ویسے تو لندن برطانوی دارالحکومت ہے لیکن یہ شہر پاکستانی سیاست کا دوسرا بڑا مرکز بھی ہے۔ محمد علی جناح سے نواز شریف تک یہاں درجنوں پاکستانی سیاستدان مقیم رہے۔ کچھ نے جلا وطنی کی زندگی گزاری، کچھ نے تعلیم حاصل کی،کچھ نے اپنے قیام کے دوران سیاسی گٹھ جوڑ کیا،کچھ نے اپنی اولادوں اور فیملی کو یہاں آباد کیا اور جائیدادیں خرید کر اسے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا لیا۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان سے لندن آنے والے سیاستدانوں، حکمرانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسروں کی بہت پذیرائی اور آؤ بھگت کی جاتی تھی۔ مگر جب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات ابتر اور بد سے بدترین ہونا شروع ہوئے ہیں تب سے اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وطن عزیز کو اس نہج تک پہنچانے اور عوام کو مہنگائی اور سنگین مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار یہ سب ارباب اختیار ہی ہیں۔ سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کے بہت سے دانشور، سیاسی تجزیہ نگار اور صحافی بھی لندن ا ٓکر تارکین وطن کی معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی دانشور جو برٹش پاکستانیوں کی دوہری شہریت کو دوہری ولدیت قرار دیتے ہیں وہ بھی یہاں آ کر تارکین وطن کو ملک کا اصل سفیر اور قوم کا سرمایہ کہتے ہوئے بالکل نہیں ہچکچاتے اور اس کھلے تضاد پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ پاکستان سے برطانیہ آنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت وطن عزیز کے عوام کے مسائل اور مشکلات کی نشاندہی تو ضرور کرتی ہے لیکن ان مصیبتوں سے نجات کا کوئی قابل عمل حل نہیں بتاتی۔ کوئی کرپشن کو پاکستان کے مسائل کی جڑ قرار دیتا ہے جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے تو کوئی جاگیرداروں کو وطن عزیز میں جمہوریت کے راستے کی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ کوئی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو ملک کی پسماندگی کا سبب قرار دیتا ہے تو کوئی مذہبی انتہا پسندی کو وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے منافی گردانتا ہے یعنی
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحاؤں میں
(قتیل شفائی)
گزشتہ دنوں پاکستان سے ایک ایسے ہی دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار لندن آئے۔ ان کے اعزاز میں ایک عشائیے میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حاضرین کی معلومات میں اضافہ کیا کہ ”پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کے اصل ذمہ دار عوام خود ہیں۔ نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، جرنیلوں یا مذہبی رہنماؤں سے زیادہ قصور وار عوام ہے جو خود فراڈ، ملاوٹ، منافقت، دھوکے بازی، جگاڑ اور بددیانتی کے ذریعے مال بنانے کے خبط میں مبتلا ہو چکے ہیں، اب تو پاکستان میں دیانتدار صرف وہی رہ گیا ہے جسے کسی قسم کی کرپشن کا موقع ہی میسر نہیں آیا۔ وگرنہ ہمارے ملک میں عدالتوں کے محرر سے لے کر درباروں اور درگاہوں کے متولیوں اور وزارت حج کے اہلکاروں تک سب کرپٹ ہو چکے ہیں۔نیچے سے اوپر تک ہر کوئی زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی بیماری کا شکار ہے اور اپنے ذرا سے فائدے کے لیے ملک و قوم کے بڑے سے بڑے مفاد کو بھی قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔سادگی کا درس دینے والے خود پرتعیش زندگی گزارنے کے خواہشمند رہتے ہیں بلکہ آسائشوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ جو قوم صفائی کو نصف ایمان قرار دیتی ہے وہاں آلائشوں اور غلاظتوں نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ غیرت اور ناموس کے محافظ ہونے کے دعویدار بے غیرتی اور بے حیائی کے جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ پاکستان اب ایک جنگل بن چکا ہے جہاں کوئی بھی طاقتور اور خونخوار درندہ کسی بھی کمزور اور بے بس کو چیر پھاڑ کر اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود رو جنگل پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ مجبور اور بے بس عوام نے ذلت اور نا انصافی کو اپنا مقدر سمجھ کر اس سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور کسی ایسے نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں جس کے پاس جادو کی چھڑی ہو اور وہ ا ٓکر اس جادوئی چھڑی کی مدد سے ایک ہی اشارے میں سب کچھ بدل کر رکھ دے۔ یعنی عوام خود کو بدلنے کے لیے بالکل تیار نہیں لیکن چاہتے ہیں کہ کوئی آ کر ان کے حالات کو دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل کر دے۔ تبدیلی کے لیے سب سے پہلے عوام کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، اپنا احتساب کرنا ہوگا، عوام کی اکثریت جو خود کو مظلوم سمجھتی ہے دراصل وہ بھی ظالم اور ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے کے جرم میں برابر کی شریک ہے“۔
