یہ میرے لڑکپن کے دِنوں کی بات ہے جب ہم سب بھائی اپنے تین منزلہ گھر کی چھت پر سویا کرتے تھے۔ اُن دِنوں موسمِ گرما میں بھی بہاول پور کی راتیں نسبتاً ٹھنڈی ہوا کرتی تھیں۔ بستر پر لیٹے رات گئے ستاروں بھرے آسمان کا نظارہ آج بھی میری خوشگوار یادوں کا حصہ ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ جب نیند غالب آنے لگتی توآسمان پر ستارے ٹوٹتے ہوئے دکھائی دیتے جو ایک روشن لکیر چھوڑتے ہوئے فضا کی وسعتوں میں گم ہو جاتے۔ میں نے ایک دِن ٹوٹنے والے اِن ستاروں کے بارے میں اپنے ایک بزرگ سے پوچھا تو وہ بتانے لگے کہ جب کوئی قابل انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو آسمان پر ایک ستارہ ٹوٹتا ہے اور وہ قابل انسان اس ستارے کی جگہ روشن ہو کر آسمان پر نمودار ہو جاتا ہے۔ اُن کی یہ تاویل سُن کر میں بہت حیران اور متاثر ہوا۔ معلوم نہیں سائنسی اعتبار سے یہ بات حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں لیکن جب بھی کوئی قابل اور شاندار انسان اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو مجھے ایسا ہی لگتا ہے کہ آسمان کی وسعتوں میں ایک نئے ستارے کا اضافہ ہو گیا ہے جو ہماری یادوں کی تاریک راتوں میں جگمگا کر ہمیں اپنی موجودگی کا ہمیشہ احساس دلاتا رہے گا۔
لندن سے ساقی فاروقی کے بعد راشد اشرف اور اب آصف جیلانی کے راہئی ملک عدم ہونے پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمان نے اِن شاندار اور بے مثال ہستیوں کو ہم سے جدا کر کے اپنی وسعتوں میں نئے ستاروں کا اضافہ کر لیا ہے۔ آصف جیلانی میرے اُن بزرگ دوستوں میں سے تھے جن کی صحافتی قابلیت کا میں ہمیشہ مداح رہا۔ اُن سے میری درجنوں تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ اُن کے ساتھ ٹی وی پروگرامز کئے اور ایک طویل انٹرویو بھی کیا جو میری کتاب ”کامیاب لوگ“ میں شامل ہے۔ 1934ء میں علی گڑھ میں پیدا ہونے والے آصف جیلانی کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی۔ 1948ء میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آئے اور سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ لیا جس کے بعد وہ مسلم کالج اور کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد وہ روزنامہ امروز سے وابستہ ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو اخبارات معیاری صحافت کے عملبردار تھے اور رپورٹر کی تنخواہ سب ایڈیٹر سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ چراغ حسن حسرت جیسے پڑھے لکھے، وضع دار دانشور اور نفیس صحافی امروز کے ایڈیٹر تھے جو اخبار کے لے آؤٹ اور اس میں شائع ہونے والی زبان کی صحت پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔
روزنامہ امروز کو چھوڑ کر آصف جیلانی روزنامہ جنگ کراچی میں آئے تو انہیں 1959ء میں دہلی بھیج دیا گیا جہاں وہ کسی بھی اردو اخبار کے پہلے غیر ملکی نمائندے/نامہ نگار مقرر ہوئے۔ روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کی بنیاد آصف جیلانی کی ایک ایسی خبر تھی جو 1953ء میں روزنامہ امروز میں بائی لائن شائع ہوئی اور شاید یہ کسی اردو اخبار میں شائع ہونے والی پہلی بائی لائن خبر بھی تھی۔ خبر یہ تھی کہ ایک امریکی سفار تکار نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ایک ملازم کو اپنی کار سے کچل کر ہلاک کر دیا تھا لیکن اس واقعے کو دبا دیا گیا اور کسی تھانے میں اس کی رپورٹ بھی درج نہ ہونے دی گئی۔ آصف جیلانی نے تحقیق کر کے اس حادثے کی مفصل خبر بنائی جو امروز میں بہت نمایاں طور پر شائع ہوئی جس کے بعد اس مسئلے کو اسمبلی میں اُٹھایا گیا۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد انعام عزیز نے آصف جیلانی سے رابطہ کر کے کہا کہ میر خلیل الرحمن آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملاقات ہوئی تو میر صاحب نے انہیں دہلی میں نامہ نگار کے طور پر بھیجنے کی پیشکش کی۔
آصف جیلانی نے جب اس پیشکش کے بارے میں امروز کے مالک میاں افتخار الدین کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ اس آفر کو فوراً قبول کر لو کیونکہ دہلی ایشیا کا کراس روڈ ہے۔ تمہیں اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہو گا۔ چنانچہ جب آصف جیلانی دہلی پہنچے تو انہیں انڈین حکام کو یہ باور کرانے میں ایک عرصہ لگا کہ وہ واقعی ایک اردو اخبار کے نامہ نگار اور رپورٹر کے طور پر متعین ہو کر بھارتی دارالحکومت میں آئے ہیں کیونکہ اس سے پہلے کسی اردو اخبار کی طرف سے ملک سے باہر رپورٹر کی پوسٹنگ کا کوئی رواج نہیں تھا۔ آصف جیلانی 1958ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے لئے رپورٹنگ کرتے رہے۔ یہ بہت ہنگامہ خیز دور تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے بڑے واقعات کی بہت عمدہ رپورٹنگ کی۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو بھارتی حکومت کے کارندوں نے انہیں گرفتار کر کے تہاڑ جیل میں بند کر دیا جہاں انہیں قصوری چکی والے سیل میں رکھا گیا۔ یہ سیل پیشہ ور قاتلوں کے لئے مختص تھا۔ اس جنگ کے اختتام تک بھارت یہ پراپیگنڈا کرتا رہا کہ لاہور پر بھارتی فوج کا قبضہ ہو چکا ہے اور بھارتی کمانڈوز کراچی سے صرف 25میل کے فاصلے پر ہیں۔ جنگ بندی کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو آصف جیلانی کو تقریباً 2ماہ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہائی ملی۔ واپس کراچی پہنچنے پر اُن کا پرتپاک استقبال ہوا اور پھر یکم دسمبر 1965ء کو میر خلیل الرحمن نے انہیں لندن بھیج دیا جہاں سے روزنامہ جنگ کا انٹرنیشنل ایڈیشن شائع کئے جانے کا اہتمام ہو رہا تھا۔ 1973ء میں وہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور پھر 1983ء تک اس ادارے میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ بعد ازاں وہ بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس سے وابستہ ہوئے اور ایک طویل مدت تک اس ادارے کے لئے کام کرنے کے بعد چند برس پہلے سینئر پروڈیوسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ بی بی سی سننے والے ہزاروں لوگ آج بھی ان کی آواز اور پروگرام کے مداح ہیں۔ اس دوران ان کی 3کتابیں ”وسط ایشیا، نئی آزادی نئے چیلنج اور گاؤں گاؤں بدلتی دنیا“ کے علاؤہ اُن کے کالمز کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔ وہ اخبارِ جہاں کے علاؤہ پاکستان کے دیگر اخبارات میں بھی کالمز اور خصوصی مضامین لکھتے رہے اور اُن کی اہلیہ محسنہ جیلانی بھی برطانیہ کی ممتاز افسانہ نگار رہیں جن کے کئی افسانوی مجموعے اور ایک ناولٹ شائع ہو چکا ہے۔
آصف جیلانی صحافت میں مفاد پرستی کے سخت مخالف تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ جب پاکستان میں پہلی بار مارشل لاء لگا تو اُس وقت صحافیوں کی مختلف سیاستدانوں کے ساتھ وابستگیاں اور لابی بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور بھٹو دور میں یہ معاملہ عروج پر پہنچ گیا۔ صحافیوں کو مفاد پرستی کی طرف مائل دیکھ کر مختلف ایجنسیوں نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور پھر یہ رجحان تیزی سے صحافتی اقدار میں سرایت کر گیا جس کے بعد صحافی اپنے ضمیر کی بجائے اپنی لابی کے لئے آواز بلند کرنے لگے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پہلے جو صحافی اس لگن سے کام کرتے تھے کہ وہ رائے عامہ کو بنانے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں رفتہ رفتہ وہ پس منظر میں چلے گئے۔ بدقسمتی سے صحافت میں مقصدیت کا پہلو نظر انداز ہوتا چلا گیا اور مالی مفادات صحافیوں کی پہلی ترجیح بن گئے۔ آزادی صحافت کے بارے میں آصف جیلانی کا موقف بہت واضح تھا۔ وہ کہتے تھے کہ سرکاری اشتہارات کی وجہ سے ہمارے ملک کی صحافت کبھی آزاد نہیں رہی۔
1954ء میں جب غلام محمد نے پہلی بار دستور ساز اسمبلی کو توڑا تو اس وقت اخبارات نے وہ شور برپا نہیں کیا جس کی اُن سے توقع کی جا رہی تھی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ امروز اور پاکستان ٹائمز میں جب آزاد خارجہ پالیسی کے حق میں اداریے لکھے جاتے تو اس پر یہ کہا جاتا تھا کہ یہ اخبارات ملک دشمن اور بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ 1958ء میں جب مارشل لاء لگا تو اخبارات میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی۔ کسی اخبار نے جمہوریت کی بساط لپٹنے پر احتجاج نہیں کیا۔ اسی طرح جب 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو اخبارات نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اس سانحے کے حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے گریز کیا گیا۔ آصف جیلانی نے ایک بار مجھے بتایا کہ 1969ء میں منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیئرمین ایم ایم احمد برطانیہ آئے تو انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مشرقی پاکستان اب مغربی پاکستان کے لئے ایک بوجھ اور LIABILITYبن گیا ہے۔ اگر ہمیں اس بوجھ سے نجات مل جائے تو مغربی پاکستان پانچ سال کے اندر اندر ترقی کر کے سکینڈے نیوئن ممالک کے برابر آ سکتا ہے۔ آصف جیلانی صاحب آپ ایک شاندار صحافی اور ایک نفیس انسان تھے۔ برطانیہ میں اردو صحافت ہمیشہ آپ کی کمی کو محسوس کرتی رہے گی۔ ہمیں جب جب آپ کی یاد آئے گی ہم تاریک راتوں میں آسمان کی وسعتوں میں جگمگاتے ستاروں کو دیکھیں گے جن میں آپ کے نام کا ایک ستارہ بھی کہیں ضرور جگمگا رہا ہو گا۔