Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دنوں کی بات ہے-3

گزشتہ سے پیوستہ
والدہ مرحومہ اور محمد یوسف گھر آئے تو کچھ دنوں تک سارے علاقہ کے مردوزن فاتحہ کے لئے آتے رہے۔ دادی محترمہ علاقہ بھر میں اپنی سخاوت اورہمدردی کی وجہ سے مشہور تھیں۔لو گ انہیں ماں جی کہ کر پکارتے تھے۔میرے دادا راجہ وزیر خان 22سال کی عمر میں ایک حادثے کا شکارہوئے تب دادی جان کی عمر 21سال تھی۔میرے والد مولوی محمد عزیز خان دادا کی وفات سے 3ماہ بعد پیدا ہوئے۔تقسیم سے پہلے ہندو اور مسلمان سبھی ان کی عزت کرتے تھے۔علاقے کا سب بڑا رئیس بخشی عشر تھاجو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکا تھا اور چھپ کر حج کا فریضہ بھی ادا کر چکا تھا۔اس کی زندگی کا معمول تھا کہ وہ صبح کی نماز پانی کے چشمے پر ادا کرتا اور پھر دادی جان کے پاس آکر ناشتہ کیا کرتا تھا۔صرف دادی جان، میرے والد اور والدہ کو بخشی عشر کے قبول اسلام کا پتہ تھا۔بخشی عشر جن پرتنوں میں کھانا کھاتا تھا وہ آج بھی ہمارے گھر میں رکھے ہیں۔تقسیم سے پہلے ہی وہ اپنے خاندان کے ہمراہ بمبئی منتقل ہو گیا۔ جاتے وقت اپنی ساری جائیداد اور کاروبار اپنے خاص ملازم چوہدری شاہ محمد کے حوالے کر گیا اور وصیت کی کہ جب تک ماں جی زندہ ہیں تم نے ان کی خدمت کرنی ہے۔چوہدری شاہ محمد ایک پرہیزگار اور نیک آدمی تھا۔بخشی عشر کی دی ہوئے وسیع جائیداد کے باجود چوہدری صاحب سادہ زندگی کے عادی رہے اور دادی جان کی خدمت میں کبھی کوئی  کسر باقی نہ چھوڑی۔دادی جان دبلیاہ راجگان اپنے گاؤں میں ہوں یا اپنے میکے ناڑاکوٹ میں چوہدری شاہ محمد انہیں ملنے ضرور جاتے۔ دبلیاہ راجگان میں چوہدری صاحب اور ان کی بیگم ہر جمعرات کے دن آتے۔چوہدری صاحب کی بیگم دادی جان کو نہلاتیں اور ان کے کپڑے دھوکر صاف کپڑے پہناتیں۔


