Tarjuman-e-Mashriq

مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف -2

فوج والوں کی دوستیاں گیٹ تک ہوتی ہیں۔ چھاؤنی کی حدود سے نکلتے ہی ہانڈی والی‘ کلی والی اور تعلق داری دم توڑ جاتی ہے۔ زمانہ ہو گیا فوجیوں کے بارے میں اس قسم کے تبصرے اور جملے سنتے ہوئے مگر 4 مئی 2015 کی شام بحریہ ٹاؤن کے قبرستان میں جنرل احتشام ضمیر کے جنازے والے دن سارے تبصرے غلط ثابت ہوئے۔ اس روز تو تاحد نگاہ انسانوں کا ہجوم تھا۔ سواں جی ٹی روڈ سے اسلام آباد والی سپرہائی وے کے درمیان والا سارے علاقے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ میلوں ٹریفک جام تھا۔ ہر کوئی جنازہ گاہ تک پہنچنا چاہتا تھا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے بچپن ایک ساتھ گزارا تھا۔ بعض ملٹری کالج جہلم کے ہم مکتب تھے‘ کچھ آئی ایس ایس بی کے‘ بعض کاکول کے اور بہت سارے گورڈن کالج راولپنڈی کے ہم جماعت حزن و ملال کی تصویر بنے موجود تھے۔ کئی یونٹوں‘ بریگیڈوں‘ ڈویژنوں اور کوروں کے ہم رکاب تھے۔
جنرل احتشام ضمیر نے بطور لیفٹیننٹ کرنل جس 20 ایف ایف رجمنٹ کی کمان کی تھی‘ اس یونٹ کے لوگ بھی عقیدت اور محبت کے پھول لئے کھڑے تھے۔ کراچی کی فائیو کور‘ راولپنڈی کور‘ بحریہ ٹاؤن‘ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ چیئرمین جائنٹ چیفس سٹاف آف سٹاف کمیٹی‘ اوکاڑہ کا نمبر2 ڈویژن‘ الغرض درجنوں پھولوں کی چادریں اور منوں پھول احتشام ضمیر کی انسان دوستی کی گواہی دے رہے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی 1964 سے آٹھویں جماعت سے ان کے ہم جماعت تھے‘ کتنے ہی تھری سٹار اور فور سٹار جرنیل‘ عالمگیرین ‘ ابدالین‘ ہالین اور گورڈونین‘ سبھی سوگوار کھڑے تھے۔ درود شریف کا ورلڈ بینک کے سربراہ سید حسنات احمد کمال چک عبدالخالق کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ صحافی‘ وکلا‘ سیاسی راہنما ‘شاعر‘ ادیب‘ پروفیسر اور ڈاکٹر زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس کی نمائندگی نہ ہو۔
سید احتشام ضمیر جن کا ابتدائی نام اپنے دادا کے نام کی مناسبت سے سید احتشام حیدر تھا‘ وہ سید ضمیر جعفری کے ہاں 13مارچ 1949 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ضمیر جعفری ان دنوں فیروز خان نون کے اخبار روزنامہ غالب کے لاہور میں ایڈیٹر تھے۔ احتشام کو دادی ’’شاما‘‘ کہا کرتی تھیں پھر آہستہ آہستہ گھر کے سب چھوٹے بڑے احتشام کو شاما ہی کہنے لگے۔
سید ضمیر جعفری اکثر اپنے روزنامچوں میں شامے کا ذکر کیا کرتے مثلاً 10نومبر 1951 کو احتشام کو ’’کارڈرائے‘‘ کپڑے کی پتلون سلوا کر دی جو اُن دنوں امارت کی علامت سمجھا جاتا تھا‘ تو ڈائری میں لکھا ’’شامے کی پہلی پتلون۔‘‘ 24اکتوبر 1953 کو اگر احتشام کو ٹرائی سائیکل بھی لے کر دیا تو اس کا احوال بھی ڈائری میں اس طرح کیا کہ آج ایک دیرینہ آرزو پوری ہو گئی۔ سید ضمیر جعفری کی تین اولادیں تھیں ۔ سب سے بڑے احتشام ضمیر‘ پھر بیٹی تابندہ جو 30جولائی 1950کو پیدا ہوئی اور ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سید امتنان حیدر 26جنوری 1953 کو ملیر کینٹ کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ آج کل امریکہ میں ہیں۔
