گزشتہ روز یوم اقبال پہ ان لوگوں کو بھی اقبالؒ جیسے بلند پایہ فلسفی ، مفکر اور شاعر پہ تبصرے کرتے پایا جنھیں شاید اقبالیات کی بنیادی جمالیات کی ہوا بھی نہ لگی ہوگی ۔
عزیزان ملت
ہر فرد کے افکار کے مختلف ادوار ہوتے ہیں ، خیالات کا ارتقا زندگی کا پتہ دیتا ہے ، اقبالؒ کی زندگی کے بھی کئی ادوار ہیں ، جس عہد میں اُن کا وجود سازگار ہستی میں قیام پزیر تھا اُس عہد میں برصغیر کی سیاست میں سرغت رسانی سے تبدیلیاں روُنما ہورہی تھیں ، اقبالؒ کی شاعری کے بھی مختلف ادوار ہیں اور ہر دور کی اپنی جہتیں ہیں ۔ہر جہت کے اپنے پہلو ہیں ۔اس لئے ہمیں کسی بڑے انسان کو ہدفِ قلم بناتے ہوئے اُس کے مدارج و عواقب کا کماحقہ علم ہونا لازمی ہے ۔ اقبالؒ بھی ہماری طرح کے انسان ہی تھے اُن میں بھی بشری کمزوریاں ہوئی ہوں گی ۔ لیکن جس طرح مخصوص حلقوں کی طرف سے اُن پہ نوک قلم سے تبرے برسائے جاتے ہیں شاید یہ ایک بڑے انسان ، دانشور اور فلسفی کے ساتھ فکری زیادتی ہے ۔ اور نہ ہی یہ علمیت کی دلیل ہے ۔
اختلاف کیجئیے لیکن دلیل کے ساتھ ۔۔ نیز بغل میں اقبالیات کا تھیسس سنبھال کر ۔۔۔