حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ ملک کی بربادی تو باشندوں کی غربت سے ہی ہوتی ہے اور باشندوں کی غربت کا سبب وہ حاکم ہوتا ہے جو دولت سمیٹنے میں کمر باندھ لے کیونکہ اسے تبادلے اور زوال کا دھڑکا لگا رہتا ہے ایسے لوگ عبرتوں سے سبق حاصل نہیں کرتے ۔ پھر فرمایا مجھے تمہارے لیے ہر اس شخص سے اندیشہ ہے جو دل سے منافق اور زبان سے عالم ہے۔ کہتا وہ ہے جسے تم اچھا سمجھتے ہو اور کرتا وہ ہے جسے تم برا جانتے ہو۔
مسلمان قوم کی بربادی ، بے توقیری اور بدحالی کے ذمہ داروں کے حوالے سے شیر خدا، فاتح خیبر اور معلم اعلٰی نے فرمایا ’’تمہارے امور الٹ جائینگے اور تعلقات ٹوٹ جائینگے اور اقتدار بچوں کے ہاتھ آ جائے گا ۔ یہ وہ وقت ہوگا جب ایک درہم حلال کے ذریعے حاصل کرنے سے آسان تر تلوار کا زخم ہو گا اور لینے والے فقیر کا اجر دینے والے مالدار سے زیادہ ہو گا ‘‘ (نہج البلاغہ)
رجیم چینج آپریشن کی ابتداٗ تو عمران خان کے بر سر اقتدار آتے ہی شروع ہو گئی تھی ۔طاقت ور قوتیں عمران خان کو ایسے ہی چلانا چاہتیں تھیں جسطرح ضیا ٗ الحق محمدخان جونیجو ، جنرل پرویز مشرف ظفر اللہ جمالی اور خود عمران خان عثمان بزدار کے متعلق خوش فہمی کا شکار ہوئے ۔ میاں نواز شریف نے بھی عبرتوں سےکوئی سبق نہ سیکھا اور اقتدار کے نشے میں بم کو فٹ بال سمجھ کر لات مار دی ۔
اب چودہ جماعتی اتحاد کی باری ہے ۔ وہ دن بدن خوش فہمیوں کی دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں اور قوم خوش فہمی میں مبتلا ہے ۔ ہر کوئی اپنے سوا دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے مگر اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا کہ میں خود کتنا قصور وار اور ذمہ دار ہوں ۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ جب خزانے کی چابیاں غلط ہاتھوں میں تھما دی جائیں تو خزانہ لوٹنے والے سے بڑا مجرم خود چابیاں تھما دینے والا ہوتا ہے ۔ اسی ضمن میں لکھا کہ ہر اچھائی اور برائی کی ذمہ دار حکومت وقت ہوتی ہے چونکہ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے حکومت کے حکم پر ہی سب کچھ کرتے ہیں ۔ ہر برائی کے پیچھے حکمرانوں کا ذھن کار فرما ہوتا ہے اور حکومتیں ہی جبر و جرائم کی آبیاری کرتی ہیں ۔ پہلے بھی لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم ہندوستان سے واپسی پر مکران کے صحرا میں پھنس گیا پانی اور خوراک کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو دیگر لشکر کی طرح سکندر بھی بھوک اور پیاس سے نڈھال چل رہا تھا۔ سلیوکس نامی جرنیل نے پانی کا پیالہ پیش کیا تو فاتح اعظم نے پوچھا کہ کیا باقی سپاہ نے بھی پانی پیا ہے؟۔ سلیوکس نے نفی میں جواب دیا تو سکندر نے پانی ریت پر پھینک کر کہا کہ حکمران کو زیب نہیں دیتا کہ رعایا بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو اور حکمران پانی کے پیالے کو اپنا حق سمجھ کر پی لے ۔
غربت و افلاس اور مہنگائی کے اس دور میں ملک کے بیس سے زیادہ حکمرانوں اور پچھتر رکنی کابینہ کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ سب عوام کی مرضی اور منشاٗ سےہی تو ہے ۔ خزانے کی چابی وہ ووٹ ہے جس کی طاقت سے ایسے لوگ اقتدار میں آکر عوام کا استحصال کرتے ہیں ۔ حکمران طاقتور شخصیات اور اداروں کا سہارا لیکر ملک لوٹتے اور جبر کا نظام نافذ کرتے ہیں مگر جب یہ ادارے اور شخصیات اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تو وہ اپنی غلطیوں اور گناہوں کا ملبہ اداروں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ملک کی بربادی کے اصل اور حقیقی ذمہ دار خود عوام اور ان کے منتخب کردہ حکمران ہیں ۔ عوام بے شعور اور حکمران طبقہ عیاش اور کرپٹ ہونے کی وجہ سے خود اعتمادی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے عاری ہے ۔ میں نے اکثر لکھا ہے کہ اچھی فصل کے حصول کے لیے کھیت ہموار اور زمین نرم کی جاتی ہے جو ہل بیل اور ٹریکٹر کے استعمال سے ہی ممکن ہے ۔ ٹینک اور بلڈوزر ہل بیل اور ٹریکٹر کا متبادل نہیں ۔ سیاستدان کہلوانے والی مخلوق جب ٹینکوں کو ٹریکٹر تصور کر لے تو فصل کا حصول نا ممکن ہو جاتا ہے ۔
