جب سے میں نے پڑھنا شروع کیا اور اخبارات تک رسائی حاصل ہوئی روزنامہ نوائے وقت میرا پسندیدہ اخبار رہا ، بہت سے نامور کالم نگار ، صحافی اور رپورٹر اس اخبار سے منسلک رہے جن کے کالموں ، تجزیوں اور رپورٹوں میں بڑی حد تک سچائی ہوتی تھی ۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا جیسے نوائے وقت پاکستانی عوام کا سچا اور ہمدرد ترجمان ہے۔ بہت سے صحافی اس اخبار کو چھوڑ کر دوسرے اشاعتی اداروں میں چلے گئے مگر ہم نے بطور قاری اس اخبار کو نہ چھوڑا اور نہ ہی جانے والے دانشوروں کا پیچھا کیا ۔ مگر جب سے شہباز شریف کی حکومت آئی ہے ہم نے محسوس کیا کہ ہمارا پسندیدہ اخبار بھی اب شہباز نامہ ہی نہیں بلکہ شور شراب نامہ بن گیا ہے ۔چونکہ نئی حکومت نہ تو عوام کی منتخب کردہ ہے اور نہ ہی اسے عوامی مشکلات سے کوئی غرض ہے تو ہم نے نوائے وقت کو نوائے شریف سمجھ کر چھوڑ دیا ۔
ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہمارا ہزار پندرہ سو روپیہ ایسے اخبار کو ملنا بند ہو گیا ہے جسے پڑھ کر دل دکھی ہوتا تھا ۔اگرچہ ہمارے اس روپے سے نہ تو نوائے وقت کے اربوں روپے کے اثاثوں پر کوئی اثر پڑنے والا ہے اور نہ ہی اس اخبار کے جملہ امور چلانے والے کرنل قادری کی دانشوری اور لاکھوں روپے کی سہولیات اور مراعات میں کوئی کمی واقع ہونے والی ہے۔ مگر ہمیں اس اخبار کو چھوڑ کر جو سکون ملا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے ۔
ہم نے آخری بار جو کالم پڑھا تھا وہ شہباز شریف کی انتظامی مہارت ، مفتاح اسمعٰیل کی قابلیت، اور بلاول زرداری کی عالمی حالات کو سمجھنے اور سلجھانے کی صلاحیت سے متعلق تھا۔ یہ کالم اور آٹھ سے نو بجے کے درمیان ٹیلی و ژن چینلوں پر ہونے والی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم بحثیتِ قوم عقلی، علمی ، شعوری ، روحانی اور سیاسی لحاظ سے دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔ مریم نواز شریف جو کسی بھی وقت اس ملک کی وزیر اعظم بن سکتی ہے اپنی آڈیو لیک میں کہتی ہے کہ مسائل پیدا کرو اور قیمتیں بڑھاتے رہو ۔ کرپشن کی حفاظت اور پچھلی کرپشن کے خاتمے کے لیے شہباز شریف کی حکومت نے جو قوانین بنائے ہیں اس سے ثابت ہے کہ ہم اخلاقی اور قانونی دیوالیہ پن کے بھی شکار ہو گئے ہیں ۔ اگر انسانی ،اخلاقی اقدار اور روایات کی بات کریں تو ان اعلٰی انسانی صفات و درجات کا اب اس ملک سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔ وہ لوگ جو مارشل لاوں پر لعن طعن کرتے تھے اب انہیں بھی کچھ شرم آنی چاہیے۔ مارشلاوں میں تو انسانیت اور خاص کر پاکستانیت کی اتنی تذلیل نہیں ہوئی تھی جو پچھلے چند ماہ سے ہو رہی ہے ۔ پاکستان کا مطلب کرپٹ سیاسی نظام ، لوٹ مار کی حفاظت کرنے والے قوانین ، زنگ آلود انتظامی مشینری ، ظلم اور جبر کا راج اور بد عہد شاطر قیادت ہرگز نہ تھا۔ میں نے نوائے وقت کے ہی ایک کالم میں پڑھا تھا کہ جاوید لطیف نامی سیاسی مدبر کس طرح راتوں رات کونسلر سے پارلیمینٹ تک پہنچا اور پھر نون لیگ کی چانکیائی چالیں چلتا گیس سٹیشنوں کے کاروبار سے علاقے کا بڑا زمیندار، پنجاب کا مستند سیاست دان اور جاتی عمرا کے خواص الخواص میں شامل ہو کر وزیر با تدبیر بن گیا۔ ایک میاں جاوید لطیف ہی نہیں اسمبلیوں میں بیٹھے نوے فیصد لوگ ان ہی راستوں پر چل کر آئے اور پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر کے مالک بن گئے ۔ ہمارے ملک میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو تنزلی اور گراوٹ کا شکار نہ ہو ۔ جاتی عمرا کا ایک ترجمان صحافی جس کے نام کے آگے غنی لگتا ہے نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں کہا کہ یہ ملک میاں نواز شریف کا ہے اور مستقبل بھی میاں نواز شریف کا ہے۔ غنی نے درست کہا اور یہی بات میکاولی نے بھی کہی تھی ۔ لگتا ہے غنی میکاولین ہے۔ میکاولی نے کہا کہ حکمران کو شیر کی طرح خونخوار اور لومڑی کی طرح مکا ر ہونا چاہیے۔ اسے قانون اور دستور کی آڑ میں عوام کا شکار کرنا چاہیے چونکہ عوام غرض مند ہوتے ہیں ۔ وہ سکندر طاوس کی مثال دیتا ہے جو بد عہدی کی وجہ سے مشہور تھا۔ اگر پاکستانی عوام میں شعور ہوتا تو اس ملک میں زرداری، شریف اور فضل الرحمٰن کی سیاست اور لوٹ مار کی کوئی گنجائش نہ ہوتی اور نہ ہی کوئی بیورو کریٹ اور سرکاری ملازم عوام کا خون نچوڑ کر ارب پتی بننے کی جرات کرتا ۔ جلیانوالہ باغ کا بدلہ ایک سکھ نے انگلینڈ جا کر لیا اور جنرل ڈائر کو قتل کر دیا۔ حکومت برطانیہ نے دیر سے ہی سہی لیکن اس سانحہ کی معافی سکھوں سے مانگ لی مگر ماڈل ٹاون اور بلدیہ فیکٹری کے ڈائیر مزے سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے خاندان اور پیروکار اس ملک کے حکمران ہیں ۔
ان سب حادثات اور سانحات کا وقوع پزیر ہونا اور مجرموں کو حق حکمرانی دینا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ عوام بے شعور، غرض مند اور عدل مفقود ہے ۔
سید مودودی نے لکھا کہ نام رکھنے سے انسان بدل نہیں جاتا اور نہ ہی انسانیت اور دین ِاسلام کے معیار پر پورا اترتا ہے ۔ نون لیگ کے مراعات یافتہ صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں غنی کے علاوہ نجم سیٹھی ،سلیم صافی، حامد میر اور مزید پانچ صحافی اور خود ساختہ دانشور شامل ہیں ۔ یہ نودانشور صحافی ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے گرد چھ ہزار پروانے گھومتے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ میں نے اپنی تصنیف ’’سات سو سال بعد ‘‘ میں بھی ان لوگوں کا مفصل ذکر کیا ہے جو نظریہ پاکستان اور قائدِاعظم کے نظریات اور افکار پر مسلسل حملہ آور رہتے ہیں۔ تاریخ اسلام اور قرآن حکیم میں بھی ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو ملک میں فساد پھیلانے کا موجب بنے ۔ سورۃ الجاثیۃآیت ۱۹ میں فرمایا کہ