بڑھاپے کی وجہ سے دادی جان کا جسم سوج جاتا۔ڈوگرہ دور میں میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ سخی ولایت خان نے جموں کے گورنر سے ایک یونانی ڈسپنسری منظور کر وائی مگر مسلمان یونانی حکیم نہ ہونے کی وجہ سے ڈسپنسری کا باقائدہ قیام ممکن نہ ہوا۔ذیلدار صاحب نے اپنے گھرمیں ایک عارضی ڈسپنسری قائم کی جہاں سیّدزمان شاہ، سائیں فیروز صاحب آف گجرات دیسی جڑی بوٹیوں سے مختلف دوائیں کشید کرتے اور لوگوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ذیلدار صاحب کے چچا ذاد بھائی راجہ جیون خان نے اپنے دادا ذیلدار راجہ تانوں خان کی چھوڑی ہوئی حکمت کی کتابوں سے فیض حاصل کیا اور اپنی تحقیق وتجربات سے بہت سے نسخہ جات دریافت کئے۔ جیون خان صوبہ جموں کے بیشتر علاقوں میں حکمت کی وجہ سے مشہور تھے۔
نانا محترم نے  لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کے علاوہ عوام کی صحت کے لئے بھی انتھک کوششیں جاری رکھیں۔حکومت آذاد کشمیر کے قیام کے بعد آپ نے یونانی ڈسپنسری کاحکم جاری کروایا۔مورخہ 31جولائی 1950میں ڈسڑکٹ میڈیکل آفیسر میرپورنے آپ کے نام ایک خط میں لکھا کہ بحکم جناب ڈائریکٹر آف ہیلتھ سروس صاحب مظفرآبادلیٹر نمبر2470-71/med/50مورخہ 9جولائی 1950یونانی حکیم قاضی محمدجان صاحب ضلع میرپور کو آپ کی اور ان کی خواہش کے مطابق موضع پلاہل کلاں میں حکیم تعینات کیا جاتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ حکیم صاحب کی رہائش اورہر قسم کی سہولت فراہم کرنے میں مدد دیں۔اس طرح آپ کی مسلسل جدوجہد سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ حکیم صاحب طویل عرصہ تک آپ کے ہاں قیام پذیر رہے۔ قاضی محمد جان صاحب حکیم ہی نہیں بلکہ بہت بڑے عالم دین،محقق اور درویش تھے۔ قاضی صاحب اپنے علم، حکمت اور فلاح انسانی کے جذبے کی وجہ سے سارے کشمیرمیں مشہور تھے۔لوگ انہیں وقت کا حکیم لقمان کہتے تھے۔وہ حکمت کے علاوہ لوگوں کا روحانی اور نفسیاتی علاج بھی کرتے تھے۔حکیم صاحب کے آباؤاجداد کا ہمارے خاندان سے پرانا تعلق تھا۔حکمت ان کا خاندانی پیشہ تھاجس کی وجہ سے ڈوگرہ حکمران بھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔جیسا کہ عرض کیا ہے کہ میرے والد محترم اور نانا محترم کے چچاذاد راجہ جیون خان بھی ایک مشہور حکیم تھے جن کی وجہ سے ریاست بھر کے حکیموں اور معالجوں کا ان سے رابطہ تھا۔
دادی جان کی بیماری کا علاج تقسیم کشمیر سے پہلے ہی قاضی محمد جان صاحب کرتے تھے۔کنگنی(ایک خاص قسم کا چاول) میتھی،کنوارگندل اور دیگر انتہائی کڑوی جڑی بوٹیوں سے ان کی دوا تیار ہوتی تھی۔ وہ دن میں یک بار کھانا کھاتیں اور کھانے کے بعد نیم گرم پانی سے یہ دوا لیتی تھیں۔ تقسیم سے پہلے یہ دوا بخشی عشر اور ان کی بیگم تیار کرتی تھیں اور تقسیم کے بعد یہ کام دادی جان کی رحلت تک چوہدری شاہ محمد اور ان کی بیگم سرانجام دیتے رہے۔
دادی جان تہجد گزار تھیں۔ پنچگانہ نماز کے علاوہ وہ ساری نفلی نمازیں باقائدگی سے ادا کرتیں۔انہیں مال مویشی پالنے کا بھی شوق تھا۔ ان کے پاس درجنوں گائیں اور بکریوں کا ریوڑ تھا۔ لوگ اپنے بچے مال مویشیوں کی حفاظت اور حصول علم کے لئے ان کے پاس چھوڑ جاتے۔ وہ غربت اور تنگدستی کا دور تھا۔ دادی جان کے ہاں دودھ مکھن اور خوراک کی کوئی کمی نہ تھی۔ دادی جان کے بھائی صوبیدار صلاح محمدخان صاحب اپنے آدمی ناڑاکوٹ سے بھجوا کرکھیتی باڑی کرواتے اور اگر کمی ہو تو غلہ بھی بجھوادیتے تھے۔
میری والدہ ان بچوں کو قرآن پاک کے علاوہ دینی تعلیم بھی دیتیں۔ یہ بچے بڑے ہو جاتے تو میرے والد انہیں لاہور لے جاتے اور کسی نہ کسی محکمے یا ادارے میں کام پر لگا دیتے۔
والد صاحب کی پرورش ان کے ماموں صوبیدار صلاح محمد صاحب کے ہاں ہوئی۔ آپ 6سال کی عمر کے تھے جب صوبیدار صاحب انہیں ساتھ لے گے۔والد صاحب پہلے پونہ اور بعد میں جھانسی،جبلپور اور سہارنپورمیں رہے اور وہاں کے مدرسوں سے دینی تعلیم حاصل کی۔صوبیدار صاحب نے انہیں ریلوے پولیس میں بھرتی کروایا۔تقسیم ہند سے پہلے ہی صوبیدار صاحب ریٹائر ہو گے اور والد صاحب کی پوسٹنگ پہلے گولڑہ اور بعد میں ماڑی انڈس،کیملپور(اٹک)اور میانوالی ہوتی رہی۔ گولڑہ میں تعیناتی کے دوران آپ کی ملاقات پیر مہر علی شاہ صاحبؒ سے ہوئی اور آپ ان کے مریدین میں شامل ہو گے۔پیر مہرشاہ صاحبؒ کی آپ پر خاص نظر عنایت تھی۔ تقسیم ہند کے بعد آپ کے بہت سے ساتھی ترقی کرتے ہوئے DSP،SPاور DIGکے عہدوں پر فائز ہوئے۔ چونکہ اس دور میں کسی بھی سرکاری ادارے میں تعلیم یافتہ ملازمین کی شدید قلت تھی۔
پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کے بعد آپ سارا وقت تلاوت کلام پاک یا پھر ذکر و اذکار میں صرف کرتے۔ چھٹی کے اوقات میں وہ زیادہ وقت اپنی والدہ کی خدمت میں گزارتے تھے۔1947میں آپ کی پوسٹنگ جہلم ریلوے سٹیشن پر تھی۔کشمیر میں جنگ آذاد ی کا آغاز ہوا تو میرے نانا نے جہلم کے قریب جسروٹہ گاؤں میں کچھ مکان کرائے پر لئے اور اپنا سارا خاندان جسروٹہ منتقل کر دیا۔ ہمارا گاؤں دبلیاہ راجگان محاذ جنگ سے کافی پیچھے تھااور علاقہ بھر کی ہندو آبادی جنگ آذادی کشمیر سے قبل ہی براستہ جھنگڑ دھرمثال پہلے نوشہرہ اور بعد میں جموں منتقل ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔

Exit mobile version