Tarjuman-e-Mashriq

سفر ناموں کی مختصر تاریخ- 9

سفر ناموں کا ایک الگ اسلوب ہے اور سفر نامہ نگار اپنے مزاج کے مطابق کبھی کوئی اضافی بات بھی کر جاتے ہیں ورنہ ہر سفرنامہ تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ موجودہ سفر نامے تحقیقی نہیں ہوتے اور نہ ہی تخلیقی ہوتے ہیں ۔ سفر ناموں میں تاریخ و ثقافت کا ذکر معلومات کی حد تک ہی ہوتا ہے چونکہ دورِ حاضر کا سفر نامہ نگار نہ تو طویل سفر کرتا ہے اور نہ ہی کسی ملک یا شہر میں چند دِنوں سے زیادہ قیام کر سکتا ہے ۔

چینی سیاح فائین نے منگولیا، تبت ، موجودہ افغانستان اور سینٹرل ایشیاء سے لیکر کشمیر ، ہند اور پھر سری لنکا کے بعد جاپان کی سیاحت کی ۔ اُس کی سیاحت کا بنیادی مقصد بدھ مت کی تعلیمات کا فروغ اور عام لوگوں کا علمی اور مذہبی میلان سمجھنا اور جانچنا تھا ۔ اُسکا سفر نامہ ‘‘بدھ کنگڈم’’ چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ کشمیر اور سری لنکا میں اُس نے چودہ سال قیام کیا اور زندگی کے ہر شعبے پر تحقیق کی ۔

ھیون سانگ 631ء میں بدھ مت کی تعلیمات حاصل کرنے کشمیر آیا اور دو سال تک قیام کیا۔ ھیون سانگ نے تاریخ بلورستان بھی لکھی جو اس سلسلے کی منفرد تحریر ہے۔

یونانی سیاحوں اور سفر نامہ نگاروں کلاڈیس ٹالمس سٹاربو، ھیروڈوٹس اور پلینی جیسے سفر نامے لکھنا آج کے سیاحوں اور سفر نامہ نگاروں کے بس میں نہیں ۔ یونانی سیاح اور مورخ اگاتھا شیڈس 150قبلِ مسیح میں عرب کی سیاحت پر یمن آیا ۔ وہ لکھتا ہے کہ یمن جسے عرب ارم بھی لکھتے ہیں سمندر اور صحرا کے درمیان ایک خِطہ جنت نظیر ہے ۔ دُنیا کی کون سی نعمت ہے جو اِس ملک میں نہیں ۔ پھولوں اور پھلوں کی خوشبو سے سمندر اور صحرا بھی معطر ہیں ۔ اِسکا دارلحکومت مارب ہے جو ایک خوبصورت سر سبز پہاڑ پر واقع ہے ۔ سیل ارم ایک بڑی مصنوعی جھیل ہے اور سد مارب ایک دیوار ہے جو دریا کے پانی کو روکنے کیلئے اہلِ سبا نے تعمیر کی ہے۔ یہ جھیل آبپاشی کیلئے تعمیر کی گئی ہے جو اہلِ سبا کا عظیم کارنامہ اور ہنر مندی کی اچھوتی مثال ہے۔

آر ٹی میڈس نامی سیاح سبا کے آخری دور میں ارم پہنچا ۔ لکھتا ہے کہ ارم اور خاص کر مارب دُنیا میں جنت کا نمونہ ہے۔ ارض القرآن کے مصنف سید سلیمان ندوی نے بھی ارم ، سد مارب اور مارب کا مفصل ذکر کیا ہے ۔ سید سلیمان ندوی کی تحریر ‘‘سیر افغانستان’’ بھی ایک منفرد سفر نامہ ہے ۔

یعقوب نظامی نے ابنِ بطوطہ کے وطن کی سیر کی اور اپنے سفر نامے میں اس عظیم سیاح، محقق، معلم اور مبلغ کے سفر نامے کا بھی ذکر کیا ہے۔ پہلے ادوار کے سفر نامہ نگار سیاحوں ، تاجروں ، معلموں ، مبلغوں ، طالب علموں اور سفیروں کی حیثیت سے وطن سے نکلتے اور سالوں بعد واپس لوٹتے۔ جدید دور کے سفر ناموں میں جدید طرزِ زندگی کا ہی ذکر ہوتا ہے جس میں جنسیت کا غلبہ نہ ہو تو سفر نامہ پھیکا اور بد مزہ تصور ہوتا ہے۔

