Tarjuman-e-Mashriq

یوم اقبال اور مختلف روئیے

گزشتہ روز یوم اقبال پہ ان لوگوں کو بھی اقبالؒ  جیسے بلند پایہ فلسفی ، مفکر اور شاعر پہ تبصرے کرتے پایا جنھیں شاید اقبالیات کی بنیادی جمالیات کی ہوا بھی نہ لگی ہوگی ۔
مذہبی طبقے کے بعض احباب اقبالؒ کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہوئے مولوی خادم حسین مرحوم کو اقبالؒ کا فارسی کلام ازبر کرنے پہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کرتے ہوئے پائے گئے۔ مادر پدر آزاد لبرل طبقہ انھیں معمولی مقامی شاعر قرار دیتے ہوئے ان کی نجی زندگی میں مختلف ازدواجی معاملات کو پروان چڑھا کر اپنا بغض نکالتا رہا ۔ ایک طبقے کے مجاوران کو نہ جانے اقبالؒ سے کیا عناد واقع ہوا۔۔ وہ پہلے پہل تو اقبالؒ کو کشمیری قرار فرمایا کرتے تھے اب معلوم پڑا کہ وہ انھیں برصغیر کی تقسیم کا ذمہ دار بھی قرار فرمائے لگ گئے ہیں۔۔ کہ جی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا "۔۔۔ کا کلام لکھنے والا کیسے پاکستانی بن گیا ؟ ایسی عجیب و غریب لعن طعنیاں ، ابتر و متروک مبہمات اور شکیک کے آمیزے میں لُتھڑے ہوئے اشک پارے نہ جانے کہاں سے اُمڈتے چلے آتے ہیں ۔۔ خُدا معلوم ۔۔
عزیزان ملت
ہر فرد کے افکار کے مختلف ادوار ہوتے ہیں ، خیالات کا ارتقا زندگی کا پتہ دیتا ہے ، اقبالؒ کی زندگی کے بھی کئی ادوار ہیں ، جس عہد میں اُن کا وجود سازگار ہستی میں قیام پزیر تھا اُس عہد میں برصغیر کی سیاست میں سرغت رسانی سے تبدیلیاں روُنما ہورہی تھیں ، اقبالؒ کی شاعری کے بھی مختلف ادوار ہیں اور ہر دور کی اپنی جہتیں ہیں ۔ہر جہت کے اپنے پہلو ہیں ۔اس لئے ہمیں کسی بڑے انسان کو ہدفِ قلم بناتے ہوئے اُس کے مدارج و عواقب کا کماحقہ علم ہونا لازمی ہے ۔ اقبالؒ بھی ہماری طرح کے انسان ہی تھے اُن میں بھی بشری کمزوریاں ہوئی ہوں گی ۔ لیکن جس طرح مخصوص حلقوں کی طرف سے اُن پہ نوک قلم سے تبرے برسائے جاتے ہیں شاید یہ ایک بڑے انسان ، دانشور اور فلسفی کے ساتھ فکری زیادتی ہے ۔ اور نہ ہی یہ علمیت کی دلیل ہے ۔
اختلاف کیجئیے لیکن دلیل کے ساتھ ۔۔ نیز بغل میں اقبالیات کا تھیسس سنبھال کر ۔۔۔
Exit mobile version