Tarjuman-e-Mashriq

انگریزی شاعری کے موضوعات

کیاشاعری اور خاص طور پر اردو شاعری کا کسی اور زبان میں ترجمہ ممکن ہے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ جی ممکن ہے لیکن اگر سوال کیا جائے کہ کیا اردو غزل کے اشعار کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے تو جواب ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہو گا کہ شعر کی اصل روح اور شاعرانہ تخیل کا ابلاغ نہیں ہو سکے گا۔ غزل اردوشاعری کی ایک ایسی صنف ہے جو اپنے اندر تشبیہات و استعارات، معنی آفرینی اور تخیلاتی تخلیق کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ غزل کے موضوعات روایتی طور پر بہت محدود تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس صنف نے دنیا بھر کے مسائل، انسانی کیفیتوں اور تخیلات کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ اردو غزل کے اشعارمیں بے شمار موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ غزل کو ہم اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر کہہ سکتے ہیں۔ غزل کے موضوعات کے تنوع کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ انگریز شاعروں یا انگریزی میں کی جانے والی شاعری کے موضوعات اور مضامین میں انتی وسعت کیوں نہیں ہے۔ دراصل شاعری کا خمیر مسائل، مشکلات، دکھ درد، محرومی، حسرت، عشق و محبت، احتجاج، ناکامی، ناآسودگی اور فراق وغیرہ سے اُٹھتا ہے۔ انگریزوں کے معاشرے میں چونکہ مسائل و معاملات کی نوعیت مشرقی ممالک اور خاص طور پر برصغیر کے ملکوں سے مختلف ہے اس لئے انگلش شاعروں کے خیالات، موضوعات اور ترجیحات بھی یکسر الگ ہیں۔ روایتی اردو غزل محبوب کے لب و رخسار، میخانہ و پیمانہ، شیخ اور واعظ، فنا و بقا، شمع وپروانہ اور ہجر و وصال جیسے معاملات کے گرد گھومتی رہی ہے اور اردو نظم میں بھی ان سے ملتے جلتے موضوعات کو ترجیح دی گئی۔ گزرنے والی ایک صدی کے دوران انگریزی کے نامور شاعروں ٹی ایس ایلیٹ، سلویا پلاتھ، ٹیڈ ہوز، فلپ لارکن، ایزرا پاؤنڈ، رابرٹ فراسٹ، دی ایچ لارنس، جان کیٹس، ولیم ورڈزورتھ آسکر وائلڈ، ولیم بلیک، پی بی شیلے، رابرٹ برنز وغیرہ کی شاعری کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اِن شعرا کا تخلیقی کینوس بہت محدو ہے۔ انگریزی شاعری میں فطرت، بچپن، خوشی، دوستی، خوف، یادگار لمحات، امید اور انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان موضوعات پر بھی اظہار کی وہ شدت نہیں ہے جو ہمارے اردو کے شاعروں کے ہاں نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کے شاعر جب مبالغہ آرائی کرتے ہیں تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، محبوب کی تعریف و توصیف کرنے لگتے ہیں تشبیہات و استعارا ت کی انتہا کر دیتے ہیں۔ لندن میں پوئٹری کیفے کے نام سے ایک ادبی بیٹھک (سنٹر) قائم ہے جہاں انگریزی زبان کے شاعر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس سنٹر میں سال بھر پوئٹری ریڈنگ (مشاعرے) کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ میں بھی پوئٹری کیفے کی ان محفلوں میں کبھی کبھار شریک ہوتا ہوں اور نوجوان انگریز شاعروں کی شاعری سن کر حیران ہوتا ہوں۔ یہ نثری شاعری عام طور پر کسی قسم کی نغمگی، بحر اور روانی سے آزاد ہوتی ہے۔ اس شاعری میں انسانی احساسات کی بجائے لکھنے والے کے ذاتی تاثرات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ میں ذاتی طور پر اردو غزل کا عاشق اور علمبردار ہوں اس لئے مجھے انگریزوں کی یہ بے تاثیر نثری شاعری کبھی متاثر نہیں کرتی۔ ہمارے بہت سے اردو شاعروں کا خیال ہے کہ اگر اُن کی غزلوں یا نظموں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو جائے تو انگریزون پر اُن کے شاعرانہ کمال کی دھاک بیٹھ سکتی ہے یا انگریزی میں ترجمہ ہونے کے باعث اُن کا کلام ادب کے نوبل پرائز کے لئے زیر غور آ سکتا ہے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ادب کے نوبل پرائز کے لئے نامزدگی کا معیار اور طریقہ کار کیا ہے لیکن مجھے اتنا علم ضرور ہے کہ ہماری اردو شاعری کے بیشتر موضوعات اور استعارات انگریزوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ جو انگریز نو عمری سے ہی اپنی محبوبہ یا گرل فرینڈ کا ہاتھ تھام کر ہر جگہ آزادی سے گھومتے پھرتے اور موج مستی کرتے ہیں اُنہیں کیسے اردو غزل کے اس شعر کا مطلب بتایا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔
