Tarjuman-e-Mashriq

مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف-4

سید ضمیر جعفری کا آبائی قصبہ ، چک عبدالخالق،میں خوارزمی سادات آباد ہیں جہاں سو فیصد شرح خواندگی ہے ،یہاں جعفری صاحب کے نام کی سڑک بھی ہے ،” ضمیر جعفری روڈ "لیکن جب گاؤں کے گھروں میں نلکے لگے تو جعفری صاحب نے گاؤں جانا کم کر دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ ، پنگھٹ ، پر پانی بھرتی لڑکیوں کا ہجوم دیہاتی رہتل کی خوبصورتی تھی جو نہ رہی.
چک عبدالخالق پنجاب کے ضلع جہلم کا ایک انتہائی روح پرور قصبہ ہے ہر چند کہ جہلم پاکستان کا سب سے چھوٹا ضلع ہے مگر وطن کے دفاع میں افرادی قوت کے لحاظ سے اس کا حصہ سب سے زیادہ ہے جہلم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ پنجاب کا سب سے کم محروم ضلع ہے.شرح خواندگی کے لحاظ سے اگر جہلم پنجاب کے لگ بھگ 41/42 اضلاع میں سرفہرست ہے تو ، چک عبدالخالق پاکستان بھر میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا قصبہ ہے۔ اس علاقے کا شمار پوٹھوہار کے اس خطے میں ہوتا ہے جسے عسکری، ادبی، علمی، سیاسی اور روحانی اعتبار سے خاص مقام حاصل ہے، بقول سید ضمیر جعفری منگلا ڈیم کی تعمیر سے پہلے منگلا کا سراغ بھی چک عبدالخالق ہی سے ملا کرتا تھا. پیر سید محمد شاہ اور میاں محمد بخش جیسے صوفی شعراء کے کلام کی بازگشت بھی علاقے کی انہی فضائوں، وادیوں اور کھیت کھلیانوں میں سنائی دیتی ہے ، پیر محمد شاہ سید ضمیر جعفری کے پڑ نانا سید ( SAID ) محمد شاہ کے چھوٹے بھائی تھے، جن کی ایک نظم دیہاتی زندگی میں زبان زد عام ہے کہ
اکڑ بکڑ بھمبے بھو
اسی نوے پورا سو
چک عبدالخالق ، تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ خطہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔انگریزی عمل داری کے زمانے میں وائسرائے ہند کا سید ضمیر جعفری کے چچا ،سید چنن شاہ کی دعوت پر 1945ء میں چک عبدالخالق کا دورہ کرنا بھی شمالی پنجاب میں اس خطے کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ کسی زمانے میں کلکتہ اور امرتسر کے بعدجہلم سب سے بڑی تجارتی منڈی ہوا کرتا تھا،تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خطہ پہلے کمشنری پھر تحصیل کی حیثیت کا حامل رہا اور بعد میں 23مارچ 1849ء کو انگریز سرکار نے جہلم کو ضلع کا درجہ دے دیا تھا ، اُن گزرے دنوں اس کا ہیڈ کوارٹر پنڈدادن خان ہوا کرتا تھا ، جو آج کل اس کی ایک تحصیل ہے ۔
جہلم سے 14میل کے فاصلے پر منگلا اور دینہ کی وادی میں واقع ،چک عبدالخالق ایک ایسا ایمان افروز قصبہ ہے جسے سادات کی بستی کہا جاتا ہے. چک عبدالخالق جسے شیر شاہ سوری کے زمانے میں حضرت پیر سید عبدالخالقؓ شاہ صاحب نے آباد کیا تھا۔
ان کا مزار بھی انہی کے نام سے منسوب چک میں مرجع خلائق ہے ، آپ سادات کے اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے دین اسلام کی ترویج اور راہ گم کردہ انسانیت کو حق کے راستے پر لانے کے لئے اپنی ساری عمر مسافرت اور ہجرت میں گزار دی، یوں تو خوارزمی سادات کے حوالے سے تاریخ نے آپ کو یاد رکھا ہوا ہے ، لیکن ان کے اجداد دنیا بھر میں ملکوں ملکوں قریہ قریہ اور گائوں گائوں انسان دوستی،اخوت اور بھائی چارے کے پیغام بر رہے.
