Tarjuman-e-Mashriq

پلارمو میں پنجابی زبان، خان صاحب کی کہانی اور میرا وطنی طوطا

ایک ریسٹورنٹ کے باہر  کچھ نوجوان  باتیں کرتے  کھل کھلا کر ہنس رہے تھے ، جیسے  رات میں جگنو  دیکھ کر  خوشی ہوتی ہے ویسے ہی   ان تینوں کو  ملنے کے بعد میں  خوش  تھا   کیونکہ ہر طرف پنجابی زبان کے  جملے اور جگتیں  ہوا میں ایسے اپنا  جادو  بکھیر رہے تھے جیسے  صبح کی پہلی کرن کے ساتھ   نرگس کا پھول مہکتا  ہے . یہ غریب الوطنی  چیز ہی ایسی ہے، پردیس میں دیس  کی بولیاں  پھول کی پتیوں سی لگتی ہیں  . ابھی  ایک  دو  روز پہلے کی بات ہے اسی پلارمو شہر میں   ہم حلال اور دیسی کھانے کی تلاش میں شہر میں صدائیں  لگاتے مارے مارے پھر رہے تھے . ابھی تک بس اتنا پتہ چلا تھا کہ تمباکو بیچنے والی دوکان تو  ‘ تباچی ‘ کہتے ہیں کیونکہ صرف وہیں سے بس کا ٹکٹ مل سکتا تھا . ہمیں  کیا پتہ تھا کہ پلارمو  میں     صرف مافیا  سے  جڑی داستانیں نہیں ہیں بلکہ یہ  شہر  25,000 سے زیادہ تارکین وطن کا  دوسرا گھر  ہے  ، جن میں   ایک بڑی تعداد   بنگلہ  دیشی   شہریوں کی  ہے۔

یہاں آنے سے  پہلے ہمیں   یہ بھی کیا پتہ تھا کہ نویں اور  گیار ویں صدی کے درمیان تقریباً 200 سال تک مسلمانوں کا مضبوط گڑھ، بحیرہ روم کا جزیرہ   سسلی  صرف مافیا  گاڑ فادر  کی وجہ سے ہی  مشہور    نہیں تھا  بلکہ اس کی تاریخ کا ایک پہلو  ایسا ہے جس کے ڈی این اے میں تہذیب و ثقافت کے وہ   ابواب ہیں جن پر مافیا کی موجودگی حاوی آ  گئی . یہ بدنصیبی  ہر اس ملک کی ہے جسے مافیا نے اپنے شکنجے میں لیا تو   اس کی تاریخ اورثقافت  پس منظر میں   چلے گئے اور  سب گاڈ فادر تک محدود ہو کہ رہ گیا ۔ بس  ایسا ہی کچھ قصہ  اس سرزمین  کا  بھی ہے .

ہمیں جب کہیں سے کوئی رستہ نظر نہ آیا تو میرے دوست کرنل احمد نے کہا  مسجد ڈھونڈتے ہیں . میں اور احمد مسجد کی تلاش میں جیسے ہی گوگل  کے نقشوں تک پہنچے تو ایک لمحے کے لیے ہم دونوں جم سے گئے  جیسے   کوئی دھچکا لگتا ہے ، گوگل کے مطابق ہم  مسجد کے سامنے کھڑے تھے  اور یہ حقیقت میں ایک  حسین اتفاق تھا .

ہم نے نماز ظہر ادا کی تو  ایک نمازی نے ہمیں  ایک بنگلہ دیشی   ریستوران کا رستہ دکھا دیا. ریستوران کا ماحول بلکل ویسا ہی تھا جیسا کچھ سال پہلے میں نے چٹا گانگ  شہر میں دیکھا تھا اور جیسے کچھ روز پہلے پنجابی زبان سن کر میں مسکرا دیا تھا آج بھی    ایسے  ہی اس ریستوران پر   زبان کی   خوشبو کا  جادو  بکھر رہا تھا  جب دو پٹھان بھائی    پشتو میں  بات کر رہے  تھے     .  بس  یہ وہ کیفیات ہیں جن  کا احساس صرف  اسی کو ہوتا ہے جس  کی بنیادوں میں اس  کی تہذیب و ثقافت کی بیڑیاں ایسے   قفل کے ساتھ بندھی ہوں کہ  ان کے کھلنے  کے ڈر سے  اسے  جینا مشکل لگتا ہو.

