Tarjuman-e-Mashriq

مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف-6

سید ضمیر جعفری کی وفات تک ، ان کی پیدائش کا پتہ نہ چل سکا ، وہ خوارزمی سادات میں سے تھے ، مگر اپنے گاؤں میں احمد شاہی کہلاتے تھے، ضلع جہلم کی تحصیل دینہ اور منگلا کے درمیان ایک قصبے ، چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے ، کب پیدا ہوئے ؟ تاریخ یہاں خاموش ہے، کوئی شہادت نہیں مل سکی ، سردیوں کے دن تھے ، یہاں تک تو کھرا ملا ، اس پر سبھی متفق بھی ہیں ، مگر پیدائش کا سال کونسا تھا ، آخری سانس تک اس کا پتہ نہ چل سکا ، البتہ خاندان کی تخمینہ کار اور قیاس یافتہ پکی عمر کی ایک خاتون نے علاقے میں 12 فٹ اونچے ایک درخت کے حوالے سے بتایا تھا کہ ضمیر کی پیدائش کے وقت یہ بوٹا کوئی تین فٹ کا تھا ، اس موقع پر خاندان کے لوگ اگر سمجھداری سے کام لیتےتو کسی لیبارٹری سے درخت کی عمر کا تعین کرا لیتے، فی فٹ درخت کی عمر کا تخمینہ لگا کے اس میں سے جعفری صاحب کے تین فٹ حاصل ضرب کے فارمولے پر ان کی عمر نکال لیتے.
خوارزمی سید اور محمد بن موسی  خوارذمی ، ماہر فلکیات کے قبیلہ دار بھی تھے ، الجبرا ان کے گھر کا تھا ، قرائن سے بھی جعفری صاحب کی عمر کا اندازہ کر سکتے تھے ، مگر وہ گاؤں کا ہرا بھرا درختانہ ثبوت اور علم قرائن چھوڑ کر ان کی عمر پر سارے محض قیاس کرتے رہے ، کسی نے کہا سردیاں تھیں اور سن 1914 ء تھا اور جب ساتھ یہ بھی کہا کہ نئی نئی پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تھی ، کچھ عرصہ پیدائش کی یہ تاریخ تو چلی، لیکن چونکہ تحقیق کا عمل جاری رہتا ہے لہذا سن 1914 ء پر موسم کی ستم ظریفی سے اعتراض آ گیا کہ پہلی جنگ عظیم 28 جولائی 1914 ء کو شروع ہوئی تھی ، گرمیاں تھیں ، جب کہ جعفری صاحب کی ولادت سردیوں کی ہے اور اس پر سارے خیش درویش اور اہل علاقہ متفق بھی ہیں، اس کے بعد سن1915 ء اور 1918 ء بھی کچھ عرصہ رائج رہا ، چونکہ جعفری صاحب اپنے قصبے اور بستی کا ضمیر تھے اس لئے گھر اور گاؤں کے سب سیانے مل بیٹھے ، اور نہ تیری نہ میری ، بس ایک تاریخ پر سمجھوتہ کر لیا اور وہ تاریخ ہے ، یکم جنوری 1916 ء.
لیکن اس تاریخ میں فنی خرابی یہ ہے کہ اس طے شدہ تاریخ کی رو سے ضمیر جعفری ، اپنے بڑے بھائی جناب بشیر جعفری سے چار سال بڑے ہیں ، اور اس رعائت یا بھول چوک سے فائدہ اٹھا کر کبھی کبھار وہ بشیر جعفری صاحب کو ڈانٹ دیا کرتے تھے !!
ہمارے محترم اور ممتاز قلم کار جناب اعجاز راہی نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا ،” جبار مرزا! جن لوگوں کی تاریخ پیدائش  مہینے کی پہلی تاریخ یعنی یکم ہو تو وہ صحیح نہیں ہوتی اندازے اور سمجھوتے کی ہوتی ہے”.
سید ضمیر جعفری چونکہ سر تا پا سمجھوتہ تھے اس لئے سمجھوتے کی تاریخ پر زندگی گزار  گئے، ہر چند کہ دوسری جنگ عظیم 1945 ء کے اوائل میں جب جعفری صاحب سات سمندر پار محاذ جنگ پر تھے تو ان کے چچا چنن شاہ نے انہیں خط لکھا کہ ” تمہاری صحیح تاریخ پیدائش کا پتہ چل گیا ہے ، بندہ بھی اعتباری ہے لیکن اس کے پاس اپنی بات کی سچائی کے لئے شہادت کوئی نہیں ".
