Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دنوں کی بات ہے

ہمارے دور میں چھ سال سے کم عمر بچوں کو سکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔ وجہ کیا تھی، کبھی کسی سے پوچھا نہیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ تب سکولوں کی تعداد کم تھی۔ پرائمری سکولوں میں طلباء کی تعداد جتنی بھی ہواُستاد صرف ایک ہی ہوتا تھا۔ ایسے ماحول میں چھوٹی عمر کے بچوں پر توجہ دینا مشکل تھا۔ سکولوں میں کوئی بیت الخلا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہر کلاس کے مانیٹر کے پاس گتے کا ایک کارڈ ہوتا جو اُس نے خود بنا کر اُس پر کلاس کا نام لکھا ہوتا تھا۔ رفع حاجت کیلئے بچے سکول سے دور کسی کھیت یا ویرانے کا رخ کرتے اور جانے سے پہلے مانیٹر سے کارڈ لے جاتے۔چوتھی اور پانچویں کے بچے ڈائریکٹ استاد سے اجازت لیتے۔ بچہ کلاس میں کھڑا ہو جاتا اور داہنے ہاتھ کی ایک انگلی بلند کرتا جس کا مطلب چھوٹے کی اجازت اور دو انگلیوں کا مطلب بڑے کی اجازت لینا ہوتا تھا۔ اُستاد کی کرسی کے سامنے پانچوں کلاس زمین پر بیٹھتیں۔ اُستاد باری باری ہر کلاس سے سبق سنتے اور اگلا سبق دیتے۔ استادوں کا رویہ تھا نیدارانہ ہوتا تھا۔ وہ بچوں پر تشدد کرتے جس کی وجہ سے اکثر بچے سکو ل سے بھاگ جاتے یا پھر والدین انہیں سکول کے بجائے مسجد یا پھر گاؤں کے اندر کسی پڑھی لکھی خاتون کے پاس بھجواتے۔ ہمارے محلے میں میری والدہ مرحومہ بچوں کو قرآن پاک کے علاوہ اُردو اور فارسی کی کچھ کتابیں بھی پڑھاتیں۔ ساتھ والے محلے میں خالہ بیگم جان اور دوسرے قریبی گاؤں میں میاں عبدالرشید مرحوم بچوں کو درس دیتے۔ ایسے سکولوں میں نہ کوئی تشدد تھا اور نہ چھٹی تھی۔ مقرر وقت پر پڑھنے والے آتے اور پڑھ کر چلے جاتے۔ خالہ بیگم جان مرحومہ کے گھر پندرہ سے بیس سال کی لڑکیاں اور لڑکے داخل تھے۔ یہ وہ طالب علم تھے جن کے والدین انتہائی غریب تھے۔ ہمارے ساتھ تین ایسی لڑکیاں پڑھتی تھیں جن کی دوران تعلیم شادیاں ہوئیں مگر وہ باقاعدگی سے پڑھنے آتیں اور درس قرآن مکمل کیا۔ میرا سکول گھر سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ہمارا گھر محلے سے الگ اور اونچائی پر تھا۔ یہ مکان کب تعمیر ہوا کسی کو پتہ نہیں۔ میری دادی مرحومہ ایک سو دس سال کی عمر میں فوت ہوئیں،تب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب وہ بیاہ کر اس گھر میں آئیں تو یہ گھر اسی طرح تھا۔ گھر کے بہت سے کمرے جوبعد میں گرگئے تب سلامت تھے۔ میں نے اس گھر کو صرف دو کمروں پر مشتمل دیکھا۔ دادی جان نے جن کمروں کے گر جانے کا ذکر کیا اُن کے آثار موجود تھے۔ گھر کے تین اطراف مٹی کے بڑے بڑے ڈھیر تھے اور گھر ان ڈھیروں کے اند رایک وسیع بنکر کی شکل میں تھا۔
