Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دنوں کی بات ہے- 5

سپاہی راجہ ولی داد خان ہمارے گاؤں کا پہلا شہید ہے جس نے جنگ آذادی کشمیر میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے پہلے جتنے لوگ مختلف جنگوں میں کام آئے اُن کا تعلق میرے خاندان سے تھا۔ ہمارے گاؤں کے چار محلے ہیں جن میں ایک شیخ برادری کا ہے۔ یہ لوگ نو مسلم ہیں اور 1947میں ترک وطن نہ کر سکے۔ برہمن اور دیگر ذاتوں کے ہندو آسودہ حال تھے اور اُن کی رشتہ داریاں اور کاروبار دلی، بمبئی اور بھارت کے بڑے شہروں میں تھے جیسے پہلے بخشی عشر اور اُن کے بھائی بخشی لال کا ذکر ہو چکا ہے۔ اسی طرح ہمارے علاقہ کے بڑے اور دولت مند ہندو گھرانوں میں مہتہ حکم چند اور مہتہ شنکر داس تھے۔کھمبا گاؤں جو اب لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب ہے کا ذیلدار سردار سنگھ نارمہ ہماری ہی برادری سے تھا۔ اس کی ذیل بھی میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ ولائیت خان کے حلقہ سفید پوشی میں آتی تھی۔ ہمارے گاؤں کا یک محلہ بڑوٹہ کہلاتا ہے جہاں قدیم نارمہ راجپوت ہی آباد ہیں جبکہ تیسرا محلہ قاضیوں کا ہے۔ پہلے دور میں اس محلہ سے تعلق رکھنے والے قاضی بدھو اپنی برادری  کے  سرخیل اور سب سے معتبر شخصیت مانے جاتے تھے جبکہ اُن کے بھائی قاضی ملو بڑے عالم دین اور ڈوگرہ دور میں مفتی کے عہدے پر فائز رہے۔ اس خاندان میں بہت سے عالم دین، مفتی اور اعلیٰ علمی شخصیت ہو گزری ہیں جن میں میاں قطب الدینؒ درویش اور ولی اللہ تھے۔اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ماسٹر امام دین برصغیر کی اعلیٰ علمی درسگاہوں میں عربی اور فارسی کے معلم رہے۔آ پ کئی کتابوں کے مصنف اور شاعر تھے۔آپ کی ساری تصانیف عربی اور فارسی زبان میں ہونے کی وجہ سے آئندہ نسل ان کے علمی اثاثے سے فائدہ نہ اُٹھا سکی۔

دبلیاہ راجگان کے اصل باشندے بھی نارمہ راجپوت ہی تھے اور آج بھی کثیر آبادی ان ہی لوگوں کی ہے۔ تاریخ راجستان کے مطابق ہمارا خاندان مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں مسلمان ہو ا اور پھر جہلم کے ایک مشہور قصبہ فتح پور پلان سے ہوتا اس علاقہ میں آباد ہوا۔ قدیم نارموں کے علاوہ  مغلیہ دور میں یہاں منہاس آباد تھے۔ منہاس ڈوگروں کی ہی ایک شاخ ہے جنھیں مذہب میں اونچا درجہ تو دیا جاتا تھا مگر ڈوگرے منہاسوں کے ساتھ رشتہ داری نہ کرتے تھے۔ بر ہمنوں اور مہتوں کی نسبت منہاسوں کا درجہ کم تھا۔منہاس مذہبی تعلیم حاصل کرتے تھے اور ڈوگروں کی موت ومرگ اور شادیوں کی رسمیں ادا کرنے کے علاوہ  کھیتی  باڑی کرتے تھے۔ ڈوگرے قبیلوں کے سردار اور جنگجو تھے اور فوجی ملازمت کرتے تھے۔ جو ڈوگرہ مذ ہبی تعلیم حاصل کرتا یا کھیتی باڑی کرتا وہ ایک درجہ کم ہو جاتاتھا۔