جس طرح سید ضمیر جعفری نے گاؤں کے سیانوں کی اتفاق رائے والی تاریخ پیدائش پر زندگی کی ،اسی طرح آگے چل کے 1973 ء میں پاکستان کو جو آئین ملا وہ بھی متفقہ اور سمجھوتے کا ہے ، جعفری صاحب کی پیدائش اور 1973 ء کے آئین ان دونوں میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ترمیم یافتہ ہیں ، اس چبھتی کیفیت کو سید ضمیر جعفری نے اپنے شگفتہ مجموعے
دست و درماں” میں ‘ دوراہا’ کے عنوان سے نظم کرتے ہوئے کہا ہے کہ
ہر اک چیز عبوری ہے
پوری نسل ادھوری ہے
فطرت تو دستوری تھی
عادت نا جمہوری ہے
ہاتھوں میں قرآن مگر
ملت بے منشوری ہے
اپنے جینے کا انداز
ناری ہے کچھ نوری ہے
ضمیر جعفری صاحب سے میری پہلی ملاقات سن 1970 ء کی دھائی کے ابتدائی عرصے میں ہوئی تھی مجھے یاد پڑتا ہے 16 دسمبر 1971 ء کی رات انہوں نے کھانا نہیں کھایا تھا شائد ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جس نے سانحۂ مشرقی پاکستان کا اثر نہ لیا ہو. پاکستان کا دو لخت ہونا سید ضمیر جعفری ایسے پاکستان پرستوں کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا ، ہمارا وہ مشاعروں کا دور تھا ، مگر درمیان میں ، بنگلہ دیش منظور و نا منظور کے دل خراش آوازوں نے ہم نو آموزوں کی شاعری پر بھی وار کئے انہی دنوں جو شعر کہا اور ہمارے پہلے شعری مجموعے”مرحلے” کا پہلا شعر ہے وہ یوں تھا کہ
خدایا پھر ملا دے پاک دھرتی کے سپوتوں کو
دکھا اعجاز قدرت کہ ملے عبرت کپوتوں کو
انہی دنوں اپنا پہلا مجموعہٴ کلام ترتیب دینے لگا تو مقامی ادبی حلقوں کی طرف سے حوصلہ افزائی نہ ہوئی ، پروفیسر احسان اکبر نے کہا "جبار جی! اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی ہمارا مجموعہ نہیں آیا اور آپ چلے’ مرحلے’ چھاپنے”. گزارش کی کہ آپ کا مجموعہ نہیں آیا تو اپنی کاہلی کی سزا ہمیں تو نہ دیں اتنے میں 1973 ء کا آئین اسمبلی سے منظور ہو گیا ادھر کراچی سے جناب رئیس امروہی اور پشاور سے پروفیسر خاطر غزنوی نے مرحلے کے مسودے پر انتہائی پر اثر رائے لکھ بھیجی ، وہ رائے جب احسان اکبر صاحب کو دکھائی تو انہوں نے بھی ترت اپنا تبصرہ لکھ دیا.
پروفیسر انور مسعود نے بغیر حیل و حجت پہلے ہی فلیپ لکھ دیا تھا ، دیباچہ پروفیسر مقصود جعفری نے لکھا تھا ، اور وہ پروفیسر مقصود جعفری کی ادبی زندگی کا پہلا دیباچہ تھا ، خیر ان سارے تاثرات کی کاپی اور کلام کے مسودے کی فائل ضمیر جعفری صاحب کے حوالے کرتے ہوئے عرض کی کہ جناب آپ بھی تبرکا” لکھ دیں!