ریحانہ کے سوال کا جواب دیتے ہُوئے فرحانہ نے کہا کہ ڈاکٹر نجیب محفوظ 1995ء تک تو زندہ تھے ۔ 1994ء میں اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد وہ گوشہ گمنامی میں چلے گئے ۔ یعقوب نظامی نے 2006ء میں مصر کی سیاحت کی مگر کسی جگہ نجیب محفوظ کا ذکر نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو شاید میری نظر سے نہیں گزرا۔

صبح کے وقت پوچھے گئے سوالات کے جواب میں فرحانہ نے کہا کہ کتوں کی مثالیں صوفی شعراٗ نے بھی قلمبند کی ہیں۔ مولانا رومی نے گدھوں ، کتوں اور دیگر حیوانات کی مثالوں سے پندو نصائع کی تشریع کی ۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ ، بُلھے شاہؒ، بابا فرید ؒ اور شیخ سعدیؒ کے کلام میں بھی ایسی تماثیل واضع ہیں ۔ شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ دانا لوگوں نے جب دیکھا کہ لوگ اُن کی بات نہیں سنتے اور جاھلوں کی محفلوں میں بیٹھ کر ٹھٹھا کرتے ہیں تو انہوں نے معاشرے سے کنارہ کشی کر لی تا کہ کتوں کے دانت اور جاھلوں کے منہ بند ہو جائیں ۔ جب دانا لوگ کنارہ کشی اختیار کر لیں تو جاھل دانائی کا بھیس بدل کر معاشرے کی تنزلی اور ریاست کے زوال کا باعث بن جاتے ہیں ۔

فرحانہ نے کہا دیکھ لو ملک میں دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں خود ساختہ لیڈروں ، سیاستدانوں ، حکیموں اور عالموں کی کس قدر بہتات ہے مگر دانائی کا فقدان ہے۔ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے اور ملک اندھیروں میں ڈوبا جا رہا ہے۔

سعدیؒ فرماتے ہیں کہ سمندر کے پانی سے پیاس نہیں بُجھتی ۔ جہاں کہیں میٹھے پانی کا چشمہ ہو انسان، حیوان، پرندے اور چیونٹیاں وہاں جمع ہو جاتی ہیں ۔ میٹھے پانی کا چشمہ چھوٹا ہوتا ہے مگر اُس کے بطن سے دریا بہتے ہیں ۔ سمندر وسیع ہوتے ہیں مگر اُن سے کوئی دریا نہیں نکلتا۔ دنیا میں حکیم اور دانا کم ہوتے ہیں اور جو قومیں اِن کی قدر کرتی ہیں وہ اقوام عالم میں معتبر اور خوشحال ہوتی ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی داناوٗں کی کمی نہیں مگر وہ دولت مند ، کرپٹ، عیاش، عیار اور فریب کار ہیں۔ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ سمندروں میں بڑے فائدے ہیں مگر خطرات بھی ہیں ۔ اگر تو تیرنا نہیں جانتا اور غوطہ لگانے کے ہنر سے نا واقف ہے تو تیرے لیے بہتر ہے کہ کنارے پر ہی رہ۔ ولی کاشمیری نے لکھا کہ سونا مشقت اور مشکل سے اور کم مقدار میں ملتا ہے مگر قیمت میں سب دھاتوں پر سبقت رکھتا ہے۔

پارک میں موجود وہ عورتیں جو دوپٹہ گلے یا شانوں پر رکھے بیٹھی ہوتیں وہ اپنا سر اچانک ڈھانپ لیتیں ۔ دوپٹے کا سر پر آنا آذان کی گویا پیشن گوئی تھی۔ جینز اور شرٹ والی خواتین کے پاس ایسے مذہبی فریضہ کا کوئی رجحان نہ تھا۔ البتہ آذان کے ساتھ ہی فورم کے اختتام کا اعلان ہوتا جو اکثر انصاری صاحب کرتے۔ آج کے فورم کے اختتام پر شکیل نے کہا کہ ہم دو تین ماہ سے اکھٹے بیٹھتے ہیں ۔ کیوں نہ اِس اکٹھ کا کوئی نام رکھا جائے۔ نینا نے کہا فُٹ پاتھ فورم بہتر رہے گا۔ یہ بھی کوئی نام ہے ۔ شکیل اور شاعرہ شاہانہ نے حیرت سے کہا۔ یہ سب سے اچھا اور اولین نام ہے ۔ فورم کی ابتداٗ تھڑوں، چوپالوں اور فُٹ پاتھوں سے ہی ہوئی ۔ یونانی ، مصری ، ہندی، چینی، ہلنی، ایرانی اور بابلی دانشور ، حکماٗ و فلاسفہ ڈرائینگ روموں ، فائیو سٹار ہوٹلوں یا پھر مہنگے ریستورانوں میں کسی اہتمام کے ساتھ تو نہ بیٹھتے تھے۔ کسی دیوار کے سائے میں ، کسی درخت کے نیچے یا کسی تھڑے یا چبوترے پر بیٹھے اِن دانشوروں کے قریب لوگ آ کر بیٹھتے اور اُن کی باتیں سنتے۔ اُن کی محافل میں بادشاہ بھی آتے اور عام لوگ بھی۔ ہر کوئی اپنے ظرف کا پیالہ لے کر آتا اور بھر کر لے جاتا۔