راجہ تانوں خان نارمہ اور کیپٹن سرندر کمار نارمہ کی تواریخ کے مطابق علاقہ پنجن پلاہل خورد و کلاں میں پہلے منہاس اور بعد میں ایک جنگ کے نتیجہ میں نارمہ آبادہوئے۔ یہ آپسی راج کا زمانہ تھا۔ مقامی جنگوں اور لڑائیوں سے بادشاہ درگزرکرتے تھے۔ اس کی ایک مثال گجرات کے جاٹوں اور گجروں کے درمیاں ایک فضول جنگ تھی۔ گجرات کے حماموں پر کبھی گجر اور کبھی جاٹ قابض ہو جاتے اور آپس میں لڑتے رہتے۔ اکبر اعظم نے کشمیر جاتے ہوئے یہ منظر دیکھا تو دونوں قبیلوں کے سرداروں کو بلا کر حکم دیا کہ آئیندہ حمام ایک سال کے لئے گجروں اور دوسرے سال جاٹوں کے پاس رہیں گے۔ اگر اس حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو شاہی فوج دونوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گئی۔ رضا علی عابدی اپنی کتاب "جرنیلی سڑک”میں لکھتے ہیں کہ اس کے بعد گجرات میں امن ہو گیا۔

علاقہ پنجن اور پلاہل میں ہندووں کے علاوہ منہاس آبادتھے اور اُن کا سردار پنجن بالا کے مقام پر رہتا تھا۔ نارموں کی قلیل آبادی دبلیاہ راجگان اور ناڑاکوٹ میں تھی۔ راجھستان  سے آئے ہوئے نارمہ راجگان کے سردار چار سگے بھائی راجہ جلال خان، لال خان، تندو خان اور کھمبو خان تھے۔نارموں اور منہاسوں کے درمیان شدید جنگ ہوئی اور منہاس شکست کھا کر مختلف سمتوں میں بھاگ گئے۔ قتل عام کے بعد صرف ایک عورت اس لئے بچ گئی چونکہ وہ حاملہ تھی۔ گورنمنٹ ہائی سکول گولہ کے مشرق اور سبزکوٹ سے جنوب کی سمت تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر منہاسوں کا یہ گھر آ ج بھی موجود ہے۔میں جن دنوں اس سکول میں پڑھتا تھا اس گھر کے دو بیٹے نجم اللہ (نجو)اور ثناء اللہ بھی ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان کے والد اور داد ا طویل القامت اور وجہی تھے۔ ثناء اللہ یا نجم اللہ میں سے کسی ایک کا والد مجاہد بٹالین میں نائب صوبیدار تھا۔ یہ لوگ اب گگ راجپوت کہلواتے ہیں۔ اس قبیلے کے بہت سے لوگ پونچھ جاگیر منتقل ہوئے اور باقی دھرال گگاں تحصیل سماہنی اور ضلع بھمبر کی دیگر تحصیلوں میں بھی آبادہو گئے۔بمطابق کیپٹن سرندر کمار نارمہ اور راجہ تانوں خان نمبردار علاقہ دار کے یہ قبیلہ مغلیہ دور میں ہی مسلمان ہوا۔ تاریخ اقوام پونچھ اور تاریخ اقوام کشمیر کے مطابق اس قبیلے میں بڑے عالم دین، مفتی اور دانشور ہو گزرے ہیں۔ ان کا شمار راجپوت قبائل میں ہی ہوتا ہے۔ تاریخ اقوام پونچھ اور دیگر تاریخی کتب کے مطابق گاؤں پنجن پلاہل خورد و کلاں میں سوائے اہل حرفہ کے ساری آبادی نارمہ راجپوتوں کی تھی جسکی وجہ سے اس علاقے کا نام ہی نرماہ ہے۔ آجکل یہاں جاٹ اور جنجوعہ قبیلے کی کثرت ہے مگر مردوں اور خواتین کے جسمانی خدوخال اور دیگر اوصاف یکساں ہیں۔ ان کے کھیت کھلیان بھی قریب قریب ہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ ابتداء میں ایک ہی تھے۔

