فیس بُک کی دُنیا نے لکھاریوں کی ایک نئی نسل پیدا کی ہے۔ ایک نیا ٹرینڈ دیا ہے۔ اب ہر کوئی اپنے خیالات آپ سب کے ساتھ شئیر کر سکتا ہے۔ آپ کچھ اچھا لکھ سکتے ہیں، اچھا بول سکتے ہیں تو پھر یہ دُنیا آپ کی ہے۔ آپ اس دُنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔
فیس بُک کے ذریعے میں کئی خوبصورت دل کے مالک لکھاریوں سے متعارف ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی تحریروں میں جادو تھا۔ جنھیں پڑھ کر میں حیران ہوا کہ یہ لوگ اب تک کہاں تھے۔ ان کی تحریریں اخبارات کے صفحات کی زینت کیوں نہ بن سکیں۔ ایسے کئی خوبصورت لوگ میرے ساتھ فیس بُک پر موجود ہیں جن کی تحریروں نے مجھے متاثر کیا۔
ان خوبصورت لکھاریوں میں ایک نام زارا مظہر صاحبہ کا تھا۔ ان کی تحریروں سے مجھے ایک سلجھے، پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان سے تعارف ہوا۔ انھیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ اپنی تحریروں میں جس طرح انھوں نے مشکل سماجی مسائل کو چھیڑا ہے اس کی ہمارے معاشرے کو سخت ضرورت تھی۔ ان کی فیس بُک وال پر جا کر مجھے ہمیشہ لگا کہ وہ ایک سطر بھی ایسی نہیں لکھتیں جسے پڑھ کر آپ کو لگتا ہو کہ آپ کا وقت ضائع ہوا۔
سنجیدہ لیکن حسّاس موضوعات کو جس طرح انھوں نے ہینڈل کیا اسے پڑھنا اپنی جگہ ایک خوبصورت تجربہ تھا۔ کتنے لوگ ہوں گے جو دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے بچے سمجھ کر ان کے لیے وہی اچھا چاہیں جو وہ اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں۔ اپنی بیٹی کی دوست کے لیے بھی ایک سگی ماں کی طرح پریشان ہوں۔ دوسروں کے مسائل اور پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھیں اور جب تک وہ مسئلہ حل نہ ہو جائے آرام سے نہ بیٹھیں۔
اب ان کی اس کتاب کو پڑھنے بیٹھا تو اندازہ ہوا وہ اتنی حسّاس دل کیوں ہیں۔ ان کا دل ہر وقت دوسروں کے لیے دھڑکتا ہے۔ اس کی وجہ ان کا شروع سے ہی کتاب سے رشتہ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ لٹریچر پڑھتے ہوں اور حسّاس نہ ہوں۔ دوسروں کا دُکھ آپ کو ہرٹ نہ کرے۔
یہ حسّاسیت آپ کو زارا مظہر صاحبہ کی ہر تحریر میں نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں موجود کون سی ایسی تحریر ہو گی جو آپ کے دل کو نہ چھو جائے۔ ایک سمجھدار انسان جو دوسروں کو مشکل اور تکلیف میں دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ پا رہا۔
مجھے دو سکھ بہنوں کے مسلمان بننے کے بعد کی کہانی نے کئی دن تک سونے نہیں دیا۔ اس تحریر کو میں نے تین بار پڑھا اور ہر دفعہ مجھے اپنی آنکھیں گیلی محسوس ہوئیں۔
اپنی سگی بیٹی کو شادی کے دن جو نصیحتیں کیں اور بیٹی کو اس کی نئی زندگی بارے بریف کیا وہ ہر بیٹی، ماں اور ساس کو پڑھنی چاہییں۔
یا اس بیٹے کی کہانی جو ماں باپ کی بچپن میں طلاق کے بعد باپ سے اس وقت ملا جب وہ نو سال کا ہو چکا تھا۔ باپ سے چوری چھپے ملنا شروع کیا لیکن ماں کو بتانے کی جراَت نہ کر سکا۔
ایک باپ اور بیٹے کی اس انہونی ملاقات کا قصہ بھی آپ کو کئی روز ڈسٹرب رکھے گا۔ ایسی کئی کہانیاں ہیں اس کتاب میں جو آپ کو کئی راتوں کی نیند میں خلل ڈال سکتی ہیں بشرطیکہ آپ کے اندر وہی حسّاس دل ہے جو زارا مظہر کے پاس ہے۔
یہ غیر معمولی کتاب ہر ماں باپ، بیٹے، بیٹی کو پڑھنی چاہیے۔ اس کتاب نے میری اپنی کاؤنسلنگ کی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں، اپنی بہوئوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک رکھنا ہے۔
زارا مظہر نے اس معاشرے کا ایک ایسا پوسٹ مارٹم کیا ہے جس میں ہم سب خود کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اس کتاب میں جہاں ولن ہیں وہیں کچھ ہیروز بھی ہیں۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے ولن بننا ہے یا ہیرو۔ گھر بسانے ہیں یا گھر توڑنے ہیں۔ خوابوں کی دُنیا میں رہ کر شہزادے کا انتظار کرنا ہے یا پھر عملی زندگی میں پائوں زمین پر رکھ کر اپنے محل خود تعمیر کرنے ہیں۔
یہ طے ہے اس انوکھی کتاب میں شامل کئی کہانیاں جہاں آپ کا دل توڑ دیں گی وہیں کچھ خوبصورت کہانیاں آپ کو سرشار بھی کر دیں گی.
پبلشر : بک کارنر ، جہلم
کتاب حاصل کریں : https://bookcorner.com.pk/book/dilam?fbclid=IwAR1ax4Muz_8SkqYJA7bIZX81eMjUEjKHBwjDKscYpSubECKC7GXQwYtHw0c