سابق وزیر اعظم عمران خان نیازی نے کہا ہے کہ میڈیا کی اہمیت ختم ہو چکی ہے ۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے جسکی اہمیت و اثرات تسلیم شدہ اور کسی حد تک مبنی بر حقیقت ہیں ۔ میڈیا ہاوس مالکان اور ان کے ملازمین نے اس بیان کو مسترد کیا اور اپنی اہمیت اور حقیقت پر مبنی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک بار پھر میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیکر اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔
میرے خیال میں میڈیا کبھی بھی ریاست کا چوتھا ستون نہ تھا اور نہ ہی ہو سکتا ہے ۔ ریاست کا چوتھا ستون بلکہ پہلا اور بنیادی ستون جس کے سہارے پر ریاست کی عمارت استوار ہوتی ہے وہ عوام اور عوامی رائے ہے۔ اگر عوام بے شعور اور بے علم ہونگے تو عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو من مانی کرنے اور باہمی اشتراک سے عوام کا استحصال کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ میڈیا کا اصل کام عوام کا شعور بیدار کرنا ، مثبت اور تعمیری سوچ کا پرچار کرنا اور ریاستی اداروں کو من مانی کرنے سے روکنا ہے ۔ عدلیہ چونکہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے اور جیسا چاہے فیصلہ صادر کر سکتی ہے ۔ جج قانون اور آئین کی آڑ میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرتا ہے جسے تسلیم کرنا ہر شخص کی مجبوری ہے۔ عدل اللہ کے اوصاف میں شامل ہے اور انسان پر بھاری ہے۔ کائینات کا سارا نظام عدل پر استوار ہے اور اللہ نے قرآن کریم میں بار بار عدل کی تلقین کی ہے۔ فرمایا تم سے پہلی قومیں اس لئے بھی عذاب الہی کا باعث بنیں چونکہ انہوں نے عدل کے معیار مقرر کر رکھے تھے۔ امیر اور غریب ، طاقتور اور کمزور کیلئے عدل کے الگ الگ معیار تھے ۔ فرمایا مظلوم کی آہ سے بچو۔ مظلوم کی چیخ عرش تک پہنچتی ہے ۔ ہمارے ملکی قانون میں مظلوم ، کمزور ، بے بس و لاچار کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں مگر ظالم ، جابر، امیر اور طاقتور اشخاص ، خاندانوں اور اداروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ جبر کے ہتھیار اور ادارے دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں اور مظلوم اور بے بس انسانی مخلوق بے اہمیت اور بے کار تصور کی جا رہی ہے ۔ مقننہ اور انتظامیہ کے جبر اور استحصالی رویے کو میڈیا کی مکمل تائید و حمائت حاصل ہے۔ میڈیا مالکان کی اکثریت اور صحافیوں کی ایک جماعت ملکر نہ صرف جبر و ظلم کرنیوالے اداروں کے معاون و مددگار ہیں بلکہ وہ غیر ملکی طاقتوں کےبھی آلہ کار ہیں۔ ان کے نزدیک ریاست اور عوام کی کوئی اہمیت نہیں ۔ دولت ، شہرت اور شہوت ہی ان کا مطمع نظر ہے ۔
