حقیقت افسانے سے بھی زیادہ دِل چَسپ ہو سکتی ہے اس قول کی صداقت کا یقین ’’جُھوٹے رُوپ کے درشن‘‘ کے مطالعہ کے دوران ہوا جو راجہ انور کی سوانح پر مشتمل ہے۔ یوں بھی اس سچی کہانی میں داستانی عناصر، ہیرو، ہیروئن اور ولن پہلے سے موجود تھے۔
کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر، راجہ انور پنجاب یونی ورسٹی پہنچے اور وہاں انھوں نے فلسفہ کی کلاس میں داخلہ لیا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم تجارت بن چکی ہو اور طالب علم صرف ان شعبوں کی طرف لپکتا ہو جو مستقبل میں اس کے لیے منافع بخش ثابت ہو سکیں۔ راجہ انور کا یہ فیصلہ وہ روزن فراہم کرتا ہے جس میں جھانک کر ہم اپنے ممدوح کی شخصیت اور اس کے نظریۂ حیات کو سمجھ سکتے ہیں۔ فلسفہ زندگی کا شعور عطا کرتا ہے اور رُوح کی تہذیب کرتا ہے اس سے وہ مالی آسودگی حاصل نہیں ہوتی، جس کی ضمانت دوسرے سائنسی مضامین فراہم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ابتدا میں فلسفیوں کو بھی ’’ہیولاتی سائنس دان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔
راجہ انور ایک بھرپور اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ صحافت، سیر و سیاحت، سیاست، مصنف، نظریہ ساز، مقرر وہ کیا کچھ نہیں۔ صرف زمینی محبّت کا خانہ ان کے یہاں خالی تھا جس کی تکمیل کی کوشش انھوں نے یونی ورسٹی کے دنوں میں کی ہے:
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
’’جُھوٹے رُوپ کے درشن‘‘ ایک ایسی سچ داستانِ محبّت ہے جو سپردگی سے ہوتی ہوئی، پرستش کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے، ایک ایسی داستان جس کا انجام بڑا الم ناک ہے، کوئی اور ہوتا تو وہ ٹوٹ کر بکھر گیا ہوتا۔ اس مرحلہ زندگی کے بارے میں ان کا نظریہ آڑے آیا۔
کمالِ ضبط کا وہ آخری ہنر بھی گیا
میں آج ٹوٹ کر رویا اور اس کے گھر بھی گیا
راجہ انور کے ہاں، کنول کے گھر جانے کی صورت یہ ہے کہ انھوں نے تمام خطوط جو عہدِ جنوں کی یادگار تھے، کتابی شکل میں مرتّب کر کے اپنی محبوبہ کے سپرد کر دیے۔
محبّت کا یہ زمانہ کم و بیش دو برس پر محیط ہے۔ اس مدت میں جو خطوط لکھے گئے، ان کی تعداد 31 ہے۔ یہ خط تاریخ وار اس کتاب میں شامل ہیں، جس سے حالات و واقعات کی تقسیم نسبتاً آسان اور راست ہو گئی ہے۔ واقعات کو بیان کرنے کے لیے بیانیہ کی بجائے خطوط کی ٹیکنک سے کام لیا گیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے قاضی عبدالغفار ’’مجنوں کی ڈائری‘‘ اور ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ میں اس حربہ سے کام لے چکے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی کو خط لکھتا ہے تو اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو محبت اور اخلاص خط لکھنے والے کے دل میں مکتوب عالیہ کے لیے ہے، اس کا اظہار خط سے بھی ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے عام بیانیہ کے مقابلہ میں خطوط کا پیرایہ زیادہ موثر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔
اس داستانِ محبّت کا سب سے دِل چَسپ پہلو، راجہ انور کا اُسلوب نثر اور طرزِ تحریر ہے۔ سادہ اور پُراثر۔ یہ تحریر زبان و بیان کی ہر قسم کی خامیوں اور غلطیوں سے پاک ہے۔ یہ تحریر ابتدا ہی سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کہیں بھی عبارت میں جھول محسوس نہیں ہوتا۔ اس اُسلوب کی تحصیل میں مصنف ریاضت کے کن مراحل سے گزرے ہیں، اس کا اندازہ یا علم پڑھنے والے کو نہیں ہوتا۔ جو فقرہ جہاں لکھا گیا ہے، اس سے بہتر تحریر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مصنف نے ہر جگہ جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ الفاظ و تراکیب اس محل، اس موقع کے اظہار کے لیے وضع کیے گئے تھے۔
کتاب کے عنوان میں ’’جُھوٹے رُوپ‘‘ کے الفاظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، محبّت کے سانحہ کے نتیجہ میں حُسن محبوب کا جو رُخ مصنف کے سامنے آیا وہ مصلحت اور مفاد پرستی پر مبنی تھا، ورنہ محبّت کا وہ الم ناک انجام نہ ہوتا جو فی الواقع ہوا۔
کتاب خریدنے کے لیے لنک پر کلک کریں https://www.bookcorner.com.pk/book/jhootay-roop