Tarjuman-e-Mashriq

  کہانی کی پہلی کتاب

 

انوار ایوب راجہ سے ہمارا پرانہ تعلق ہے اور اس تعلق کی وجہ اُن کی سنجیدہ، پُر مغز اور با معانی تحریریں ہیں۔ انوار سے اگرچہ ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی مگر قاری اور کتاب کا رشتہ دو دہایوں پر مشتمل ہے۔ "سربکف "اُن کی پہلی  کتاب تھی جو میں نے پڑھی ، جس کا ہر لفظ وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہیدوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔یہ ایک شہید افسر کیپٹن راجہ جاوید اقبال تمغہ بسالت کی داستان حیات اور سفر شہادت کی کہانی ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری شہید کی داستان حیات اور سفر شہادت میں شامل ہو جاتا ہے۔

ان کی  اگلی کتاب جو میری لائبریری میں شامل ہوئی  "لینٹھا” تھی، جو ایکطرف عزم و ہمت کی داستان ہے تو دوسری طرف قومی قیادت کے کشمیر سے متعلق رویوں اور غلط حکمت عملی کا نوحہ بھی ہے۔انوار ایوب راجہ نے مجاہد آذادی کرنل عبداللہ حق مرزا کی جنگی ڈائری کو اسطرح پیش کیا جیسے وہ خود محاذ  جنگ پر کرنل مرزا کے شانابشانہ جنگ لڑ رہے ہوں۔اگر چہ اس جنگی ڈائری کے کچھ ابواب افواج کے ترجمان ادارے ISPRنے،”دی ودرنگ چنار”کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کئے مگر بوجہ دو سوسے زائد صفحات پر مشتمل اصل ڈائری کو نظر انداز کر دیاگیا۔کرنل مرزانے جس دیانتداری اور جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہو کر یہ تحریر قلمبندکی اُسی جذبے  اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انوار نے جہاد آذاد ی کے آغاز سے انجام تک کی ساری جزیات عوام کے سامنے رکھ دیں۔انوار کی ہر تحریر کی طرح یہ کاوش بھی قابل تعریف ہے جس میں اصلی اور نقلی مجاہدوں کے کردار و عمل میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ستم یہ ہے کہ آج پچھتر سال گزرنے کے باوجود ہماری کشمیر پالیسی تقریروں،تحریروں اورسمیناروں تک ہی محدود ہے۔لیڈروں کے رویے تاجرانہ اور عوام کے معا ندانہ ہیں۔چانکیائی سیاست اور برادری ازم کے ناسور نے کشمیر ی عوام کے دلوں سے آذادی کا جزبہ ہی زائل کر دیاہے۔ آذاد کشمیر کی برادری سیاست میں پاکستان کے خود ساختہ قائدین نے اپنے اپنے خانے تلاش کر لیے ہیں اور کشمیری قوم کو برادریوں کی سطح پر تقسیم کر کے ان خانوں تک محدود کر دیا ہے۔وہ لوگ جو مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کے در پے ہیں وہی آذادی کے کھوکھلے نعروں کی آڑمیں مال کما اور اپنی عیش و عشرت پر لٹا رہے ہیں۔

