راجہ رعائت خان علم دوست شخصیت تھے اور علما و اساتذہ کے قدر دان اور خدمت گزار تھے ۔ عیدین اور بعض اوقات نماز جمعہ کے لیے آپ گاوں تندڑ سے پیر صوفی فضل الرحمن صاحب کو مدعو کرتے تو دور دراز کے گاوں اور دیہاتوں سے لوگ عید اور جمعے کی نماز پڑھنے آتے ۔ صوفی فضل الرحمن پیر صاحب موہڑہ شریف حضرت پیر قاسم کے مرید اور خلیفہ خاص تھے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ایک جامعہ مسجد اور عظیم مدرسہ تھا جہاں سے آپ فارغ التحصیل تھے ۔ میرے بڑے بھائی مرحوم راجہ ذوالقرنین صاحب مجھے اکثر اس مسجد میں لیجاتے چونکہ میرے والد مولوی محمد عزیز صاحب لاہور میں تعیناتی کے دوران اسی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے اور صوٖفی صاحب سے ملاقات بھی کرتے تھے ۔
ہم دونوں بھائی جب بھی اس مسجد کو دیکھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے ابا جی مرحوم ابھی کسی دروازے سے آکر ہمیں آواز دینگے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ والد صاحب مرحوم نے اپنی دینی تعلیم بھارت کے شہر پونہ اور دھرادون سے مکمل کی ۔ بعد میں آپ ریلوے پولیس میں بھرتی ہوے اور گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن پر تعیناتی کے دوران حضرت پیر مہر علی شاہ کے مریدین میں شامل ہو گئے۔
صوفی فضل الرحمن صاحب دراز قد اور سرخ و سفید چہرے والے با رعب شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی گفتگو عالمانہ ہوتی جس کی وجہ سے درجنوں لوگ ہر وقت ان کی محفل میں بیٹھتے تھے ۔ صوفی صاحب کی آواز بلند اور پر سوز تھی ۔ آپ تلاوت کلام پاک کرتے یا حمد و نعت پڑھتے تو سننے والے اپنے آنسو نہ روک سکتے ۔ ان دنوں ہمارے علاقے میں کوئی جامع مسجد نہ تھی ۔ صوفی صاحب راجہ رعائت خان صاحب کی دعوت پر تشریف لاتے تو نماز عید یا جمعہ کا اہتمام کھلے میدان میں ہوتا ۔ نماز کے بعد درود و سلام پڑھا جاتا اور یوں یہ دن ایک بڑے دینی تہوار میں بدل جاتا۔ گاوؑں پنجوئی (پلاہل کلاں)کے مولوی سید محمد صاحب نے نماز جمعہ کے انعقاد پر کئی بار فتوےؑ دیے ۔ آپ نے مفتی اعظم آزاد کشمیر مفتی عبدالحکیم اور ریاستی انتظامیہ سے درخواست کی کہ شرعی لحاظ سے یہاں نماز جمعہ نہیں پڑہائی جا سکتی لہٰذا نماز کا اہتمام کرنے والوں کے خلاف شریعت کے مطابق مقدمہ درج کیا جائے۔ راجہ رعائت خان نے کسی فتوے کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا اور نماز جمعہ کا کبھی کبھی اہتمام ہو جاتا ۔
بعد میں میری والدہ کے چچا مولوی محمد اشرف صاحب فاریسٹ آفیسر نے کالا ڈب کے میدان میں جو فاریسٹ ریسٹ ہاوؑس کے سامنے تھا باقاعدہ نماز جمعہ کا اہتمام شروع کر دیا ۔ سائیں محمد جنجوعہ صاحب کو موذن مقرر کیا اور چودھری نیک محمد صاحب کو انتظامی امور پر لگا دیا۔ نیک محمد صاحب مولوی اشرف صاحب کے گھر سے سفید چادریں لاتے، میدان صاف کرتے اور صفوں پر چادریں بچھا کر نماز کی تیاری کرتے ۔ نماز جمعہ کے اس اجتماع پر مولوی سید محمد صاحب چراغ پا ہو گئے چونکہ آپ اسے شریعت کی خلاف ورزی سمجھتے تھے ۔ مولوی سید محمد صاحب کی تعلیم و تربیت ایک بڑے عالم دین اور صوفی منش شخصیت جناب مولوی عبداللہ صاحب نے کی ۔ مولوی عبداللہ صاحب ڈوگرہ دور میں ہمارے علاقہ میں آئے اور لوگوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا۔ آپ کا تعلق ضلع ہزارہ سے تھا۔ آپ کی بیگم بھی عالمہ تھیں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں۔ مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد میں صرف ایک بیٹی ہی تھی جس کا عقد آپ نے اپنے ہونہار طالبعلم مولوی سید محمد سے کیا۔ مولوی عبداللہ صاحب نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ آپ اوائل جوانی میں یہاں پر آئے اور اسی زمین میں آسودہ خاک ہوے۔ مولوی عبداللہ صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوے میرے والد محترم کی پھوپھی حضرت بی بی عنائیت بیگم جو ولیہ اور شاعرہ تھیں نے اپنی تصنیف ’عشق حقیقیـی‘ میں لکھا:
جو حضرت عبداللہ صاحب ہوندے وچ پنجوئی
ایسا عابد زاہد صوفی اوتھے ہور نہ کوئی
اک اکلا وارث اللہ نالے سی پردیسی
انشاٗ اللہ سرور عالم جنت بخش کریسی
نعتاں پاک صلاتاں اندر عمر تمام گزاری
پاک نبی منظوری کر کے کہسن برخورداری
جس جگہ اس بندے رب دے زندگی روز گزارے
کرن تعلیم قرآن مجیدوں لڑکے کڑیاں سارے
نہ کوئی جمیا موڑن والا حق تقدیر الہی
ماہ شعبان مبارک اندر پیتا جام قضائی
نہ زمین نہ پرچہ قبضہ واہ درویشی چالا
لڑھ لگیاں دی لجھ رکھیسی شاہ مدینے والا
مللک ہزارہ وطن پیارا جتھے بہناں بھائی
وچ پنجوئی تربت ہوئی متھے دی لکھوائی
شاہ بغداد کرے امداداں پائیے کل مراداں
تخت مدینہ حضرت جیوناں خود سنسن فریاداں
مولوی سید محمد صاحب اب کھل کر میدان میں آگئے اور حکومت آزاد کشمیر کو نماز جمعہ پر پابندی لگانے کی درخواست دے دی۔ آپ کی درخواست پر ایک جمعے کے روز کمشنر میر پور ڈویژن، ڈپٹی کمشنر ہمراہ ایس پی میر پور، مفتی اعظم جناب مفتی عبدالحکیم اور دیگر مفتیان، علمائے کرام پولیس فورس لے کر کالا ڈب کے میدان میں آگئے۔ کالا ڈب تب تحصیل میر پور، بھمبھر اور کوٹلی اور آج کل ان تینوں ضلعوں کے سنگم پر واقع ہے جس کی وجہ سے جرائیم کا گڑھ بن چکا ہے۔
حکومتی عملہ آنے سے پہلے چودھری نیک محمد صاحب نے میدان صاف کیا صفیں بچھائیں اور سفید چادریں ایک طرف رکھ دیں ۔ اس جمعے کے روز تینوں تحصیلوں سے سینکڑوں لوگ کالا ڈب آئے۔ چودہری شاہ محمد صاحب نے حکومتی اہلکاروں کے لیے چائے کا بندوبست کیا اور مولوی اشرف صاحب نے کرسیاں اور میز لگوائے۔ سب سے پہلی تقریر ڈپٹی کمشنر نے امن و امان کے حوالے سے کی اور پھر مفتی صاحبان نے شریعت کے لحاظ سے نماز جمعہ کے متعلق احکامات پر روشنی ڈالی ۔ مولوی اشرف صاحب نے مثنوی مولانا روم سے چند اشعار پڑھے اور پھر باقاعدہ مناظرہ شروع ہو گیا۔ مفتی صاحبان جو اعتراض اٹھاتے مولوی اشرف صاحب اس کا جواب سیرت نبوی، احادیث رسول اور قرآنی آیات کے حوالے سے دیتے۔ مناظرہ طویل ہو گیا تو بد مزگی کا ماحول پیدا ہونے لگا۔ ایک طرف مفتیوں اور علما کی ٹیم تھی اور دوسری جانب اکیلے مولوی محمد اشرف صاحب تھے۔ ماحول کی گرماہٹ اور عوام کے تیور دیکھتے ہوے کمشنر نے مولوی عبدالحکیم صاحب کو بحث سمیٹنے کا مشورہ دیا۔ مفتی صاحب سخت غصے میں تھے۔ آپ نے کھڑے ہو کر تھوڑی بات کی اور پھر غصے کی حالت میں کہا ’’ایتھے جمعہ نہیں ہوندا‘‘ ہوندا کے دو معنی ہیں۔