راجستھان   سے آئے نارموں کا شجرہ ٹاڈا راجھستان  میں درج ہے۔منہاسوں کو علاقہ بدر کرنے کے بعد راجہ لال خان پلاہل خوردو کلاں میں آباد ہواجبکہ بڑے بھائی راجہ جلال خان نے اپنا ڈیرہ پنجن جو علاقہ کا سب سے بلند اور خوشنماء مقام ہے پر قائم کیا۔ راجہ کھمبو،کھمباہ کے علاقہ میں آباد ہوا۔اس مقام پر مغلیہ دور میں یک قلعہ تعمیر کیا گیا جو مغلیہ شاہرہ پر اہم تزویراتی مقام ہے۔ اس علاقہ میں پہلے سے ہندو نارمہ کثیر تعداد میں موجود تھے اور آج بھی ہیں۔ چوتھا بھائی راجہ تندو خان نے تندر گاؤں آباد کیا جہاں آج بھی %99آبادی نارموں کی ہے۔ یہ ایک تاریخی اور منفرد طرز تعمیر کا گاؤں ہے جسے عسکری طرز پر تعمیر کیا گیا۔ جنگ آذادی سے پہلے اس گاؤں کی مشہور شخصیات نمبردار راجہ محبت خان، راجہ لال خان اور قریبی گاؤں بیانس کے راجہ باسا خان تھے۔ راجہ باساخان راجہ کھمبو کی اولاد سے تھے مگر رشتہ داریاں راجہ تندو خان کے خاندان سے تھیں۔ گاؤں تندڑ کی ایک بڑی علمی اور روحانی شخصیت حضرت پیر صوفی فضل الرحمان ؒ اور سائین اللہ دتہ ؒ مرحوم بھی ہیں۔ راجہ محبت خان کے داماد لیفٹینٹ جنرل راجہ اکبر خان مرحوم کا نام عسکری تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ عسکری تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ بھٹو اگر رعونت، ہٹ دھرمی اور تکبر کے دائرے سے باہر نکل کر سوچتے تو یحیٰحی خان کے بعدنہ مارشل لاء لگتا اور نہ ہی عمران خان کے خلاف ایک بھونڈا آپریشن عدم اعتماد ہوتا۔ چودہ جماعتی اتحاد کی اکثریت نے نہ کبھی قائداعظم ؒ کا نام احترام سے لیا اور نہ ہی پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ آصف زرداری اور شریف خاندان کا کردار بھی مشکوک ہی رہا ہے۔ یہ سب فوج میں میرٹ کو پامال کرنے اور سیاسی نا پختگی کا نتیجہ ہے جو آگے چل کر مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

راجہ محبت خان کے بیٹے کیپٹن راجہ سرور خان، میجر راجہ آذاد خان، میجر راجہ اسلم خان، پوتا میجر راجہ وقار خان اور بیٹا ایس پی راجہ رزاق خان قابل ذکر ہیں۔

راجہ باسا خان کی اولاد سے اُن کے بیٹے انسپکٹر پولیس راجہ فقیر محمد خان مرحوم اور نوسہ میجر راجہ خضر الرحمان ہیں۔ تندڑ گاؤں کے ہی میجر راجہ معرروف خان مرحوم جو پیر فضل الرحمان ؒ کے داماد تھے،کے علاوہ میجر راجہ جمیل خان ایک درویش صفت شخصیت ہیں۔