گھر کا سامنے والا حصہ خوبصورت اور محل نما تھا۔ سامنے لکڑی کے تین بڑے دروازے تھے جن پر انتہائی نفیس کام ہوا تھا۔ طرح طرح کے پھول اور نقش و نگار لکڑی پر کندہ کیے گئے تھے۔ چھوٹی چھوٹی لکڑیوں سے ہر دروازے پر ہوا کے لیے جالیاں تیار کی گئی تھیں جنہیں پیتل اور تانبے کے کیلوں سے جوڑا گیا تھا۔ ستون بھی ایسے ہی تھے جن پر پھولوں کی بیلیں کندہ کی گئی تھیں۔ سنا تھا کہ ایسے دروں والا ایک مکان بل کے جاگیردار کا بھی تھا۔کچھ روز پہلے جناب کرنل خلیل عارف کے گھر جانا ہوا تو اُن کی بیگم جوبل کے جاگیردار کی نواسی ہیں نے بتایا کہ تین منقش دروازوں والا گھر اب بھی موجودہے جسے اُن کی والدہ نے محفوظ کروا رکھا ہے۔
گھر کے تین اطراف کھیتوں کا سلسلہ ہے جو دور تک چلا جاتا ہے اور شمال میں بالی ماہ کا بلند پہاڑ اور اس کے دامن میں تاریخی گاؤں نرماہ واقع ہے جس کا ذکر تاریخ کی کتب میں موجود ہے۔مغرب کی جانب جہاں ہمارے محلے کی حد ختم ہو تی ہے اس سے آگے آدھا کلومیٹر کا فاصلہ ڈھلوانی ہے۔ تب یہ راستہ خاردار جھاڑیوں اور درختوں سے نکل کر دوسرے محلے کے کھیتوں سے ملتا تھا۔ جہاں ان کھیتوں کا سلسلہ ختم ہوتا وہاں دریا کی شکل کا گہرانالہ شروع ہو جاتا جو سارا سال بہتا۔موسم سرما میں پانی کم ہو جاتا مگر چھوٹے بچوں کے لیے خطرہ موجود رہتا۔ نالے کے بعد پھر چڑھائی کا سلسلہ شروع ہوتا اور تقریباً آدھا کلومیٹر تک چلا جاتا۔ یہ راستہ دشوار اور چیڑ کے بلنددرختوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ لو مڑوں، گیڈروں اور لوفر کتوں کا اکثر سامنا ہو جاتا مگر یہ جانورراستہ چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ کبھی کبھی بیل اور دوسرے گھریلو جانور راستہ روک لیتے جن کی وجہ سے راستہ چھوڑ کر مشکل جگہوں سے گزرنا پڑھتا۔ اس سفر کے بعد ایک خشک میدان آتا جس کے ایک کونے پر ایک بڑا جوہڑ تھا جس پر ٹاہلبوں کے درخت سایۂ کیے ہوئے تھے۔ گرمیوں میں قریبی گاؤں کی بھینسیں اس جوہڑ میں بیٹھ جاتیں اور چروا ہے ٹاہلیوں کی چھاؤں کے مزلے لیتے۔ یہاں سے سکول صرف پانچ سو گز کے فاصلے پر تھا اور سفر آسان اور محفوظ تھا۔
پانچ سال کی عمر میں میرا قد میرے ہم عمر بچوں سے بڑا تھا اور دیکھنے میں دس سال کا لگتا تھا۔ پہلے میں گھر میں والدہ صاحبہ سے پڑھتا تھا۔ میری والدہ اور خالاؤں نے اپنی سوتیلی ماں محترمہ پکھراج بیگم سے اُردو، فارسی اور عربی پڑھ رکھی تھی۔ پکھراج بیگم میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ سخی ولائیت خان کی چوتھی بیوی تھیں۔ اُن کا تعلق علاقہ سانبھا جموں سے تھا۔ تقسیم سے پہلے وہ گورنمنٹ گرلز مڈل سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں۔ میرے نانا نے گورنر جموں سے اپنے علاقہ کے لیے لڑکیوں کا پرائمری سکول منظور کروایا۔اُنکی اس جدوجہد میں گورنمنٹ سیکرٹریٹ جموں میں تعینات بابو غلام قادر کا بھی ہاتھ تھا۔غلام قادر صاحب علم دوست شخصیت تھے اور میرے نانا محترم کا بے حد احترام کرتے تھے۔ سکول کی منظوری کے بعد بابو غلام قادر کے گھر کے قریب اپنی مددآپ کے تحت ایک کمرہ تیار ہوا جہاں محترمہ پکھراج بیگم نے سانبھا سے اپنا تبادلہ کروا کر درس و تدریس کا کام شروع کر دیا۔ چھوٹی لڑکیوں کے علاوہ بڑی عمر کی عورتیں بھی سکول جانے لگیں اور اپنی عقلی استعداد کے مطابق کچھ نہ کچھ سیکھ لیا۔ میری سب سے چھوٹی خالہ سکول جاتی تھیں جبکہ والدہ محترمہ اور دیگر خواتین کی گھر میں ہی کلاس ہوتی۔ خواتین کی دینی تعلیم کے لیے نانا محترم نے ضلع گجرات کے حافظ سائیں فیروز دین کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ سائیں صاحب حافظ، قاری، عالم دین اور بزرگ شخصیت تھے۔ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ یہاں قیام پذیر تھے اور علاقہ کی بچیوں اور خواتین کو درس دیتے تھے۔
