سید ضمیر جعفری سے ہمارا 25 برسوں کا عقیدت کا رشتہ ہے ،جب کبھی کسی اخبار ، رسالے کا ایڈیٹر ہوتا تو ، سید ضمیر جعفری ، میرے کالم نگار ہوا کرتے تھے ، انہیں کالم کا اعزازیہ دینے جاتا تو مجھے دیکھ کے اس لئے بہت زیادہ خوش ہوتے کہ ان کی تیسری بیگم جہاں آرا ء بیگم میرے لیے چائے کے ساتھ جلیبیاں بنایا کرتی تھیں ، سید ضمیر جعفری نے جہاں آرا ء کو بتایا ہوا تھا کہ جبار کو جلیبیاں بہت پسند ہیں ، جب جاتا تو کالم کا اعزازیہ دیتا تو فوری وہ جہاں آرا ء کو لفافہ پہنچاتے اور باہر میرے پاس آکر جلیبیوں کا انتظار کرنے لگ جاتے ، میرے حصے میں ایک آدھ جلیبی ہی آتی ، باقی سب وہ خود ہی کھاجایا کرتے تھے ، کیونکہ وہ شوگر کے مریض تھے ، میٹھا کھانا منع تھا ، یوں میری آڑ میں جلیبیوں سے رج کے دل پشوری کر لیتے.
یہ عرصہ 1972ء سے 1997/98 ء تک کا تھا ، 1999 ء میں تو امریکہ میں ان کا انتقال ہوا مگر اس سے کچھ عرصہ پیشتر وہ بڑے بیٹے جنرل احتشام ضمیر کے پاس کراچی کی فائیو کور ریزرو ، میں چلے گئے تھے ، اسلام آباد جب چھوڑ کے جانے لگے تو ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں کسی نے کہا جعفری صاحب ، آپ کا شمار اسلام آباد کے بانیوں میں ہوتا ہے ، کسی نے یہ اعتراف کیا کہ اسلام آباد کے تمام ، سیکٹروں، سڑکوں اور شاہراہوں کا نام سید ضمیر جعفری نے رکھا ، لہذا انہیں اسلام آباد نہیں چھوڑنا چاہیے . ہر کسی نے جب زور دیا کہ جعفری صاحب اسلام آباد نہ چھوڑیں تو محفل میں موجود احمد فراز نے بھی روکنے کے مطالبے میں حصہ ڈالتے ہوئے کہا،”جعفری صاحب بے شک اسلام چھوڑدیں مگر اسلام آباد نہ چھوڑیں”.
تاخیر اس لئے ہوتی رہی کہ سید ضمیر کے دادکے تو خوارزم سے اچ شریف آئے پھر گجرات میں محمدی پور مدینہ سے چک عبدلخالق ، جہلم کی تحصیل دینہ ، لیکن ان کے ننھیال جن کا علم و ادب میں ایک حوالہ اور تعارف تھا ان کی تلاش میں کافی وقت لگا ، وہ کشمیر کے بڈ شاہ کی اولاد تھے جوپشاور کے محلہ صدیق میں جا آباد ہوئے ، محلہ صدیق کی تلاش میں مجھے اڑھائی تین ماہ لگے وہاں سے وہ قبیلہ اٹک شہر جا بسا وہاں سے کوچ کیا تو منگلہ ڈیم کے قریب ڈڈھیال کو مسکن بنا لیا پھر جب ڈیم بنا تو گوجر خان کی تحصیل مندرہ کے قریب آبسے.