کنفیوشس، لاوٗزے ، ابنِ عربی  ؒاور امام غزالی ؒ چلتی پھرتی یونیورسٹیاں تھیں ۔ شیخ سعدی ؒ بھی ایسے ہی تھے ۔ رومی ؒ کا مرتبہ مجذوبیت میں بلند ہُوا مدرسے اور محل میں نہیں ۔ شمس تبریز ؒ نے بھی کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی۔ جن لوگوں نے علوم کی بنیاد رکھی اور جن کے علوم کی تعلیم یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے وہ کسی یونیورسٹی کے محتاج نہ تھے۔

فرحانہ کی بات کا سب پر اثر ہوا ۔ نینا ، شکیل کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ شاہانہ نے کہا چلو فُٹ پاتھ فورم ہی سہی۔ فُٹ پاتھ فورم کا پہلا اجلاس نمازِمغرب سے پہلے اختتام پذیر ہُوا اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

شام پئی بن شام محمد

گھر جاندی نہ ڈرنا

صبح کا پہلا جلسہ نینا کی صدارت میں منعقد ہوا چونکہ وہ سب سے پہلے پارک میں موجود تھی۔ انصاری صاحب ٹریک سوٹ اور سر پر نماز والی جالی دار ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیع لیے مسجد کی طرف سے آتے۔ شکیل اور فرحانہ اکٹھے آتے تب تک نینا پارک کے گرد چکر لگا کر اپنا واک مکمل کر لیتی ۔ شاہانہ صبح کے جلسے میں کم آتی ۔ وہ رات کو دیر سے سونے اور دِن چڑھے جاگنے کی عادی تھی۔ ریحانہ صبح کاذب کے وقت واک کرتی پھر بلیوں کو غذا ڈالتی اور کبھی کبھی کتا لے کر میرے ساتھ واک کرتی۔ ریحاب خان شام کو نمودار ہوتی اور تحصیلدار صاحب نہ ہوں تو فُٹ پاتھ فورم میں بیٹھ جاتی ۔ اجلاس چونکہ راحیلہ بلوچ کے گھر کے سامنے والے بینچوں پر منعقد ہوتا اِس لیے وہ کبھی کبھی ریلنگ کے پاس کھڑے ہو کر صرف جائیزہ لیتی۔ ڈاکٹر مشتاق گردیزی صاحب کبھی کبھی پارک کا چکر لگاتے، مسکراتے ہوئے سب کا حال احوال پوچھتے اور چلے جاتے۔ گردیزی صاحب کا تعلق راولا کوٹ آزاد کشمیر سے ہے ۔ آپ آزاد کشمیر کے محکمہ صحت سے ڈائیریکٹر جنرل ہیلتھ کے عہدے سے ریٹائیر ہوئے ۔ وہ کچھ عرصہ انصاری صاحب کے پڑوس میں رہے اور اب بحریہ ٹاوٗن کے کسی دوسرے سیکٹر میں اپنا مکان تعمیر کر لیا ہے۔

