تحریر: عامر کیانی
شروع تو اس نیت سے کیا تھا (بلکہ ابتدائیہ لکھ کر مٹا دیا ہے )کہ اردو پنجابی لغت میں جتنی گالیاں اور برے القابات موجود ہیں فرانس کے موجودہ صدر کو ان سے مخاطب کروں اور انہیں آزادی اظہار کی دوا کے اسی ذائقے سے آشنا کروں جو انہوں نے دیگر دنیا کو دینے کی کوشش کی ہے، اردو پنجابی زبان میں ایسے الفاظ کا اتنا وسیع ذخیرہ موجود ہے کہ نہ صرف صدر ، انکے پیروکار وں اور انہیں صدر بنانے والوں(یاد رہے چننے والے جان کر نہیں لکھا کیونکہ چننے والے بیچارے عوام ہوتے ہیں اور بنانے والے یعنی بین الاقوامی مقتدرہ ) کے چودہ طبق روشن ہوجاتے بلکہ یہ روشنی انکے ہر ممکنہ سوراخ سے چھن چھن کر باہر آتی نظر آتی اور اگر اس کالم کا ترجمہ فرانسیسی یا انگریزی میں کرکے کوئی موصوف اور انکے سرپرستوں کو پڑھا دیتا اور وہ بلبلا نہ اٹھتے تو میں لکھنے لکھانے کا کام چھوڑ کر کچھ اور کر لیتا لیکن مجبوری ہے کہ جن ذات گرامی کی محبت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں انکی تعلیمات کا بنیادی نقطہ ہی انتقام کی آگ کو دبا کر اپنے موقف کا اظہار کرنا ہے ورنہ زبان تو ہر کسی کے منہ میں ہوتی ہے اب اسکا استعمال ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ بندہ موجودہ فرانسیسی صدر ہے یا یہ ناچیز قلم کار ،بخدا سوچی گئی بلکہ لکھ کر مٹائئ گئی زبان کا مقصد بھی موصوف اور قارئین کو کسی کا یہ نقطہ باور کرانا تھا کہ ” جہاں سے کسی دوسرے کی ذات کی حد شروع ہوتی ہے وہاں آپکی ہر آزادی بشمول آزادی اظہار کی حد ختم ہوجاتی ہے "
اب موصوف کو جانے کیا سوجھی کہ دو لوگوں( مقتول اور قاتل )کی فضول بلکہ بے ہودہ حرکات پر اتنے ہی فضول اور بے ہودہ موقف کے ذریعے اسے بین الاقوامی مسئلہ بنادیا، کسی قتل کی ہر گز حمایت نہیں کی جاسکتی چاہے مقتول کی حرکت کتنی ہی بے ہودہ ہو لیکن اسکے موقف کی حمایت بھی کیسے کی جاسکتی جبکہ اس کا موقف احمقانہ حد تک بے ہودہ ہو ، مذکورہ مقتول کو تو استاد کا درجہ بھی حاصل تھا، استاد تو ہوتا ہی وہ ہے جو اپنے موقف کا اظہار کرتے وقت اپنے شاگردوں کے محسوسات، اعتقادات بلکہ عزت نفس کا بھی خیال رکھے ، قاتل بھی اپنے استاد جتنا ہی عقلمند تھا آخر اسی کا ہی شاگرد رشید تھا ؟جہاں ان دونوں کے موقف اور ردعمل کی کوئی عقلی دلیل اور وجہ بیان نہیں کی جاسکتی وہاں صدر موصوف کے ردعمل کی عقلی دلیل تلاش کرنا بھی بھوسے میں سوئی تلاش کرنے جیسا مشکل تو ہے ہی ، یہاں تک لکھ چکا تو خیال آیا کہ صدر موصوف بھی تو اپنے زمانہ طالبعلمی میں ایسی ہی ایک استانی کے شاگرد رشید رہ چکے ہیں ، اسی استانی کےشاگرد رشید سے شوہر نامدار تک کے سفر میں جناب صدر نے جانے کتنے کٹھن تعلیمی مراحل و تربیتی گھاٹیوں کو عبور کر کے یہ علمی مقام حاصل کیا ہوگا کہ وہ ایک علاقائی مسئلے کو سماجی بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بنا بیٹھے ، کاش استانی صاحبہ موصوف کو کسی خاص لمحے کے دوران یہ بات سمجھا دیتیں کہ ہر بات کہنے کی ہوتی ہے اور نہ ہر اظہار آزادی رائے کہلاتا ہے.