ہمارے گاؤں میں  قاضی   صاحب ہمیں بچپن میں   کہانیاں سنایا کرتے  تھے .  ان کی کہانیوں  میں  تمثیلی  کردار پرندوں کے ہوا  کرتے   تھے ،  ایک بار بابا جی نے ہمیں ایک وطنی طوطے کی  کہانی سنائی، جو   مجھے پلارمو میں یاد آئی .  کہانی کچھ ایسے تھی .

یہ  ان دنوں کی بات ہے جب    ہمارے علاقے میں گاڑیاں بہت کم چلتی تھیں اور  سفر کرنے والے  سیادہ تر پیدل ہی سفر کرتے ، صرف وہی لوگ سواری کا استعمال  کرتے جو صاحب مال و حیثیت ہوتے .   گاؤں  کے باہر ایک شاہراہ تھی  جو سیدھی  سرحد کی جانب جاتی . گاؤں کے بچے اکثر  اس شاہراہ پر  کچھ نہ کچھ لیکر بیٹھ جاتے اور  جب کبھی یہاں سے گاڑی گزرتی   یہ صاحب حیثیت  مسافر   ان سے  یہ چیزیں  خرید لیتے اور کبھی کبھار ان کا مال نہ بکتا تو وہ مایوس گھر لوٹ جاتے . آج ایک بچہ  کہیں سے ایک طوطا پکڑ لایا ، ایک   پنجرے میں  قید یہ طوطا  اپنی آزادی کے لیے  اس محدود پنجرے  کی جالیوں پر اپنی چونچ سے ضربیں لگا رہا تھا مگر اس کی  ضرب اتنی کاری نہ  تھی  کہ وہ جالی کو نقصان پہنچا پاتا . بچہ   بار بار طوطے کو دیکھتا اور کہتا ”  میاں مٹھو  بس کر، ابھی تیرا خریدار آتا ہو گا  ".

اس روز کوئی  مسافر گاڑی نہ آئی ، وہ بچہ اس میاں مٹھو کو گھر لے گیا ، اس نے اسے پانی دیا اور کچھ کھانے کے لیے . طوطا  پریشان تھا  اور بار بار  پنجرے کی جالیوں پر چونچیں مار رہا تھا . اس رات  بچہ اور طوطا دونوں ایک  کمرے میں سو رہے تھے ، بچے کی آنکھ کھلی تو  اس نے دیکھا کہ طوطا پنجرے میں نہیں تھا .   اس نے لالٹین  کی روشنی   بڑھائی  تا کہ وہ طوطے کو ڈھونڈ سکے مگر طوطا وہاں نہیں تھا اسے ساتھ والے کمرے سے آواز آئی  ، اس نے دروازہ کھولا تو اس کی ماں کے بستر کے ساتھ وہی طوطا جو اس بچے کا قیدی تھا  ایک سانپ سے لڑ رہا تھا   جو  بچے کی ماں کی جانب رینگ رہا تھا ، بچے نے   ایک جوتا اٹھایا  اور سانپ کی طرف پھیکنا ، سانپ ایک سوراخ میں گھس گیا اور طوطا اڑ کر کمرے کی چھت پر جا بیٹھا . بچہ حیران و پریشان طوطے کو دیکھ رہا تھا ، بچے  کی ماں بیدار ہوئی  تو بچے نے ماں کو طوطے کا  پنجرے سے   غائب  ہونے اور اس کی سانپ سے لڑائی والی  ساری داستان سنائی . بچے کی ماں نے   بچے کی حیرانگی دیکھتے ہوئے  اسے پاس بٹھا لیا . ماں نے بچے سے پوچھا  یہ طوطا کہاں سے آیا ہے ؟ بچے نے بتایا کہ وہ اسے جنگل سے پکڑ لایا تھا تا کہ اسے سڑک  کنارے   بیچ سکے .  ماں نے دیکھا تو  طوطا چھت    میں  پنجے گاڑھے    دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا . ماں نے بچے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”   بیٹا  آج تم نے اسے قید کیا ،  اسے اس کے وطن سے دور کرنے کی کوشش کی  اور دیکھ جب اسے آزادی ملی تو    اس نے  تمھاری ماں کی جان بچائی  اور   اس نے پرواہ بھی نہ کی کہ سانپ اسے مار ڈالے گا ،  یہ ہمارا وطنی طوطا ہے اس نے   اپنی آزادی پر میری حفاظت کو  فوقیت دی ، اب بتا   اگر توں اسے بیچ دیتا تو  کتنا ظلم ہو جاتا ؟”