ریحانہ کا کتا غائب ہُوا تو وہ اداس رہنے لگی۔ کتے سے پہلے میجر کا غم بھی تھا جو ابھی تازہ تھا۔ کتا اور میجر ایک ہی چین کی کڑیاں تھیں جو یکے بعد دیگرے ٹوٹ گئیں ۔ میجر ہاوٗس سے آگے ڈاکٹر پروفیسر درانی صاحب رہتے ہیں ۔ جب بھی ملتے اپنی مرحومہ بیگم کو یا د کرتے اور رنجیدہ ہو جاتے ہیں ۔ وہ ہمیں دعاوٗں کے ساتھ رخصت کرتے مگر ریحانہ کو اُنکا رنجیدہ اور سنجیدہ پن اچھا نہیں لگتا ۔ ڈاکٹر درانی کے سارے بچے ڈاکٹر ہیں اور اکثریت امریکہ میں آباد ہے۔ ڈاکٹر صاحب وطن پرست اور شجر پسند ہیں ۔ گھر کے اطراف جالیدار سولہ فٹ بلند تار کی باڑ ہے اور اندر پھلوں کا پُر بہار باغ ہے۔ ڈاکٹر درانی زرعی یونیورسٹی پشاور کے ڈین رہ چکے ہیں اور ماہر اشجار ہیں ۔ ریحانہ کو پودوں سے محبت پر تو کوئی اعتراز نہیں مگر ڈاکٹر صاحب کے ٓانسووٗں اور آہوں سے جیسے اُس کے دِل پر چوٹ لگتی ہے۔ اکثر پوچھتی ڈاکٹر صاحب شادی کیوں نہیں کر لیتے ۔ میں کہتا کہ یہ سوال تم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی میرے معاملات اور ہیں ۔ میں جوان ہوں اور دنیا میرے آگے ہے۔ چند سو گز کے فاصلے پر کسگمہ ضلع بھمبھر کے دو عدد چودھری ریاض ہیں ۔ وہ اکثر اپنی بیگمات کے ہمراہ اپنے اپنے لان میں بیٹھے بیگمات کی رفاقت اور تازہ ہواکے جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ چودھری ریاض صاحب کا تعلق بیرسٹر سلطان گروپ سے ہے مگر اِس بار کونسلر کی سیٹ ہار گئے ہیں ۔ تھوڑا آگے ایک پارک ہے جسے ہاتھی پارک کہا جاتا ہے ۔ پارک کی رونق کیلئے ہاتھیوں کے تین ماڈل یہاں نصب کیے گئے جن کا سائیز ہاتھیوں جتنا ہی تھا مگر پھر بھی اپنا بچاوٗ نہ کر سکے ۔ محبت کرنے والے باپوں اور شوہروں نے کندھوں پر اُٹھا اٹھا کر اپنی محبوب بیگمات اور بچوں کو ان بے جان ہاتھیوں پر سوار کیا جن کی پہلے دُمیں توڑی گئیں اور سونڈ غائب ہوئے اور اب اُن کی ٹانگیں توڑی جا رہی ہیں ۔ ہاتھی پارک کے پاس پانچ ریٹائیرڈ سرکاری ملازمین کا گروپ اکثر مل جاتا ہے جن کی قیادت پروفیسر مقبول مرزا کرتے ہیں ۔ مرزاصاحب کی بیگم کا گزشتہ برس انتقال ہوا تو تدفین کے بعد پانچ روز تک تھوڑے پریشان رہے۔ چھٹے روز کہنے لگے کہ چائے تو میں ہی بناتا تھا چلو خیر ہے اب ایک کپ بناتا ہوں ۔ ساتویں روز مرزا صاحب نے چترال سے کراچی تک اپنے دوستوں کو تازہ دلہن ڈھونڈنے کا ٹاسک دے دیا۔ اعلان ہوتے ہی صرف راولپنڈی سے بیس عورتوں نے انٹرویو کا وقت مانگ لیا جو تین ماہ تک جاری رہا۔ شادی کی خواہشمند خواتین کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان بیان ہوئیں جو مرزا صاحب کے معاون خصوصی سلیم خان نے اُن کی موجودگی میں بتائیں ۔ مرزا صاحب کی عمر پچھتر سال سے کچھ اوپر ہے جسکا اقرار انہوں نے اپنے گروپ کی موجودگی میں کیا ۔ مرزا صاحب کی ڈیمانڈ چالیس اور پچاس کے درمیان ہے ۔ دلہن بیوہ ، کنواری، بانجھ ، انتہائی خوبصورت ، تعلیم یافتہ مگر گھریلو ہو۔ رنگ سرخ و سفید ، صحت اچھی اور کاٹھی مضبوط ہو۔ اُن کے بیٹے بھی چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب شادی کر لیں اور مصروف زندگی بسر کریں ۔