1962میں میرے والد محترم بس کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہوئے تو گھر میں ایک اداسی او ر ویرانی کا ماحول بن گیا۔ میری دادی محترمہ عمر رسیدہ، بیمار اور بصارت سے محرو م تھیں۔ ان محرومیوں کے باوجود بغیر کسی کی مدد کے اپنے اکلوتے بیٹے کی قبر پر جاتیں اور سارا دن وہاں تسبیح کرتیں۔وہ فجر کی نماز کے بعد گاؤں کی مسجد کے صحن میں برگد کے گھنے درخت کے نیچے بیٹے کی قبر کے سرہانے جائے نمازبچھا کر بیٹھتیں اور مغرب کی نماز سے پہلے واپس گھر آجا تیں۔ سال میں ایک بار وہ اپنے بھائی صوبیدار راجہ صلاح محمد خان کے گھر پالکی میں بیٹھ کر جاتیں اور ایک ماہ وہ گھرسے بیس کلو میٹر دور ناڑا کوٹ کے مقام پر قیام کرتیں۔ بیٹے کی وفات کے بعد وہ آٹھ سال تک زندہ رہیں اور ناڑا کوٹ کے مقام پر وفات پائی۔ جانے سے پہلے وہ بہت اداس تھیں۔ میری والدہ کو نصحیت کی کہ بچوں کی تعلیم پر توجہ دینا اور محلے میں کسی بھی شخص پر بھروسہ نہ کرنا۔ پھر کہنے لگیں کہ میں نو ے سال پہلے پالکی میں بیٹھ کر یہاں آئی تھیں اور اب پالکی میں بیٹھ کر واپس جارہی ہوں۔ میرا وقت ختم ہونے والا ہے اور میری وصیت ہے کہ مجھے ناڑا کوٹ کے قریب بدال کے مقام پر میرے والدین کے قریب دفنایا جائے۔
تب میری عمرگیارہ سال تھی اور میں چھٹی جماعت میں گھر سے سات میل دور پونہ ضلع بھمبر میں واقع مڈل سکول میں پڑھتا تھا۔میں صبح تین بجے کے قریب گھر سے نکلتا۔ راستے میں ہی فجر کی اذان سنتا اور سورج نکلنے سے پہلے گھر سے بہت دور اڈہ کے مقام پر پہنچ کر اپنے ہم جماعت مشتاق، اُس کے بڑے بھائی ممتاز، مستری عبدالرحمان اور چوہدری لعل دین کا انتظار کرتا۔ آگے چلکر دو مشتاق نامی لڑکے بھی ہمارے قافلے میں شامل ہو جاتے اور آخر میں چوہدری خادم کو لیکر ہم سب سکول پہنچ جاتے۔ کبھی کبھی ڈاکٹر پرویز مرحوم کا ساتھ بھی ہوتا۔ وہ رہنے والا تو پونہ کا ہی تھا مگر اُس کی پھپھی کی شادی ہمارے محلے کے قریب ہوئی تھی۔ وہ اکثر اپنی پھپھی کے گھر میرے ساتھ آتا اور صبح ہم اکٹھے سکول جاتے۔ ایک دن مغرب سے پہلے سکول سے واپس آیا تو بوجی (والدہ) گھر پر نہیں تھیں۔ان دنوں ہمارے گھر میں تین گائیں ہوتیں تھیں۔تینوں گائیں جنگل میں چرنے کے بعد گھر آکر خاموش اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھی تھیں۔ میری خالہ زاد اکبر جہاں نے آکر بتایا کہ تمہاری دادی فوت ہو گئیں ہیں اور خالہ ناڑا کوٹ چلی گئیں ہیں۔ تمہارے لیے کھانا طاقچے میں رکھ گئی ہیں اورکہہ گئی ہیں کہ تم کل سکول نہ جانا اور وہ کل شام تک واپس آجائیگیں۔—– جاری ہے۔۔۔

Exit mobile version