بچے نے فوری طور پر گھر کا دروازہ کھول دیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا ” میاں مٹھو اڑ جا ، میاں مٹھو اڑ جا”. طوطا وہیں بیٹھا رہا ، بچہ ماں کے بستر پر بیٹھا اسے دیکھتا رہا اور سو گیا . اگلی صبح جب وہ بیدار ہوا تو طوطا کمرے میں نہیں تھا . وہ بھاگ کر باہر آیا اور اس کی ماں نے اسے بتایا کہ طوطا  روشنی ہوتے  ہی جنگل کی طرف اڑ  گیا . بچہ اداس بھی تھا اور خوش بھی ، اسے اپنے عمل پر شرمندگی تھی اور اپنی ماں  کے محفوظ ہونے پر خوشی . اسے طوطے کی آزادی  اپنی آزادی لگی جیسے  وہ سٹاک ہوم سینڈرم کا شکار ہو چکا تھا ، ایسے لگ رہ تھا طوطا آزاد ہو گیا اور   یہ بچہ ا س  کا غلام ہو گیا تھا   ، وہ کافی دیر تک  اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ  جنگل کی  جانب تکتا رہا .

وہ دن گزر گیا ، بچہ کچھ دیر بعد اپنی معمول کی  زندگی  میں لوٹ آیا مگر جب بھی کسی پرندے کو  دیکھتا تو اسے لگتا اس کا    مٹھو آ گیا ہے ،بچے کو اس کے مٹھو کا انتظار رہتا اور وہ اکثر جنگل کی طرف دیکھتا  .

ایک روز بچہ ایک درخت کے نیچے  چارپائی پر  لیٹا تھا ، اسے لگا کہ کوئی پرندہ  چھت پر بیٹھا ہے . اس نے  سوچا یہ مٹھو نہیں ہو سکتا  اور آنکھیں بند کر لیں . پھر اس نے اپنی چارپائی پر   تھوڑی حرکت محسوس کی ، آنکھیں کھولیں  تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ ا س کا  مٹھو لوٹ آیا  تھا . اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی ماں کو آواز دی ، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ، اس نے کہا ” ماں وطنی مٹھو آ گیا ".

اس کی ماں   نے ایک کٹوری میں کچھ دانے ڈالے اور بچے کو پکڑائے ، طوطے نے پہلا دانہ کھایا اور  بچہ خوشی سے   جھوم اٹھا.  بچے کو اس کا دوست مل گیا تھا اور طوطے کو بچے  کی دیکھ بھال . اس کے بعد طوطا روز اپنے دوست کے پاس آتا اور اس کے ساتھ کھیلتا، دانہ روٹی جو بھی دستیاب ہوتا کھاتا اور اڑ جاتا . طوطا بچے کی آواز  پہچان  لیتا اور بچے کو طوطے کی بولی کی سمجھ آ جاتی .   یہ وطنی طوطے اور بچے کی کہانی سنانے کے بعد قاضی صاحب کہتے . دیکھو بچے اپنے وطن کے پرندے بھی  آپ کی بولی سمجھ لیتے  ہیں بس ان کی حفاظت کیا کرو اگر انہیں کوئی نقصان پہنچائے گا تو کل تم سے اس کا سوال پوچھا جائے گا . ہم سب اس بات سے  یہ سمجھے تھے کہ ہمارے وطن کی ہر چیز کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ ہے اور ہمیں یقین تھا کہ   ہم سے بڑے  لوگ بھی یہی کرتے   ہونگے ، مگر پھر بچان چلا گیا اور جب  عملی زندگی کا آغاز ہوا  تو پتہ چلا کہ ہماری بولیاں سمجھنے والے سارے وطنی طوطے اڑ گئے ہیں اور  ان  برندوں کے ساتھ ساتھ ہمارا اپنی زبان سے رابطہ محدود ہو گیا .بس پلارمو میں  ایسا ہی کچھ تھا  کہ گھر سے اتنے دور اس جزیرے  پر    پنجابی، پشتو اور بنگالی زبانوں کی خوشبو میں وطن کی یاد تھی  اور وطنی طوطے کی   بولی کا احساس .

