارہ ہو چکی تھی اور فی الحال بریگیڈئیر عثمان سبز کوٹ پر حملے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ میجر جنرل لچھمن سنگھ 1947ء میں بھارتی توپخانے کا دیدبان تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ ہم نے پانچ سو قبائیلی جو ایک مسجد میں پناہ لیے ہوئے تھے شہید کیے ۔ لچھمن سنگھ کی تحریر جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ نوشہرہ کے محاذ پر صرف چار سو دیری مجاہدین تھے جن میں سے ایک سو شہید ہوئے گے جن کا قبرستان سبز کورٹ کے پرفضا مقام پر موجود ہے۔ تین سو غازی فائیر بندی کے بعد واپس گئے جنکا ثبوت راقم کے پاس محفوظ ہے۔
بی۔بی۔سی اردو سروس نے نوشہرہ آپریشن پر طویل پروگرام کیے اور بھارتی فوج کے کارناموں کو اُجاگر کیا۔
حیرت کی بات ہے کہ نوشہرہ آپریشن نہ تو ہماری عسکری اور نہ ہی قومی تاریخ کاحصہ ہے ۔ اگرچہ چڑہوئی ڈگری کالج کا نام راجہ مظفر خان شہید سے منسوب ہے مگر طلبہ سمیت علاقہ کے لوگوں کو اس عظیم قومی ھیرو کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ علاقہ کے عوام کی سیاسی اور اخلاقی حالت ہے جو آج بھی ‘‘دو نہیں بلکہ دو سو کشتیوں کے سوار ہیں ’’۔ 1947ء میں اگر بھارت کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو یقیناً کامریڈ ترلوک چند یا پھر سونہا سنگھ یہاں سے اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے اور حکومتی وزیر بھی ہوتے۔ پنجن و پلاہل اور ملحقہ علاقوں کے حالات وہ ہی ہیں جنکا ذکر لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید نے کیا ہے۔
جنگِ آزادی کشمیر سے بے اعتنائی اور بیزاری کا یہ عالم ہے کہ 1947ء کی جنگِ آزادی میں سب سے بڑا فوجی اعزاز ‘‘ھلالِ کشمیر’’ کسی نے تسلیم ہی نہیں کیا۔ یہ اعزاز بھی مرحوم جنرل پرویز مشرف اور جنرل راشد قریشی کو جاتا ہے جنھہوں نے نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کا اعزاز تسلیم کرتے ہوئے اُنھیں نشانِ حیدر کا مستحق ٹھہرایا۔ مجاہدہ حسین بی بی شہید ستارہٗ جراٗت کا تعلق بھی جنجوعہ خاندان سے ہے جسے پونچھ کے قلم کار چھوٹی برادری کے تعلق کی وجہ سے اہمیت نہیں دیتے۔ کشمیریوں کی غلامی کی ایک بڑی وجہ عقیدے کی کمزوری اور باہمی تفریق، تقسیم اور نفرت ہے جو کشمیری خود ساختہ رہنماوں اور سیاستدانوں کا کل اثاثہ ہے ۔ آزاد کشمیر کا خاندانی اور برادی جمہوری نظام سفلی اور استدراجی نظام کی بد ترین مثال ہے جس کی جڑیں دن بدن مضبوط ہو رہی ہیں ۔ دیکھا جائے تو1947ء کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا ۔ ترلوک چند اور سونہا سنگھ تو 1947ء میں رخصت ہو گئے مگر اُن کے سیاسی جانشین آج بھی حکمران ہیں ۔
(جاری ہے)

Exit mobile version