پلٹ کے دیکھیں تو گجرات میں معین الدین پور، محمدی پور مدینہ اور تلنبہ، ملتان، مصر، عراق اور خوارزم کس قدر دشوار گزار زندگی سے گزر کر اشاعت اسلام اور حب رسول اللہﷺ کا پیغام ان مردانِ حق نے جاری رکھا۔
چک عبدالخالق میں بسنے والی حضرت امام جعفر صادقؓ کی یہ اولاد اپنے نام کے ساتھ خوارزمی کا لاحقہ شاید اس لئے پسند کرتی ہے کہ خوارزم کی سرزمین محبت رسولﷺ میں سب سے یکتا دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی ولادت مبارک کے وقت ستاروں کے قِرآنات کا جائزہ جس سائنسدان نے لیا تھا اس کا تعلق بھی خوارزم سے ہی تھا ، دنیا انہیں ماہر فلکیات محمد بن موسیٰ خوارزمی کے نام سے جانتی ہے،یہ وہی شخصیت تھی جس نے مثلث اور علم نجوم پر عبور پایا.خوارزمی الجبرا کون بھول سکتا ہے اہل مغرب اعداد کو رومن طریقے سے لکھتے تھے مثلاً اڑتیس کو وہXXXviii یوں لکھا کرتے تھے خوارزمی نے اڑتیس کو یوں” 38″ لکھنا سکھایا۔
ساتویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے افلاک اور کرۂ ٔارض کے نقشوں کی اٹلس محمد بن موسیٰ خوارزمی سے تیار کرائی تھی۔
خوارزم ترکستان ایشیاء کا مشہور ملک ہے جسے قدیم زمانے میں توران اور تاتار بھی کہا جاتا تھا.افغانستان کے شمال میں واقع ثمرقند و بخارا اس کے مشہور شہر ہیں، اسے روس کا ترکستان بھی کہا جاتا ہے،یہ مغربی وسطی ایشیاء کی ایک سابق خوانی ہے۔
دریائے آمو کے اس پار ازبکستان کے اس قدیم قصبے خوارزم کا نیا نام کھیوا (Khiva) یا خیوہ ہے۔بہرطور خیوا سے ہجرت کر کے آنے والے سادات میں سے پیر سید عبدالخالق شاہ صاحب نے روہتاس کے قریب، چک عبدالخالق میں علم و نور کا ایک ایسا لنگر جاری کیا جہاں آج تک مسلکی بحث سے بلند ہو کر ہر کس وناکس اس بھنڈار سے استفادہ کر رہا ہے.
کتنے ہی نامی گرامی لوگ اس خطے سے اٹھے پلے بڑھے پڑھے اور شہروں کو نکل گئے، ایسے گئے کہ پھر پلٹ کے نہ دیکھا کہ چک عبدالخالق بھی عالم میں انتخاب کوئی خطہ تھا۔ سید ضمیر جعفری ، پیر سید عبدالخالق شاہ صاحب کی ہی اولاد ہیں اور  وہ چک عبدالخالق کا مان ہیں ، آبرو اور پہچان ہیں ہر چند کہ وہ تبدیل ہوتی ہوئی دیہاتی ثقافت سے ناخوش تھے ، باوجود اس کے بچوں کو وصیت کر گئے کہ
اونچے اونچے محل منارے، دل اندر دیوار ضمیرؔ
میرے بیٹو! شہر نہ رہنا شہر کے لوگ اکیلے ہیں
(جاری ہے ) 
Exit mobile version