انوار ایوب راجہ  کی تیسری تحریر جو میری لائبریری میں رکھی ہے وہ  "سر زمین بے آئین "ہے۔میرے نزدیک انوار کی یہ کتاب پاکستان کے ماضی اور حال کی کیفیت کا اندازہ کرتے ہوئے مستقبل میں پیش آنے والے حادثات اور واقعات کی پشین گوئیوں پر مشتمل ایک ایسی دستاویز ہے جو علم سیاسیات کے طالب علموں کی رہنمائی کر سکتی ہے۔15سال پہلے یہ کتاب فیکٹ پبلی کیشنزٹمپل روڈ لاہور نے شائع کی۔ پبلشر نے اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اردو میں پولیٹیکل فکشن کی روایت پروان نہ چڑھ سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھنا ایک تکلیف دہ تخلیقی عمل ہے جس سے عام لکھنے والا نہیں گزر سکتا۔ مگر یہ ناول فکشن نہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انوار ایوب راجہ کہانی اور مکالمے کے انداز میں سامنے لائے۔ قیام پاکستان سے اب تک کوئی ایسا موضوع نہیں جو انہوں نے اس ناول میں ڈسکس نہ کیا ہو۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ”سرزمین بے آئین”پاکستانی اور کشمیر ی سیاست اور معاشرے کا ایسا انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں محلاتی سازشوں، مفادپرستی،جھوٹ اور منافقت کا پردہ ایسی کہانی کے انداز میں چاک کیا گیا ہے کہ  جیسے ایک فلم چل رہی ہو۔یہ کتاب پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ فکشن نہیں بلکہ جیتے جاگتے کرداروں کی وہ کہانیاں ہیں جو اس بے حس معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں اور انہوں نے اپنی طاقت اور اختیارت کے بل بوتے پرپاکستان اور اُس کے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔1947میں قائداعظم ؒنے جس قوم کوانگریزوں اور ہندؤوں کے تسلط سے آذاد کروایا تھا،پاکستانی سیاسی مافیااور فیصلہ ساز اداروں میں بیٹھے اُن کے ایجنٹوں نے انہیں ایک ایسی اندھیری غار میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنے کے لئے انہیں اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔حالیہ دنوں عدم اعتماد کی تحریک جس طرح سامنے آئی اس کی مثال دنیا میں تو  کہیں  نہیں ملتی مگر انوار نے اس کی پشین گوئی 15سال پہلے ہی کر دی تھی۔پبلشر کا تبصرہ پڑھ کر مجھ جیسا عام شہری خوف میں مبتلا ہو جا تا ہے اور اُس کا آئین اور قانون پر بھروسہ ختم ہو جاتا ہے۔آج ہم عملاً ایک ایسی ریاست میں غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبورہیں جہاں مافیا کی حکمرانی ہے۔عام آدمی کی عزت،مال اور جان غیر محفوظ ہے جبکہ حکمران طبقے کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ہے کہ "سر زمین بے آئین”پاکستان کی تباہی اور بربادی کے منظر اور پس منظر میں حقیقی کرداروں پر لکھا جانے والا یادگار ناول ہے۔یہ الفاظ پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ ہماری یادوں اور سوچوں پر پہرے دار بٹھا دیے گے ہیں تاکہ ہمارے سوچھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ہی مفلوج ہو جائیں۔

ٹالسٹائی کا قول ہے کہ جب لوگوں میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہو  جائے  تو اُن کی زندگیاں حیوانوں سے بھی بد تر ہو جاتی ہیں۔

انوار کی  اگلی کتاب جو میں ے پڑھی  وہ  "ھلال کشمیر "ہے۔ جنگ آذادی کے ہیرو اور بھارتی فوج کی یلغار کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہونے والے ایک ایسے مجاہد کی داستان حیات ہے جو  جذبۂ شہادت سے لیس ہو کر میدان جنگ میں اُترا اور مقام شہادت پر فائز ہو گیا۔نائیک سیف علی جنجوعہ  شہید (ھلال کشمیر/نشان حیدر )نے پیر کلیوا کے محاذ پر مختصر نفری کے ساتھ دشمن کے بکتر بند دستے جسے انفنٹری، توپخانے اور ہوائی جہازوں کی مدد حاصل تھی،پُرانے اور روائیتی  ہتھیاروں سے روکے رکھا۔نائیک سیف علی شہید کے جوانوں میں سے بہت سے شہید اور اور زخمی ہو  گئے ۔حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے آپ اُوٹ سے باہر کھلے میدان میں آئے اور اپنی مشین گن سے دشمن کے طیارے کو مار گرایا۔ اُس کے بعد آپ نے جگہ تبدیل کی اور دشمن کی حملہ آور فوج کو وقتی طور پر پسپا کرنے میں کامیاب ہو گے۔اسی اثناء میں دشمن کی توپ کاگولہ عین آپ کے سر پر آگرا اور آپ کا جسم ہزاروں ٹکڑوں میں بکھر گیا۔اس سے پہلے کہ دشمن جوابی حملہ کرتا آپ کے کمپنی کمانڈر کیپٹن محمد نواز کمک لے کر پہنچ گئے ۔آپ نے دشمن کے خلاف موثر کاروائی کی اور نائیک سیف علی کی شہادت کی تصدیق بھی کی۔ نائیک سیف علی شہید کی خدمات کے پیش نظر آذاد کشمیر ڈیفنس کونسل نے انہیں سب سے بڑے جنگی اعزاز” ھلال کشمیر” سے تو نوازا مگر حکومت پاکستان نے بوجہ اُسے نشان حیدر کے مساوی تسلیم نہ کیا۔

