تحریر:جسٹس (ر) سیدمنظور حسین گیلانی
اس کالم کا عنوان میں نے نیلم وادی سے تعلق رکھنے والے معلم و محقق خواجہ عبد الغنی کی کتاب “ پاروتی گنگا سے نیلم تک “ سے اخذ کیا ہے –
وادئ نیلم کے صدر مقام کنڈل شاہی کے بعد اٹھ مقام کئ بار دیکھنے کا اتفاق ہوا تاہم کیل اور اڑنگ کیل پہلی بار سال 1986 میں جسٹس غلام مصطفی مغل صاحب ، محترم عبد الرشید عباسی صاحب اور دیگر چند دوستوں کے ہمراہ دیکھنے کا اتفاق ہوا – دوسری بار میں اپنی فیملی کے ہمراہ سال 1993/ 1994کے دوران گیا – اس وقت تاؤ بٹ تک کا سفر یقینآ پتھر کے زمانے کا سفر لگتا تھا – سڑکیں فٹ پاتھ اور موت کا کنواں جیسی تھیں –
اسی دوران ہم لوگ رتی گلی بھی گئے اور واپسی پر اپنی ٹور ڈائیری لکھ کے انتظامیہ کے سربراہوں کے علاوہ ہا شوانی گروپ کے سربراہ کو بھی بھیجی – جس پر ہل چل بھی ہوئ – رتی گلی تک سڑک کا رف سا ٹریک اور اڑنگ کیل میں ڈولی بھی اس کے کافی عرصہ بعد لگائ گئ – لیکن ان سب کو آپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے –
رتی گلی جھیل اور اڑنگ کیل اس کے بعد ہی مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کی توجہ کے مرکز بنے
اب کی بار 24-25 ستمبر 2022 کو اس زمانے کے ساتھیوں میں سے جسٹس غلام مصطفی مغل کے علاوہ جسٹس آفتاب علوی صاحب ہمرکاب تھے -ا ب کی بار کیرن سے پورے اپر نیلم کا سفر پتھر کے آخری اور کانسی کے ابتدائ دور کی سی کیفیت جیسا لگتا ہے – سڑک پہاڑی سلسلے کی تراش خراش اور کٹائ سے قدرے کشادہ لیکن کچی پتھریلی ہے – کیرن تک عمدہ پکی اور کشادہ ہے جبکہ اس سے آگے 2022 کے زمانے کی نہیں بلکہ کا نسی کے ابتدائ دور کی سڑک لگتی ہے –
اس علاقے کا قبل مسیح کے زمانے میں بھی بڑا علمی ، سیا سی ، مذ ہببی اور روحانی نام تھا – اس کے اندر چھوٹی چھو ٹی وادیوں میں علم کے حصول اور روح کی تسکین کے لئے ہندوستان کے کونے کونے سے ہندو اور بدھ آکر علم کا فیض اور روح کی تسکین حاصل کرتے تھے – مشہور عالم شاردا یونیورسٹی کی بنیاد بھی اسی علاقے کے شاردہ کے مقام پر 1000 ق م میں پڑی تھی جس کی بانی مبانی شاردہ مہا دیوی جس کا دوسرا نام سراس وتی یعنی علم و عرفان کی دیوی ہے – سر س واتی نام سے ہندوستان اور سنٹرل ایشیاء میں یونیورسٹیز اور تحقیقی ادارے بنے ہیں ، جبکہ یہاں یہ سب کچھ ریفرنس کی کتابوں میں بھی نہیںُ رہے – ہندو دور میں اس کی ابتدا ہوئ تھی جس کو بدھوں نے انتہا تک پہنچا یا اور ہندو مت کے احیا کے بعد مسلم سلا طین کے زمانے میں بھی زوال پزیر ہونے کے باوجود سال 1846 تک اس کا علامتی وجود قائم تھا – ڈوگرہ دور میں اس طرف مقامی سطح پر تھوڑا بہت خیا ل رکھا گیا تھا لیکن اس منہدم شدہ آثار کی طرف توجہ نہیں دی گئ جس کی مثال دیو بندی اور بریلوی تفریق کے مماثل ہندؤں میں رام ، کرشن، راون اور شئیو کی تفریق ہے – ڈوگرہ حکمران جنوبی ہندوستان کے کرشن کو ماننے والے تھے جبکہ کشمیری ہندو شئیو کے پجاری تھے جو اس کا تعلق وحدانئیت سے جوڑتے ہیں – مسلمان شیعہ سنی تمام بنیادی عقیدوں پر متفق ، لیکن تفصیلات میں دست و گریبان ہیں –