راجہ جلال کی اولاد سے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکا خان مرحوم کے علاوہ میجر راجہ نائب خان،سابق ایم ایل اے راجہ مجاہد خان، میجر راجہ ایوب اقبال، مجاہد آذادی لیفٹینٹ راجہ مظفر خان ستارہ جرأت (دوبار)،  رائے خلیل خان، نمبردار راجہ محبت خان مرحوم، معروف سیاسی و سماجی شخصیت سابق مال افسر راجہ محمد اقبال خان، کیپٹن راجہ اسلم خان، کیپٹن عنائت اللہ اور سابق ضلع کونسلر صوفی عنائت اللہ، میجر راجہ اعظم خان، پروفیسر راجہ فضل الرحمان خان، ڈاکٹر راجہ مطلوب، پروفیسر راجہ فیاض خان، پروفیسر راجہ شفیق خان، پروفیسر راجہ خورشید خان اور دیگر اعلیٰ علمی اور ادبی شخصیات ہیں۔

ناڑاکوٹ کے صوبیدار نمبردار راجہ صلاح محمد خان اور دبلیاہ راجگان کے راجہ نواب خان کا تعلق نارمہ قبیلہ سے ہی ہے مگر یہ لوگ قدیمی اور مقامی ہیں۔ راجہ نواب خان کی اولاد کی زمینوں اور چراگاہوں میں کھنڈرات کی بہتات ہے مگر کوئی قبرستان نہیں۔ ان کا اصل گاؤں بوجہ تباہ ہو گیا تو انہوں نے قریب ہی دوسرا گاؤں آباد کر لیا۔ اس خاندان کی سب سے قدیم قبر راجہ نواب خان کی اور ہمارے جد امجد راجہ معظم خان اور ان کے بیٹے راجہ تانوں خان نمبردار وعلاقہ دار کی ہے۔ ہمارا خاندان کھمباہ سے بیانس منتقل ہوا اور پھر سنداڑ کے مقام پر عارضی قیام کے بعد علاقہ نرماہ محلہ دبلیاہ راجگان منتقل ہو گیا۔ راجہ نواب کے بزرگوں نے کب دین اسلام قبول کیااس کی بھی کوئی سند نہیں۔ ہمارے گاؤں کے پہلے شہید سپاہی ولی داد خان کا تعلق راجہ نواب خان کے خاندان سے تھااور رشتے میں وہ ان کے پوتے اور ان کے بیٹے راجہ حشمت علی خان کے بیٹے تھے۔ اس خاندان کے دیگر مرد بھی ڈوگرہ فوج کے علاوہ برٹش انڈین آرمی کا حصہ رہے۔ سپاہی راجہ اللہ داد خان اپنے دور کے نامور فٹ بال اور ہاکی کے کھلاڑی تھے۔آذادی سے پہلے آپ راجپوتانہ رائفل اور بعد میں بلوچ رجمنٹ کا حصہ رہے۔ شہید سپاہی راجہ ولی داد خان کا یوم شہادت عرصہ تک ہر ماہ منایا جاتا رہا۔ اُن دنوں ایک بنگالی پوسٹ مین شہید کی پنشن لیکر آتا تو ان کی والدہ تائی شرف بیگم بڑے دکھ اور کرب سے شہید بیٹے کی پنشن وصول کرتیں۔ تائی صاحبہ بیٹے کی یاد میں بلند آواز میں روتی تو سارا محلہ جمع ہو جاتا۔ وہ "میرا ولی داد جھتے ناں مہری”(میرا ولی داد سپاہ کا گائڈ)کہہ کر پکارتی تو ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی۔ سپاہی ولی داد کا تعلق بھی بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ تائی کی وفات کے بعد نہ بنگالی پوسٹ مین آیا اور نہ کسی کو ولی داد یاد رہا۔ تائی آسودہ خاک ہوئی اور ولی داد گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔

چوتھے بھائی راجہ لال خان کی اولاد پلاہل خورد و کلاں میں آباد ہوئی۔ آبادی بڑھ گئی تو کچھ لوگ پرائی، امبان اور دیگرملحقہ علاقوں میں آباد ہوگئے۔ راجہ لال خان کی اولاد میں سے ایک شخص نے ہندونارمہ مستری خاندان کی لڑکی سے محبت کی شادی کی اور لڑکی کو بھگا کر کسی دوسرے علاقہ میں چلا گیاجو خاندانی رسم و رواج کی سخت خلاف ورزی تھی۔ ہندونارمہ مستری خاندان مقامی اورہندو مذھب سے تعلق رکھتا تھاجن کی ایک شاخ اب بھی کھمباہ کے دیہاتوں  میں آباد ہے۔ یہ لوگ اب بھی ہندو ہیں اور اپنے ناموں کے ساتھ نارمہ مستری ہی لکھتے ہیں۔ اس شاخ کی کوئی الگ گوت تو نہیں اور نہ ہی نارموں کی کوئی گوتی تاریخ ہے۔ یہ لوگ پیشے کے لحاظ سے مستری تھے اور اب بھی ہیں۔ڈڈیال ضلع میرپور کے نارمہ مستری اب مغل کہلاتے ہیں جبکہ سنداڑ کے مستریوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان میں سے کچھ 1947سے پہلے ہی تحصیل نوشہرہ منتقل ہوگئے۔ سابق چیف جسٹس آف آذاد کشمیر مرحوم جسٹس یونس سرکھوی نے ایک ملاقات کے دوران میرے کزن راجہ ظفر معروف کی موجودگی میں میری بات درست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص نے مستری خاندان کی لڑکی سے محبت کی شادی کی تھی وہ میرا ہی جد امجد تھا۔ اہلیان پلاہل نے میرے جد اعلیٰ اور ان کے بھائیوں کوعلاقہ بدر کیا جبکہ دیگر قبیلے سے بھی سوشل بایئکاٹ کر دیا۔اس وجہ سے وہ اب بھی مستری اور لوہار کہلاتے ہیں مگر رہتے پلاہل کلاں میں ہی ہیں۔ راجہ ظفر معروف جو جسٹس صاحب کے قریبی دوست تھے اور جنکی وساطت سے اُن سے کشمیر ہاؤس میں ملاقات ہوئی نے پوچھا کہ پھر آپ مغل کیسے بن گئے۔ مرحوم نے ہنس کر بتایا کہ شکر کرو ہندو نہیں بنے۔ میں نے تاریخی حوالے سے بتایا کہ ان کے جد اعلیٰ کا ایک بھائی سہنسہ چلا گیا اور وہ نارمہ ہی رہا جبکہ تیسرا بھائی شہزادہ اور اسی خاندان کے کچھ لڑکوں نے سنداڑ کے ہندو مستری نارموں کی لڑکیوں سے شادیاں کئیں اور ہندو ہوگئے۔ بعد میں یہ لوگ نوشہرہ اور ریاسی تک پھیل گئے جہاں انہیں سکھ اور ڈوگرہ دور میں وسیع جائدادیں آلاٹ کی گئیں۔ کھمباہ کا ذیلدار سردار سنگھ نارمہ بھی اسی خاندان سے تھا جس کی پوتی اب تک زندہ ہے۔ بڑو، کتھیالہ اور دیگر علاقوں میں مسلمان نارمے مقامی ہیں جن کی رشتہ داریاں دبلیاہ راجگان کے راجہ نواب خان کے علاوہ ٹائیں، درکوٹی اور وادی بناہ کے دیگر علاقوں میں آباد نارموں سے ہیں جو قدیم اور مقامی ہیں۔ بعد میں ان کی    رشتہ داریاں تندڑ کے نارموں سے بھی ہوئیں اور اب یہ سلسلہ ضلع باغ تک پھیل چکا ہے۔

