سید ضمیر جعفری کے دو ہی شوق تھے کھانا ، کھانا اور لوگوں میں خوبیاں تلاش کرنا، کھانا کھانے کے اتنے شوقین تھے کہ ایک بار کھانا کھانے گئے اور مار کھا کے آگئے ،چونکہ لوگوں کے بارے ، وہ بے حد خوش گمان تھے اس لئے جب مار کھانے کی روداد مجھے سنا رہے تھے تو اپنی روائتی خوش بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ،، اس مار کا خوش گوار پہلو یہ تھا کہ ان لوگوں نے کھانا کھلا کے مارا تھا.
وہ زمانۂ طالب علمی کا واقعہ تھا ، جب اٹک گورنمنٹ کالج میں ایف اے کے طالب علم تھے ، کالج یونین کی انتخابی مہم کے دوران مخالف دھڑے نے اپنے جلسوں کی کامیابی اور ضمیر جعفری کے حمائت یافتہ گروپ کی ناکامی کے لئے انہیں جلسوں میں نظمیں پڑھنے سے باز رکھنے کو کھانے کی دعوت پر بلایا اور مار کٹ کے ہسپتال پہنچا دیا تھا.
شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ سید ضمیر جعفری شاعر نہ ہوتے تو فقیر ہوتے ، لیکن سید ضمیر جعفری میں فقر تو تھا ، ولائت یافتہ بھی تھے ، ان کا معزز ہونے کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ ، سید ہونے کے ناطے وہ نبئی آخرلزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے کا فرد تھے، ان کا ولی یا صوفی ہونے کی اور کوئی دلیل کیا ہوگی کہ انہوں نے ہمارے سامنے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی ، بہتان ترازی نہیں کی، ٹانگ نہیں کھینچی ، راستہ نہیں روکا ، دل شکنی اور عیب جوئی نہیں کی چغلی نہیں کھائی ، ہم سے تھوڑا پہلے اور عہد رواں میں آئے ، دنیا میں بہت سے ایسے نامی گرامی لوگ بھی ہو گزرے ہیں جو مرے تو، بس مر ہی گئے، لیکن سید ضمیر جعفری آج بھی ہم میں موجود ہیں اور مختلف حوالوں سے زندہ ہیں، وہ اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے قلم کار تھے ، کھیت ، کھلیان ، پینگ ، کوئل ، پن گھٹ اور سرسوں ان کے استعارے تھے ، ادبی سفر کا دائرہ ، سنجیدہ شاعری ، شگفتہ کلامی، کالم نگاری ، اداریہ نویسی، خاکہ نگاری، مترجم ، محقق، سفر نامہ نگار الغرض وہ ایک ہمہ جہت شاعر ادیب تھے، 25 تو ان کی شعری تصانیف اور 21 نثری کتابیں تھیں، بچوں کے لئے بھی لکھا اور بیسیوں سہرے کہے،جن میں ان کے زمانۂ لفٹینی کے ساتھی، بریگیڈئیر ابراہیم قریشی، اپریشن جبرالٹر کے مصنف بریگیڈئیر محمد فاروق، شگفتہ گو شاعر سرفراز شاہد ، ایڈووکیٹ رشید قمر اور اردو ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر جناب الطاف حسن قریشی کے صاحبزادہ انجینئر کامران قریشی کے سہرے شامل ہیں،وہ اپنی ذات میں انجمن اور چلتی پھرتی این جی او تھے.
ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والےریئرایڈمرل طارق کمال خان نشان امتیاز ملٹری، ستارۂ امتیاز ملٹری اور تمغۂ، بسالت جب 23 مارچ 1983 ، کو پاکستان نیوی کے 9 ویں سربراہ بنے تو وہ سید ضمیر جعفری سے ملنے ان کے گھر جانا چاہتے تھے، دو تین دن کی کوشش کے باوجود جب رابطہ نہ ہو سکا تو نیول چیف نے اپنے سٹاف افسر سے کہا کہ ، پتہ کرو شاہ صاحب گھر پر کب کب ہوتے ہیں تو سٹاف افسر نے بتایا کہ, سر ہم نے یہ بھی پوچھا تھا مگر بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ” گھر پر ان کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، صبح سویرے جو کوئی پہلے آجائے وہ اپنے کام کے لئے انہیں ساتھ لے جاتا ہے "، یوں اگلے روز سورج نکلنے سے پہلے نیول چیف ان کے گھر کے باہر کھڑا تھا !
( جاری ہے )