علم اور تحقیق انسانوں کی میراث ہوتی ہے – سب مذاہب کے بنیادی اصول ایک ہیں ، خدا کی پرستش ، انسانوں کو کامل اور منفعت بخش انسان بنانے کے لئے ہوتے ہیں ، جو نہ بن سکیں وہ اس مذہب کا کچھ نہیں بگاڑتے اپنا نقصان کرتے ہیں – مذہبی رسومات اور اظہار اپنے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ہوتے ہیں – اس پس منظر کی تاریخی اہمیت کے مقامات کو UNESCO کی مدد سے دنیا میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس سے ہمارا مقامی اور قومی نام بھی ابھرے گا اور علاقہ اس تہذیب کی باز یافت اور آمد و رفت کی وجہ سے ترقی کرے گا ، لوگوں کی حالت بہتر ہوگی – مقامی طور پر ہم کو کم از کم اس فن تعمیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو ہمارا انجینئیرنگ کا شعبہ کر سکتا ہے – ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاھئے کہ ہر تہذ یب اور فکر ارتقائ پراسس سے گذرتی رہتی ہے اور ہمارے اجداد ان مراحل سے گذر ہمارے زمانے تک پہنچے –
بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک ٹور کے دوران جب وہاں ڈین آف ہندو و بدھ مائیتھالجی کو میرا بتایا گیا کہ یہ شاردہ دیس سے تعلق رکھتے ہیں وہ تعظیم سے اٹھ کھڑے ہوکر جھک گئے – میں نے بڑا فخر محسوس کیا –
اپر نیلم / تقریبآ شاردہ سے اوپر کا علاقہ آریائ نسل کے ایک درد قبیلے کے یہاں بسنے سے آباد ہوا – معلوم زمانے میں نیلم مختلف صوتی اثرات سے متاثر ہوکر مختلف ناموں سے موسوم ہوتا رہا – مثلآ مہا سندھو، پاروتی گنگا ، سندھو گنگا اور کشن گنگا جبکہ اس پورے علاقے کو دردوں کے آباد ہونے کی وجہ سے دردستان، دردیشا، درد استھان ، شاردا منڈالا، سروس وتی لینڈ ، دراوہ لینڈ اور آخر میں دراوہ کے طور جانا پہچانا جاتا رہا – تاہم اب اس پورے علاقے کی نئی پہچان نیلم ویلی ہے – کشمیر کی تاریخ کی گیارہویں بارہویں صدی کی مشور کتابوں نیل مت پوران، راج ترنگنی اور اس کے بعد کے ہندو، انگریز اور مسلمان مورخین نے اس پر سیر حاصل تحقیقی کام کیا ہے –
اس چھوٹے سے علاقے میں بھی اکثر چھوٹی چھوٹی آبادیوں کی اپنی زبان ہے مثلآ ہندکو/ پہاڑی، گوجری، کشمیری ، شینا اور پشتو –
وادی دراوہ سے ہی تعلق رکھنے والے ایک استاد خواجہ عبدالغنی نے بھی اس پر بہت کام کیا ہے – ان کی اس علاقے کی تاریخ ، ثقافت ، تہذیب پر دو مستند کتابیں شاردا تاریخ کے ارتقائ مراحل اور پاروتی گنگا سے وادی نیلم تک مستند حوالے ہیں – ان کی پہلی کتاب یقینآ پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل تحقیقی مقالہ ہے – اگر انہوں نے لاھور ، کراچی یا اور کسی بڑے شہر کے باسی ہونے کی حیثیت سے یہ کام کیا ہوتا ان کو اس پر صدارتی ایوارڈ بھی ملا ہوتا ، گوشہ گمنامی میں رہنے والوں کا کام بھی گم ہوجاتا ہے –
اس سڑک پہ نو سیری سے آگے کا سفر ہندوستان فائیرنگ کے خوف سے غیر محفوظ سا لگتا ہے تاہم گزشتہ سال فروری سے کسی خا موش مفاہمت کی وجہ سے کوئ نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا – اس علاقے اور اس کے دوسرے حصے کو سب سے زیادہ راحت ملی – یہ مفاہمت قدم قدم بڑھتی رہے تو اس سے بھی کسی حد تک ریلیف مل سکتا ہے گوکہ یہ حتمی داد رسی کا متبادل نہیں –
