پچھلے دو ماہ سے ہم کہیں نکلنا چاہ رہے تھے . ایک ٹور کمپنی سے یورپ میں ریل کے سفر کی بکنگ بھی کروا لی تھی مگر پھر خیال آیا کہ ماہ رمضان ہے ابھی نہیں جانا چاہیے ، ہم نے پھر ترکیہ جانے کا منصوبہ بنایا مگر وہ بھی ناکام ہو گیا . ابھی کچھ ماہ قبل ہی ایک دوست عمرے کا گروپ لا رہے تھے ، انہوں نے کہا آپ نے ضرور چلنا ہے ، میرے پاس پیسے نہیں تھے تو میں نے انکار کر دیا ، مگر اس انکار کے بعد پھر سے مکہ اور مدینہ کی یادوں نے آ لیا اور میں بس دعا کرتا رہا کہ شاید کوئی سبب بن جائے ، یہاں آنے کے لیے اسباب ہی بنتے ہیں .
ایک روز پھر وہی کمال ہوا جو میرا ساتھ اکثر ہوتا ہے . مجھے ایک ڈاک کے تھیلے کے ساتھ الله نے اپنے گھر بلا ہی لیا اور جو کچھ ماہ پہلے تک ممکن نہیں تھا کچھ دنوں میں ممکن ہو گیا . میں ایک بار پھر سے الله کا مہمان بنکر اس عظیم گھر کے سامنے کھڑا ہوں .
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
ہم سب اپنے اپنے جذبات اور عقیدت کے ساتھ الله کے گھر کے دیدار کے لیے حجاز مقدس کا سفر کرتے ہیں اور ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ الله کے گھر کے جتنے پاس ہو سکیں جا کھڑے ہوں ، رکن یمانی سے الحجر الأسود اور مقام ابراہیم تک یہ جذباتیت ایک گھمبیر صورتحال اختیار کر لیتی ہے . یہاں سب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس پاک گھر کو چھو لیں ، اسے بوسہ دیں ، اس سے لپٹ جائیں ، اس سے اپنے من کی سب باتیں کہہ دیں ، اس کے پرنالے سے رحمت کے دو قطروں کی پیاس لیے بہت سے طلبگار یہاں آتے ہیں اور بس اپنے اپنے انداز میں اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں .
جیسا آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا تھا ، ” کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر ، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصِل نہیں ، فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ " بس یہاں بھی مختلف بولیاں بولنے والے الله کے مہمان ، ہر رنگ و نسل کے لوگ ، مرد و زن ، عرب و عجم ، سیاہ و سفید یک زبان کہہ رہے ہوتے ہیں " حا ضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ،تیرے ہی لئے سب تعریفیں ہیں ،نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں میرے رب ،میں حاضر ہوں” .
یہ سب ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں اپنے الله کے گھر کے گرد ، یک زبان ، ایک دوسرے سے قدم سے قدم ملا کر . الله کے ان مہمانوں کے لیے الله رب العزت نے اپنے بہترین انسانوں میں دو کو حکم دیا کہ "اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا، (اور فرمایا) مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ، اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو” ( البقرہ -آیت 125). مقام ابراہیم پر پہنچتے ہی الله کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات دیکھ کر ان کی عظیم قربانی ، حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی طلب اور تڑپ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس اور زم زم کا پھوٹنا سب کے بارے میں سوچ کر احساس ہوتا ہے کہ جس دین پر آج ہم عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اس کی بنیادیں صبر ، احکامات الہی کی پیروی اور ایک عظیم کردار اور قربانی پر برقرار ہیں . صفا اور مروا کے درمیان تیز اور آہستہ قدموں سے چلتے لاکھوں نفوس اس امر سے واقف ہوتے ہیں کہ ” بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو کعبہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان کے درمیان طواف کرے، اور جو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو بے شک اللہ قدر دان جاننے والا ہے۔” (سورۃ البقرۃ- آیت 158). یہ الله کے مہمان دن کے اجالے میں اور رات کی تاریکی میں ہر لمحہ ہر پل الله کے گھر کے آس پاس ان عبادات کی ادائیگی میں مشغول رہتے ہیں ، ان میں سے کچھ تو اپنا سب کچھ بیچ کر اللہ کے گھر کا دیدار کرنے آتے ہیں ، کچھ ایسی ایسی مرادیں لیے اس اعتماد کے ساتھ یہاں پہنچتے ہیں کہ ان کے توکل اور یقین پر مجھ سے بے ڈھنگے بھکاری کو بھی رشک آتا ہے
جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے
رمضان المبارک میں یہ میرا پہلا تجربہ ہے جب میں بھی الله کے حضور حاضر ہوں . مجھے نہ مانگنے کا ڈھنگ آتا ہے اور نہ ہی کچھ یاد ہے ، بس کعبے پر پہلی نظر نے سب کچھ بھلا دیا مگر پھر پیغامات کی پوٹلی کھولی تو اس میں دسیوں درخواستیں تھیں ، کسی نے صحت کی بہتری کی دعا کا کہا تو ، کسی کو أولاد کی حاجت تھی ، کوئی اپنے والدین کی صحت کے بارے میں پریشان تھا تو کوئی ملکی حالات پر اپنے مالک سے امن اور استحکام کی فریاد کر رہا تھا . میں اس بار ایک ڈاکیہ بن کر مکہ پہنچا . ہر شخص کا پیغام ، ہر لب کی فریاد پہنچائی اور ہر بار جب بھی حرم مکہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سب کی فریادیں دہراتا رہا .
” اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا” ( سورۃ مؤمن- آیت نمبر 60)
اس بار لاکھوں نفوس کو ایک مقام پر روزہ افطار کرتے دیکھا اور جو بہترین انتظام سعودی حکومت افطار کا کرتی ہے وہ ایک قابل تعریف امر ہے . لاکھوں لوگوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف و شفاف افطار پیش کرنا اور پھر کچھ ہی لمحوں میں صفائی کا انتظام کرنا ایک شاندار ٹیم ورک کا نتیجہ ہے جس کے لیے حرم مکہ کی انتظامیہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے .
الله کے مہمان بس کبھی اپنی سادگی میں اور کبھی دوسرں کی دیکھا دیکھی کچھ ایسا کر جاتے ہیں کہ ہمارے میزبانوں کو ان سے سختی کرنی پڑھ جاتی ہے. الله کے مہمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مکہ میں عبادا ت اور سفر حجاز کبھی بھی آسان نہیں تھا اور یہاں قیام کے دوران صبر اور شکر ہی سب سے ضروری اور اہم عمل ہے جس کے بعد سب کچھ اچھا لگتا ہے .
یہ الله کا گھر ہے یہاں کوئی آتا نہیں ، یہاں سوالی کو بلایا جاتا ہے ، یہاں کی خاص قبولیت ہوتی ہےتو ہی آنے کا موقع ملتا ہے . یہاں کے ماحول میں اگر سختی ہے تو اس کا حل بھی ہے . آپ یہاں کے اصول و ضوابط کا احترام کریں ، اپنی ضرورت سے زیادہ نہ تو بوجھ اٹھائیں اور نہ ہی کسی پر بوجھ بنیں . آپ خود آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں ، بس تھوڑا احساس اور قدر کی ضرورت ہے .
مکہ سے باہر جہاں مناسک حج ادا ہوتے ہیں نہر زبیدہ کے آثار موجود ہیں ، خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں حج کے دوران مکہ میں پانی کا ایک مشکیزہ دس درہم تک بکنے لگا ، ملکہ زبیدہ حج پہ آئیں تو انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا اور انہوں نے ایک نہر کھدوائی جس سے 1200سال تک اہل مکہ کو پانی ملتا رہا ، کل ہی میں اس نہر کے ایک حصے پر کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ نہر سوکھ گئی ہے مگر اس کی سوکھی مٹی میں ملکہ زبیدہ کی نیک نامی اور اچھے کاموں کی نمی کا احساس زندہ ہے .
مکہ میں آنے کے بعد جہاں تاریخ اسلام اور تاریخ انسانی میں اس شہر کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے وہیں یہاں قیام کے دوران اس شہر کے لوگوں کی تہذیب بہت کچھ سکھاتی ہے . بس الله کے مہمان ، یہاں مہمان بن کر آئیں ، اس شہر کے ماحول کو محسوس کریں ، ناراض نہ ہوں اور جب لوٹیں تو اہل مکہ کا شکریہ ادا کریں .
ابھی میرے تین دن مکہ میں اور ہیں ، مجھے ابھی بہت سے پیغامات پہنچانے ہیں ، ڈاک کا تھیلا ابھی بھی بھرا ہوا ہے اور وقت کم ہے . ہر روز تین چار گھنٹوں میں بس کچھ ہی درخواستیں پیش ہو سکتیں ہیں.ہر حاجت،ہر دعا کے بعد لگتا ہے یہ میری بھی دعا ہے، یہ تو میری بھی حاجت ہے . ہم سب انسانوں کے دکھ سانجھے ہیں . پچھلی بار جب میں یہاں آیا تو میں نے کعبہ کے سامنے ایک عمر رسیدہ شخص کو روتے دیکھا، وہ کہہ رہا تھا ” اے میرے رب میرے پتر نوں معاف کر دیویں ” جانے اس کے بیٹے سے کیا غلطی سر زد ہوئی تھی ؟ بس یہ کعبہ بھی ایک کمال کا مقام ہے جہاں آپ کو خوش شکل ، خوش لباس ، مالدار ، اہل علم ، حاکم و شہنشاہ سب اپنی غلطیوں پر نادم نظر آتے ہیں . الله رب العزت ہم سب کے گناہ معاف کرے اور اس گھر کی تکریم و تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین .