Tarjuman-e-Mashriq

خاموشی

بچے عام طور پر دو سے ڈھائی سال کی عمر میں بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ صرف سنتے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی خالق کائنات نے انسان کو 2کان اور ایک زبان دی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو بولنا کم اور سننا زیادہ چاہئے۔ جو لوگ کم بولتے ہیں ان کی قوت مشاہدہ اور سیکھنے کی اہلیت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر انسان اپنی 70برس کی اوسط زندگی میں 86کروڑ سے زیادہ لفظ بولتا ہے جبکہ سنے جانے والے الفاظ کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس ماحول میں رہتا اور کس پیشے سے وابستہ ہے۔ جب انسان خاموش ہوتا ہے تو اس کے اندر غور کرنے کی صلاحیت بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی لئے دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی زندگی میں مراقبے کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے حقیقی علم بھی انسان کو کم بولنے اور زیادہ سننے کی تربیت دیتا ہے ۔ جو لوگ صرف بولنے پر اپنی تونائی ضائع کر دیں وہ عمل کے معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں اور تھوتھا چنا باجے گنا جیسے محاورے اسی حقیقت کا نچوڑ ہیں۔ جو لوگ کم بولتے ہیں ان کی کہی ہوئی بات زیادہ پر تاثیر اور بامعنی ہوتی ہے۔ اکثر لوگ گفتگو اور تقریر کرتے وقت اسی لئے اشعار کا سہارا لیتے ہیں کہ شعر کے کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہہ دی جاتی ہے جہاں الفاظ کم پڑ جائیں وہاں اشعار کے ذریعے اپنی بات کو موثر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کئی برس پہلے ایسٹ لندن میں ایک ورڈز فیسٹیول(WORDS FESTIVAL)کا اہتمام کیا گیا جس میں مجھے اردو کے شاعر کے طور پر شرکت کی دعوت دی گئی۔ سٹریٹفورڈ تھیٹر میں منعقد ہونے والے اس فیسٹیول کے انگریز منتظمین نے لندن میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کے ادیبوں کی بھرپور پذیرائی کی اور ان کی شاہکار تخلیقات کوحاضرین تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا۔ مجھے اردو غزل کی وجہ سے اس فیسٹیول میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک انگریز خاتون نے میری دو اردو غزلوں کے انگریزی زبان میں تراجم کئے اور مجھے دعوت کلام دینے سے پہلے حاضرین کو بتایا کہ غزل اردو زبان کی وہ صنف سخن ہے جس کے ہر شعر میں کم سے کم الفاظ میں بڑے بڑے مضامین اور موضوعات کو سمیٹا جاتا ہے جسے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ میںنے جو دو غزلیں اس ورڈز فیسٹیول میں سنائیں ان کے ہر شعر کا انگریزی ترجمہ بھی ساتھ ساتھ کیا گیا۔ ویسے تو شاعری اور خاص طور پر غزل کے اشعار کا ترجمہ ممکن نہیں لیکن پھر بھی ابلاغ کی کوئی نہ کوئی راہ ہموار ضرور ہو جاتی ہے۔ میرے ان دو اشعار کے ترجمے کو بہت سراہا اور تالیوں سے پذیرائی کی گئی۔
کارواں رک گیا ہے سانسوں کا
یہ بھی ہجرت کی اک علامت ہے
ابن آدم ہوں اس لئے فیضان
مجھ کو پیغمبروں سے نسبت ہے
گنے چنے اور کم الفاظ میں اپنی بات کا ابلاغ بھی ایک فن ہے۔ لوگوں کی اکثریت گفتگو اور تقریر سے پہلے اس ضرورت پر دھیان دیتی ہے کہ انہیں کون کون سی بات کہنی ہے جبکہ ذہین اور سمجھدار لوگ اس مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے خطاب میں کون کون سی بات نہیں کہنی کیونکہ کہی ہوئی بات کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتی ہے اور خاص طور پر سیاستدانوں اور لیڈرز کو بولنے سے پہلے بہت سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ جب کوئی سیاستدان کسی دعوے یا وعدے کی گرہ اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے تو پھروقت آنے پر یہ گرہ اسے اپنے دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے اور پھر بھی یہ گرہ نہیں کھل پاتی۔ برطانوی سیاستدان کم بولتے ہیں اور کسی قسم کے لمبے چوڑے دعوے کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ مچھلی اسی وقت کانٹے میں پھنستی ہے جب وہ اپنا منہ کھولتی ہے۔ مجھے زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے کہ جب تک وہ خاموش تھے تو ان کی شخصیت کا ایک وقار اور بھرم قائم تھا لیکن جیسے ہی انہوں نے بات چیت شروع کی اور فضول قسم کی بے سروپا باتوں کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا تو ان کی شخصیت کا وقار ایک دم سے موم کی طرح پگھل گیا۔