Tarjuman-e-Mashriq

جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی

میرے دیرینہ مہربان دوست انوار ایوب راجہ صاحب نے مہربانی فرمائی اور میری فرمائش پہ مجھے اپنی تازہ ترین تصنیف “کہانی کی پہلی کتاب” ارسال کی جومجھے سائپرس کے شہر نکوسیا میں موصول ہوئی۔ دیار غیر میں اپنی زبان میں کسی بھی کتاب دستیاب ہونا کسی نعمت سے کم نہیں اور پھر ایک دوست کی کتاب کا ہاتھ میں ہونا، ایک گوہر نایاب پانے سے کم نہیں ہے.

جس دن کتاب  ملی اسی دن ایک ہی نشست میں ساری پڑھ ڈالی۔ ایک ہی نشست میں کتاب ختم کرنے کی دو وجوہات ہیں؛ ایک تو کتاب کی کہانیوں کے موضوعات اس قدر دلچسپ اور حسب حال ہیں  اور یہ ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے حالات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں،  دوسرا کہانیوں میں موجودہ دور کی مصروفیت اور تیز رفتار زندگی کے مطابق اختصار سے کام لیا گیا ہے یعنی ماضی کے ٹیسٹ میچ کو موجودہ دور کے ٹی  ٹویئنٹی میں تبدیل کر دیا گیا ہے مگر آپ اس اختصار کے باوجود اس کتاب کی گرفت سے نکلنا مشکل ہے ۔  کہانی کی یہ پہلی کتاب ہے تو بہت چھوٹی مگر اس کا وزن بہت ذیادہ ہے صاحب احساس اس کی کہانیوں کا بوجھ بمشکل سہہ سکتا ہے .

راجہ صاحب نے اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لئے قصہ خوانی کا طرز تحریر اپنایا ہے جو کہ بات کو سمجھانے کا ایک انتہائی موثر ترین طریقہ ہے ۔ ہر ایک گزرا یا گزرتا واقع ایک کہانی بنتا ہے.

مولانہ جلال الدین  رومی مثنوی شریف  میں حقیقت کو کہانی کے پیمانے میں رکھ کر پیش کرتے ہیں جس سے نہ صرف بات سمجھ آتی ہے اور عام فہم ہو جاتی ہے بلکہ عمل کا زریعہ بھی پیدا ہوتا ہے .

کہانی نویسی کے اسی طرز فکر کے مصنفوں میں شیکسپئر ، سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، منشی پریم چند، ممتاز مفتی، اور دیگر کئی نامور مصنف شامل ہیں.

میاں محمد بخش رحمت اللہ علیہ نے بھی مے پردہ سوز کو سیف الملوک کی کہانی کے پیمانے میں رکھ کر پیش کیا ہے جس سے قدردان سخن تاقیامت فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ مگر آج کے اس دور میں کہانی لکھنا بہت بڑے عزم اور حوصلے کی بات اس لئیے ہے کہ کمپیوٹر اور ملٹی میڈیا کے اس دیکھنے اور سننے کے دور میں پڑھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں جبکہ میاں  محمد بخش صاحب رحمت اللہ علیہ تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے ہی فرما گئے تھے کہ

مر مر ہِک بناون شیشہ، مار وٹّہ اِک بھندے

دُنیا اُتّے تھوڑے ریہہ گئے،قدر شناس سُخن دے

اوّل تے کُجھ شوق نہ کسے، کؤن سُخن اج سُندا

جے سُنسی تاں قصّہ اُتلا ،کوئی نہ رمزاں پُندا

لدگئے اوہ یار پیارے ،سُخن شناس ہمارے

سُخن صراف مُحّمدبخشا ،لعلاں دے ونجارے

 

کہانی کی پہلی کتاب میں مصنف آپ کو ہر کہانی یا واقع  میں چونکا دیتا ہے کتاب میں موجود ہر کہانی ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی کہانیوں میں سے ایک  ہے جن میں بعض کے کردار ہم خود ہیں  اور بعض کردار ہمارے اردگرد کے لوگ ہیں بس ہم میں سے ہر ایک کا سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کا انداز مختلف ہے ہم دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں مگر انوار صاحب  نے ہمیں معاشرے کے آئینے میں   پڑھنے والے کو اپنے  حقیقی عکس دکھائے ہیں  بلکہ   کہانی کی پہلی کتاب میں    انہوں نے  انگلی پکڑ کر پورے واقع میں سے قاری  کو ایسے گزارا   کہ وہ کہانی  کے کرداروں کے کرب کی حدت  کو محسوس کرنا    ایک    کمال تجربہ بن جاتا  ہے .

کہانی "بوتل میں بند خط”کی آخری سطر “کچھ خط منزل پہ نہیں پہنچ پاتے اور کچھ محبتوں کے آمین صرف سمندر ہو سکتے ہیں انسان نہیں” ایک انتہائی طاقتور متاثر کن سطر ہے

کہانی "آدھی روٹی” میں زویا بی بی کا آدھی روٹی کا سکون تلاش کرتے کرتے اس کرب کو سینے میں ہی لے کر دنیا سے چلے جانا ہمارے معاشرے کی کم ظرفی اور نا انصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے  ایسے واقعات کو ہم دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں.

کہانی “تھری ٹو نہیں بولے گا” میں تھری ٹو کی خاموشی سے موسلا دھار طوفانی بارش میں بھیگتی چڑیا جیسی بے بس خاموشی آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتی ہے تھری ٹو زندگی کے کرب اور معاشرے   کی صعوبتیں سہہ سہہ کر بے حس ہو کر ایک روز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے  خاموش ہو جاتا ہے ، یہاں دل کرتا ہے مصنف کو روک دیا جائے کہ مزید نہ لکھو قلم روک لو ، لکھنا چھوڑ دو دیکھنا چھوڑ دو کہ

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

مگر میں جانتا ہوں کہ آنکھ والا دیکھتا ہے اور دیکھنے والا لکھتا ہے دیکھنے والے کو دیکھنے سے اور لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ بہتے دریا اور چلتی ہواوں کو روکا نہیں جا سکتا۔ سارا قصور اس نظر کا ہے جو ان کہانیوں کو دیکھ لیتی ہے مگر یہ دیکھنا ایک مشکل کام ہے، ایک  اوکھا پینڈا ہے  جسے  طے کرنا جگر خوں کے بغیر ممکن نہیں

جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی

جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

انوار ایوب راجہ صاحب اللہ آپ کی چشم بصیرت کو روشن تر کرے تاکہ جہاں بینی کا سلسلہ جاری رہے ہم تک کہانی کی دوسری ،تیسری ،چوتھی، پانچویں ، اور آنے والی تمام کہانی کے نمبر پہنچتے رہیں اور کہانی کا یہ سفر جاری رہے۔ دیار غیر سے آپ کا دوست آپ سے آپ کی تحریروں کےذریعے ملاقات کرتا  رہتا ہے اور آپ  سے  شناسائی گہری ہوتی جاتی ہے ۔ قلم کو روکنا پڑا کہ ساری کہانیوں کو میں اپنے تبصرے میں نہیں لا سکتا نہ اپنے سارے خیالات کو الفاظ میں بند کر سکتا ہوں بس اتنا کہتا ہو ں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ(آمین).

 

Exit mobile version