شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ”ابر اگرآب زندگی بارد، ہر گز از شاخ بید برنخوری۔ با فرد مایہ روزگار مبر، کزنی بوریا شکر نخوری“۔ بادل اگر آب حیات بھی برسائے تو بید کی شاخ پر پھل نہیں لگے گا اور نہ کوئی اسے کھائے گا۔ اسی طرح کسی کمینے، کم مایا ، لالچی، ہوس پرست، کنجوس اور فریب کار شخص کے ساتھ زندگی کی اُمید یں نہ باندھ کیونکہ تو پٹ سن سے شکر نہیں کھا سکتا۔ پٹ سن کی ڈنڈیاں اگرچہ گنے کی طرح لگتی ہیں مگر اُن میں شیرا نہیں ہوتا جس سے شکر بنتی ہے۔ ہم شکل چیزیں ہم اوصاف نہیں ہوتیں اور نہ ہی اُن سے وہ فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کی طلب ہوتی ہے۔ میاں محمد بخش ؒ نے لکھا کہ کمینے اور گھٹیا سوچ والے شخص سے بھلے کی اُمید رکھنا ایسے ہے جیسے انگوروں کی بیل کیکر پر چڑھا دی جائے۔ صوفیا اور علمائے حق کی شاعری آسان اور عام فہم اس لئے ہے کہ وہ عام لوگوں کی تربیت کا مشن لیکر آتے ہیں مگر عام لوگ کم ہی عقل کی باتوں پر توجہ دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں قارون کے محلات اور باغات کے علاوہ اُس کے خزانوں کا ذکر ہے جن کی کنجیاں کئی طاقتور غلام اُٹھاتے تھے۔قارون اسقدر مال و دولت اور جاہ حشمت کے باوجود ایک کمینہ، لالچی، کم مائیہ،ہوس پرست، کنجوس اور فریب کا ر شخص تھا۔ وہ ہمیشہ فرعون کے چاپلوسی کرتا، اُس کی شان میں چرب زبانی سے کام لیتا اور حضرت موسیٰ ؑ کے خلاف سازشوں کا جال پھیلاتا۔ قارون کی جماعت میں ایسے لوگ بکثرت شامل ہوئے جواُس کی شیطانی چالوں، حربوں اور بد اعمالیوں کی تعریفیں کرتے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے دور کرتے۔ عام لوگ قارون کے محلات، باغات، شان وشوکت اور کروفر کی تعریفیں کرتے اور اُسے خوش قسمت انسان کہتے۔ اکثر لوگ کہتے کہ کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے اور جو کچھ قارون کے پاس ہے ہمارے پاس بھی ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے کہ قارون بھی ہماری طرح ایک عام آدمی تھا مگر اپنی چالاکیوں اور چالبازیوں سے فائدہ اٹھا کر وقت کا امیر ترین آدمی بن گیا۔
اللہ کا فرمان ہے کہ جو لوگ قارون کے خزانوں سے متاثر تھے اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اُن کی رائے یکسر بدل گئی۔ قارون اپنے تکبر اور رعونت کے جال میں پھنس گیا اور جب اُس کی جاگیر ڈوبنے لگی تو لوگوں نے کہا شکر ہے ہم قارون کی طرح نہیں ورنہ آج ہمارا بھی یہی حشر ہوتا اور عذاب الہٰی میں جھکڑے جاتے۔
دیکھا جائے تو آج ہم وقت کے قارونوں کی قید میں ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ جاہلیت، دوسری غلامانہ ذہنیت، تیسری نا اُمیدی او رچوتھی اور بڑی وجہ عقیدے کی کمزوری ہے۔ قومی سطح پر جاہلیت کا پہلا واقعہ جسے قوم نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی ہمارے جاہل، خود غرض اور ہوس پرست علماء اور دانشور وں نے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔شہید خان لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور پاکستان کی بنیادیں کمزور کرنیوالے پہلے رہنما تھے۔ آپ نے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کی خاطر کھو کھر اپار بارڈر کھول دیا اور معاشی مہاجروں سے کراچی اور حیدر آباد کے علاوہ ملتان اور رحیم یا ر خان تک کا علاقہ بھر دیا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی گواہی دیکر ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کیا اور راتوں رات امیر کبیر ہوگئے۔ تحقیق کی جائے تو ایم کیو ایم کی بنیا د الطاف حسین نے نہیں بلکہ شہید خان لیاقت علی خان نے رکھی اور بعد میں جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے مفاد میں ان بنیادوں کو مضبوط کیا۔ تاریخ میں وہ دن بھی اہمیت کا حامل ہے جب کراچی میں ایم کیو ایم کے دہشت گردکھلے عام لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے تو اسلام آباد میں چوہدری پرویز الہی جنرل پرویز مشرف کے جلسے کو گرمانے میں مصروف تھے۔ جناب لیاقت علی خان کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان جو قادیانی مذہب کے پیرو کار تھے نے ملکر ایک ایسی چال چلی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ دونوں نے ملکر روس کا طے شدہ دورہ ملتوی کیا اور امریکہ یاترا پر چلے گئے۔ روس نے اپنی سفارتی توہین کا بدلہ لیا جس کا ایک مظاہرہ ہم نے مشرقی پاکستان میں دیکھا۔ امریکہ سے دوستی کے صلے میں آج پاکستان کمزور ہے اور معاشی بد حالی اورتبا ہی کے دھانے پر ہے۔ آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا گلہ دبا رکھا ہے اور سوائے کرپٹ سیاستدانوں، بیورو کرویسی اور مافیا کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے سجین کے گڑھے میں گر تور ہے ہیں مگر جئے بھٹو اور جیئے نواز شریف کا کلمہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ صدیوں پہلے جس قوم کا ذکر سعدی ؒنے کیا ہم وہی قوم ہیں جو بید سے پھل اور پٹ سن سے شکر کھانے کے آروز مند ہیں۔
کشمیریوں کی غلامی اور بد حالی میں خود کشمیر یوں کا جتنا ہا تھ ہے اتناہی وزیر خزانہ غلام محمد، محترم لیاقت علی خان اور سر ظفر اللہ کا ہے۔ قادیانی مذہب کے بانی نے ربوہ کی تشریح اور یوز آسف پر ایک مفصل تحریر لکھی۔ اس تحریر کی روشنی میں قادیانیوں نے کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی جس کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر کی بنیادیں ابتداء میں ہی کھوکھلی کر دی گئیں۔ الفرقان بریگیڈئر کے قیام اور چناب منصوبے کو رد کرنے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو قادیانی منصوبے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جواب تک کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
جناب لیاقت علی خان نے ڈیڑھ لاکھ ریٹائرڈ کشمیری فوجیوں کو مسلح کرنے کا منصوبہ ترک کیا اور سردار ابراہم خان کی حمایت سے مسلح قبائلی دستوں جن کی تعداد پندرہ ہزار تھی کو مظفرآباد، اوڑی اور بارہ مولہ سیکٹر میں بھجوایا جو سراسر عسکری غلطی ہی نہیں بلکہ سوچا سمجھا بلنڈر تھا۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر برٹش انڈین آرمی کی تعداد کم کی گئی تو ستر ہزار فوجی جوان اور جے سی اوز پونچھ اور باسٹھ ہزار سے زیادہ میرپور میں موجود تھے۔ یہی تعداد سردار محمد ابراہیم خان نے بھی اپنی کتاب ”دی کشمیر میں ساگا“ میں لکھی ہے۔ سردار شوکت حیات نے اپنی تصنیف میں بھی لکھاہے کہ جناب وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنی کابینہ کو بھی ہدایت جاری کیں کہ کشمیر کے متعلق گورنر جنرل کو کوئی بات نہ بتائی جائے۔
