Tarjuman-e-Mashriq

کشمیر سے جونا گڑھ اور ڈھا کہ- 2

گزشتہ سے پیوستہ
لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے گھریلو تعلقات استوار ہوئے تو ہندوستان میں سیاست کا مزاج بھی بدل گیا۔ اس بدلاؤ میں لیڈ ی ماؤنٹ بیٹن اور اندرا گاندھی کا بھی قلیدی رول تھاجبکہ سردار پٹیل او رسبھاش چندر بوس کے کردار بھی بڑی حدتک اہمیت کے حامل تھے۔ اگرچہ مسلمان، پاکستان مسلم لیگ اور قائداعظم ؒ مخالفت بلکہ بڑی حدتک دشمنی میں سمجھی یکجاہ تھے مگر آپس میں بھی متحد نہ تھے۔ سبھاش چندر بوس انقلابی ذہن کے حامل پر جوش اور عوام دوست نظریے کے پیرو کار تھے۔ یہ سبھاش چندر بوس ہی تھے جن کی دوستی اور سیاسی مزاج نے پنڈت نہرو کو سیاست سکھلائی اور لیڈر بنا دیا۔ لیڈ ی ماؤنٹ بیٹن کی محبت اور برطانوی حکومت کی شفقت بھی پنڈت نہرو کی لیڈری چمکانے اور سیاسی رکاوٹیں ہٹانے میں معاون ثابت ہوئیں جن کی بنیادوں پر نہرو خاندان تین نسلوں تک بھارت پر راج کرتا رہا۔
کسی نے سچ کہا کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سماتیں، جہاز کا ایک ہی کپتان ہوتا ہے،جنگ اور امن کا اعلان ایک ہی شخص کرتا ہے اورکسی قوم کا ایک ہی قائد یا لیڈر ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنی جاندار مخلوق ہے ہر ایک اُمت کے زمرے میں آتی ہے اور اُن کا بھی ایک قائدیا سردار ہوتا ہے۔
پنڈت نہرو نے سب سے پہلے سبھاش چندر بوس کو راستے سے ہٹایا۔ وائسرائے سے ملکر اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا اور جیل میں بند کروا دیا۔ سردار پٹیل اور دیگر نے حالات سے سمجھوتہ کیا اور نہرو کی قدم بوسی میں ہی آفیت جانی۔ اگلا اور بڑا حدف باپو تھے جنہیں کھڈے لائن لگا کر اُن کی اہمیت کم کر دی گئی۔ اس موقع پر گاندھی نے بیا ن دیا کہ ہر قوم کا ایک سلطان (لیڈر) ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اب کانگرس میں بہت سے سلطان پیدا ہو گئے ہیں جن کی موجودگی میں میری اہمیت نہیں رہی اور نہ ہی میں سلطان ہوں۔ بیرسٹر ایس کے مو جمدار نے اپنی تصنیف ”جناح اور گاندھی“ میں متعدد واقعات اور گاندی کے بیانات کا حوالہ دیا ہے کہ نہرو نے حکومت برطانیہ سے ملکر گاندھی کو کانگرس میں علامتی حیثیت میں رکھا چونکہ گاندھی بنیادی طور پر برطانوی استعمار اور نو آبادیاتی نظام کا مخالف تھا۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف مہم چلی تو نلسن منڈیلا سے پہلے موہن داس گاندھی اس تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔ تقسیم ہند کے بعد برطانیہ گاندھی جیسے شخص کو بھارت میں اعلیٰ ترین مقام دینے کے حق میں نہ تھا۔ جو روائیتی سیاست کا حامل اور برطانوی استعمار سے عداوت رکھتا ہو۔ برطانوی استعمار کو مسلم لیگ سے کوئی خوف نہ تھا۔ شروع میں اُن کا خیال تھا کہ پنڈت نہرو اور قائداعظم ؒ دونوں ہی مغربی تعلیمی نظام سے آراستہ مغربی جمہوری نظام پر عمل کرنیوالے اور مغربی طرز زندگی اور ثقافت کو اپنانے والے مغرب نواز قائد ثا بت ہونگے۔ برطانوی سیاسی دانشوروں کا خیال تھا کہ قائداعظم ؒجلد یا بدیر ہندو ستان میں سیکولر جمہوری نظام کے فارمولے پر قائل ہو جائینگے اور کانگرس کے ساتھ اتحاد پر راضی ہو جائینگے۔ علامہ اقبال ؒ کے بعد قائداعظم ؒ کے علاوہ سارے مسلمان سیاسی گروپ اور لیڈر وائسرائے ہند کی مٹھی میں تھے اور کسی بھی قیمت پر بکنے کو تیار تھے۔ جمعیت علمائے اسلام ہند، باچا خان، عبدالصمد اچکزئی، نال کے بزنجو، سندھ میں جی ایم سید، پنجاب میں یونیینسٹ، پنجاب کا جاگیردار طبقہ، گدی نشین روائیتی پیر، پیر زارے، خانزادے اور کشمیر کا غدار شیخ عبداللہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا وائسرائے ہند اور بڑٹش انڈین حکومت کو یقین دلا چکے تھے کہ وہ کسی صورت میں پاکستان کی حمائت نہیں کرینگے۔
کانگرس کی طرح مسلم لیگ میں کوئی اندرونی مقابلہ نہ تھا۔ حکومت برطانیہ کھل کر کانگرس کی حمائت اور قائداعظم کی مخالفت میں بیان دے چکی تھی مگر باوجود اس کے وہ قائداعظم ؒ کے تدبر، جرات و استقلال اور مستقل مزاجی کا مقابلہ نہ کر سکی۔
تقسیم ہند کا اعلان ہوتے ہی کچھ ایسے کردار سامنے آنے لگے جن کی وجہ سے پاکستان کے وجود پر اندرونی حملے شروع ہو گئے جن کی وجہ سے آج تک یہ ملک سنبھل نہیں سکا۔ وہ لوگ جو اس ملک کے وجود پر حملہ آور ہوئے اُن میں جنرل ایوب خان کا نام سرفہرست ہے۔ موصوف 1944ء میں باؤنڈری کمیشن کے ممبر تھے اور کرنل کے عہدے پر فائز تھے۔ بحیثیت ممبر آپ کبھی فیلڈ میں نہ گئے اور سار ا عرصہ لاہور جمخانہ کلب میں شراب و شباب کے مزے لیتے رہے۔ کرنل ایوب خان کی اس مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں بہت سے علاقے جنہیں پاکستان کا حصہ بننا تھا وہ بھارت کا حصہ بن گئے۔ان علاقوں میں تحصیل شکر گڑھ کا کچھ علاقہ اور گوردا سپور کے علاقے بھی شامل تھے جن کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا۔
جنرل عبدالمجید ملک (مرحوم) نے اپنی کتاب ”ہم بھی وہاں موجود تھے“ اور جناب جی ایم میر (مرحوم) نے اپنی تحریروں میں اس سازش پر متعد د بار لکھا جو شایدکسی نے پڑھا ہی نہیں۔ جنرل ملک لکھتے ہیں کہ ایوب خان کو کمانڈر انچیف بنانے کا مرحلہ آیا تو سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے ایوب خان سے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایوب خان کا سار ا منفی ریکارڈ چھپا دیا ورنہ وہ کسی بھی لحاظ سے جنرل بننے کے اہل نہ تھے۔ دیکھا جائے تو منفی ریکارڈ چھپانے اور مسخ کرنے کی روائیت آج تک جاری ہے۔ کرنل اشفاق حسین کی تحریر”وٹنس ٹو بلنڈر“ اگر چہ نوازشریف کو ایک زیرک سیاستدان اور قوم کا دکھ دردسمجھنے اور ازالہ کرنیوالا مد برسیاستدان بنانے کی کوشش ہے مگر کرنل اشفاق بہت سی باتیں اور واقعات سے بوجہ گزر گئے۔پتہ نہیں وہ جنرل جاوید حسن کے سب سے بڑے بلنڈر آپریشن ”نیزہ پیر“ کو کیوں بھول گئے۔ بریگیڈئیر جاوید حسن کے اس بلنڈر پر انکوائری ہوتی تو موصوف یقینا کورٹ مارشل کے حقدار تھے۔ اگر اُن کے دوست یار اور اُن کی دانشوری کے مداح انہیں بچا بھی لیتے تو پھر بھی وہ جنرل بننے کے قابل نہ تھے۔ کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الدین بٹ بہترین انجینئر اور ملکی اور غیر ملکی عالمی شہرت یافتہ اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔ لکھتے ہیں کہ میاں نوازشریف نے بڑی ذھانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہترین جنرل کا انتخاب کیا۔ عجیب بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو بھی تو اسی فلاسفر کنگ نے چنا تھا اور اس بہتر ین چناؤ میں اُن کے والد (اباجی) کی دانش بھی شامل تھی۔ تاریخ کے اوراق اُلٹیں توخود میاں نواز شریف کا چناؤ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق نے کیاتھا۔ اسی طرح میجر جنرل سکندر مرزا نے ذوالفقار علی بھٹو کا چناؤ کیا اورپھر جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے اس بہترین چناؤ کو دوام بخشا۔ کرنل اشفاق حسین دانشور ہیں اور دانش کا تقاضہ ہے کہ تاریخی سچائیوں سے رو گردانی نہ کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی افسروں کو سیاستدانوں کا چناؤ کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ جاگیردارانہ، تاجرانہ، کارخانہ دارانہ اور مکارانہ سیاست ذاتی مفاداتی اور سازشی عناصر کے ذہن کی اختراع ہوتی ہے اور وہ اسی نظریے اور فارمولے پر فوجی افسروں کو بھی پرکھتے ہیں۔
سیاستدان نہیں سمجھ سکے کہ ٹینکوں سے ہل نہیں چلتا اور فوجی افسران بھی شیخ سعدیؒ کے اس قول پر توجہ نہ دے سکے کہ ”عاقبت گرگ زادہ گرگ شود- گرچہ با آدمی بزرگ شود“ یہی حال عوام کا ہے۔ شیخ ؒ کا فرمان ہے کہ”ہر چتکبری چیز غالیچہ نہیں ہوتی، خیال کر شاید کوئی چیتاسویا پڑا نہ ہو“ ہمارا نا م نہاد سیاسی ٹولہ میکا ولین ہے جس کا قول ہے کہ ”سیاستدان کو لومڑی کی طرح مکار اور بھیڑے کی طرح خونخوار ہونا چاہیے“۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی قوم ہو جو کبھی بھیڑے کو اور کبھی چیتے کو قائدمان کر لہولہان ہو تی ہو اور اُن کے بچوں کو اپنا خون دیکر پالتی ہو۔ پاکستان میں کسی بھی سیاستدان کی اولین ترجیح عوام نہیں بلکہ میرا جج اور میر ا جرنیل ہے۔ چونکہ ججوں کی سیاسی تربیت بھی ہوتی ہے اور اُن میں سے اکثر انہیں سیاستدانوں کے وکیل رہ چکے ہوتے ہیں۔ مگر جرنیلوں کی ایسی تربیت نہیں ہوتی۔
اللہ بزرگ و برترساری کائنات کا مالک و وارث ہے اور کائناتی نظام عدل پر استوار ہے۔ دنیا میں حکمرانی کا نظام اللہ کے کائناتی عدلی نظام کا ہی پر تو ہے۔جس سلطنت کا نظام عدل کی بنیاد پر استوار نہ ہو وہ جلد ہی بکھر کر تباہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے جرنیلوں، ججوں اور سیاستدانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا اپنا مزاج بدلیں اور الہی قوانین کے مطالعہ سے بہرہ ور ہو کر اپنی اپنی حدود کا تعین کر لیں۔(جاری ہے۔۔)

Exit mobile version