ہمارے ملک میں سیاست اور مذہب دو ایسے موضوعات ہیں جن پر ہر شخص بے دریغ گفتگو کرتا ہے اور اپنے موقف اور نقطہ نظر کو دوسروں پر مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم پاکستانیوں کی محفلوں سے غیبت، سیاست اور مذہب پر بحث مباحثے کو نکال دیا جائے تو خاموشی باقی بچے گی۔ خواتین کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ بولتی بہت ہیںحالانکہ ان کی زیادہ گفتگو تو خاموشی کے فوائد کے بارے میں ہوتی ہے۔ میرا بہت سے ایسے مردوں سے بھی واسطہ پڑا ہے جو بولنے کے معاملے میں خواتین کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ جب میں 1991ءمیں بہاول پور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو ہمارے شعبہ ابلاغیات کے ساتھ لاءڈپارٹمنٹ یعنی شعبہ قانون ہوا کرتا تھا جس کے ایک پروفیسر اس قدر گفتگو فرماتے تھے کہ سننے والے کے کان سنسنانے لگتے ۔ ان کے اکثر طالب علم کلاس کے بعد انہیں دیکھتے ہی ادھر ادھر ہو جاتے تھے کہ کہیں ان کی علمی گفتگو کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ زیادہ بولنے سے اچھا بولنا بہت کمال کی خوبی ہے لیکن اچھا بولنے کے لئے علم، بصیرت، دانائی اور موثر لب و لہجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریزوں کی ایک بڑی خوبی کم بولنا ہی نہیں بلکہ یہ لوگ کسی ناقابل برداشت بات کے جواب میں اپنے ردعمل کے اظہار میں بھی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ جہاں خاموشی سے کام چل سکتا ہو وہاں بات چیت اور بحث ومباحثے کی کھکھیڑ میں پڑنا کسی بھی طرح کی دانشمندی نہیں ہوتی۔ ایک چپ سو بولتے ہوﺅں کو ہرا دیتی ہے۔ ویسے بھی برطانیہ میں (Noise Pollution)یعنی شور سے پیدا ہونے والی آلودگی بہت ہی کم ہے۔ لندن شہر میں ہر وقت ٹریفک کا رش رہتا ہے لیکن یہاں ٹریفک کا شور اور ہارن کی آواز شاذ و نادر ہی سنائی دیتی ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی ساڑھے 6کروڑ سے زیادہ آبادی میں پالتو کتوں کی تعداد ایک کروڑ ساڑھے بارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن دن تو کیا یہاں رات کے سناٹے میں بھی کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی نہیں دیتی یا شاید انہیں بھونکنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی جبکہ پاکستان میں کتے دن رات اور بلاضرورت بھونکتے رہتے ہیں۔ آوارہ تو آوارہ پالتو کتے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے اور کبھی کبھار تو اپنے مالکوں کو ہی کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان میں گاہے بگاہے کتا مار مہم شروع کی جاتی ہے۔ اسی تناظر میں کسی نے یہ فکر انگیز مصرعے کہے تھے۔
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
میں نے گذشتہ 20 برسوں کے دوران برطانیہ میں آج تک کسی سیاسی جماعت کے حامی یا کارکن کو اپنے لیڈر کے لئے نعرے مارتے اور اس کی حمایت میں لمبی چوڑی تقریریں کرتے نہیں سنا کیونکہ یہاں لوگ لفظی دعوﺅں کی بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ دھوکہ دینے کی بجائے دھکا دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس پارٹی کے منشور اور کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں اس کی حمایت ثابت قدمی سے کرتے ہیں ۔ نعرے بازی صرف فٹ بال میچ کے موقع پر ہی ہوتی ہے اور وہ بھی صرف اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سارا سیاسی نظام نعرے بازی، جھوٹے وعدوں ،دعوﺅں، فریب، شور شرابے اور ہلڑ بازی پر استوار ہے۔ نہ سیاستدانوں کو یاد رہتا ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو کون کون سے سبز باغ دکھائے تھے اور نہ مصیبتوں کے مارے عوام میں اتنی سکت ہے کہ وہ حکمرانوں کی منافقت پر انہیں آئینہ دکھائیں اور انہیں یاد دلائیں کہ انہوں نے کون کون سے وعدے کر کے عوام کے ووٹ حاصل کئے تھے۔جس دن پاکستان کے عوام کی اکثریت کو نعرے بازی سے فرصت ملے گی اور خاموش ہو کر اپنے اور اپنے قائدین کے طرز عمل پر غور کریں گے تو شاید انہیں اندازہ ہو کہ وہ ملتان سے کراچی جانے کے لئے جس ٹرین میں سوار ہوئے ہیں اس کا رخ راول پنڈی کی طرف ہے۔ منزل پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ڈرائیور پسنجر ٹرین کو صحیح سمت میں لے کر جائے وگرنہ فاصلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(فیض)

Exit mobile version