ماسٹر مقصود احمد آف ساہ گاؤں نرماہ ایک معروف معلم اور علم دوست شخصیت ہیں۔ آپ کا تعلق کلوترا راجپوت قبیلے سے ہے جن کی کثیر آبادی تحصیل کھوئی رٹہ وادی بناہ میں آباد ہے۔ آپ کے جد اعلیٰ میاں جیون وقت کے ولی، عالم دین، محقق،شاعر و ادیب اور عظیم خطاط تھے۔ چند روز پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرپور کے کسی شخص کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ علاقہ نرماہ، دبلیاہ راجگان اور ملحقہ پہاڑی بستیوں میں واقع مزارات کسی ولی، شہید یا مبلغ کے نہیں بلکہ ان مسافروں کے ہیں جو دوران سفر فوت ہو گئے ۔ راقم نے عرض کیا کہ اوّل جن مقامات پر وہ مزارات اور خانقاہیں ہیں وہاں آج بھی کوئی راستہ نہیں جاتا۔دوئم مسافروں کی قبروں پر چاردیواریاں تعمیر نہیں کی جاتیں اور آخری بات کہ دور دراز مشکل ترین اور پر فضا چوٹیوں پر صرف ایک یا دو جڑواں قبروں کا اہتمام ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ دوسرے ممالک سے کشمیر آئے اور پھر یہی کے ہو گئے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس پورے خطہ زمین پر کھنڈرات کے علاوہ کوئی قبرستان نہیں جبکہ اہلیان نرماہ کا شجرہ کسی راجہ نار سنگھ سے ملتا ہے۔اگرچہ نرماہ کے باشندگان جنجوعہ کہلواتے ہیں مگر جنجوعہ قبیلے میں کسی راجہ نار سنگھ کا ذکر نہیں ملتا۔جنجوعوں کا جد اعلیٰ راجہ جنجو، محمود غزنوی کے دور میں مسلمان ہوا جسکی اولاد میں سے کسی راجہ نار سنگھ کا نرماہ آکر آباد ہو نا تاریخ سے ثابت نہیں۔

نارمہ راجپوتوں کا کشمیر کی مشہور رانی جسکا نام ہی نارمہ تھا سے منسوب ہے۔ نارمہ رانی کا شوہر راجہ رنادت کشمیر کا مشہور اور انسان دوست حکمران تھا۔ رنادت آپﷺ کے زمانے تک کشمیر کا حکمران رہا۔ مورخین کا خیال ہے کہ اگر رنادت تک آپﷺ کے ظہور کی اطلاع پہنچ جاتی تو وہ دائرہ  اسلام میں داخل ہو جاتا۔

تاریخ کی کڑیاں ملائیں تو نارموں کا کشمیر کے مختلف حصوں میں آباد ہونا یا ترک وطن کرنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ دیگر قبائل کی طرح نارمہ قبائل بھی ابتداء میں ہندوہی تھے جوکہ برصغیر پاک و ہند اور کشمیر کا قدیم ترین مذہب ہے۔ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں جب آریا اقوام ہند میں داخل ہوئیں تو یہاں کا قدیم مذہب بھی ہندو ہی تھا جبکہ کشمیر میں ہندو دور کی ایک طویل تاریخ ہے جسے پنڈت کلہن نے اپنی مشہور تصنیف "راج ترنگنی” میں بیان کیا ہے۔ پنڈت کلہن کے بعد اس کے شاگرد زونراج نے یہ کام جاری رکھا اور تیس سے زائد حکمران خاندانوں کا اپنی کتاب میں ذکر کیا۔ تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کسی بھی حکمران خاندان کے افراد کا ریاست کے مختلف حصوں میں آباد ہونا حکمرانوں کی سیاسی اور انتظامی ضرورت ہوتی ہے۔نارموں کا ریاست کے مختلف حصوں میں آباد ہونا اسی امر کا ثبوت ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں چند ہی قبیلے ہیں جن کا قدیم حکمران خاندان سے تعلق تاریخ سے ثابت ہے۔ نارموں کے علاوہ بمبہ، کھکھہ اور ڈوگرہ خاندان قدیم و جدید تاریخ کا حصہ ہیں۔       ۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔

 

Exit mobile version