Tarjuman-e-Mashriq

کشمیر سے جونا گڑھ اور ڈھاکہ- آخری قسط

حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں کرپشن کا گراف اوپر چلا گیا ہے۔ اگر چہ اپوزیشن اس پر جشن منا رہی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اس کرپشن میں ملاں و مجاور سے لیکر مہاجن اورمستاجر سبھی شریک ہیں۔ پاکستان میں کرپشن اب کوئی جرم نہیں ۔ ساری اشرافیہ کرپٹ اور حکومتی مشینری کرپشن کی ماں ہے۔ کرپشن کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں جنہیں آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان میں قدیم دور کا آپسی راج قائم ہے اور اصل حکمرانی مافیا کی ہے جنہیں نامور وکیلوں اور چوٹی کے صحافیوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں کی حمایت حاصل ہے۔ بینکار انہیں لوٹی ہوئی رقم بیرون ملک منتقل کرنے کے طریقے بتلاتے ہیں ، انکم ٹیکس کے افسر انہیں ٹیکس چوری میں مدد دیتے ہیں اور دیگر ادارے جس میں بجلی اور گیس کا محکمہ بھی شامل ہے مافیا سے ماہانہ تنخواہ لیکر بجلی اور گیس تقریباً مفت فراہم کرتا ہے۔ جب ساری حکومتی، سیاسی اور قانونی مشینری کرپشن زدہ اور زنگ آلودہ ہو تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سچائی اور غیر جانبداری پر کون یقین کرسکتا ہے۔

کرپشن ، لاقانونیت اور جبراپنی جگہ مگر یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ پاکستانی قوم دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جس نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں حاصل کیا۔ 1747سے لیکر2022تک افغانوں کی تاریخ بتلاتی ہے کہ افغان کبھی بھی موجودہ پاکستان جسے وہ پنجاب کہتے ہیں کے مسلمانوں سے مخلص نہیں رہے ۔امیر عبدالرحمن کی سوانح میں لکھا ہے کہ وہ انگریزوں کو اس خطے کی تقسیم پر قائل کرتا رہا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ ہمارے قبائلی عوام کو اجڈ ، جاہل اور خونخوار کہتا تھا۔ حکومت برطانیہ کے نام مراسلے میں امیر کابل نے لکھا کہ موجودہ پاکستانی علاقوں کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ چترال ، سوات اور ہزارہ کے علاقے مہاراجہ کشمیر کو سونپ دیے جائیں اور دیر ، باجوڑ ، پشاور ، ڈیرہ جات سے لیکر کوئٹہ تک کا علاقہ افغانستان میں ضم کیا جائے۔ سند ھ اورمکران کو آزاد ملک اور دریائے سندھ کے مشرقی علاقوں پر ہندوستان کی حکمرانی تسلیم کی جائے۔ ہمارے تاریخ دان ،عسکری اور سیاسی ماہرین افغانوں کی نفسیات اور پاکستان دشمنی سے بے خبر تو نہیں مگر بوجہ خاموش ہیں۔سیّد احمد شہید کی تحریک جہاد ہو یا کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی ۔ افغانوں نے ہمیشہ سکھو ں، ہندووںاور مسلم کش عناصر کا ساتھ دیا۔کشمیری مسلمانوں پر جو مظالم افغانوں نے ڈھائے اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔نرندرا مودی اور احمد شاہ ابدالی کے نامزد گورنر عبداللہ ایشک عکاسی کے مظالم کا موازنہ کیا جائے تو عبداللہ ایشک عکاسی نرندرامودی سے ہزار ہا درجے بد تر اور سفاک تھا۔

ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں اور علمائے کرام تحریک خلافت کو سرے سے ہی بھول گئے ہیں۔ وہ مسلمان جو ہجرت کر کے افغانستان گے انہیں وہاں عملاً غلام بنا لیا گیا ۔ افغانوں کے رویے سے تنگ آکر یہ لوگ بے عزت و بے آبرو ہو کر واپس لوٹ آئے۔ افغان اپنی برتری کے بیان میں ہندوستان پر اپنی حکمرانی پر فخر کرتے ہیں مگر سوائے لودھی اور سوری خاندان کے کوئی افغان ہندوستان کا حکمران نہیں رہا۔ یہ دونوں خاندان بھی کبھی سارے ہندوستان پر حاکم نہیں رہے۔ سکندر ،بہلول اور ابراہیم لودھی 1451سے1526تک دلی کے حکمران رہے مگر اس سارے عرصہ میں وہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔ ہندوستان میںآباد پختون قبائلی سردار ان کے طرز حکمرانی سے متفق نہ ہوئے اور باہمی جنگ وجدل اور انتشار کا ماحول بڑھتا ہی رہا ۔ ابراہیم لودھی کے برسراقتدار آتے ہی مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ 21اپریل1526کا دن لودھی خاندان کی حکمرانی کا آخری دن تھا جب پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی ظہیر الدین بابر کے مقابلے میں شکست کھا کر مار ا گیا۔

26جون1539کو شیر شاہ سوری اور ہمایوں کے درمیان چوسہ کے مقام پر جنگ لڑی گئی ۔ ہمایوں کی غلط منصوبہ بندی اور میدان جنگ کے چنائو میں غلطی کی بناء پر شیر شاہ سوری فتح یاب ہوا ۔ شیر شاہ کافی عرصہ تک ہمایوں کا پیچھا کر تا رہا مگر اُس کے مختصر دور میں تعمیر و ترقی کے بے مثال کام بھی ہوئے ۔ شیر شاہ کے دور میں کابل بدستور مغلوں کے قبضے میں رہا۔

شیر شاہ کے بعد اُ سکا بیٹا اسلام شاہ مسند اقتدار پر بیٹھا مگر جم کر حکومت نہ کر سکا۔ بد عہدی اور خونخواری اُسے باپ سے وارثے میں ملی تھی مگر مقابلے پر ہیبت خان اور عیسیٰ خان نیازی کے علاوہ پٹھان سرداروں کا جم غفیر بھی تھا۔ عیسیٰ خان اور ہیبت خان نیازی سوریوں کی جگہ نیازی دور کا منصوبہ بنا رہے تھے مگردیگر پٹھانوں نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آخر کار ہمایوں ایرانی فوجوں کی مدد سے پشاور پر حملہ آور ہوا اور جون1555میں سرہند کی لڑائی کے بعد سوری خاندان کا خاتمہ ہوگیا۔

حیرت کی بات ہے کہ افغان ایک من گھڑت تاریخ کا ہٹ دھرمی سے دفاع کر رہے ہیں مگر پاکستان کے سیاسی ، عسکری اور علمی حلقوں میں خاموشی طاری ہے۔ ہماری قوم اور حکمرانوں نے نہ تو تاریخ کا مطالعہ کیا اور نہ ہی تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ۔ 1893میں افغان بادشاہ عبدالرحمن خان اور برٹش انڈین حکومت کے سیکرٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہوا جس کے تحت ڈیورنڈ لائن قائم ہوئی۔