کافی دن گزر گئے کئی یادہانیاں بھی کرائیں مگر جعفری صاحب نے کچھ بھی نہ لکھا ، حالانکہ تب تک ایک آدھ بار گھر شفٹنگ کے سلسلے میں ان کا سامان باندھنے کھولنے اور ریڑھے پر رکھنے اتارنے کا اعزاز بھی مل چکا تھا ہمارا خیال تھا اپنی شاعری پر جعفری صاجب سے رائے لینے کے لئے اتنی کوالیفیکیشن کافی ہے ، لیکن بہت دنوں بعد مرحلے کا مسودہ واپس کرتے ہوئے جعفری صاحب نے کہا کہ اس میں سے کچھ چیزیں نکال دیں! ہم نے انتہائی فراغ دلی سے کہا ، آپ نے نکال دی ہوتیں! کہنے لگے میں نکالتا تو بچنا کچھ نہیں تھا، حیرت، افسردگی اور بے بسی کے عالم میں ہچکی لیتے ہوئے پوچھا واقعی؟  جس پر انہوں نے کہا ایسی بھی کوئی بات نہیں، انور مسعود اور خاطر غزنوی تو بچ ہی جاتے، پھر کہنے لگے تم صرف تاثرات چھاپ کر کیا کرو گے اتنا مختصر مجموعہ ویسے بھی افطار نامہ دکھائی دے گا، لیکن جب ہمارا وہ مجموعہ چھپ گیا تو سید ضمیر جعفری صاحب نے ایک قومی اخبار میں اس پر بھرپور کالم لکھا جس کا عنوان تھا ”اردو شاعری کا کچا مگر سچا پھل“ پھر اس کے تین سال بعد کتاب کی تعارفی تقریب کا خیال آیا، ہماری خواہش تھی تقریب کی صدارت ممتاز نثر نگار کرنل محمد خان کریں، راولپنڈی کلب پہنچا۔ مدعا بیان کیا تو کرنل صاحب نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھا، تھوڑا شرمائے پھر چائے کا پیالہ سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے ”میرے لئے ممکن نہیں ہوگا“
یہ بات جب ہم نے سید ضمیر جعفری صاحب کو کرنل محمد خان کے انکار کی شکایت کے انداز میں بتائی تو انہوں نے فوراً ایک خط لکھا لفافے میں بند کر کے حوالے کرتے ہوئے کہا یہ کرنل خان کے لئے تعویذ ہے.
ہم نے کہا ان کے گلے میں جاکر ڈال دوں! فرمانے لگے نہیں۔ یہ گلے میں ڈالنے والا نہیں بلکہ پڑھنے کے بعد گلے لگانے والا تعویذ ہے، واقعی ایسا ہی ہوا ، اگلے روز جب دوبارہ کرنل محمد خان سے ملا تو انہوں نے جعفری صاحب کا خط پڑھا، اُٹھے، ہمیں گلے لگایا اور کہا کہ مُرشد کا حکم ہے، ٹالا نہیں جاسکتا،جعفری صاحب نے خط میں لکھا تھا ،”کرنل صاحب گھبرائیں نہیں آپ نے بس خاموش صدارت کرنی ہے“.
کتاب کی تقریب میں جعفری صاحب نے بھی مضمون پڑھنا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس روز پڑوسی کے فون نمبر پر بیرون ملک سے ان کے بیٹے کا ہفتہ وار فون آنا تھا یوں جعفری صاحب بیٹے سے بات کرنے کے لئے بیگم کو ہمراہ لے کے پڑوسی کے گھر جا بیٹھے اور تقریب میں پڑھنے کے لئے اپنا مضمون جناب طاہر پرواز کو دے بھیجا، یہ وہی دن تھا جس روز ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔،یعنی 3 اور 4 اپریل 1979 ء کی درمیانی رات ہماری تقریب 3 اپریل کی شام کو ہوئی تھی.
"مرحلے” کی تعارفی تقریب کی خبریں اس لئے اہمیت پاگئیں تھیں کہ ہر کسی نے 4 اپریل کے اخبار پڑھے تھے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبریں تھیں انہی دنوں ضمیر جعفری صاحب کا”مرحلے” پر دوسرا کالم چھپا تو بریگیڈیئر صدیق سالک نے جعفری صاحب سے کہا،”بابا جی جبار مرزا پر آپ نے پے در پے کالم لکھ دئیے اور مجھ پر ؟؟”. ابھی صدیق سالک نے اپنا جملۃ معترضہ مکمل ہی نہ کیا تھا کہ ضمیر جعفری صاحب نے کہا، ” جبار مرزا DESERVE, کرتا ہے”.