’’ بے انصاف ایک دوسرے کے دوست اور اللہ ڈرنے والوں کا دوست ہے ‘‘ قرانِ کریم کی اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں دیکھیں تو ہر وہ شخص جو اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرتا حرام کھانے والوں کا کسی نہ کسی صورت میں معاون و مددگار ، وہ وطن دشمن یا قومی مجرم اور بے انصاف ہے ۔ ایسے لوگ اللہ کے احکامات کے منکر اور باغی ہیں جن کا انجام کبھی اچھا نہ ہو گا ۔
عدل اور اعتدال کہ فقدان اور بظاہر منفی اور مضر علوم کے حامل گروہوں کے اکٹھ کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان پر چودہ جماعتی اتحاد کی حکمرانی ہے اور ہر جماعت کے سربراہ کی حیثیت وزیر اعظم جیسی ہے ۔ ان چودہ سیاسی بتوں کو چودہ سے زیادہ ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے جو صلے میں قومی خزانہ لوٹ کر اپنی آئیندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے میں مصروف ہیں ۔ علاوہ اس کے مریم نواز کے درجنوں صلاح کارجن میں پرویز رشید ، فاطمی، قاسمی، نجم سیٹھی ، حامد میر ، سلیم صافی، مالک اور دیگر شامل ہیں ، وفاقی وزرا سے بڑھ کر مراعات یافتہ ہیں ۔ قومی خزانے سے اربوں روپے کے اشتہارات اور خفیہ مراعات ان لوگوں پر لٹائی جا رہی ہیں اور ان سارے چھپے اور ظاہر کرداروں کا لیڈر میاں نواز شریف لندن سے احکامات جاری کرتا اور ملک کا نظام اپنی مرضی سے چلا رہا ہے ۔
ضروری نہیں کے کسی قوم کو غلام بنانے اور ملک کو تباہ کرنے کا موجب معاشی دیوالیہ پن ہی بنے۔ جو قوم عقلی ، علمی ، شعوری ، روحانی اور سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہو جائے اس کی حیثیت مستقل نہیں بلکہ علامتی رہ جاتی ہے ۔ عدل اور اعتدال کے فقدان اور بے انصاف لوگوں کے باہمی اتحاد سے نظریہ شر فروغ پاتا ہے جس سے نجات کا واحد ذریعہ عذابِ الہی ہی ہے۔
میاں نواز شریف اور زرداری جیسے لوگ جس ملک کا نظام چلا رہے ہوں وہ در حقیقت عذابِ الہی کا شکار ہو چکی ہے۔ جس ملک کا نظام قرض اور کرپشن پر چل رہا ہو اسکا دیوالیہ ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ اوریا مقبول جان نے خوابیدہ قوم کے سامنے ایک ویڈیو رکھی ہے جس میں ٹورنٹو یونیورسٹی(کینیڈا) میں منعقد ہونے والے سیمینار جس کا موضوع کرپشن تھا میں پاکستان کو ایک اور اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ کرپشن پر منعقدہ اس سیمینار میں میاں نواز شریف کو بطور مثال (کیس سٹڈی) پیش کیا گیا ہے ۔ اس سے بد ترین مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس شخص کی خواہش پر پاکستان جیسا نظریاتی ملک چل رہا ہے دنیا اسے دور حاظر کا کرپٹ ترین شخص تسلیم کرنے پر مجبور ہے ۔ ظاہر ہے کہ آئیندہ جو لوگ کرپشن کے موضوع پر مقالے لکھیں گے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کریں گے وہ میاں نواز شریف اور پاکستان کو بھی اپنی ریسرچ کا حصہ بنائیں گے۔ کیا اس منفرد اعزاز کے بعد کوئی شک باقی رہ گیا ہے کہ ہم ہر لحاظ سے دیوالیہ نہیں ہو چکے ہیں ۔ اب قرض دینے والے عالمی سیٹھوں کی مرضی ہے کہ وہ کب ہمیں معاشی دیوالیہ پن کاسرٹیفکیٹ دے کر ہماری آزادی کو مکمل غلامی میں بدل دیتے ہیں۔