حکومتیں عوام کا حق واپس کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے اپنے خاندانوں کے تحفظ اور خوشحالی کیلیے قومی خزانہ لوٹنے لگیں اور عدل و اعتدال کا خاتمہ کر دیں تو اس امر کی ضرورت پیش آجاتی ہے کہ کوئی تیسری طاقت ملک کے تحفظ کیلیے سامنے آئے۔
حضرت علیؓ کے اس قول مبارک پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ’’مجھے اس شخص سے اندیشہ ہے جو دل سے منافق اور زبان سے عالم ہے ۔ کہتا وہ ہے جسے تم اچھا سمجھتے ہو اور کرتا وہ ہے جسے تم برا جانتے ہو ‘‘۔حضرت علیؓ کے اس قول مبارک کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے تو ہر دور کے سیاستدانوں نے ملک اور قوم کیساتھ ایسا ہی برتاو کیا ہے ۔ عوام نے ان کہ کہنے پر یقین کیا اور اب تک کر رہے ہیں جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ حکمرانوں اور ماتحت نوکر شاہی کے اثاثے بیرون ِ ملک ہوں اور عوام پھر بھی انہیں حق حکمرانی دیکر اپنی ذلت اور رسوائی پر خوش ہوں ۔
فرمایا ملک کی بربادی باشندوں کی غربت کی وجہ سے ہوتی ہے جسکا سبب کرپٹ حکمران ہوتے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہارے امور الٹ جائیں گے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے اور اقتدار بچوں کے ہاتھ آجائیگا۔ حضرت علیؓ شیر خدا کے اقوال ہمارے لیے مشعل راہ ہیں مگر ہمارے دل اندھے اور ذھن مفلوج ہیں ۔ امام غزالی لکھتے ہیں کہ حکمران کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو علم دے اور دین سکھلائے ۔ دوسری طرف چانکیا کویتلہ نے لکھا کہ علم صرف برہمنوں کے لیے مخصوص ہے ۔ آئین ٹالبوٹ نے ’’تاریخ ِ پاکستان ‘‘ میں ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے حوالے سے لکھا کہ پاکستان کی نوکر شاہی در حقیقت برہمن شاہی ہے جو عوام کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
رجیم چینج میں سب سے بڑا کردار خود عمران خان کا ہے ۔ عمران کی یوٹوپیا اپنی جگہ مگر طرزِحکمرانی طفلانہ رہاہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد راقم نے ’’سات سو سال بعد ‘‘ لکھی ۔ اس تحریر میں لکھا گیا کہ عمران خان کے ارد گرد ایسے مفاد پرست اور طوطا چشم لوگ موجود ہیں جو کسی بھی وقت اسے اقتدار سے محروم کرنیکا باعث بن سکتے ہیں ۔ خود عمران خان کا مزاج اور ہٹ دہرمی بھی کسی حادثے کا موجب بن سکتی ہے ۔ جس کا تدارک صرف عمران خان ہی کر سکتا ہے ۔ بھٹو اور نواز شریف کی منفی سوچ ، تکبر ، رعونت اور اداروں کی تضحیک و تذلیل ان کے زوال کا سبب بنی اور آگے بھی بنتی رہے گی۔ محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی کے معاملات الگ تھے ۔ انہیں اقتدار میں لانے والوں نے ہی انھیں رخصت کیا چونکہ وہ ان کے معیار پر پورا نہ اتر سکے۔ سکندر مرزا نے ایوب خان کے کندھے پر بندوق رکھی تو بیک فائیر کا نشانہ بن گئے ۔ ایوب خان بھٹو اور شعیب کا مزاج نہ سمجھ سکے اور کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کی تکمیل سے پہلے ہی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ عوام میں اجتماعی سیاسی شعور سیاسی اداروں کی مضبوطی اور علم کی فراوانی سے ہی ممکن ہے ۔ نو دولتیہ سیاسی کلچر اور مافیائی سیاست قوم کی بربادی اور غیر یقینی سیاسی مستقبل کا ہی باعث ہے۔ ہم بحثیت قوم بتدریج اس اندھیری غار میں چلے جا رہے ہیں جس سے واپسی ناممکن ہو سکتی ہے ۔ وجہ ہمارا سیاسی نظام ، خاندانی جمہوریت اور شعوری قوتوں کا فقدان ہے ۔