دھیمی سی دل آویز مسکراہٹ لبوں پہ سجائے انتہائی متانت اور نفاست سے گفتگو کرتے ہوئے، خوش لباس اور وضعدار طلسمی شخصیت کے مالک سید شبیر احمد شاہ میرپور کا روشن چہرہ ہیں۔ انتہائی متاثر کن شخصی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کا علمی ذوق و قوت مشاہدہ بھی کمال کی حد تک منفرد اور اعلیٰ ہے۔
گذشتہ دو سالوں میں پیر و مُرشد سے انتہائی قریبی تعلق رہا۔ ان کے ساتھ طویل نشستیں اور کئی سفر کئیے ہر بار ان کی شخصیت کی ایک نئی پرت کھلی اور ہم ان کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ان کی شخصیت سب کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
بظاہر سنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن جب کبھی حس مزاح چھڑ جائے تو اعلیٰ پائے کے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ بنیادی طور پر بینکار ہیں اس دور کے مشاہدات اور تجربات کو بڑے ہی دلنشین انداز میں بیان کرتے ہیں۔ جی چاہتا ہے انہیں سنتے جائیں۔ ان کا ساتھ گزارے ایام بلاشبہ میرے لئے قیمتی سرمایہ ہیں۔ مجھے مُرشد سے فیوض و برکات کا انمول تحفہ ملتا رہا اور میں غیر محسوس طریقے سے ان کو دل کے نہاں خانوں میں جگہ دیتا چلا گیا۔
اس تمہیدی گفتگو کی طوالت سے شاید آپ تنگ پڑ جائیں لیکن سچی بات ہے شاہ صاحب کے بارے میں جتنا بھی کہا اور لکھا جائے کم ہے ان کے بارے مفصل بات کر کے بھی لگتا ہے کہ ان کے کئی اوصاف ابھی بیان کرنا باقی ہیں۔۔
ابتدائی ملاقاتوں میں ہی میں ان کا گرویدہ ہوتا چلا گیا۔ اپنا شعری مجموعہ عکس آب انہیں پیش کیا تو مجھے اندازہ نہی تھا کے شاہ صاحب اس کے بارے میں ایک مفصل تجزیہ و تبصرہ لکھیں گے۔ میں اس وقت حیرت سے دوچار ہوا جب آپ نے بذریعہ واٹس ایپ اخبار میں شائع شدہ کالم بعنوان
“ پس آئینہ عکس آب ہوں میں “ مجھے ارسال کیا۔ آپ کے لئیے یہ بات باعث اعزاز و تکریم ہوتی ہے جب کوئی آپ کی تخلیق کو خوب توجہ سے پڑھے اور اس کے بعد اس کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے کا قلمی اظہار بھی کرے۔۔
شاہ صاحب نے گذشتہ کچھ سالوں سے ایک تسلسل اور محنت سے بحیثیت ایک نقاد اپنا واضح مقام بنا لیا ہے۔ کھڑی کی مردم خیز دھرتی کے اس سید زادے نے اپنی علمی میراث اور عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش سے قلبی و علمی تعلق سے فیوض و برکات کو عام کرنے کا سلسلہ جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔۔
بحیثیت قلمکار شاہ جی کا تخلیقی وفور لاجواب ہے۔ جس موضوع پر لکھتے ہیں نتہائی مربوط اور منظم انداز میں اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ جغرافیہ ، تاریخ اور علمی تحقیق سے مزین ان کے ادبی شاہکار دل موہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کو مایہ ناز نقاد و محقق کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔
شاہ صاحب کی کتاب مکتب عشق کو بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی اور ایک طرح سے انہوں نے تنقیدی محاذ پر بھرپور کامیابی سمیٹی۔۔
ان کی نئی کتاب “ لوح اظہار” گذشتہ چند دنوں سے زیر مطالعہ رہی۔ پہلا باب ادبی تنقیدی جائزے ہےاس میں آپ نے دو درجن سے زیادہ کتابوں کے بارے اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کیا ہے اس کے بعد رپورتاژ میں علمی و ادبی تقاریب کا احوال انتہائی دلنشین اور دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔۔
منفرد انداز تحریر، سلاست، روانی، سادگی سے لکھنے کا انداز اور قاری کو اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا ڈھنگ کوئی آپ سے سیکھے۔
سید شبیر احمد شاہ صاحب اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد قبول فرمائیں۔۔ امید ہے آپ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور ہمیں ادبی تحائف عطا کرتے رہیں گے۔ سلامت رہیں۔ .