روس افغان جنگ کے دوران پاکستان جس طرح افغان عوام کیساتھ کھڑا ہوا اور افغانوں سے بڑھ کر قربانیاں دیں اُس کی مثال نہیں ملتی ۔ جنرل ضیاء الحق نے اگرچہ قومی سلامتی دائو پر لگائی اور پاکستان کے لیے مستقل پریشانیوں اور عالمی سطح پر پابندیوں کا بندوبست کیا جس کے نتائج آج تک ہم بھگت رہے ہیں ۔ تیس سالوں سے پاکستان تیس سے چالیس لاکھ رجسٹرڈ اور اس سے دگنے ان رجسٹرڈ افغان مہاجرین کا نہ صرف بوجھ برداشت کر رہا ہے بلکہ دہشت گردی اور اندرونی خلفشار کا بھی شکار ہے ۔ روس کے بعد امریکی اتحادیوں نے افغانستان پر قبضہ کیا تو بھارت کے علاوہ ساری پاکستان دشمن قوتوں نے پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کر دی۔ اس جنگ میں افغان قیادت ، این ڈی ایس ، افغان فوج ، را ، اور ساری دنیا کی انٹیجلنس ایجنسیاں پاکستان پر حملہ آور ہوئیں تو پاکستان میں بیٹھے مہاجرین بھی اُن کے سہولت کار اور دست راست بن گئے۔ پاکستان کی معیشت اور ثقافت تباہ ہوگئی اور ایک لاکھ سے زیادہ فوجی اور سویلین پاکستانی اس دہشت گردی کا شکار ہوئے۔باوجود اس کے کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی افغان طالبان اور حکومت ملکر کر کر رہے تھے،پاکستان نے طالبان کی سیاسی ، اخلاقی اور عالمی سطح پر سفارتی حمایت جاری رکھی۔ ملاں ضعیف اور دیگر افغان رہنمائوں کو حکومت پاکستان نے کہہ دیا تھا کہ آپ خاموشی سے ملک چھوڑ دیں ۔ تاکہ عالمی دبائو آنے سے پہلے آپ محفوظ جگہوں پر چلے جائیں۔ اگر ملاں عمر ، اُن کے رفقأاور اہم لیڈر بشمول گلبدین حکمت یار کے محفوظ رہ سکتے تھے تو یہ لوگ بھی اپنا بندوبست کر نے میں آزاد تھے۔

باجوود ان قربانیوں کے طالبان اپنے رویے پر قائم رہے اور انتہائی ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ 2017میں دہشت گردی سے بچنے کے لیے پاکستان نے26سو میل پاک افغان سرحد پر خار دار تار لگانا شروع کی تو اشرف غنی کی حکومت نے قبائل کو تقسیم کرنے کی آڑ میں اس پر اعتراض اٹھا دیا۔ افغان حکومت اور بھارت نے بھارتی کونسل خانوں کی آڑ میں ڈیورنڈ لائن پر دہشت گردی کے اڈے قائم کیے اور مقامی آبادی سے دہشت گرد بھرتی کر کے پاکستان بھجوا ئے۔ ان دہشت گردوں میں تحریک طالبان پاکستان ، بلوچ لبریشن آرمی اور این ڈی ایس کے ایجنٹ شامل تھے جس کے ثبوت حکومت پاکستان نے عالمی سطح پر اجا گر کیے ۔ اسی سلسلہ کی ایک بڑی سازش کلبوشن یادو کی صورت میں سامنے آئی جبکہ پی ٹی ایم کے قیام میں بھی پاکستان دشمن ممالک نے اپنا رول ادا کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ افغان امور کے ماہرین پاکستانی دانشوروں ، سیاستدانوں اور صحافیوں نے نہ صرف پی ٹی ایم کے کردار کی حوصلہ افزائی کی بلکہ قبائل کو تقسیم کرنے اور پانچ سو ملین ڈالر کے خرچ پر حفاظتی باڑ لگانے پربھی اعتراض کیا۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ سطحی قیادت نے منطور پشتین سے ملاقاتیں کیں اور میاں نواز شر یف نے بھارتی سفارتکاروں اور این ڈی ایس کے سربراہ سے لند ن میں طویل ملاقاتوں کاسلسلہ جاری رکھا۔ مریم نواز اور خرم دستگیر نے ان ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے کابل اور دلی سے روابط منقطع کر رکھے ہیں اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ پڑوسی ممالک کیساتھ بات چیت کے دروازے بند کر دیے جائیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد میاں نواز شریف نے بیان دیا تھا کہ وہ مجیب الرحمن کے مشن پر کام کرینگے ۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے موصو ف نے کبھی کشمیر کا ذکر تک نہ کیا اور آلوگوشت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پاک بھارت سرحد محض ایک لکیر ہے ور نہ ہم ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ پھر فرمایا ہم اللہ کہتے ہیں تم بھگوان اور دوسرے ناموں کا جاپ کرتے ہو مگر بات تو ایک ہی ہے۔ جس شخص کی سیاست جاہلیت اور ہوس زرکے گر د گھومتی ہو وہ گاندھی ، نہرو اور الطاف حسین سے کیسے کم ہو سکتا ہے۔ تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والے شخص کو پتہ ہی نہیں کہ اللہ تو ایک ہی ہے۔ وہ اَحد وصمد ہے۔ وہ پیدا کرنے والا ،پالنے والا، مارنے والا اور روز جزأ کا مالک ہے۔ ہمارے عقیدے کی بنیاد اللہ کی واحدانیت پر ہے جبکہ بھگوان تو سینکڑوں ہیں اور سب تصوراتی ، خیالاتی اورمادی ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا گیا کہ بتائو ہمارے خدائوںکاکس نے بُرا حال کیا ۔ فرمایا ان سے ہی سے پوچھ لو۔ اگر یہ پتھر کے بنے خدا اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو تمہاری حفاظت کیا کرینگے ۔ بھارتی تو گائے ، ہاتھی ،بندر اور دیگر جانوروںکو بھی بھگوان مانتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور عرفان صدیقی نے اپنے قائد کو اللہ کی حاکمیت کا درس کیوں نہ دیا۔