سید ضمیر جعفری اپنے بڑے بیٹے احتشام کو بہت پسند کرتے تھے۔ 13مارچ 1999کو جب ضمیر جعفری صاحب کی بائیوپسی ہوئی تو وہ اُن دنوں امریکہ کے ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ وہ ان کی گفتگو کا آخری دن تھا۔ اس کے بعد ان کی آواز ختم ہو گئی تھی۔ پاکستان سے سید احتشام ضمیر نے بائیوپسی سے پہلے گفتگو کرتے ہوئے سید ضمیر جعفری سے کہا کہ ابا آپ ہم بچوں سے خوش ہیں تو جعفری صاحب نے کہا کہ ہاں میں بہت خوش جا رہا ہوں۔ احتشام کے مزاج میں چونکہ شگفتگی تھی‘ اس لئے وہ بولے ابا جا کہاں رہے ہو؟ تو ضمیرجعفری نے کہا بیٹا میں رہا تو بھی تمہارے ساتھ ہوں اور نہ رہا تو بھی تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
4مئی 2015کی شام جب میں شامے کے پاؤں کی طرف بیٹھا ان کی قبر پر سنت کے مطابق مٹی ڈال رہا تھا تو انور مسعود کا یہ پنجابی شعر بے اختیار یاد آیا کہ
مُلک عدم تُوں ایس جہانِ ننگے پنڈے آوندے
بندہ اک کفن دی خاطر کِنّاں پینڈا کردا اے
میں نے احتشام کو دوبار پریشان دیکھا وگرنہ جملہ کسنا‘ بات کہنا‘ تبصرہ کرنا اور پھر قہقہہ لگانا ان کی عادت کا حصہ تھا۔ پہلی بار تب پریشان دیکھے جب وہ 36سال فوج میں گزار کر 2007 ء میں فوج کو الوداع کہہ رہے تھے اور دوسری بار 10جنوری 2014کو جب ان کے بڑے بیٹے علی کی موت کی خبر انہیں ملی۔ علی ان دنوں اپنی والدہ روبی احتشام کے ہمراہ چین کی سیاحت کو گئے ہوئے تھے۔ روبی صاحبہ احتشام کی خالہ پروفیسر نسیم اعوان کی بیٹی ہیں۔ آفرین ہے اس خاتون کے صبر اور ہمت پر۔ وہ ایک بار اپنے جوان بیٹے علی کا لاشہ چین سے ہمراہ لائیں اور کمال حوصلے سے صدمہ برداشت کر گئیں اور اب احتشام کا جھلسہ ہوا بدن دیکھ کر رب کی رضا میں راضی ہو گئیں۔
جنرل احتشام ضمیر اپریل 2015 کے تیسرے عشرے میں گھر کے سٹڈی روم میں سگریٹ سلگانے پر گیس لیکج کی وجہ سے شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ چالیس سے پنتالیس فیصد جسم جھلس گیا تھا۔ گھر والے بالائی منزل پر تھے‘ دھماکے کی آواز اڑوس پڑوس تک سنی گئی۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انہیں ہیلی کاپٹر پر کھاریاں کے فوجی برن سنٹر میں پہنچایا گیا۔ جہاں وہ 4 مئی کی صبح انتقال کر گئے۔ احتشام صاحب کی حسِ مزاح ہر وقت بیدار رہتی تھی۔ اپنی وفات سے دو روز قبل اپنے داماد سنگین خان سے کہہ رہے تھے۔ ’’یار ایک سگریٹ لا دو‘ سگریٹ کے لئے دنیا میں آیا تھا اور سگریٹ کی وجہ سے ہی جا رہا ہوں۔‘‘
جنرل احتشام ضمیر کی اپنی دو بیٹیاں ہیں۔ ضمارا اور شہہ پارہ۔ ضمارا اردو ادب میں نئے نام کا اضافہ ہے۔ یہ نام کسی لغت میں نہیں ملتا۔ یہ نام ضمیر جعفری اور ان کی بیگم جہاں آرا‘ ان دونوں ناموں کی تلخیص اور مرکب ہے۔ یعنی ضمیر سے ضم لیا گیا اور جہاں آراسے لفظ آرا بنایا گیا تھا۔ ضمارا حال ہی میں ترقی پانے والے میجر جنرل باسط رضا ( جو مرحوم ہو چکے ) کی بیگم اور شہہ پارہ کرنل نوشیروان کی بیگم ہیں۔ احتشام ضمیر کی تیسری بیٹی ان کی خاندانی روایت کا حصہ ہے۔ اس خاندان میں اپنے عزیز و اقرباء کے بچے لے کر پالنے کی رسم صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ تیسری بیٹی لے پالک ہے۔ وہ جنرل ندیم اعوان کی بیٹی ہے جو سنگین خان سے بیاہی گئی ہے۔ اس کا نام فاطمہ ہے۔ وہ بیگم روبی احتشام کی سگی بھانجی ہیں۔ فاطمہ اس وقت چھ ماہ کی تھی جب اسے گود لیا گیا تھا۔
