میں اُن دِنوں میٹرک کا طالب علم تھا یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی۔ سینما میں فلم دیکھنا ایک طرح کی بہت بڑی تفریح بلکہ ”عیاشی“ ہوا کرتی تھی۔ فلم ”راستے کا پتھر“ کی رینبو سینما بہاول پور میں نمائش جاری تھی۔ یہ وہ پہلی اردو فلم تھی جو میں نے اپنے ایک دوست کے ہمراہ سینما میں جا کر دیکھی۔ اس فلم کے ہیرو وحید مراد اور ہیروئن اداکارہ نشو تھیں۔ وحید مراد کو اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری کا چاکلیٹی ہیرو کہا جاتا تھا۔ چاکلیٹی ہیرو کا لفظ اپنے معنی اور تاثرات کے اعتبار سے میرے لئے ناقابل فہم سا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اس وقت تک کبھی چاکلیٹ بھی نہیں کھائی تھی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ چاکلیٹ کے براؤن رنگ اور وحید مراد کی سانولی سی رنگت کے باعث انہیں چاکلیٹ ہیرو کہا جاتا ہے یا پھر چاکلیٹ کی مٹھاس کی وجہ سے انہیں یہ نام دیا گیا ہے کیونکہ وحید مراد فلم میں ہیروئن سے محبت بھری میٹھی میٹھی باتیں کر کے اُسے اپنی طرف مائل کرتے ہیں لیکن جب میں 1993ء میں بہاول پور سے لندن آیا تو معلوم ہوا کہ چاکلیٹ تو برطانیہ اور یورپ کے ٹھنڈے ملکوں کی سوغات ہے۔ یہاں کوئی تہوار اور تقریب چاکلیٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ چھوٹی سی کارنر شاپ سے لے کر سپر سٹورز میں درجنوں اقسام کی چاکلیٹ دستیاب ہوتی ہے۔ کرسمس ہو یا ایسٹر، ویلنٹائن ڈے ہو یا مدرز اور فادرز ڈے، سالگرہ ہو یا اینی ورسری، کسی کی شادی ہو یا امتحان میں کامیابی ہر موقع پر چاکلیٹ کے گفٹ پیک یا چاکلیٹ کیک تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ہر سال پوری دنیا میں 7.5ملین ٹن یعنی 6ارب 80کروڑ 38لاکھ 85ہزار 5سو پچاس کلو چاکلیٹ کھائی جاتی ہے اور ہر برس 128بلین ڈالرز کا کاروبار چاکلیٹ انڈسٹری میں ہوتا ہے جس میں 45بلین ڈالرز صرف یورپ کی چاکلیٹ انڈسٹری سے کمائے جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ چاکلیٹ سوئٹزرلینڈ کے لوگ کھاتے ہیں۔ یعنی ہر سوئس باشندہ سالانہ ساڑھے پچیس پاؤنڈ چاکلیٹ کھاتا ہے۔ گرم ملکوں میں چاکلیٹ کھانے کا رواج اس لئے بھی کم ہے کہ 30ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر چاکلیٹ پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ چاکلیٹ کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ تقریباً 5ہزار سال پرانے تذکروں میں چاکلیٹ کا حوالہ ملتا ہے۔ چاکلیٹ دراصل CACAOنام کے درخت کے بیج ہوتے ہیں جنہیں COCOAکہا جاتا ہے اور یہ ناشپاتی کی شکل کے پھلوں کے اندر محفوظ ہوتے ہیں۔ اِن بیجوں کو بھون کر یا اُن کا پاؤڈر بنا کر استعمال میں لایا جاتا ہے جسے چاکلیٹ کہتے ہیں۔ یہ بیج اور اُن کا پاؤڈر ذائقے میں بہت کڑوے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں اِ ن کو دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس وقت دنیا میں CACAOکے سب سے زیادہ درخت اور باغات (فارمز) گھانا اور COTE,D IVOIREمیں ہیں جہاں سے دنیا کی 60فیصد چاکلیٹ حاصل کی جاتی ہے۔ ویسے تو CACAOکے درخت 25سے 50برس تک پھل پیدا کرتے ہیں لیکن ویسٹ افریقہ کے کئی ملکوں میں CACAOکے بعض درخت 2سو سال قدیم ہیں اور اب تک سرسبز ہیں۔ COCOAکے چار سو بیجوں سے ایک پاؤنڈ چاکلیٹ بنتی ہے اور ایک درخت میں سالانہ 2500بیج پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ چاکلیٹ انڈسٹری کے بڑے سرمایہ دار اس درخت کے پھل سے جو منافع کماتے ہیں اس کا صرف 6فیصد حصہ درخت لگانے والوں یا فارمرز کو ملتا ہے۔ موجودہ دور میں چاکلیٹ انڈسٹری دنیا کی چند ایک بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے جس سے مختلف ممالک میں 50ملین لوگ وابستہ ہیں۔ یورپ میں چاکلیٹ کو متعارف کرانے کا سہرا سپین کے سر ہے۔ 1850ء سے پہلے تک چاکلیٹ کو کسی ملاوٹ کے بغیر استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے کڑوے ذائقے کو صحت کے لئے بہت مفید سمجھا جاتا تھا لیکن بعد ازاں چاکلیٹ پاؤڈر میں مٹھاس اور ملک پاؤڈر کو شامل کر کے اسے خوش ذائقہ بنایا گیا تو اس کی فروخت اور مقبولیت میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہو گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر چین میں چاکلیٹ پراڈکٹس کی فروخت غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ برس چین میں چاکلیٹ انڈسٹری کا سالانہ تخمینہ 4بلین ڈالرز لگایا گیا۔ برطانیہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں بنائے جانے والے کیک، پڈنگز، براؤنیز اور ککیز میں چاکلیٹ کو ایک لازمی جزو کی حیثیت حاصل ہے۔ چاکلیٹ بارز(ملک چاکلیٹ) اور چاکلیٹ ایگز (EASTER EGGS) وغیرہ بچوں اور بڑوں میں بہت مقبول ہیں۔ بنیادی طور پر چاکلیٹ کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم ڈارک چاکلیٹ کہلاتی ہے جس میں ملک پاؤڈر اور چینی کی ملاوٹ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ ذائقے میں نسبتاً کڑوی ہوتی ہے۔ ایسی چاکلیٹ کے بارے میں میڈیکل سائنس کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اس کی مناسب مقدار کے استعمال سے دِل کے امراض، بلڈ پریشر، ڈپریشن، ذیابیطس اور کولیسٹرول میں اضافے سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈارک چاکلیٹ حاملہ عورتوں کے لئے مفید بتائی جاتی ہے جبکہ جسمانی کارکردگی کو بہتر بنانے، دماغ کو متحرک رکھنے کے لئے بھی ڈارک چاکلیٹ کا کھانا فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ملک چاکلیٹ جو کہ مٹھاس اور روغن کا مرکب ہوتی ہے انسانی صحت کے لئے بہت مُضر ہے۔ اس کے زیادہ استعمال سے موٹاپے اور شوگر کا مرض لاحق ہو سکتا ہے جبکہ انسانی جلد پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔چاکلیٹ انڈسٹری سے چونکہ 128بلین ڈالرز سالانہ کا کاروبار وابستہ ہے۔ اس لئے ہر سال چاکلیٹ پراڈکٹس کی پروموشن اور تشہیر پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے خاص طور پر برطانیہ میں چاکلیٹ بنانے والی سب سے بڑی کمپنی مارز (MARS) اس معاملے میں پیش پیش رہتی ہے۔ یہ کمپنی چاکلیٹ والا دودھ اور چاکلیٹ آئس کریم بھی بناتی ہے۔ اس کے بعد کیڈبری(CADBURY)اور نیسلے کا نمبر آتا ہے۔ کیڈبری برطانیہ کی سب سے قدیم چاکلیٹ کمپنی ہے جو 1905ء سے یونائیٹڈ کنگڈم میں چاکلیٹ کا کاروبار کر رہی ہے۔ چاکلیٹ کھانے کے شوقین لوگوں کی دلچسپی کے لئے دنیا بھر میں درجنوں چاکلیٹ میوزیم قائم ہیں۔ لندن کے علاقے برکسٹن میں دی چاکلیٹ میوزیم برطانیہ آنے والے سیاحوں کے لئے ایک پرکشش جگہ ہے۔ اسی طرح برمنگھم میں کیڈبری ورلڈ چاکلیٹ میوزیم، ڈیون کا واکرز چاکلیٹ امپوریم میوزیم اور یارک کا چاکلیٹ سٹوری میوزیم بھی دلچسپ اور معلوماتی عجائب گھر ہیں۔ برطانیہ میں سوئس چاکلیٹ اور بیلجیئن چاکلیٹ بھی اپنی کوالٹی، بناوٹ اور پیکنگ کی وجہ سے بہت پسند کی جاتی اور تحفے کے طور پر دی جاتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں 6چاکلیٹ میوزیم قائم ہیں جبکہ بیلجئیم میں 5چاکلیٹ میوزیم بنائے گئے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ چاکلیٹ میوزیم فرانس میں ہیں جن کی تعداد 8ہے۔ اسی طرح امریکہ، کینیڈا، جرمنی، سپین، ایسٹونیا، کیوبا، برازیل، آسٹریا، اٹلی، جاپان، ہالینڈ، روس، تائیوان، نیوزی لینڈ، لیٹویا، میکسیکو، کوریا اور ہنگری میں بھی شاندار چاکلیٹ میوزیم موجود ہیں جہاں ہر سال لاکھوں سیاح جاتے اور چاکلیٹ کے ذائقوں کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ چاکلیٹ کے ذکر پر مجھے اس برطانوی نیوز رپورٹر کی وہ حیرانی یاد آتی ہے جو چند برس پہلے افغانستان گیا اور ایک جنگ زدہ پسماندہ علاقے میں ایک معصوم بچے کو چاکلیٹ دے کر اس سے پوچھا کہ کیا تم نے پہلے کبھی چاکلیٹ کھائی ہے؟ تو وہ بچہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ چاکلیٹ کیا ہوتی ہے؟ جب اس رپورٹر کے ترجمان نے بتایا کہ اس بچے نے پہلے کبھی نہ چاکلیٹ کھائی ہے اور نہ ہی اسے معلوم ہے کہ چاکلیٹ کیا ہوتی ہے؟ یہ بات سُن کر برطانوی رپورٹر حیران رہ گیا کہ آج کی دنیا میں ایسے بچے بھی موجود ہیں جنہوں نے کبھی چاکلیٹ کا ذائقہ نہیں چکھا اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ چاکلیٹ کیا ہوتی ہے؟ اب اس رپورٹر کو کون بتائے کہ غریب ملکوں کے وہ معصوم بچے جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں انہیں کیا معلوم کہ چاکلیٹ کس سوغات کا نام ہے اور اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