کہانی کی پہلی کتاب، انوار ایوب راجہ کی تازہ ترین تخلیق ہے جو منظر عام پر آئی ہے – مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کو پینٹر آف دی ڈے پبلیشسر نے چھاپہ ہے، اس کی کہانیوں کی تعداد 41 ہے-کہانی کی پہلی کتاب کا سن اشاعت 2022 ء ہے اور صفحات کی تعداد 96 ہے – انوار ایوب راجہ کی اس کتاب کا آغاز رومی کشمیر میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے اسشعر سے ہوتا ہے.
لکھ ہزار بہار حسن دی، اندر خاک سمانی
لا پریت اجہی محمد، جگ وچ رہے کہانی
جب میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا تو مجھے اس میں معاشرے کا عکس دیکھائی دیا – انوار ایوب راجہ نے معاشرے کے تمام کرداروں کا نقاب ان کے چہروں سے اتارا ہے، اس میں مذہبی، سیاسی، سماجی ہر قسم کا کردار شامل ہیں ، کرداروں کی ایسی بنت کی ہے جو ہمارے معاشرے کے چلتے پھرتے کردار ہیں – اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت ایسا لگتا ہے کہ کوئی انسان آئینہ دیکھ رہا ہو اور ہر طرف اسے اپنا ہی عکس دیکھائی دے – انوار ایوب راجہ نے کمال فن کے ساتھ ان کہانیوں کو سپرد قرطاس کیا ہے، قاری دل چسپی کے ساتھ اس کو پڑھتا ہے اس کی بنیادی وجہ تجسس اور عام الفاظی ہے – انوار ایوب راجہ کا دھیما انداز اور تجسس قاری کے دل میں گھر کر جاتا ہے – انوار ایوب راجہ نے "لب پہ آتی ہے دعا”کہانی میں تھر کے حالات کا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح وہاں بوڑھے، جوان اور بچے پیاس اور بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر مر رہے ہیں، وہ ان سیاسی لٹیروں سے آس امید لگائے ہوے ہیں کہ کب راشن کا ٹرک پہنچے گا تو بچوں کو کھیر بنا کر کھلائیں گے، وہ ٹرک جس نے وہاں پہنچنا تھا وہ ان سیاسی لٹیروں کی نذر ہو جاتا ہے – انوار ایوب راجہ نے ایک اور کہانی "عمارت کی بنیاد” میں معاشرے میں گھریلوں ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دینے کا اشارہ کیا ہے – گھر میں والدین کو شائستہ زبان کا استعمال کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھنا چاہیے چوں کہ اولادیں اپنے والدین سے ہی تربیت پاتی ہیں اور گھر ہی پہلی درس گاہ ہے جہاں ااولاد کی تربیت ہوتی ہے – جیسا گھر میں والدین کا آپس میں رویہ ہو گا تو ویسے ہی آگے اولاد بھی وہی رویہ اختیار کرے گی – انوار ایوب راجہ کے اس مجموعہ میں کئی معاشرتی پہلو ملتے ہیں جن کی وجہ سے آج بھی ہمارا معاشرہ ذلت اور پستی کی طرف گامزن ہے – ان میں ایک کہانی "وومن امپاور منٹ” ہے جس میں روبینہ اسلم کو للکار للکار کر کہہ رہی ہے کہ دیکھ آج میں کہاں ہوں اور تو کہاں ہے، آج میں نے تم سے آزادی حاصل کر لی ہے اب میں آزاد ہوں اور خود مختار بھی ہوں یہ چیخنا اور چلنا صرف اس خوشی میں تھا کہ عدالت نے اس کی طلاق منظور کر لی تھی، انوار ایوب راجہ نے اس کردار کی بدولت حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ یہ کردار آج بھی ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے– انوار ایوب راجہ نے "کہانی کی پہلی کتاب” میں افسانہ نگاری کے فن کو خوبی کے ساتھ نبھایا ہے-آپ کی کہانیوں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس میں وہ کردار ہیں جن سے ہم روز چلتے پھرتے ملاقات کرتے ہیں – انوار ایوب راجہ نے ایسے کردار سامنے لائے ہیں جو مافوق الفطرت نہیں بلکہ عام معاشرے کے کردار ہیں، ایک قاری ہونے کے ناطے میں نے ہر کہانی کو توجہ اور دل چسپی کےساتھ پڑھا ہے اور ہر کہانی نے مجھے ایک نیا سبق دیا ہے جوعملی زندگی میں ہمارے لیے مفید ثابت ہو گا- انوار ایوب راجہ کے اس مجموعے کو اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے، صنفافسانچہ میں اس مجموعہ کی وجہ سے گراں قدر اضافہ ہوا ہے جس سے رہتی دنیا تک لوگ مستفید ہوتے رہیں گے، مجھے امید ہے کہ یہ سفر یہاں قیام پزیر نہیں ہو گا بلکہ جاری رہے گا، کہانی کی پہلی کتاب، کے بعد، کہانی کی دوسری کتاب، بھی منظر عام پر آئے گی اور ادبکی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرے گی-