جنرل محمد زمان کیانی اور بریگیڈئیر راجہ حبیب الرحمن نے چھمب میں ہونے والے سانحہ کے بعد کشمیر لبریشن آرمی کے قیام کا فیصلہ کیا مگر حکومت نے اُن کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنی مدد آپ کے تحت جنرل ایم زیڈ کیانی اور اجہ حبیب الرحمن نے اس فورس کا قیام ممکن بنایا اور رام پیاری محل گجرات میں اپنا ئیڈ کو ارٹر قائم کیا۔ دونوں افسروں نے ریکروٹمنٹ شروع کی تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور ملک بھر سے لوگوں نے خفیہ طریقہ سے چندہ بھجوایا۔ منصوبے کے مطابق کے ایل اے نے چناب توی کوریڈ ور پر قبضے کے بعد بانہال روڈ کو تباہ کرنا تھا تاکہ بھارت پونچھ اور بانہال روڈ کو استعمال نہ کر سکے۔ سر ظفر اللہ خان کو اس منصوبے کی بھنک پڑی تو کے ایل اے ہیڈ کوارٹر رام پیاری محل گجرات سے ڈی اے وی کالج راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔ بعد میں بریگیڈئیر حبیب الرحمن نے بھمبر پر قبضہ کیا اور لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جرات (دوبارہ) نے نوشہرہ میرپور روڈ تباہ کی اور بھارتی ڈویژن کی میرپور کی جانب پیش قدمی روک دی۔ کرنل ایم اے حق مرزا، میجر محمد حسین اور کرنل اکمل نے پونچھ سیکٹر میں کامیاب کارروائیاں کیں اور پیر پنجال پر قبضہ کر لیا۔ پونچھ چھاؤنی میں دو ڈوگرہ کمپنیاں مقید تھیں اور پانچ بریگیڈوں نے پونچھ کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ اس فور س میں دو سدھن بریگیڈ، ایک باغ بریگیڈ جس کے کمانڈ ر مجاہداوّل سردار عبدالقیوم تھے کے علاوہ ایک ریگولر بریگیڈاور ایک قبائلی جتھہ جس کی تعداد ایک بریگیڈ سے زیادہ تھی پونچھ کے باہر بیٹھے مفت کی روٹیاں کھا رہے تھے۔ تین ماہ تک یہ لوگ بیٹھے رہے مگر پونچھ میں محصور دو کمپنیوں پر حملے کی جرات نہ کر سکے۔ تین ماہ بعد بھارتی فوج نے جموں پونچھ روڈ کھول دیا اور لنک اپ مکمل کر لیا۔ جناب کے ایچ خورشید کے مطابق جب قائداعظم کو قبائلیوں کے کشمیر میں داخلے اور میرپور، مظفرآباد اور اوڑی کے شہر جلانے کی خبر ملی تو قائداعظم رنجیدہ ہو گئے۔ فرمایا ہمارا مہاراجہ کشمیر کے ساتھ جو معاہدہ قائمہ ہوا تھا اُس کا کیا بنے گا۔ پھر فرمایا ہم کشمیرکے مسئلے پر غلط بس پر بیٹھا دیے گئے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ جہاد آزادی کشمیر کے ابتدائی دنوں میں مقامی مجاہدین اور دوسری عالمی جنگ کے بعد فوج سے فارغ ہو ئے افسروں جن کا ذکر ہو چکا ہے نے دس ہزار مربع میل رقبے پر قبضہ کیا۔ قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد ان مجاہد افسروں کی جگہ پاکستان آرمی کے افسر تعینات کیے گئے جنہوں نے بغیر کسی وجہ کے چھ ہزارمربع میل رقبہ خالی کر دیا۔ ان کرداروں میں ایک نام بریگیڈئروحید کا بھی ہے جو جنرل ہلاکو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کشمیر سے جونا گڑھ اور ڈھا کہ تک ایک ہی کہانی ہے جس کے کردار بھی مختلف نہیں۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم ان کرداروں کو قائد سمجھ کر مسلسل دھوکہ کھا رہے ہیں۔ (جاری ہے۔)