اول یہاں جمعہ نہیں ہوتا اور دوئم یہاں جمعہ نہیں ہو سکتا ۔ چودہری نور محمد صاحب اگرچہ تعلیم یافتہ نہ تھے مگر انتہائی زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے ۔ آپ اپنا کھونڈا (عصا) اپنے ساتھ اسٹیج پر لے آے اور کہا، مفتی صاحب ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ایتھے جمعہ نہیں ہوندا لہٰذا ہونا چاہیے ۔ یہ سن کر کسی نے نعرہ تکبیر بلند کیا تو عوام نے اللہ اکبر اور صدقے یا رسول اللہ پر جوش انداز میں کہا۔ حوالدار راجہ دلاور خان نے اپنے انداز میں کہا ’’منڈیا بانگ مار‘‘ چچا دلاور کے اس انداز پر لوگ اعتراض کرتے مگر وہ پھر بھی بھول جاتے اور معافی مانگ لیتے چچا دلاور ملٹری کالج کے تربیت یافتہ تھے اور جنرل ٹائیگر نیازی کے رومیٹ اور بعد میں کسی ایک ہی یونٹ میں اکٹھے کوت نائیک رہ چکے تھے۔ ڈھاکہ فال ہوا تو چچا دلاور نے کہا کے جس بیوقوف نائیک سے کمپنی کی رائفلیں نہیں گنی جاتی تھیں یحٰیحٰی خان نے اسے مشرقی پاکستان دے کر ملک گنوا دیا۔ چچا دلاور کے والد راجہ ہست خان اور سماہنی والے راجہ بڈھے خان یحٰیحٰی خاندان کو بھی جانتے تھے ۔ یحٰیحٰی خان کے والد اور ان دو حضرات نے پولیس میں اکھٹے نوکری کی تھی۔
چچا دلاور کے کہنے پر سائیں محمد صاحب نے درود و سلام پڑھنا شروع کیا تو چودہری نیک محمد صاحب نے چٹائیوں پر چادریں بچھانا شروع کر دیں۔ کمشنر صاحب، مفتی صاحبان اور دیگر عملہ ایک طرف ہو گیا۔ مولوی اشرف صاحب نے خطبہ پڑھنا شروع کیا تو کمشنر صاحب جوتے اتار کر صف میں بیٹھ گئے۔ اس کے بعد دیگر عملہ اور افسران بھی نماز میں شامل ہو گئےاور دعا کے بعد اپنی جیپوں میں بیٹھ کر رخصت ہو گئے۔ نماز کے بعد مولوی اشرف صاحب نے حاظرین کو منع کیا کہ کوئی شخص مفتی عبدالحکیم، مولوی سید محمد اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف بات نہ کرے۔ کچھ عرصے بعد کوٹلی اور بھمبھر اضلاع بن گئے۔ اخلاق باختہ اور ہر لحاظ سے بد اطوار لوگوں نے پیسے، دھونس، دھاندلی اور غنڈہ گردی کے زور پر برادری سیاست اور جمہوریت کی بنیاد ڈالی تو اسی قماش کی پاکستانی سیاسی جماعتوں نے انہیں نہ صرف گود لیا بلکہ انہیں کشمیر کی تاریخ، ثقافت اور کلچر کو بدلنے کی بھی کھلی چھٹی دے دی۔ جاہلیت اور دولت کی فراوانی نے ہر گاوں اور محلے میں ایسے غنڈہ صفت افراد کا مجمعہ لگنے لگا جنہیں عزت دار لوگ کبھی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ پٹواری اور تھانے دار ہی نہیں بلکہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے عہدے کے لوگ ان کی دعوتوں پر آنے اور چاپلوسی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آزادی کا نام نہاد بیس کیمپ پاکستانی سیاسی جماعتوں کا اکھاڑا بن گیاتو عام آدمی ایک نئے غلامانہ دور میں جینے پر مجبور ہو گیا۔
