Tarjuman-e-Mashriq

مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف-5

سید ضمیر جعفری کا نام راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے ضمیر نامی ایک بٹیر باز سے متاثر ہو کر رکھا گیا تھا ، جس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ گوجر خانی ضمیر، کا بٹیر کبھی کوئی مقابلہ نہیں ہارا تھا.
سید ضمیر جعفری کے والد گرامی سید حیدر شاہ چونکہ باقاعدگی سے گوجر خان بٹیری دنگل ، دیکھنے جایا کرتے تھے ، اور ضمیر بٹیر باز اور اس کے بٹیر بارے فتح و نصرت کی باتیں سن سن کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے بیٹے کا نام بھی ضمیر رکھ دیا ،
اللہ پاک نے کرم کیا ضمیر تک ہی رہے ورنہ وہ بٹیر خان نام بھی رکھ سکتے تھے ، البتہ ضمیر جعفری صاحب کی شاعری میں بٹیرانہ تشبیہات ملتی ہیں، جن دنوں وہ راولپنڈی کی ایک سرکاری مگر ہنگامی اقامت گاہ میں مقیم تھے اور ناخوش تھے تو کہا تھا کہ
لکڑی کی نصف ہٹ میں بسیرا ہے آج کل
فدوی بشر نہیں ہے بٹیرا ہے آج کل
نام کی فاتحانہ تاثیر شخصیت پر اثر انداز تو ہوتی ہے ، یہی وجہ تھی کہ سید ضمیر جعفری زندگی کے ہر محاذ پر کامیاب رہے، فوج کو انہوں نے خالہ جی کا گھر سمجھا ہوا تھا، جب چاہتے فوج میں چلے جاتے اور جب دل کرتا فوجی نوکری چھوڑ کے صحافت شروع کر دیتے ، اسی مناسبت سے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( CDA )والے انہیں رئیس الاخبار کہا کرتے تھے.
والد ضمیر کہتے اور والدہ ضمرو کہتیں ، اہل علاقہ شاہ صاحب کہا کرتے ، ہشیار پور کا ان کا ایک ٹیچر انہیں جمرو کہتےتھے،فوج کے وہ ساتھی جو ان کے ، سائیکل  فیلو ، بھی تھے جن میں نمایاں نام جنرل ضیاءالحق، جنرل فضل حق ، اور بریگیڈئیر گلستان جنجوعہ کا تھا. وہ تینوں بھی ضمیر جعفری کو ضمرو ہی کہتے تھے.
ضمرو اور جمرو در اصل ایک ہی نام کے دو علاقائی تلفظ ہیں. فیض احمد فیض انہیں، ضمیر میاں کہا کرتے ، 1984 ء کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ، جناب احمد ظفر میرے پاس آئے کہ اسلام آباد کی کوورڈ مارکیٹ علاقے میں بیگم سرفراز اقبال کے گھر فیض صاحب آئے ہوئے ہیں ملنے جانا ہے، وہاں جا کرباتوں کے دوران کھلا کہ فیض صاحب ضمیر جعفری کو ضمیر میاں کہتے ہیں ، کہنے لگے ” آج ضمیر میاں کا فون آیا تھا پوچھا ، میاں کیا کرتے ہو وہ بولے نوکری، کہا میاں بس کرو ساری عمر نوکری ہی کرو گے کیا ؟”
بریگیڈئیر صدیق سالک نے لکھا کہ ” سید ضمیر جعفری نے سات نوکریاں کیں اور پانچ بتیسیاں بدلیں ، وہ ہر نئی بتیسی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر مشاعرے میں پہنچے ہوتے تھے ، نوکری کا پوچھو تو کہتے تھے ، پیٹ پالنے کے لئے نوکری کرتا ہوں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اس پیٹ کو مزید پالنے کی ضرورت تھی ؟”
سید ضمیر جعفری صاحب کی بتیسی سے یاد آیا جن دنوں وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن ون میں صوبیدار بلبل کاشمیری کے مکان میں مفت کے کرایہ دار تھے ، تو وہاں ان کے پڑوس میں ڈاکٹر راشد متین بھی مقیم تھے ، چھت دونوں گھروں کی جڑی ہوئی تھی ایک دن ضمیر جعفری چھت پر کھڑے تھے تو ڈاکٹر راشد متین انہیں پہچان نہ سکے ، قریب جاکے پوچھا ” آپ مہمان آئے ہوئے ہیں ؟ جعفری صاحب کے بھائی ہیں؟” تو جواب دیا”مہمان تو نہیں! ہوں تو میں ضمیر جعفری ہی مگر بتیسی نیچے چھوڑ آیا ہوں”
ضمیر جعفری صاحب کے روزمرہ پکارے جانے والے ناموں کی تعداد 2 درجن سے بھی زیادہ تھی۔ ان کے پانچ نام تو صرف حفیظ جالندھری صاحب کے استعمال و اختیار میں رہتے تھے، جن میں ، جمرو ، ضمرو ، موٹے اور ضمیر یہ چاروں نام زمانہ امن و آتشی میں حفیظ صاحب لیا کرتے اور ایک پانچوان نام بھی تھا جو ناراضی کی صورت کبھی کبھار بلانا پڑ جاتا ، تو وہ تھا ” کمینہ ". ایک دفعہ ناراضی کی کیفیت میں جناب حفیظ جالندھری نے جب سید ضمیر جعفری کو 3 اکتوبر 1955ء کو کراچی سے خط لکھا تو اس میں سیدصاحب کا پانچواں خصوصی نام کیسے نظم کیا ملاحضہ فرمائیے:
خط نہیں آیا مہینہ ہو گیا
جعفری بالکل کمینہ ہو گیا
سید ضمیر جعفری کا اصل نام ضمیر حسین شاہ تھا۔
درد تخلص کرتے تھے، جب گریجویشن کر لی تو
بی اے کو نام کا لاحقہ بنا لیا تھا۔تب لکھتے تھے
ضمیر جعفری بی اے ،
ایک حمدیہ شعر میں کسی نے کہا ہے کہ
جس کی سمجھ جہاں تک ہے
اس کے لئے تو وہاں تک ہے
لیکن سید ضمیر جعفری صاحب کا اپنے بارے شعر ہے کہ
ہر نظر بس اپنی اپنی روشنی تک جاسکی
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
یہی وجہ تھی کہ کچھ لوگوں کے نزدیک سید ضمیر جعفری مزاح گو شاعر تھے، بعض ان کی سنجیدہ شاعری کے معترف ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ وہ نثر نگار بڑے تھے، بعض ان کی خاکہ نگاری کا اعتراف کرتے ہیں، ان کا ترجمہ بھی مقبول ہوا، اس میں شک نہیں کہ وہ مشاعروں کی جان تھے لیکن میری تحقیق کے مطابق، وہ بہت بڑے انسان تھے، جناب جوہر میر ، نے ان کے بارے کہا تھا کہ
وہ وطن کی جان تھا پہچان تھا
سر سے پاؤں تک وہ پاکستان تھا
جاری ہے 

 

Exit mobile version