لیو ٹالسٹائی کا آخری ناول "حاجی مراد” روسی ادب کے درخشاں ماضی کی یادگار ہے۔ یہ داغستان کے اس مسلمان حریت پسند کی کہانی ہے جو بوجوہ حضرت امام شامل رح سے الگ ہو گیا اور زار روس کے ساتھ جا ملا۔ لیکن اس کی حریت پسند روح نے اسے چین نہ لینے دیا۔ اور وہ اپنے تازہ حلیفوں سے اپنے لوگوں کو آزاد کروانے کی لڑائی میں مارا گیا۔
ٹالسٹائی نے فوج اور بادشاہت کی بیوروکریسی کو نہایت باریک بینی سے دیکھا اور ایسی جزئیات نگاری کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مضحکہ خیز کردار کا حامل زارِ روس جس انداز سے فیصلے کرتا ہے، فوجی بٹلر جس طرح ہنستا گاتا جنگ لڑتا ہے، حاجی مراد جس دلگداز انداز سے اپنے خاندان کو یاد کرتا ہے، وہ سرخ پھول جسے شاخ سے توڑا گیا تو وہ اپنی رعنائی کھو بیٹھا، پھر امام شامل رح کی بارعب اور جنگجویانہ طرز حیات، اس ناول میں کئی مقامات ٹالسٹائی کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔
ٹالسٹائی نے ڈیڑھ صفحے میں سرخ پھول تاتار کی کہانی سنائی، اسے علامت بنایا اور حاجی مراد سے منسلک کر دیا۔
اس ناول کا اردو ترجمہ مظفر محمد علی نے کیا۔ ترجمہ بہت ہی عمدہ ہے۔ روسی ادب کا ترجمہ ایسے ہی اسلوب کا متقاضی تھا
اس ناول پہ فلم بھی بنی۔ فلم The White Warrior دراصل حاجی مراد کی کہانی ہے جس میں ہیرو کا کردار اسٹیو رِیوز نے ادا کیا۔
تاہم، اس ناول کا اختتام ویسا پُرشِکوہ نہیں جیسا اس سے پہلے کے سبھی صفحات پہ پھیلا یہ ناول۔ مزید برآں، شاید فکشن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا پھر اپنے تعصب کی وجہ سے، حضرت امام شامل رح کی شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔
بجا طور پہ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ ٹالسٹائی نے حاجی مراد کیوں لکھا؟ کیا یہ ناول واقعی اس حریت پسند (حاجی مراد) کو خراج تحسین پیش کرتا ہے یعنی ٹالسٹائی کو اس مسلمان جنگجو نے اتنا متاثر کیا کہ وہ اس پہ ایک لازوال ناول لکھنے پہ تیار ہوگیا یا ٹالسٹائی بوجوہ حاجی مراد کی شخصیت کے محض اُن پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جو شاید اس میں موجود نہ ہوں لیکن ناول کے قارئین کے ذہن میں حاجی مراد کی وہی تصویر رہ جائے جو ٹالسٹائی چاہتا ہے۔ تاکہ اس ناول کو لکھنے کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔
ان سوالات کے جواب تو وہی عالم فراہم کر سکتا ہے جو ماہرِ روسی ادب ہو۔
ہم نے تو بطور مداحِ ٹالسٹائی، اس ناول کو دل سے پڑھا اور ٹالسٹائی کے فن سے دل سے محبت کی.
۔