کچھ عرصہ بعد کالا ڈب ایک جدید ٹاون بن گیااور وہ سب شرعی لوازمات جن کا ذکر مولوی سید محمد کرتے تھے پورے ہو گئے۔ کالا ڈب کے میدان کے ایک کونے میں جامع مسجد کی تعمیر بھی شروع ہو گئی۔ علاقہ پلابل، پنجن اور راجدھانی کے عوام نے چند غنڈوں کی حاکمیت تسلیم کر لی اور ان کے قائد نے جبری جمہوریت کے نام پر ہر اس شخص کا استحصال شروع کر دیا جو اس کی مرضی کے خلاف سانس لینا چاہتا تھا۔ تیسری دنیا کے جمہوری نظام کا جائزہ لیا جائے تو اس شخص نے کوئی انوکھی بات نہیں کی بلکہ مروجہ جمہوری اصولوں کے مطابق ہی اپنی حکمرانی قائم کی ۔ جب عام لوگوں میں بے حسی بڑھ جائے اور بے توقیری کا احساس ختم ہو جائے تو کسی بھی شخص کا حق بنتا ہے کہ وہ انہیں قوت کے بل بوتے پر اپنا مطیع اور غلام بنا لے۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ہیرو بڑے بڑے ڈاکو، لٹیرے، رہزن اور بستیوں اور شہروں کو اجاڑنے والے قاتل اور سفاک قبائیلی سردار ہی ہوتے تھے۔
ہمارے ملک میں اسلام کے لبادے میں چانکیائی اور میکاولین جمہوری نظام رائج ہے جو نہ تو جمہوری اور نہ اسلامی مزاج کا حامل ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں عوام و خواص سے لے کر عالم و حکیم تک ہر شخص ان افعال کا مرتکب ہے جن کی بنا پر ماضی کی انتہائی زیرک، طاقتور، دانشمند اور جابر اقوام اللہ کے عذاب کا نشانہ بن کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ قوم لوط، عاد، ثمود اور اصحاب رس و تبعہ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ یہ سب پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ کہیں غربت جہالت اور غلامی نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں تو کہیں دولت کی فراوانی نے عقلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ وہ جو دن رات اللہ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں وہ بھی اپنے زہد و فقر کی تشہیر سے مبرا نہیں۔ یہی حالت علما و مشائخ، دانشوروں اور محققین کی ہے۔ کہیں مرضی کا مسلکی اسلام ہے تو کہیں دین بیزار مغربی حکما و فلاسفہ کی تقلید و تعریف ہے۔ اخباروں، رسالوں، شادی کارڈوں، دعوتی کارڈوں، عرسوں اور تقریبات کے پیغاموں اور اشتہاروں سے لے کر کیلنڈروں اور ڈائریوں پر قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں اور پھر انہیں کچرے کے ڈھیروں پر پھینک دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی کا حکم ہے کہ جب تم ناپاک ہو تو قرآن مجید کو مت چھوو، یہ چلن صرف پاکستان تک محدود ہے جس قوم کی اخلاقی، روحانی، دینی، سیاسی اور معاشرتی حالت اللہ کے عذاب کی بھینٹ چڑھنے والی اقوام سے بھی بد تر ہو اس کا وجود قائم رہنا بھی اللہ رحیم و کریم کا احسان ہے،
-جاری ہے –