مرزا صاحب کی ڈیمانڈ سن کر مجھے خشونت سنگھ کی تحریر ‘‘اعلیٰ سوسائیٹی کی پاکستانی عورتیں ’’ اور علی عباس جلالپوری کی ‘‘جنسیاتی مطالعے’’ یاد آگئی ۔ سلیم خان نے پشاور میں چالیس سالہ آفریدن تو ڈھونڈلی ہے مگر وہ صرف پشتو بولتی ہے۔ خاندان آسودہ حال ہے مگر مرزا صاحب کچھ ڈھیلے پڑ گئے ہیں ۔ مرزا صاحب کے مستقل ساتھی جو اُن کے اڑوس پڑوس میں رہتے ہیں اِس موضوع پر کوئی رائے نہیں دیتے ۔ چودھری ریاض صاحب چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب جلد سہرا سجا کر اسٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ ریاض صاحب نے ولیمے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے مگر مرزا صاحب کافی حد تک سلیپری ہو چکے ہیں ۔ سلیم خان نے وجہ بتائی کہ مرزا صاحب مفت کے عادی ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پچپن سال پہلے جیسے اُن کے والدین نے ان کی شادی کروائی تھی اب بھی کوئی ایسا ہی معاملہ فٹ ہو جائے مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سبھی امیدواران کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ ایک عدد گھر ، کچھ زرعی زمین اور ماہانہ خرچہ نکاح نامے میں درج کیا جائے ۔ مرزا صاحب نے بانو قدسیہ کا راجہ گدھ پڑھ رکھا ہے ۔ وہ کشمیری دروازے والی باقرہ کے خاوند قیومی والا تجربہ بھی نہیں چاہتے۔

میرے ساتھ جینز ، جیکٹ اور  کتے والی ریحانہ کو دیکھ کر مرزا صاحب کچھ شاکی ہیں ۔ چودھری ریاض اور اُن کی بیگم نے گھر آ کر میری بیگم کو اطلاع دی کہ کرنل صاحب کوئی نیا چن چڑھا رہے ہیں۔ میری بیگم نے اُنھیں بتایا کہ یہ ماہ نخشب ہے خطرے والی کوئی بات نہیں ۔ یہ رات کو چڑھتا ہے اور صبح سے پہلے غائب ہو جاتا ہے۔

ریحانہ کو مرزا صاحب کی شادی سے کوئی دلچسپی نہیں چونکہ اُسکا اپنا آئیڈل ہے جو بنوں اور میران شاہ جیسے خطر ناک علاقے کا رہائشی ہے ۔ فرحانہ نے پوچھا کہ واک کے دوران ریحانہ کیا باتیں کرتی ہے ۔ بتایا کہ وہ علم جو تش پر یقین رکھتی ہے ۔کسی جوتشی نے اُسے بتایا ہے کہ پچپن سال کی عمر میں وہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہو گی۔ واک کے دوران وہ اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز کی منصوبہ بندی کا ذکر کرتی ہے ۔ لگتا ہے کہ اُس نے پرتھوی راج چوہان کا واقع نہیں پڑھا۔ اُسے بھی کسی جوتشی نے فتح کا یقین دلایا تھا۔

فُٹ پاتھ فورم قائم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ کتے کی گمشدگی پر ریحانہ نے واک کرنا چھوڑ دیا ۔ بعد میں کسی نے بلیاں چُرا لیں تو اس نے مکان تبدیل کر لیا۔ انصاری صاحب بھی ذاتی مکان میں شفٹ ہوگئے اور رخسانہ اپنے بیٹے کے پاس آسٹریلیا چلی گئی۔ شاہانہ دُبئی منتقل ہوئی اور کچھ عرصہ بعد حاجی شکیل صاحب کا اچانک انتقال ہو گیا۔ ریحاب خان اور فرحانہ فیضی کے خاندان واپس کراچی چلے گئے تو فُٹ پاتھ فورم بکھر گیا۔ فرحانہ فیضی سے کبھی مہینوں بعد بات ہوتی ہے ۔ میں اسے ہر روز باقی دوستوں کی طرح سلام بھجواتا ہوں مگر وہ جواب اپنی مرضی سے دیتی ہے۔ ریحاب خان اسے متکبر کہتی ہے مگر میں ایسا نہیں سوچتا ۔ اور بھی لوگ ہیں جو سلام کا جواب نہیں دیتے جسکی کچھ وجوہات ہیں ۔ سلیم خان کے مطابق مرزا صاحب اب یوگا کرتے ہیں اور جاپانی دلہن کی خواہش رکھتے ہیں ۔ چند روز پہلے ریحاب خان نے میری تصنیف ‘‘بدخشاں سے بہاولپور ’’ پر اپنا تبصرہ بھجوایا ۔ یہ بھی بتایا کہ فرحانہ کی دو سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ اُس نے اپنی شادی کی تصویریں انٹرنیٹ پر شیر کیں تھیں ۔ میں نے بتایا کہ میرے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں اِس لیے نہیں دیکھ سکا۔

(جاری ہے)

Exit mobile version