آذاد کشمیر رجمنٹل  سنٹر اور شہید کی یونٹ نے بہت کوشش کی مگر حکومت پاکستان کا رویہ نہ بدلا۔شہید آذادی کشمیر کا خاندان حکومتی بے حسی کا شکار رہا اور اُن کی بیوہ اور بچے کسمپُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ررہے۔1999میں انوار ایوب راجہ نے نکیال(تحصیل فتح پور)کے دور دراز   گاؤں کھنڈہار جا کر شہید کی بیوہ، بیٹی اور بیٹوں سے ملاقات کی اور شہید کے متعلق تمام معلومات حاصل کئیں۔آپ آذاد حکومت کے پاس موجود ریکارڈ حاصل کرنے میں بھی کامباب ہو  گئے ۔انوارنے” ھلال کشمیر "کے عنوان نے نہ صرف نائیک سیف شہید کی سوانح حیات قلمبند کی بلکہ حکومت آذاد کشمیر اور آذاد کشمیر کی سیاسی قیادت پر کڑی تنقید بھی کی جو عرصہ تک شہید کے ورثاء کو ان کا حق نہ دلا سکی۔مسودہ تیار ہو اتو کوئی پبلشر اُسے ہاتھ لگانے کو تیار نہ ہوا اور نہ ہی اخباروں نے اُسے کوئی اہمیت دی۔ نائیک سیف علی نہ صرف اہل پاکستان بلکہ آذادی کے بیس کیمپ میں بیٹھے  آزادی  بزنس کے ڈیلروں کے لئے بھی اجنبی نام تھا۔

انوار نے اپنی کوشش جاری رکھی اور آخر کار پاک فوج کے ترجمان مجلے  ھلال نے اسے قسط وار شائع کردیا۔ ھلال کے ایڈیٹر اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل راشد قریشی کی کاوش سے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف  جنرل پرویز مشرف نے نائیک سیف علی جنجوعہ شہید(ھلال کشمیر)کونشان حیدر کے اعزاز سے نوازا جس کا کریڈٹ آئی ایس پی آر کے کرنل منصور رشید کو جاتا ہے جو اس مسودے کو شائع کروانے میں مددگار ثابت ہوئے۔جنرل پرویز مشرف کے حکم پر شہید کے خاندان کو وہ سب مرا عات ملیں جو دیگر نشان حیدر پانے والے شہیدوں کے خاندانوں کودی گئیں۔ آپ کے گاؤں میں جہاں آپ کے جسد خاکی کے کچھ حصے دفنائے  گئے  تھے آپ کی یادگار تعمیر کی گئی جہاں ہر سال پاکستان آرمی کا دستہ اُن کے یوم شہادت پر سلامی پیش کرتا ہے۔انوار  ایوب راجہ  کی حالیہ تصنیف پر کچھ لکھنے سے پہلے ھلال کشمیر پر تبصرہ کرنے والوں کا مختصرذکر ضروری ہے۔ماہر کشمیریات اور درجنوں کتابوں کے مصنف جناب جی ایم میر مرحوم نے لکھا کہ انوار ہونہار قلمکار اور تحریک آذادی کشمیر کا سچا مجاہد ہے۔جناب عبد الرشید ترابی سابق ایم ایل اے لکھتے ہیں کہ انوار اپنی تحریروں کے ذریعے جہاد آذادی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ھلال کے ایڈیٹر جناب یوسف عالمگیرین کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انوار ایوب راجہ کی کتابیں ریفرنس بُکس کا درجہ رکھتی ہیں۔ یقینا اآئندہ نسلیں ان سے فیض یاب ہوں گی۔میجر شہزاذ نیر نے لکھا کہ انوار کا لکھا ہر لفظ وطن سے محبت کا واضع ثبوت ہے۔