جب میں نے خان بھائیوں کو بات کرتے سنا تو مجھ سے رہا نہیں گیا  میں اے احمد کو لیا اور ان کے   پاس چلا گیا ، سلام کیا اور پوچھا کہ کیا وہ پاکستان سے ہیں . ایک بھائی تب  یہاں سے جا رہا  تھا  جبکہ دوسرے  بھائی نے بتایا کہ وہ پشاور کا ہے اور  ایک  طویل   سمندری سفر اور  ایجنٹوں کی قید  اور  دو ناکام  کوششوں  بعد دس سال  پہلے  اٹلی پہنچا اور اب وہ پلارمو سے دو گھنٹے کی مسافت پر ایک شہر میں رہتا ہے جبکہ  اس کے بیٹے کا روم میں  کاروبار ہے اور خود وہ ساحل سمندر پر  چادریں اور تولیے بیچتا تھا . خان صاحب نے بہت پیار سے کھانا کھلانے کی دعوت دی، ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں ہمارے ساتھ چائے پینے کے لیے روک لیا . ہم نے تو کھانا کھانا  ہی تھا اور خان صاحب کی مختصر کہانی  بلکہ   یورپ آنے کا کرب آمیز سفر  اور یہاں ان کی جدوجہد کی داستان    سننے کے لیے ہم نے انہیں روک لیا  کیونکہ یہ بہت سے ایسے دوستوں کی کہانی ہے  جو  اچھے  دنوں کی تلاش میں  اور دوسروں کی خواہشات کی تکمیل کرنے کے لیے کسی کے پنجرے میں بند ہو کر ایک کرب آمیز سفر پر آنے کے لیے ایک ایجنٹ سے دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں بکتے رہتے ہیں اور  کئی بار  کسی باڈر کراسنگ پر  کسی  برقی تار میں الجھ کر یا کسی بارڈر گارڈ کی گولی کا نشانہ بن کر ، یا کسی  ساتھی  مسافر کے غیض و غضب  کا نشانہ بن کر ایک  گمنام قبر میں دفنا دیے  جاتے ہیں اور کسی کو علم نہیں ہوتا کہ اس قبر میں کس کا بیٹا دفن ہے .

کچھ عرصہ پہلے ایک پاکستانی  بھائی ڈنکی لگا کر ایسے ہی یورپ میں داخل ہو رہا تھا  کہ موت اس کا مقدر ٹھہری ، اس کے ساتھیوں نے اسے دھرتی  کے سینے میں دفن کیا اور قبر پر اس کا شناختی کارڈ لگا دیا  اور آج خان صاحب مل گئے .

خان صاحب کی طرح  کچھ  خوش قسمت جو   منزل پر پہنچتے    ہیں  اس غلامی  کے کرب  سے تو آزاد ہو جاتے ہیں مگر   تنہائی کے کرب  کا شکار ہو جاتے ہیں وہ  ہماری کہانی والے بچے کی طرح اپنے مٹھو  کی یاد میں اسی جانب دیکھتے  رہتے ہیں کہ   جن ساحلوں سے وہ  اس نئے  پنجرے میں داخل ہوئے تھے .  خان صاحب نے بتایا کہ وہ ہر  ہفتے  بعد دو گھنٹے کا سفر کر کہ یہاں  اور پٹھان بھائیوں  سے ملنے آتے ہیں اور گھر کو یاد کرتے ہیں .

پلارمو میں اپنی بولیوں کی آوازیں  وطنی طوطے کے واپس لوٹنے جیسا تھا .  خان صاحب  کی کہانی سنتے سنتے شام ہو گئی  . میں اور  احمد  خان صاحب کے ساتھ  چلتے چلتے ساحل سمندر پر آ  گئے  . سورج ڈوب رہا تھا ، خان صاحب  جب اپنی کہانی سنا چکے تو بولے ” راجہ بھائی آپ  کل ہمارے شہر آنا ہم آپ کی دعوت کریں گے ”   میں نے خان صاحب کا شکریہ ادا کیا ، ان کی بس آ گئی اور وہ بھرپور انداز میں بلکہ پختون گرم جوشی کے ساتھ گلے ملے ، اپنے  بڑے سے تھیلے سے ایک کی چین نکالا اور مجھے دیتے ہوئے بولے ” اسے اپنی چابیوں کے ساتھ لگانا آپ کو  ہماری یاد آئے گی ".

خان صاحب کو میں ایسے الوداع کر رہا تھا جیسے کوئی اپنے سگے بھائی کو پردیس بھیجنے کے لیے  ہوائی اڈے پر آتا ہے . خان صاحب چلے گئے ، میں نے کی چین کو بہت عقیدت سے اپنی چابیوں کے ساتھ لگا لیا اور کچھ روز  پلارمو رہنے کو بعد واپس انگلینڈ آ گیا . اب کوئی چار ماہ بعد بھی  وہ کی چین میرے پاس ہے  اور  جب بھی چابی اٹھاتا ہوں تو پلارمو میں پنجابی  زبان  کی مٹھاس ، خان صاحب کا کی داستان اور   اپنا وطنی طوطا مجھے بہت یاد آجاتے  ہیں.

Exit mobile version