ایک طرف پاکستان سیاست منتشر الخیالی کا شکار ہے اور کچھ لوگ اغیار کے ایجنڈے پر گامزن ملکی مفاد اور قومی وقار کو دائو پر لگانے کے لیے ہمہ وقت تیارہیں ۔دوسری جانب افغانستان اور بھارت ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکارہیں۔

آج افغانستان دنیا میں واحدملک ہے جس کی حکومت کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ طالبان کو قابل اعتماد اور عالمی  معائدوں پر عمل نہ کرنے والی قوم سمجھتے ہیں۔ ساری دنیا نے افغانوں کی تاریخ سے سبق سیکھا مگر ہماری قوم ، قیادت اور دانشور کنویں کے مینڈک ہیں ۔ ڈیورنڈلائن پر حالیہ چپقلش اور افغان وزیر دفاع ذبیح اللہ مجاہد کا بیان ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ مگر شاید ہم وہ قوم ہیں جس کے بارے ربّ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ’’ کچھ آنکھیںتوا ندھی نہیں ہوتی مگر دل اندھے ہوتے ہیں‘‘ یہ فرمان اُن لوگوں کے لئے ہے جن کے دلوں پر مادیت کا زنگ چڑھ جاتا ہے اور خدا کے حکم اور حکمت سے منکر ہو کر مادہ پرستی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر طبقہ فکر میں ایسے لوگو ں کی بھر مار ہے ۔ ہم حادثات کو واقعات سمجھ کر بھول جانے اور المیات کو دعوت دینے والے لوگ ہیں ۔ جذبہ قومیت پر خاندانی عیارانہ اور متکبرانہ عصبیت غالب ہے جسے دور کرنے کا کوئی رجحان ہی نہیں۔