نوکا صحافتی ٹولہ جس میں سلیم صافی اور حامد میر جیسے لوگ شامل ہیں مضر اور منفی صحافت کے علمبردار اور عوام الناس کی خدمت پر ان اداروں اور اشخاص کو ترجیح دیتے ہیں جو عوام کا استحصال اور ریاست کو کمزور کرنے کا باعث ہیں۔ سلیم صافی کی صحافت سابق گورنر کے پی کے مرحوم جنرل سید افتخار شاہ کی مہربانی کا صلہ ہے۔ راقم نے سلیم صافی کو گورنر ہاوس کے باہر متعدد بار دیکھا مگر اندر جانے کی چٹ نہ ملتی تھی ۔ میں اس شخص کو بھی جانتا ہوں جو سلیم صافی کو گورنر ہاوس کے اندر اور پھر طالبان کی قید سے باہر لانے کا موجب بنا ۔ ایسے حادثاتی لوگ جس بھی پیشے سے منسلک ہوں وہ ہمیشہ احسان فراموش رہتے ہیں ۔ احسان فراموش ، قلم فروش ، وطن فروش اور ضمیر فروشوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ وہ قوتیں جو کسی ملک، ملت ، عقیدے اور نظریے کی مخالف ہوں انہیں ہمیشہ ہی ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے ۔ مشہور برطانوی جاسوس اور عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنیوالے ھمفرے نامی شخص نے استنبول میں اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنی حکومت کو لکھا کہ مسلمانوں میں ضمیر فروشوں کی کمی نہیں ۔ ہمیں عقل اور دولت کی قوت سے ایسے لوگوں کو خریدنا اور استعمال کرنا ہے۔
اگرچہ نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر مسلمان ممالک میں ایسے لوگ ہر سطع اور ہر ادارے میں موجود ہیں ۔ ایسے لوگوں اور اداروں کی ترجمانی کرنیوالے صحافی اور دانشور صف اول میں شمار ہوتے ہیں چونکہ ان کی رائے پر مبنی دشمن ملک اور اقوام اپنی رائے مسلط کرتی ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ سلیم صافی ، حامد میر اور اسی قماش کے خود ساختہ صحافیوں ، دانشوروں اور اہل الرائے کا بیانیہ دلی، کابل، لندن اور واشنگٹن تک بکتا ہے ۔ امن کی آشا اور جرگہ ایک ہی نوعیت کے پروگرام تھے اور شاید اب بھی ہوں جن کی بنیاد نظریہ پاکستان اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف رکھی گئی۔
سلیم صافی ہو یا کوئی بھی شخص جسے لکھنا اور بولنا آتا ہو اور پھر وہ اپنے ہی ملک ، ملت اور ملک کے محافظ اداروں سے لیکر نظریے اور عقیدے کیخلاف لکھنا اور بولنا شروع کر دے تو ملک دشمن عناصر اسے گود لینے اور پرورش کا ذمہ لینے میں دیر نہیں کرتے ۔ پاکستان جیسا ملک جسے ساری دنیا اپنے لیے خطرہ تصور کیے بیٹھی ہو اور اسے ہر لحاظ سے کمزور اور باجگزار بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہو وہاں اب ہمفرے اور لارنس آف عریبیہ جیسے کردار بھیجنے کی ضرورت نہیں ، سلیم صافی ، حامد میر ، نجم سیٹھی سمیت نو کا ٹولہ اور ان کی نرسری میں پلنے والے ہزاروں سیٹھی ، میر اور صافی سستے داموں ھمفرے اور کرنل لارنس سے بڑھ کر خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
عمران خان نے کسی حد تک درست کہا ہے کہ پرنٹ اور کرنٹ میڈیا کی اہمیت سوشل میڈیا نے نہ صرف کم کر دی ہے بلکہ بڑی حد تک ان کے جھوٹ اور قلم فروشی پر کاری ضرب بھی لگائی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہر بات سچ اور مبنی بر حقیقت نہیں ہوتی ۔ بہت سی برائیاں سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی پھیلائی جا رہی ہیں ۔ اخلاقیات ، روایات اور بنیادی انسانی رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے میں سوشل میڈیا کرنٹ اور پرنٹ میڈیا سے دو ہاتھ آگے ہے مگر محب وطن اور انسان دوست صحافی اور عام لوگ اس کی نفی کرنے اور سچ کو اجاگر کرنے میں بھی مصروف ہیں ۔ ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات میں کالم لکھنے والوں کی اہمیت وہ نہیں رہی جو کبھی تھی ۔ جو اینکر جتنے اشتہار لیکر آئے یا جس کی پشت پر نون لیگ پیپلز پارٹی یا کسی دوسری سیاسی جماعت کا ہاتھ ہو وہی مشہور اور سب سے زیادہ جھوٹ کا پرچار کرنیوالے چینلوں پر آتا ہے ۔
رضا علی عابدی نے اپنی تصنیف ’’اخبار کی راتیں ‘‘ میں راولپنڈی کی گوالمنڈی کا حال بڑے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ "یہ تب کی بات ہے جب دارلخلافہ کراچی سے راولپنڈی منتقل ہونے کی خبر روزنامہ جنگ نے شائع کی تو سارے ملک میں ہلچل پیدا ہو گئی ۔ روزنامہ جنگ کے روح رواں راجہ حبیب الرحمٰن جنکا تعلق میر پور آزاد کشمیر سے تھا کی اچانک صدر ایوب خان سے ایر پورٹ پر ملاقات ہو گئی ۔ راجہ صاحب نے صدر ایوب خان سے پوچھا کہ جناب سنا ہے دارالخلافہ راولپنڈی منتقل ہو رہا ہے۔ صدر صاحب نے جواب دیا کہ مسئلہ کابینہ کے سامنے رکھا ہے جلد فیصلہ ہو جائیگا ۔ صدر صاحب کا بیان شائع ہوتے ہی روزنامہ جنگ نے اپنا دفتر راولپنڈی منتقل کرنیکا فیصلہ کیا ۔ ہماری طرح دیگر ادارے بھی اس تگ و دو میں شامل ہوئے تو راولپنڈی میں عمارات کی کمی محسوس ہونے لگی ۔ رہائش کیلئے مجھےچند دوستوں کے ہمراہ گوالمنڈی میں ایک گھر ملا جہاں کا ماحول کچھ اچھا نہ تھا ۔ ارد گرد کے گھروں کے مرد کام کاج پر چلے جاتے تو خواتین کے درمیان میدان جنگ سج جاتا ، طعنوں مینوں سے ابتدا ہوتی اور پھر ہلکی اور بھاری گالیاں گولیوں اور گولوں کی طرح برستیں ۔ گوالمنڈی سے تعلق رکھنے والے مسیح بزرگ چودھری فیروز نے بتایا کہ اس سے اگلی سٹیج یارانے اور معاشقے گنوانے کی ہوتی ۔ ان عاشقوں اور یاروں کی بڑی تعداد سکھوں کی تھی جو گوالمنڈی سے بھارت چلے گئے تھے ۔ با خبر اور اندر کی بات جاننے والی خواتین بریکنگ نیوز بھی نشر کرتیں کہ مجھے پتہ ہے کہ تیرا فلاں سکھ دوست تمہیں ماں کے کنگن اور بیوی کے جھمکے دے گیا ہے ۔ آگے سے جواب آتا کہ تیرے کاکے کی شکل تو باپ سے ملتی ہی نہیں بڑی آئی اندر کی خبر دینے والی، تیسر ے چھت سے آواز آتی کہ سارا محلہ جانتا ہے کہ فلاں دکاندار کی معرفت تمہیں اب بھی جالندھر سے خط اور منی آرڈر آتے ہیں ۔”
سچی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بھی گوالمنڈی سے کم نہیں ۔ گوالمنڈی میں جو تب ہوتا تھا وہ اب آٹھ سے نو بجے تک ہوتا ہے ۔ اب معاشقوں ، یارانوں ، کنگنوں ، جھمکوں ، خطوں اور منی آرڈر وں کی جگہ بریکنگ نیوز میں آڈیوز، دیڈیو لیکس، اور ٹی ٹیوں کی بات ہوتی ہے۔ ہماری مستقبل کی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ان کے پاس ایسی ایسی ویڈیوز ہیں کہ بڑے بڑوں کے پاوں تلے سے زمین کھسک جائے گئی۔ وہ دولت اور مادی طاقت کے نشے میں بھول گئی کہ ’’ اللہ تعالی کو پسند نہیں کسی کی بری بات کا ظاہر کرنا مگر جس پرظلم ہوا ہو اور اللہ ہے سننے والا جاننے والا‘‘ (النساٗ ۱۴۸)