– کیل اور اڑنگ کیل جیسی روح فرسا وادی کو ملانے کے لئے جنرل حیات خان مرحوم نے بطور صدر ایک پل تعمیر کیا تھا لیکن اس کے باوجود کیل سے پل تک پہنچنے اور وہاں سے اڑنگ کیل تک تقریبآ 5/6 میل کا دونوں طرف سے سکھڑ چڑھائ چڑھنا پڑتی تھی – تاہم اب ان دو حصوں کو ایک ڈولی یا گنڈ ولا یا چئیر لفٹ ، جو نام بھی دیں ، سے ملایا گیا ہے – جو لوگ اسطتاعت رکھتے ہیں وہ تو اس کے زریعہ آتے جاتے ہیں وگرنہ مقامی آبادی کی اکثریت اسی زمانے کے پیدل راستے سے چڑھائی اترائ میں اسی طرح رینگتے ہیں جیسے پتھر کے زمانے میں رینگتے تھے –
اس عرصہ کے دوران اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے میاں غلام رسول مرحوم ممبر اسمبلی اور انکے بھائی میں وحید صاحب دونوں ممبر اسمبلی اور منسٹر رہے، حاجی گل خنداں کیل سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور مفتی محمد منصور صاحب بھی منسٹر اور اب دوسری بار شاہ غلام قادر پنڈی کی اصل سکونت کی بعد یہاں گھر بنا کے دوسری بار اسمبلی کے ممبر اور گذشتہ مدت میں سپیکر اسمبلی بھی رہ چکے ہیں – یہ صورت حال ان کی کار کردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے – دنیا اب G5 ٹیکنالوجی میں داخل ہوگئ ہے لیکن وادئ درا وا کا” چک پریٹی “ (Snail )کی رفتار پر چلنا انسان اور ان کے حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے –
میری زاتی رائے ہے کہ اڑنگ کیل کے قدرتی اور سحر انگیز حسن والے خطہ کو ، جس کے آس پاس اور کوئ آبادی نہیں کو ماحو لیاتی آلودگی سے اسی حالت میں محفوظ رکھا جائے تو زیادہ اچھا ہے – یہاں تک پہنچنے کے لئے تقریبآ 4/5 کلو میٹر سڑک بنانے کے لئے جنگل کا ٹنا پڑے گا، کروڑوں ہی نہیں بلکہ اربوں روپے کا خرچہ کے باوجود یہ ہر موسم میں کھلی نہیں رہے گی ، برف کے دوران اس کا بند رہنے اور سلائیڈنگ ہونا قدرتی امر ہے – اس کو دو تین جدید طرز کی ڈولیوں سے مربوط کیا جائے جن میں سے ایک صرف مال برداری کے لئے ہو تاکہ وہاں کے رہنے والوں کے لئے اسباب زیست ہمہ وقت مناسب ریٹ پر میسر رہیں اور دو انسانوں کے آنے جانے کے لئے ہمہ وقت موجود ہوں – یہاں کی ضرورت اس سے زیادہ کی نہیں لیکن فائیدہ بے بہا ہیں –
میں نے دیکھا کہ اڑنگ کیل کی چوٹیوں اور اپر نیلم کی اور کئ جگہوں پر ہماری فوج کے لئے بھی ضرورت کے اسباب گھوڑوں ، گدھوں، خچروں اور انسانی کندھوں پر پہنچائے جاتے ہیں – اس سے عام لوگوں کی حالت زار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے – یہ افسوس کا مقام ہے – ہمارا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جس کی ہر چوٹی پر مال برداری گاڑیوں کے زریعہ ہوتی ہے – اس سے لڑنے اور اپنی حفاظت کے لئے صرف حو صلے سے کام نہیں چل سکتا اس کے لئے اسباب نا گزیر ہیں جس کی بنیاد جدید رسل و رسائل ہیں –
اڑنگ کیل میں زیادہ جنگلات کا رقبہ ہے – خالی اور ہموار خطہ زمین زیادہ سے زیادہ 7/8 مربع کلو میٹر ہوگا اس کی ٹاون پلانگ ایسی ہونا چاھئ کہ نہ صرف اس کا قدرتی حسن بحال رہے بلکہ اس میں مزید نکھار آئے – چند ایک مقامی گھروں کے علاوہ ادھر سیاحوں کے لئے بے ھنگم گیسٹ ہاؤسز بنائے گئے ہیں جو اس کے حسن اور اس قدرتی خطے کے حسن کو گہنا دیں گے – جو ہوگیا اس کو کسی نظم کے تحت لاکر نئی تعمیر منصوبہ بندی سے کی جانا ضروری ہے –