افغانستان کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک بڑے اور ہولناک قومی المیے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ہم افغانوں کے غم میں مرے جارہے ہیں اور وہ ہماری سرحد پر نظر جمائے بیٹھے ہیں۔ عقل کے اندھوں کا بیان ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہے۔ اگر افغانستان ہمیشہ کی طرح ہمیشہ کے لئے میدان جنگ رہا تو کیا ہم اُس کے پرامن ہونے تک اپنے ملک میں بد امنی برقرار رکھیں گئے ۔ ایسے بیانات دینے والوں میں عقل کی کمی اور ملکی سطح پر منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت نہیں ۔ یہ بیان ایسے ہی ہے جیسے 1971میں جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان کے انچ انچ کے دفاع کا شوشہ چھوڑا اور قوم تعمیر و ترقی کے لیے زرداری اور نواز شریف سے اُمیدیں وابستہ کیے آسمان سے آب حیات برسنے کی اُمید پر ہے۔ جیسے کشمیر ہماری شہ رگ تو ہے مگر آزادکشمیر پر ڈاکوئوں ، سمگلروں اور بدکرداروں کا راج ہے۔ افغانستان کو قائم ہوئے دوسو پچھہتر سال ہوچکے ہیں۔ ان تین صدیوں کے عرصہ میں افغانستان میں کبھی امن نہیں ہوا اور نہ آئندہ امن کی اُمید ہے۔ اگر بیرونی حملہ آوروں سے جنگ نہ بھی ہو تو افغان آپسی جنگوں کا اہتمام کر لیتے ہیں یا پھر پڑوسی ممالک سے اُلجھ کر انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1947ء کے بعد بھارت اور افغانستان ملکر کر پاکستان کی سا  لمیت پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں ۔ موجودہ طالبان حکومت بھی تین دھڑوں پر مشتمل ہے۔ ایک ماڈریٹ طبقہ ہے جو پاکستان کے سکولوں ، کالجوں اور بیرون ملک تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہے۔ دوسرا بھارت نواز طبقہ ہے جنہیں ملا ضعیف کی حمایت حاصل ہے۔ تیسر ا طبقہ سابق صدر کرزئی، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا حمایت یافتہ ہے جنہیں پاکستان سے شدید نفرت ہے۔ موجودہ دور میں افغانستان میں کوئی شخص پاکستان کا دوست یا تیس سالہ پاکستانیوں کی قربانیوں کا معترف نہیں۔ 15اگست2021کو افغان امور کے ماہرین کا ایک گروپ ٹیلی ویژن پر نمودار ہوا اور کھل کر نہ صرف طالبان کی حمایت کی بلکہ حکومت پاکستان کووارننگ بھی دی کہ طالبان نہ ڈیورنڈ لائن کو مانیں گے اور نہ ہی سرحد پر خاردار تار قبول کریں گے۔ سابق بیورو کریٹ اور پاکستان کے افغانستان میں سابق سفیر رستم شاہ مومند نے کہا کہ دفاعی باڑ قبائل کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی بیانات شیر پائو، اسفند یار ولی، منظور پشتین اور دیگر رہنما دے چکے ہیں جو طالبان اور سابقہ افغان حکومتوں کی ترجمانی کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔ محمود اچکزئی نے متعدد بار تار اکھاڑ پھینکے کا اعلان کیا ہے۔ جہاں تک قبائل کو تقسیم کا معاملہ ہے وہ بھی محض پراپیگنڈہ ہے ۔ چترال سے بلوچستان تک جہاں جہاں آبادی ہے وہاں کراسنگ پوائنٹ موجود ہیں اور لوگوں کو سفری سہولیا ت میسر ہیں۔ دیکھا جائے تو سب سے زیادہ قربانیاں صوبہ خیبر پختونخوااور پھر بلوچستان میں کوئٹہ کے عوام نے دی ہیں۔ میاں افتخار کے اکلوتے بیٹے اور بلور خاندان کے دو ہم رہنمائوں کی شہادت اور آرمی پبلک سکول کے ہولناک سانحے کے باوجود سیاسی رہنمائوں کا پی ڈی ایم ، ٹی ٹی پی، اشر ف غنی ، کرزئی اور پاکستان مخالف دھڑوں کی حمایت کرنا اگر پاکستان دشمنی نہیں تو  پھراسے کیا نام دیا جاسکتا ہے۔