احتشام کے دو بیٹے بڑا علی اور چھوٹے کا نام عمر ہے۔بیٹوں کے ناموں کے حوالے سے سید احتشام کا استدلال تھا کہ انہوں جھگڑا مندر مسیت داختم کردتا مسلکی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ احتشام ضمیر رشتوں ناطوں کے حوالے سے کئی قوموں اور قبیلوں میں پھیلے ہوئے انسان تھے۔ وہ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور تعلیم ملک نسیم احمد آہیر کی بیگم کے سگے خالہ زاد تھے۔ ’’متاع ضمیر‘‘ احتشام ضمیر کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ جو 2013 میں چھپا تھا۔ آج کل وہ خود نوشت سوانح عمری ’’ورکنگ ود آرمی‘‘ میں مصروف تھے۔ احتشام اپنے والد سید ضمیر جعفری کے ادبی ورثے کو سنبھالا دیئے ہوئے تھے۔ وہ کبھی کبھی میرے پاس آجاتے اور ضمیر جعفری کے بارے میں کتابیں مضامین اور ادبی پرچے اٹھا کے لے جاتے۔ فوٹو کاپی کراتے اور کبھی میں ان کی لائبریری سے استفادہ کرنے پہنچ جاتا۔ میں چونکہ ایک عرصے سے سید ضمیر جعفری کے حوالے سے کتاب ’’مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف‘‘ پر کام کر رہا ہوں‘ اس لئے احتشام ضمیر ہر سال 12 مئی کو سید ضمیر جعفری کی برسی پر انتظار کیا کرتے تھے کہ شاید اس برس میری کتاب چھپ جائے۔ کاش ایسا ان کی زندگی میں ہو جاتا۔ سید احتشام ضمیر ویسے تو تھے ہی ولیوں کی اولاد اور سید ہونے کے ناتے اور بھی ممتاز ہو جاتے ہیں۔ البتہ ان کے اجداد میں سید عبدالخالق گزرے ہیں جو خوارزمی سید تھے۔ دینہ سے منگلا جاتے ہوئے سٹرک کے دائیں جانب ان کے نام پر سادات کی ایک بستی بھی ہے جس کا نام چک عبدالخالق ہے۔ مگر ذاتی حیثیت میں بھی احتشام ضمیر کا وجدان اور روحانی پہلو بہت پُرتاثیر تھا۔ 5 جنوری 2004 کی بات ہے۔ اس دن میں لاہور میں تھا کہ اچانک احتشام ضمیر سے ملنے اوکاڑہ کی طرف چل پڑا۔ ابھی راستے میں ہی تھا کہ احتشام صاحب کا فون آیا کہ آج میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ مجھ سے ملنے آ رہے ہیں۔ وہ ان دنوں اوکاڑہ میں 2 ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ میں نے جواباً کہا کہ اوکاڑہ چھاؤنی سے تھوڑا دُور ہوں۔ بس پہنچنے ہی والا ہوں۔وہ بولے’ ایتھے رکھ‘ میرا ڈویژن بہاولپور ایکسرسائز پر ہے‘ میں نے وہاں جانا تھا اگر چلا گیا ہوتا تو پھر؟ میں نے کہا: سر پھرے‘ پھر پھرکی پروا نہیں کیا کرتے۔‘‘ انہوں نے مجھ سے گاڑی کا نمبر پوچھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملٹری پولیس کے چار موٹر سائیکل مجھے اپنے حصار میں لئے جی او سی ہاؤس چھوڑ گئے۔ بہت باتیں ہوئیں۔ ہمارے درمیان کبھی کچھ آف دا ریکارڈ نہیں ہوا۔ وہ بڑی دردمندی سے پاکستان کے داخلی و خارجی حالات پر بات کرتے۔ سید احتشام ضمیر ملکی رازوں کے امین تھے۔ فوجی تھے مگر سوچ جمہوری رکھتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انگریزی مباحثوں کی جان اور سو میٹر دوڑ کے سرخیل تھے۔ انہوں نے 17 اکتوبر 1968 کو راولپنڈی گورڈن کالج یونین کے سیکرٹری جنرل کا الیکشن بھی جیتا۔ وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے بھی فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں بھی ذمہ داریاں نبھائیں اور کور کے چیف آف سٹاف بھی رہے۔ انہوں نے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز کا کورس بھی کر رکھا تھا۔ وہ آئی ایس آئی انٹرنل ونگ کے سربراہ بھی رہے وہ نائن الیون کے واقعات سے بھی خوب آگاہ تھے۔ وہ 2005 میں ڈی جی انفنٹری ہو کر جی ایچ کیو میں آئے اور 2006 میں ایس پی ڈی (سٹریجک پلانز ڈیوژن) میں آ گئے۔ مَیں اس دفتر میں اکثر ان کے پاس جایا کرتا تھا۔ وردی میں رہنا انہیں اچھا لگتا تھا۔ وہ جب 28 اپریل 1964 کو سرائے عالمگیر کے کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے تو ٹیپو سلطان ہاؤس میں پہنچتے ہی سب سے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ وردی کہاں سے ملے گی۔ چند ماہ بعد 9 جولائی 1964 کو جب راولپنڈی چھٹی پر آئے تو سید ضمیر جعفری کو زبردستی وردی پہنوا کر دفتر بھجوایا۔ جعفری صاحب ان دنوں سی ڈی اے میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز تھے۔ فوجی میجر تھے مگر سول کپڑوں میں رہتے تھے۔ احتشام کی خواہش پر وہ وردی پہنچ کر دفتر تو گئے مگر اس روز کوئی کام نہ کر سکے۔ محض ان کی نمائش ہوتی رہی۔ دفتر کے سارے لوگ وقفے وقفے سے ضمیر جعفری صاحب کو وردی میں بیٹھا دیکھنے آتے رہے۔ بعض نادانستگی میں یہ بھی پوچھ لیتے رہے کہ واقعی آپ میجر ہیں یا شوقیہ وردی پہنی ہوئی ہے۔
گویا خود بھی وردی میں رہنا اور دوسروں کو بھی وردی پہنے دیکھنا پسند کرنے والے احتشام نے پھر اچانک درخواست دے دی کہ وہ مزید نوکری نہیں کرنا چاہتے اور یوں وہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر گھر آ گئے۔ دفتر سے نکلنے سے پہلے انہوں نے مجھے فون کیا کہ آج فوج میں ان کا آخری دن ہے۔ آ جاتے تو ایک ساتھ گھر چلتے۔ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے جس شخص نے 36 برس وردی میں گزارے ہوں‘ کتنا مشکل ہو جاتا ہے‘ اس ماحول سے نکلنا۔ انہوں نے مجھے اس روز اپنا وہ پہلا کالم بھی فون پر سنایا جس کا عنوان تھا۔ ’’دوسری زندگی‘‘ احتشام جب مجھے اپنا کالم سنا رہے تھے تو میرا دھیان 13 نومبر 1971 کی طرف چلا گیا جس روز کاکول میں احتشام کی پاسنگ آؤٹ پریڈ تھی۔ وہ لفٹین بنے تھے اور اگلے روز اتوار کو انہوں نے جب پہلی بار لفٹینی والی وردی پہنی تھی تو ان کے دائیں کندھے پر ان کے تایا بشیر حسین جعفری نے اور بائیں کندھے پر سید ضمیر جعفری نے رینک لگا کر کہا تھا کہ شامے تجھے وردی کتنی خوبصورت لگتی ہے۔ یوں 1971 سے شروع ہونے والا سفر 2007 میں 36 برس میں تکمیل کو پہنچا اور شامے کی زندگی کا سفر 4 مئی 2015 کو مکمل ہوا۔ صدیوں مہینوں میں اور سال لمحوں میں بیت گئے۔ پلٹ کے دیکھیں تو پاسنگ آؤٹ پریڈ والے دن سید ضمیر جعفری نے وہیں بیٹھے بیٹھے احتشام ضمیر کے بارے میں جو نظم کہی تھی‘ لگتا ہے کل کی بات ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
بیٹے احتشام کے نام
اے مرے نورِ نظر‘ لختِ جگر‘ جانِ پدر
میری شاخ باثمر‘ میری دعائے بارور
تو مرے گھر کا اجالا‘ تو مرے رستے کا نور
تو مری تہذیب کا ورثہ‘ تمدن کا شعور
ہم نے بچپن میں تجھے پالا وطن کے نام پر
بارک اﷲ آج دے ڈالا وطن کے نام پر
پاک لشکر کا جواں بننا مبارک ہو تجھے
اپنا پرچم تھام کر چلنا مبارک ہو تجھے
زندگی کا اس سے بڑھ کر بانکپن کوئی نہیں
تیری وردی سا مقدس پیرہن کوئی نہیں
جنرل احتشام ضمیر سے میری آخری گفتگو 18 اپریل 2015 کو ہوئی تھی جو ان کی آخری خواہش بن گئی ہے۔ اس روز ہم نے پشاور کے پروفیسر عرفان خٹک کے حوالے سے بات کی تھی جنہوں نے سید ضمیر جعفری پر پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ احتشام ضمیر کی خواہش تھی کہ وہ مقالہ کتابی صورت میں چھاپا جائے۔ مشورہ مانگ رہے تھے کہ کہاں سے چھپوایا جائے۔
( جاری ہے ) 

 

 

 

 

 

 

 

 

Exit mobile version