قرآن کریم میں اس فرمان الہی کی بار بار تکرار ہے کہ
الحجرات ۱۸۔اللہ زمین و آسمان کی سب پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسےخوب جانتا ہے.
الحدید ۴-۵ اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہان بھی ہواوور وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے.
اتغابن ۔۲ -اللہ تمہارے اعمال بخوبی دیکھ رہا ہے ۔
العلق ۱۴ ۔کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
العمران ۔۲۰ -اور اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے
اللہ نے انسان کو اچھائی اور برائی کی تمیز کا میزان (Free Will) دے کر ، آسمانی کتابوں اور اپنے رسولوں اور پیغمبروں کے زریعے تسلسل سے اچھائی اختیار کرنے کی تعلیم دی اور ساتھ ہی ساتھ جنت و دوزخ کا وعدہ اعمال پاداش میں رکھ دیا۔ اور انسان کو اعمال میں خود مختار بھی بنا دیا۔ تو پھر قرآن میں بار بار کی یہ تکرار کہ اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ایسا کیوں ہے کہ جب جب اچھے اور برے اعمال کا ذکر قرآن میں آتا ہے تو ساتھ ہی اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں ۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہر حال میں انسانوں پہ اتنا مہربان ہے اور کریم ہے کہ وہ ہرحال میں انسانوں کو سیدھی راہ پہ چلانا چاہتا ہے اور انسان کی کامیابی چاہتا ہے۔ انسان کی تخلیقی کے اولین مراحل میں بھی انسانی اجسام کو اللہ نے ہزاروں سال نگاہ رحمت سے دیکھا وہ دیکھنا محبت کی نظر التفات تھی اور قرآن میں اس تنبہیہ کی تکرار کہ اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے اسی محبت کا تسلسل ہے کہ اللہ انسان کو ہر حال میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے انسان قرآن سے دور ہوا اور چند جو قرآن فقط عربی میں ثواب کی نیت سے پڑھتے رہے ان سمیت تقریبا سارے اس فرمان سے بے بہرہ ہوتے چلے گئے کہ اللہ ہمارے اعمال دیکھ رہا ہے انسان گمراہی کا شکار ہوتا رہا مگر اللہ کی انسانوں سے محبت کا تسلسل اور بالخصوص شہنشاہ دو جہاں صلی اللہ علی وسلم کی امت سے محبت کا تسلسل کبھی کم نہ ہوا بلکہ اللہ نی اپنے اپنے انعام یافتگاں بندوں کو بھیج کر انسانوں کو تسلسل سے یاد دلایا کہ اللہ ہمارے اعمال دیکھ رہا ہے
عمل سے ہی زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ہم تک اللہ کی محبت کا تسلسل پیغمبروں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کے انعام یافتگاں (انعمت علیہم ) یعنی اولیا کرام کی صورت میں پہنچا کہ وہ ہمیشہ یہ تاکید فرماتے ہیں کہ یہ تصور باندھو کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہاں سوچوں پر پہرے ہیں یعنی سوچ بھی اک عمل ہے جسے اللہ دیکھ رہا ہے ۔ نیت بھی سوچ ہے اور اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہے۔ فرمان الہی (کہ اللہ ہمارے اعمال دیکھ رہا ہے )کی اس قدر خوبصورت عملی تشریح بلا شبہ کوئی انعام یافتہ ہی کر سکتا ہے ۔
باجھ حضوری نہیں منظوری پاویں پڑهن بانگ صلواتاں هو
روزے نفل نماز گزارن پاویں جاگن ساریاں راتاں هو
باہجوں قکب حضور نه هوئے پاویں کڈہن سیے زکواتاں هو
اللہ کی اس محبت کا جواب محبت کے سوا کیا ہو سکتا ہے اللہ کے فرامین کی تشریح اور اللہ کی محبت کا احساس اللہ کو جاننے والا ہی کرا سکتا ہے اللہ ہمارے کواعمال دیکھ رہا ہے.
اللہ ہمیں اور ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اگر یہ خیال سینے میں روشن ہو جائے تو پھر ممکن ہے کہ حضوری کا مفہوم سمجھ میں آ جائے اور ہمارے قلوب اس خیال حسیں کی بدولت کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں.اس ضمن میں حضرت واصف علی واصف فرما گئے ہیں کہ
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت
جب حجاب بین من و تو ہٹتا ہے تو محبوب و محب میں اور قطرہ سمندر میں فرق باقی نہیں رہتا کہ ایک ہونے کے بعد محبوب یا قطرے کی اپنی حیثیٹ باقی نہیں رہتی بلکہ حسن بے پرواہ کی ہی جلوہ نمایاں رہ جاتی ہیں
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
جس نے میرے لیے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں (
فتح الباری- حدیث نمبر 6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے
حضرت خواجہ غلام فرید فرماتے ہیں
خلقت کوں جیندی گول ہے
ہر دم فرید دے کول ہے