حالیہ طالبان حملے ، سرحد پر لگی دفاعی تار اُتارنے اور پاکستان کو گالیاں دینے کے بعد افغان وزیر دفاع ذبیح اللہ مجاہد نے نہ صرف ان اقدامات کی حمایت کی بلکہ معاملہ بڑھانے کی دھمکی بھی دی۔ ہمارے وزیر خارجہ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزز نے بھی اسے حل طلب مسئلہ قرار دیا۔ پاکستانی رہنمائوں کا یہ بیان بھی قوم کو قابل قبول نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی سر شام ٹیلی ویژن چینلوں پر جلوہ افروز ریٹائرڈ جرنیلوں ، سول بیورو کریٹس اور سیاسی دانشوروں کو حامد کرزئی کے ترجمان سلیم صافی جیسا رویہ برقرار رکھنا چاہیے۔ حکومتی وزیر اور مشیر کے بیانات اور افغان امور کے ماہرین کی رائے سے لگتا ہے کہ ہم ڈیورنڈ لائن سے پیچھے ہٹنے پر بھی سوچ رہے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو ذبیح اللہ مجاہد کی دھمکی کا کھل کر اور سخت گیر لہجے میں جواب نہ دینا معنی خیز ہے؟ سوائے ڈی جی آئی ایس پی آر کے صحافتی حلقوں میں بھی خاموشی ہے۔ عمران خان کی حکومت تو سرپرائز دینے کی ماہر ہے اور اُس کے غیر ملکی پاکستانی نژاد مشیروں کو اس ملک سے کوئی ہمدردی نہیں۔ روزنامہ دی نیوز میں امجد حسین داوڑ نے 23جنوری کی اشاعت میں لکھا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد عمران خان نے پانچ بلین روپے انسانی ہمدردی سے سر شار ہو کر طالبان حکومت کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایک طر ف تو عمران حکومت نے تین ارب ڈالر کے بدلے میں سار ا ملک آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے اور دوسری جانب پاکستانی عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے ہم نسل افغانوں کو دے دیاہے۔ میرے نزدیک یہ رشوت اور بلیک ملینگ ہے۔ کیا طالبان ہرحملے کے بعد بھتہ وصول کرتے رہینگے اور پاکستانی فوج اور عوام نہ صرف جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہینگے بلکہ ملکی خزانہ بھی افغانوں پر لٹاتے رہینگے۔ ؟

عمران حکومت اور عمران خان کو جتنا غم افغانوں کا ہے اتنا پاکستان کا نہیں۔ عمران خان کی حرکات و نفسیات محمود اچکزئی ، شیر پائو ، اسفند یار ولی سے کم نہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے افغان کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا مگر انگلینڈ میں افغانوں نے کرکٹ میچ کے دوران پاکستانیوں پر حملہ کیا تو ہبیت خان نیازی کے پیرو کار نے چپ سادھ لی۔

تاریخ پاکستان کا مصنف آئین ٹالبوٹ’’ پاکستان کی مشکلات‘‘ کے باب میں لکھتا ہے کہ ابتدا ہی میں افغانستان نے پاکستان دشمنی کا کھل کر اظہار کیا۔ ایک طرف بھارت نے جوٹا گڑھ ، گجرات اور کشمیر پر یلغار کی تو دوری جانب افغانستان نے باجوڑ پر حملہ کر دیا۔ افغان حکومت نے مسلح قبائل کی بھرپور مدد کی اور پشاور پر حملے اور قبضے کا منصوبہ بنایا ۔ دوسری جانب مہاجرین کا نہ رکنے والا سیلاب تھا جس کی وجہ سے پاکستان مشکلات کے بھنور میں پھنس چکا تھا۔ بڑی مشکل سے سندھ کے وزیراعظم ایوب کھوڑو نے ڈیڑھ لاکھ مہاجرین بسانے کی حامی بھرلی جبکہ سندھ سے ہجرت کرنے والے ہندوئوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ تھی۔ ان ہندوئوں او رسکھوں میں کا شتکار ، ہنر مند ، کارخانہ دار او رصنعت کار شامل تھے۔ مرکزی حکومت نے کافی زور لگایا تو ایوب کھوڑو اس شرط پر پانچ لاکھ مہاجرین کی آباد کاری پر راضی ہوئے اگر وہ سکھر اور جیکب آباد کے علاقوں تک محدود رہیں۔ بعد میں وہ اس شرط سے بھی مکر گئے اور صرف ڈیڑھ کی شرط رکھ دی۔ ایوب کھوڑو کے اس رویے پر وزیر بحالیات راجہ غضنفر علی خان اور جناب کھوڑو کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی۔ راجہ غنضفر علی خان نے ایوب کھوڑو پر واضع کیا کہ آپ صوبائیت کا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سندھ کے حالات آج بھی اچھے نہیں اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کہہ چکے ہیں کہ ا گر مرکز نے رویہ نہ بدلا تو ہم پاکستان سے علیحدگی کابھی سوچ سکتے ہیں۔