سیاحوں کی سہولت کے لئے پانی ، بجلی، اور فرسٹ ایڈ کے علاوہ سستی اور معیاری اشیاء ضرورت کے لئے ایک ہمہ وقت تربیت یافتہ افراد پر مبنی سنٹر سرکاری اور عوام کی شراکت داری کی بنیاد پر ہونا چاھئے – اس علاقے بلکہ ریاست کے ہر ٹورسٹ اٹریکشن ، کاہ چرائ اور بہکوں والے علاقوں میں کوئ سرکاری عمل دخل، گیسٹ ہاؤس ، میس وغیرہ کے نام سے کچھ نہیں ہونا چاھئے وہ خواہ سول انتظامیہ کا ہو یا فوج کا – فوج کا معاملہ زرا نازک ہے ، اس نزاکت کا بھرم رکھنے کی ضرورت ہے – اس وجہ سے عام لوگوں کی آزادیاں محدود اور مسدود ہوجاتی ہیں – اس سے سرکاری اور عوامی تعلقات میں خلیج اور بلآخر نفرت اور مخاصمت پیدا ہو جاتی ہے – عوامی سہولت کے لئے اگر نا گزیر بھی ہو تو وہ ایسے سپاٹ سے الگ ایک محدود ایریا میں ہو اور اس کی راہداری بھی الگ ہونا چاھئے جس سے عام مقامی یا سیاح لوگوں کی آزادیاں متاثر نہ ہوں –
نیلم کی پوری وادی جنت نظیر ہے – اس کی علاقائ ساخت چھوٹے چھوٹے اور ایک دوسرے سے منفرد گاؤں ہیں جو اپنی زات کے اندر ہی ایک مقناتسیی اثر اور سکون کا بہترین زریعہ ہیں – LOC کی وجہ سے اس علاقے میں جنگل کا وہ حصہ محفوظ ہوگیا ہے جو ہندوستان کے زیر قبضہ ہے – لکڑی وافر ہونے کی وجہ سے ہر گھر دو تین منزلہ لکڑی کا بنا ہے ، یہ قیمتی لکڑی کا بے جا نقصان ہے – ایسے علاقوں میں ہاؤسنگ کے ماہرین لوگوں کو متبادل تعمیر کی تربیت دیں جس میں لکڑی کا نقصان کم سے کم اور مکانئیت بہتر بن سکے –
کنڈل شاہی سے اوپر پورا بالائ نیلم اخروٹ، بادام ، سیب اور چیری کے علاوہ ، بے مسمی سبزیاں اور بہتے پانی کے چشموں پر فشری کے لئے انتہائ موزون کیش کراپ کی زمین ہے – محکمہ زراعت شہروں کے اندر پرو ٹو کول ڈیو ٹیز کے علاوہ اس طرف توجہ دے – ایک آدھ یا دو میگا واٹ کے چھوٹے چھو ٹے پن بجلی کے منصوبے لگانے کی کافی گنجائش موجود ہے جو لوگوں کی زند گیاں بدل دے گا –
عورتوں سے ابھی تک جو بے گار لی جارہی ہے وہ تعلیم کا فقدان اور جہالت سے کم نہیں – لکڑیاں کاٹنا ، بالن لانا، زمینداری کرنا، بچوں کی پرورش اور گھر گھرہستی کے سارے امور انجام دینا صرف عورتوں کا مقدر ہوکے رہ گیا ہے – اسلام کے دعویداروں کو اس طرف بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے –
پوری وادی میں سیاحوں کی آمد رفت ہے جن میں عورتیں، بچے، مرد ، بوڑھے جوان سب شامل ہیں – ان میں آزاد کشمیر کے علاوہ ملک بھر کے زیادہ لوگ ہوتے ہیں – پرائیوٹ سیکٹر میں رہنے اور اکثر اچھے مقامات پر کھانے پینے کی سہو لیات بھی میسر ہیں – تاہم ان کی کوالٹی کنٹرول لازمی ہے جو محکمہ سیاحت بیروکریسی کی تڑ سے نہیں لوگوں کی ضرورتوں اور مقامی معیار اور سہو لیات کے مطابق کرنا چاھئے – اس کے علاوہ انتظامیہ کی زمہ داری بنتی ہے کہ سیاحوں کے لئے موسم ، ان کی تعداد کے مطابق رہائش کی گنجائش وغیرہ کے لئے ایڈوائیزری کا بندبست کرے –
آزاد کشمیر کا محکمہ سیاحت ریاست بھر میں موسم کے اعتبار سے ٹورسٹ سپاٹس کی نشاندہی کر کے ان کو مشتہر بھی کرے – ان علاقوں میں مقامی لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائ کے علاوہ قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مدد بھی کرے –