فتح خان ایک بلڈر ہے ، برطانیہ میں مزدوری کرتا ہے اور اپنے کام میں ماہر ہے. اسے انگریزی بہت کم آتی ہے مگر انگریزی اس کا مسئلہ نہیں ہے ، اس کا کام بولتا ہے اور وہ اپنے کام کی عزت بھی بہت کرتا ہے . بے ایمانی نہیں کرتا ، ساتوں دن کام پہ آتا ہے اور حساس انسان ہے ، اسی لیے جلد ناراض بھی ہو جاتا ہے اور اکثر اسے مالی نقصان بھی اٹھانا پڑ جاتا ہے. فتح چائے اور سیگریٹ کے علاوہ پورا دن نہ کچھ کھاتا پیتا ہے اور نہ زیادہ باتیں کرتا ہے . فتح آجکل میری لائبریری بنا رہا ہے اور انتہا کا ناقد ہے. اس کے لیے میڈیا ، کتاب، مصنف اور سیاست دان سب ایک ڈرامہ ہیں . اس کے خیال میں کتابی علم سے اگر رزق ملتا تو اس کے وہ تمام کزن جو پڑھے لکھے ہیں کبھی بے روزگار نہ ہوتے ، اسے ہنر اور مہارت پر یقین ہے . وہ کہتا ہے میڈیا والے صرف ساس بہو تک محدود ہیں جب ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ نفرت اور مایوسی پھیلانا شروع کر دیتے ہیں –
میں نے فتح کی بات کاٹتے ہوئے کہا” خان صاحب اس بے چارے کو تو ادارے نگل گئے ” فتح نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا ” نہیں اسے اس کا گھمنڈ لے ڈوبا” میں نے اختلاف کیا تو اس نے مجھے لیپ ٹاپ کی اسکرین دیکھنے کو کہا اور تلقین کی کہ میں ڈھاکہ کی گلیوں میں جشن مناتے لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پرچموں کو دیکھوں ” ، میں نے دیکھا تو مجھے جیسے بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ لگانے سے کرنٹ لگتا ہے فتح کی نشاندھی نے حیران کر دیا .
یہاں ڈھاکہ کی گلیوں میں سب کے ہاتھ میں بنگلہ دیش کا پرچم تھا اور کوئی کسی جماعت کے منشور کا نہیں بلکہ عوام کی آزادی کے نعرے "توئی کی؟ امی کی؟ رضاکار رضاکار ” کا سفیر تھا اور اپنی فوج کے جوانوں کے ہاتھوں کو چوم رہا تھا کیونکہ یہاں فوج اور عوام ایک تھے ، یہ جماعتی نہیں قومی تحریک تھی جس کا پرچم بنگلہ دیشی ، جس کا مقصد بنگلہ دیشی اور جس کا مستقبل بنگلہ دیشی تھا جبکہ جس تبدیلی یا انقلاب کی پاکستان میں بازگشت سنائی دی وہ تو ایک جماعت کا انقلاب تھا اور اس طرح کے انقلاب اگر اگلے چار سو سال بھی آتے رہے تو کچھ نہیں بدلے گا .