انوار کی حالیہ تحریر "کہانی کی پہلی کتاب”اُن کی بیان کردہ کتابوں کا ہی تسلسل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تحریر ہمارے ذہنوں کے خلفشار، معاشرے کی تحلیل شدہ صورت، ریاست کے جبر اور سیاسی پنڈتوں کے چہروں سے نقاب اُٹھا کر اُن کی اصلیت اور حقیقت کو خود فہمی میں مبتلا غرض مند عوام کے سامنے عیاں کرتی ہے۔جناب یعقوب نظامی، عامر شاید کیانی ،جناب ساجد یوسف  اور  جناب فیضان عارف کے تبصروں نے انوار کی کہانیوں کو چار چاند لگا دئیے تاکہ انوار کی کہانیوں کی روشنی سیاسی ٹھیکیداروں اور بے حس انتظامی اداروں میں بیٹھے مردہ ضمیروں اور دل کے اندھیروں کوروشن کرنے کا باعث بن سکے۔انوار کی ہر کہانی مشاہداتی معنوی اور حقیقی ہے۔ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو انوار کے بیان کر دہ کردار اورواقعات کسی نہ کسی صورت میں موجود نظر آتے ہیں۔”گداگر کا ادھار”ہماری معاشی ابتری کی درست ترجمان ہے۔ ہمارے لیڈروں کی تاجرانہ ذہنیت، کرپشن اور بد اطواری نے ہمیں ایسی گداگر قوم بنا دیاہے جسے کوئی ادھار توکجا صدقہ و خیرات دینے کو بھی تیار نہیں۔ ایک طرف اُن کے ذاتی خزانوں میں کھربوں ڈالر رکھے ہیں اور دوسری جانب قوم مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر آخری ہچکی لے رہی ہے۔”میڈیا کا قتل "اور” انصاف کے تقاضے” سچ کے ترجمان ہیں جن پر تبصرہ کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔جہاں” میڈیا کا قتل "جائز تصور ہو اور انصاف صرف دولتمند وں اور طاقتور طبقوں تک محدود ہو وہاں خوف کے سائے ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔

"کہانی کی پہلی کتاب”،”سرزمین بے آئین "کا ہی تسلسل ہے۔کسی بھی ریاست کا آئین اُس خطہ زمین پر بسنے والے انسانوں اور اُن کے حقیقی نمانئدوں کے درمیان عمرانی معاہدہ کہلاتا ہے۔ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے سیٹھ، تاجر، کارخانہ دار اور جرائم پیشہ کرپٹ سیاستدان جن کے جرائم کی کہانیاں عالمی سطح پر مشہور ہیں ایک مسلمان قوم کے حقیقی نمائندے کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ملک میں اچھے اور دیانتدار لوگوں کی بھی کمی نہیں اور نہ ہی ہر سیاسی جماعت بُرے لوگوں کی آماجگاہ ہے۔مگر ایسے لوگ بوجہ خاموش اور بدقسمتی سے عوامی مسائل سے لا تعلق رہتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کا شمار بھی مفاد پرست اور بدعنوان ٹولے ہی میں ہوتا ہے۔حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو عوام اور حکمرانوں کے درمیان فی الوقت کوئی عمرانی معاہدہ موجود ہی نہیں چونکہ آئین کی آڑمیں ہی مفاد پرست حکمران عوام کا ااستحصال کرتے ہیں۔تھر کی ماؤں کا بھی عمرانی معائدے میں حصہ ہے۔وہ بھی تو کسی ایم این اے اور ایم اپی اے کو ووٹ تو دیتی ہیں۔اگر بااثر اور طاقت ور سیاستدان اس معائدے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تو”لب پے آتی ہے دعا”جیسی کہانی تخلیق نہ ہوتی۔حیرت کی بات ہے کہ آئین توڑنے والوں کی سزا تو آئین میں لکھ دی گئی مگر آئین کو پامال کرنے، اُس پر عمل نہ کرنے اور آئین کا تمسخراُڑانے والوں کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی۔

 

Exit mobile version