؎ دیکھ لیتے ہیں تپش دِل کی بجھا لیتے ہیں
زیرِ دیوار کھڑے ہیں ترا کیا لیتے ہیں
یا پھر اس شعر کا ترجمہ و تشریح انگریزی میں کیسے ہو گی
؎ رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
اسی تسلسل میں یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے
؎ تمہیں تو مجھ سے پہلے بزم میں موجود ہونا تھا
یہ دنیا کیا کہے گی شمع پر وانے کے بعد آئی
غزل کے اشعار کی منفرد خوبی یہ ہوتی ہے کہ دو مصرعوں میں ایسے مضامین اور خیالات کو قلم بند کر دیا جاتا ہے جس کو نثر میں تحریر کرنے کے لئے کئی پیراگراف کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی غزل کا شعر کوزے میں بند دریا کی مانند ہوتا ہے۔ غزل کے بہت سے اشعار اس قدر پر تاثیر ہوتے ہیں کہ اُن کو پڑھنے اور سننے والے پر دیر تک اثر قائم رہتا ہے اور سخن فہم لوگوں کے حافظے میں ایسے اشعار محفوظ ہو جاتے ہیں جبکہ انگریزی شاعری کو سُن کر نہ تو اردو شاعری جیسا لطف آتا ہے اور نہ ہی انگریزی شاعری حافظے کا حصہ بنتی ہے۔ برطانیہ میں انگریزی شاعری کو اس قدر شوق و ذوق سے نہیں پڑھا جاتا جتنا کہ پاکستان یا انڈیا میں اردو شاعری کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ خوشحال معاشروں اور انصاف پسند ملکوں میں عام لوگ شاعری تخلیق کرنے کی طرف راغب نہیں ہوتے اور نہ ہی عوام الناس کو شاعرانہ خیالات کو پڑھنے یا سننے میں کوئی خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ اردو کے بہت سے کلاسیکی شاعروں کے علاوہ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ کے بہت سے کلام کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود اِن شعراء کی تخلیقی عظمت کو کبھی ادب کے نوبل پرائز کے لئے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اردو شاعری کا ترجمہ بہت مشکل کام ہے اور دوسرا ہمارے عظیم شاعروں نے جن موضوعات کا احاطہ کیا ہے یا جن معاملات پر خامہ فرسائی کی ہے وہ مغربی معاشروں کے لئے بہت غیر دلچسپ اور نامانوس ہیں۔ انگریزی شاعری کو پڑھ کر ہمارے اردو شاعر جس قدر حیران ہوتے ہیں اس سے زیادہ حیرانی اُن انگریز سخن فہموں کو ہوتی ہے جو اردو شاعری کے انگریزی ترجمے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں نشاندہی کی ہے کہ جن ملکوں میں معاشرتی ناہمواری، ناانصافی، محرومی، بدامنی، حق تلفی اور اقتصادی مسائل جس قدر زیادہ گھمبیر ہوں گے وہاں شاعری کے لئے حالات اتنے ہی زیادہ سازگار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شاعروں کی تعداد میں مسلسل اور بے دریغ اضافہ ہو رہا ہے اور اردو غزل میں حالاتِ حاضرہ کی مشکلات اور مسائل کا برملا اظہار پڑھنے کو ملتا ہے۔
؎ دکھاوے کے لئے خوشحالیاں لکھتے ہیں کاغذ پر
وگرنہ رات دِن ہم رزق کے چکر میں رہتے ہیں
(اقبال ساجد)
……
؎ دس کتابوں کا میں مصنف ہوں
آپ کے پاس ایک سگریٹ ہے؟
……
؎ غریبِ شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
(عارف شفیق)
……
؎ بھاگتے کُتے نے اپنے ساتھی کُتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
(نامعلوم)
……
؎ لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے
ایک ٹوٹی سائیکل خالی ٹفن
(اسلم کولسری)
……
؎ آج بھی اس کو آ کر سپرا مِل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
……
؎ اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دِن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے
(تنویر سپرا)
٭٭٭
Exit mobile version