سید ضمیر جعفری اسکول کالج کے زمانے سے ہی ادبی دنیا میں متعارف ہوچکے تھے یہی وجہ تھی کہ جب جون 1945ء میں انہیں وائسرائے کمیشن ملا تو دیسی کپتانوں، میجروں اور کرنیلوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی، کرنل مجید ملک تو تھے ہی ان کے کمانڈر۔ ممتاز شاعر فیض احمد فیض جو اُن دنوں میجر تھے وہ ان کے ڈپٹی کمانڈر تھے۔ کیپٹن ابراہیم قریشی، کیپٹن ن م راشد، کیپٹن مسعود احمد، میجر چراغ حسن حسرت اور میجر آغا بابر کی خوشی دیدنی تھی۔ راولپنڈی والے سترہ زبانوں کے ماہر کیپٹن الطاف اور گجرات والے کیپٹن زمان وہ دونوں فوج کے ابتدائی مراحل سے گزارنے کیلئے تین چار دن تک مسلسل جعفری صاحب کے ساتھ ساتھ رہے، یاد رہے کہ وہ وہی کیپٹن زمان تھے جنکا بیٹا فخر زمان اکادمی ادبیات کا چئیر مین بھی رہے۔
سید ضمیر جعفری پہلی بیوی کے سوا اپنی ہر پہلی چیز کا ذکر بڑے تجسس اور تپاک سے کیا کرتے تھے. وہ اپنے گاؤں کے پہلے لفٹین تھے، گریجویٹ بھی پہلے ہی تھے اور شاعر بھی پہلے ہی کہلائے ، جعفری صاحب نے اپنی زندگی کی پہلی میم چک عبدالخالق میں اُس وقت دیکھی تھی جب وہ چوتھی جماعت کے طالبِ علم تھے! زندگی کا پہلا سگار انہوں نے 21جنوری 1952ء کو پیا تھا۔
ابتدائی کلام کا پہلا شعر جو کہا وہ تھا
ضمیر جعفری صاحب اٹھو کچھ کام فرماؤ
فقط رونے سے میری جان دشواری نہیں جاتی
21 اکتوبر 1946ء کو پہلی بار ریل کے ائیر کنڈیشنڈ ڈبے میں انہوں نے سفر کیا تھا، پہلی نوکری گرداوری کی تھی، 10نومبر 1951ء کو
سید احتشام ضمیر کو کارڈ رائے کپڑے کی پتلون سلوا کردی تو ڈائری میں لکھا ”شامے کی پہلی پتلون“ 1951ء میں پاکستان کا پہلا الیکشن محترمہ فاطمہ جناح کی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑا، چک عبدالخالق میں سید ضمیر جعفری کے خاندان کے احترام کا یہ عالم تھا کہ اگر اس خانوادے کا کوئی فرد پیدل جارہا ہوتا تو علاقے کے دیگر چھوٹے بڑے پیشوں سے وابستہ لوگ احتراماً اپنے گھوڑے سے اتر کر ساتھ چلنا شروع کر دیا کرتے تھے، سید صاحب جب اپنے حلقے میں الیکشن مہم پر نکلا کرتے تھے تو گاؤں کی بڑی بوڑھیاں اپنے کالے کلوٹے بچے اٹھا کے لے آتیں اور کہتیں شاہ جی پھوک مار دیں اسے نظر لگی ہوئی ہے.
شاہ جی نے پھونکیں تو بہت ماریں مگر الیکشن ہار گئے۔ ظاہر ہے جہاں پھونکوں سے چراغ بجھانا مشکل ہو وہاں الیکشن کیسے جیتا جاسکتا تھا.
8 اکتوبر1945ء کو ان کے اعزاز میں پہلا مشاعرہ حفیظ رومانی، ڈاکٹر جمیل چوہان اور درشن سنگھ آوارہ نے منعقد کیا تھا جس کی صدارت اُس وقت کے ڈویژنل انسپکٹر آف اسکولز خان بہادر راجہ فاضل خان نے کی تھی، جنہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا تھا کہ ”آج جس طرح جالندھر کو حفیظ جالندھری پر فخر ہے، ایک وقت آئے گا کہ جہلم ضمیر جعفری پر فخر کرے گا“۔ ہمارے خیال میں آج جہلم ہی نہیں پورے پاکستان کو ضمیر جعفری پر فخر ہے!
(جاری ہے ) 

 

 

Exit mobile version