آئین ٹالبوٹ لکھتا ہے کہ ان حالات میں پاکستان کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ جونا گڑھ اورحیدر آباد کی طرف توجہ دے ۔ بھارت اور افغانستان کے علاوہ اندرونی سازشیں بھی عروج پر تھیں جبکہ میانوالی کے امیر عبداللہ خان روکڑی جیسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنا گھر مہاجرین کے حوالے کردیا اور خو د اپنے خاندان سمیت ایک کمرے کے مکان میں شفٹ ہو گئے۔ بہت سے سیاستدانوں نے لوٹ مار کی اور ہندوئوں کی چھوڑ ہوئی بڑی بڑی جائیدادیں اپنے نام کروالیں۔ ایک طر ف بڑے زمیندار ، جاگیردار اور سیاستدان تھے تو دوسری طر ف عام پاکستانی تھے جو انصار مدینہ جیسے جذبے سے سرشار لٹے پٹے مہاجرین کی جی جان سے خدمت کر رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی قیات میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ اپنے فالتو کپڑے ، گھر کا سامان او ر زیورات مہاجرین کی بحالی کے فنڈ میں دے دیے ۔ کشمیر پر بھارت نے یلغار کی تو عوام نے مجاہدین کے لئے راشن، گرم کپڑوں اور ادویات کا بندوبست کیا۔ مگرآزادکشمیر اور راولپنڈی کی انتظامیہ نے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوائے پونچھ کے محاذ پر نمائشی جنگ لڑنے والوں کے کسی دوسرے محاذ پر لڑنے والوں کو کچھ نہ دیا۔ زیادہ تر سامان مری اور راولپنڈی کے بازروں میں فروخت کر دیا جاتا ۔ نواب آف بھاولپور اور جونا گڑھ نے دل کھول کر حکومت پاکستان کی خدمت کی۔ خان آف قلات کی پاکستان کے قیام میں خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔ سندھی وڈیرے اور جاگیردار آخر دم تک دو دھڑوں میں تقسیم اور جی ایم سید کی تحریک کا حصہ رہے۔

تاریخ پر نظر ڈالی جا ئے تو کشمیر سے جونا گڑھ اور ڈھاکہ تک جو کچھ ہوا اُس کی ذمہ دار ہماری سیاسی اور عسکری قیات، بیوروکریسی اور بلوچی گاندھی کے علاوہ کئی خفیہ ہاتھ پاکستان کی تباہی و بربادی میں کار فرما رہے۔ ان ہی لوگوں کی ایمأ پر افغانستان ابتداء سے ہی پاکستان دشمن اور بھارت نواز رہا ۔ افغانوں نے تو اپنا رویہ نہ بدلا مگر پاکستانی قوم اور قیادت نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ احمد شاہ ابدالی نے سکھوں سے مل کر پنجاب اور کشمیر کے مسلمانوں پر ایسے مظالم ڈھائے جس کی مثال صرف مہر گل ہن اور ذوالقدر خان تاتاری کے ادوار میں ہی ملتی ہے۔

آئین ٹالبوٹ لکھتا ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی بھارت، افغانستان اور اندرون ملک وڈیروں اور جاگیرداروں نے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے جس کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ جناب لیاقت علی خان شہید اور کابینہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیر ہاتھ سے نکل گیا جس میں کرنل ایوب خان جو بعد میں اس ملک کے مختار کل بن گئے کی مجرمانہ غفلت بھی شامل تھی۔