پاکستان سے لندن آنے والے دانشوروں کی اکثریت اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر کے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنی تجزیہ نگاری سے متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سمجھدار پاکستانی تارکین وطن اب پاکستان کے سیاسی حالات اور نام نہاد جمہوری تبدیلیوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ نہ تو وہ پاکستان کے حالات کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی وہ وطن عزیز میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جن حالیہ انتخابات کے بارے میں پاکستانی میڈیا مسلسل واویلا کر رہا ہے اس کی بساط برطانوی اخبارات نے ایک جملہ لکھ کر لپیٹ دی تھی اور وہ جملہ تھا ”ملٹری کنٹرولڈ الیکشن ان پاکستان“۔پاکستانی صحافت کا حال بھی پاکستانی سیاست سے مختلف نہیں ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے خاتمے سے پاکستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کرپشن کا خاتمہ کرنے کا اختیار اور وسائل جن مقتدر لوگوں کے پاس ہیں وہ خود کرپٹ ہیں بلکہ کرپشن کو فروغ دینے کے نئے نئے طریقوں کے بانی ہیں۔ ان سے کرپشن کے خاتمے کی توقع کرنا خود کو فریب دینے اور خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔ ہم جتنی جلدی اس فریب اور خوش فہمی سے نجات پا لیں گے اتنا ہی ہمارے حق میں اچھا ہوگا اور ہم زمینی حقائق کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ میں پہلے بھی اس حقیقت کی نشاندہی کر چکا ہوں کہ دنیا کے صرف انہی معاشروں اور ملکوں نے پسماندگی سے نجات حاصل کر کے خوشحالی کی منزل کا حصول ممکن بنایا جنہوں نے اپنی قوم میں خواندگی کی شرح کو سو فیصد کرنے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ سوفیصد خواندگی کا مطلب پورے ملک میں یکساں اور معیاری پرائمری اور سیکنڈری تعلیم (اور تربیت) ہے۔ جب تک پاکستان کے ہر بچے کو ایک جیسی معیاری تعلیم و تربیت میسر نہیں آئے گی تب تک ہمارے ملک میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر پسماندہ ممالک خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ویسے بھی دو کروڑ سے زیادہ بچے پرائمری سکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں اور لاکھوں بچے ایسے ہیں جو صرف مدرسوں کی تعلیم تک محدود ہیں۔ ان کے علاوہ جو بچے سکولوں میں جاتے ہیں ان کا اپنا اپنا الگ نصاب ہے۔ کہیں پرائمری تعلیم کا میڈیم اردو اور کہیں انگریزی ہے۔بہت سے سرکاری سکولوں میں بچے شدید گرمی کے موسم میں درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں بچوں کو بورڈنگ ہاؤس اور جدید تعلیم کی ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے معاملے میں بھی ہم پاکستانی دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ہر پاکستانی بچے کے لیے یکساں اور معیاری پرائمری تعلیم و تربیت اس لیے بھی انتہائی ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ جب تک ہم پنیری لگا کر اس کی نگہداشت نہیں کریں گے تب تک ہم گھنے اورسایہ دار پیڑوں کی نعمت سے محروم رہیں گے۔بدقسمتی سے آج تک یعنی پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک ہمارے کسی حکمران نے ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے بچوں کی بنیادی پرائمری تعلیم و تربیت کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ارباب اختیار کس قدر دور اندیش، مخلص اور سیاسی بصیرت رکھنے والے ہیں۔ جو بھی آیا اس نے قرضے لینے، موٹر ویز بنانے، لنگر خانے کھولنے، بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر کمیشن وصول کرنے، اختیارات کے ناجائز استعمال، اپنے سیاسی مخالفین کو مقدمات میں پھنسانے اور اقربا پروری کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ کروڑوں بچے جو کسی بھی قسم کی تعلیم و تربیت اور ہنر سیکھنے سے محروم رہیں گے وہ بڑے ہو کر ملک میں جہالت، بے روزگاری اور جرائم میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے ارباب اختیار کو اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے جاہل قوم کی ہی ضرورت ہے۔ اسی لیے اس نے معیاری تعلیم و تربیت کی سہولت کو صرف ایک خاص طبقے تک محدود کر رکھا ہے اور پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی وسائل پر قیام پاکستان سے اب تک اسی طبقے کا تسلط قائم ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک اپنے تمام تر مسائل اور خرابیوں کے باوجود سیاسی اور اقتصادی استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ ان ملکوں نے حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات متعین کر رکھی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان دن بہ دن بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے اور ہماری کرنسی خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ڈی ویلیو ہو چکی ہے جب کہ ملک کے اصل حکمرانوں نے اپنا سر ریت میں دے رکھا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں آنے والا وقت کئی طرح کے خطرات، اندیشوں اور تشویشناک امکانات کا پیش خیمہ ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں۔ ویسے بھی باقی ماندہ ملک حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مزید غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب وہ بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔
حکمران ہوش کے ناخن لیں
پرانی پوسٹ