فتح خان ایک بلڈر ہے ، برطانیہ میں مزدوری کرتا ہے اور اپنے کام میں ماہر ہے. اسے انگریزی بہت کم آتی ہے مگر انگریزی اس کا مسئلہ نہیں ہے ، اس کا کام بولتا ہے اور وہ اپنے کام کی عزت بھی بہت کرتا ہے . بے ایمانی نہیں کرتا ، ساتوں دن کام پہ آتا ہے اور حساس انسان ہے ، اسی لیے جلد ناراض بھی ہو جاتا ہے اور اکثر اسے مالی نقصان بھی اٹھانا پڑ جاتا ہے. فتح چائے اور سیگریٹ کے علاوہ پورا دن نہ کچھ کھاتا پیتا ہے اور نہ زیادہ باتیں کرتا ہے . فتح آجکل میری لائبریری بنا رہا ہے اور انتہا کا ناقد ہے. اس کے لیے میڈیا ، کتاب، مصنف اور سیاست دان سب ایک ڈرامہ ہیں . اس کے خیال میں کتابی علم سے اگر رزق ملتا تو اس کے وہ تمام کزن جو پڑھے لکھے ہیں کبھی بے روزگار نہ ہوتے ، اسے ہنر اور مہارت پر یقین ہے . وہ کہتا ہے میڈیا والے صرف ساس بہو تک محدود ہیں جب ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ نفرت اور مایوسی پھیلانا شروع کر دیتے ہیں –
پانچ اگست 2024کو جب فتح اپنی معمول کی سیگریٹ بریک کے بعد گھر میں داخل ہوا تو پہاڑی زبان میں با آواز بلند بولا ” راجہ جی آپ کو پتہ ہے حسینہ شیخ بنگلہ دیش سے بھاگ گئی ہے – عوام سڑکوں پر ہے اور ملک کا نظام عوام نے ہاتھوں میں لے لیا ہے ” گھر میں چونکہ آجکل ٹی وی نہیں ہے تو میں نے لیپ ٹاپ پر ڈھاکہ کے مناظر دیکھے تو بے ساختہ کہا ” خان صاحب دیکھنا ایک روز پاکستان میں بھی انقلاب آئے گا ” فتح ہنسا اور بولا ” یہ ہوتی ہے کتابی بات – ہم سب روایتی سیاست دانوں سے تنگ تھے ، ہمیں علم تھا کہ سب کرپٹ ہیں تو ہم نے کھلاڑی کو ووٹ دیا ، سپورٹ کی ، چندہ دیا مگر کوئی انقلاب نہیں آیا ” .
میں نے فتح کی بات کاٹتے ہوئے کہا” خان صاحب اس بے چارے کو تو ادارے نگل گئے ” فتح نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا ” نہیں اسے اس کا گھمنڈ لے ڈوبا” میں نے اختلاف کیا تو اس نے مجھے لیپ ٹاپ کی اسکرین دیکھنے کو کہا اور تلقین کی کہ میں ڈھاکہ کی گلیوں میں جشن مناتے لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پرچموں کو دیکھوں ” ، میں نے دیکھا تو مجھے جیسے بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ لگانے سے کرنٹ لگتا ہے فتح کی نشاندھی نے حیران کر دیا .
یہاں ڈھاکہ کی گلیوں میں سب کے ہاتھ میں بنگلہ دیش کا پرچم تھا اور کوئی کسی جماعت کے منشور کا نہیں بلکہ عوام کی آزادی کے نعرے "توئی کی؟ امی کی؟ رضاکار رضاکار ” کا سفیر تھا اور اپنی فوج کے جوانوں کے ہاتھوں کو چوم رہا تھا کیونکہ یہاں فوج اور عوام ایک تھے ، یہ جماعتی نہیں قومی تحریک تھی جس کا پرچم بنگلہ دیشی ، جس کا مقصد بنگلہ دیشی اور جس کا مستقبل بنگلہ دیشی تھا جبکہ جس تبدیلی یا انقلاب کی پاکستان میں بازگشت سنائی دی وہ تو ایک جماعت کا انقلاب تھا اور اس طرح کے انقلاب اگر اگلے چار سو سال بھی آتے رہے تو کچھ نہیں بدلے گا .
وہ جماعت اسلامی پاکستان کا "اسلامی انقلاب” ہو ، پی ٹی آئی کی "تبدیلی” ہو ، پیپلز پارٹی کا "جمہوری انتقام” ہو یا پی ایم ایل این کی "ووٹ کو دی جانے والی عزت” ہو، انقلاب نہیں آئے گا . اب وقت ہے کہ سب اپنی اپنی باونڈری میں واپس جائیں اور بنگلہ دیش کی اصل آزادی سے کچھ سیکھیں . نہ کوئی سیاست دان غدار ہے اور نہ ہی فوج ان کی دشمن ہے بلکہ فوج تو ان میں سے ہی ہے . پانچ اگست نے اگر فتح خان کو اصل انقلاب کی وجہ سمجھا دی ہے تو ان درباری تھنک ٹینکس کے اسکالرز، سیاستدانوں اور صحافیوں کو پچھلی سات دہاہیوں میں کیوں پتہ نہیں چلا کہ اسٹیبلشمنٹ کمزور کے سامنے مضبوط ہوتی ہے جبکہ مظبوط عوامی تحریک کے سامنے کوئی ادارہ کھڑا نہیں ہوتا .
جس روز پاکستان کی گلیوں میں پاکستان کا پرچم ہو گا اس روز فوج اور عوام ایک ہونگے اور کسی کو کسی جیل کی کال کوٹھری ، ملک بدری اور جھوٹے مقدمات اور عدالتی نا انصافی کی فکر نہیں ہو گی کیونکہ تب قاضی جھوٹ پر فیصلے صادر کرتے ڈرے گا ، وہ صرف قاضی ہو گا کسی جماعت کا نمائندہ نہیں . سچ یہ ہے کہ سب ہی اپنے اپنے انداز میں غلط ہیں اور اسی میں سب کا چورن بک رہا ہے جبکہ ڈھاکہ میں انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں گالی بن جانے والا نعرہ آج آزادی کی علامت بن گیا ہے اور کانوں کو بھلا لگ رہا ہے ، ایک بار پھر سے با آواز بلند "توئی کی؟ امی کی؟ رضاکار رضاکار”