ماضی کی غلطیوںپر بار بارلکھنا ایک تازیا نہ ہے کہ کاش کوئی جا گ اٹھے ۔ شہرت ، شہوت ، ہوس اور حرص کے دلدل میں دھنسی نام نہاد قیادت اور غلامانہ ذہنیت کی حامل اشرافیہ میں سے کوئی سچ لکھنے اور بولنے کی ہمت کر لے۔ شاید عوام کا اجتماعی شعور بیدار ہو جائے اور تاجرانہ سیاست اور مافیا حکومت کے خلاف کوئی میدان عمل میں اُترائے۔ کشمیر ، مشرقی پاکستان ، ملکی خارجہ وداخلہ پالیسوں سے لیکر بھارت اور افغانستان سے معاملات طے کرنے میں ہماری ہرسطح کی قیادت مجرم ہے ۔ علاقائیت، صوبائیت ، لسانیت اور خاندانوں، قبلیوں اور برداریوں کی سیاست نے نو دولیتے اور کرپٹ سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل پیدا کی جو قانونی ، اخلاقی اورآئینی ذمہ داریوں سے مبرا ملک دشمن اور قوم فروش رویے کی حامل ہے۔

صحافت کا یہ میعار ہے کہ نواز شریف  کیمپ کے صحافی کہتے ہیں کہ یہ ملک نواز شریف کا ہے اور مستقبل بھی نواز شریف کا ہے۔ ایسا ہی ایک گروپ زرداری کے قصے لکھتا ہے جبکہ کئی ہفتوں سے ایک بیچ کہ کہانی بھی بک رہی ہے۔ عمران خان افغانوں کے غم میں مبتلا ہے اور افغان پاکستان کو ماننے سے ہی انکار ہیں۔ پہلی بار پتہ چلا کہ دل کا ٹوٹنا بھی ایک بیماری ہے جس کا علاج صرف لوٹ مار اور کرپشن ہے۔ یہ بیماری ہماری ایسی مخلوق کو لاحق ہے جو عوام کا خون چوسنے کے علاوہ کوئی دوسرا ہنر نہیں جانتی۔ ہمارے ملک میں بہت کچھ پہلی بار ہو رہاہے۔ ہم عالم اسلام میں پہلی قوم ہیں جن کے لیڈروں نے اپنا ملک خود توڑا ، ہم نے پہلی خاتون وزیراعظم کا چنائو کیا اور دوبار اسے کرپشن کے جرم میں برطرف بھی کیا۔ ہماری فوج نے پہلی بار ایک خاتون کو لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی اور سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج تعینات ہوئیں۔ ہماری عدلیہ نے ایک مجرم کو جیل سے علاج کے لیے بیرون ملک بھجوایا اور پچاس روپے کے اشٹام پر کھربوں کی کرپشن کرنیوالے شخص کو ضمانت دیکر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ ہمارے قوم مجرموں کے عدالتوں سے ریکارڈ گم ہو جاتے ہیں اور اُن کے خلاف مقدمات کے کبھی فیصلے نہیں ہوئے۔ اب پہلی بار اس ملک میں اشرافیہ ، سیاستدان ، عدلیہ اور بیورو کریسی کیا کرنے والی ہے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔ ایک بات اٹل ہے کہ طالبان کی حکومت جونہی تھوڑی مضبوط ہوئی وہ پہلا وار پاکستان پر کرینگے ۔ زرداری نواز شریف اقتدار میں آئے تو کشمیر سمیت پاکستان بھارت کی ساری شرائط مان لیگا۔ اُس کے بعد جو ہوگا وہ ایک عظیم سانحہ اور قومی المیہ ہوگا۔ اللہ چاہے تو شیطانی منصوبے اُلٹ جاتے ہیں اور منظر بدل جاتے ہیں۔ شاید ایسا بھی ہو جائے ۔ وہی اس کائنات کا مالک و خالق اور حاکم ہے۔ (ختم شد)

 

 

Exit mobile version